خوش قسمت اور ہوشیار حکمران اشرافیہ
اشرافیہ کی ہوشیاری سمجھیں یا خوش قسمتی ، وہ بحث کا رخ کامیابی سے موڑ چکے
عوام جنھیں مسیحا جان کر پکار رہے ہیں ،ان کی پکار بھی سنیے : نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے گزشتہ روز ارشاد فرمایا کہ بجلی کے بلز کا معاملہ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر دیکھ رہے ہیں۔ بل تو دینا ہوگا ، جو معاہدے ہوئے وہ ہر صورت پورے کریں گے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایک طرف بجلی کے بلز کی دہائی ہے تو دوسری طرف انھیں شہروں میں بجلی کی چوری بھی اپنے عروج پر ہے۔ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔ ان کے خیال کے مطابق بجلی کے بلز کا بحران اتنا بڑا ہے نہیں جتنا بنا دیا گیا۔
نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا کہ سبسڈی بھول جائیں، بجلی پٹرول مزید مہنگا ہوگا، آئی ایم ایف کے ساتھ بجلی بلوں میں ریلیف کی بات کی ہے تحریری پلان ان کو دیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ حالات اندازے سے زیادہ خراب ہیں۔خزانہ خالی ہے۔
عالمی سطح پر انرجی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ عوام کو منتقل کرنا پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام پر عمل نہ کرنے سے حالات مزید مشکل ہوں گے۔ بااثر گروپوں سے مفت بجلی کی سہولت واپس نہیں لے سکتے۔ حیران ہوں میں نے یہ ذمے داری کیوں قبول کی۔
ان کے بیان کا آخری حصہ سن کر اسٹاک ایکسچینج بھی ان کے غم میں برابر کی شریک ہو گئی اور ایک ہی دن میں 1700 پوائنٹ سے زیادہ نیچے آن گری۔ عوام کو اگر ریلیف کی کچھ توقع تھی بھی تو ان کی توقع کا رات گئے جواب مل گیا، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھا دی گئیں۔ تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ روپے کی شرح مبادلہ، پٹرول اور ڈیزل سب کے سب تین سو روپے سے اوپر ہیں۔ اگلا ہندسہ کیا ہوگا ؟یہ سوچ سوچ کر عوام بے حال اور پریشان ہیں ۔
بجلی کی قیمتیں کیسے بڑھیں؟پچھلے 30 / 35سال سے جاری انرجی پالیسیز کا نتیجہ یہی نکلنا تھا لیکن حیرت ہوتی ہے کل کے حکمران جنھوں نے یہ پالیسیاں وضع کیں، ان پالیسیوں کو چلایا، ان پالیسیوں سے اپنوں کو نوازا، آج وہی لوگ حکومت سے باہر بیٹھ کر انجان بنے بیٹھے ہیں، بلکہ مشورہ دے رہے ہیں کہ نگران حکومت کو چاہیے عوام کو ریلیف دے۔خواجہ آصف جو ڈیڑھ ہفتہ قبل حکومت سے نکلے ہیں انھوں نے نگران حکومت کو یہ قیمتی مشورہ دیا جس پر خود عمل نہ کر سکے۔
پیپلز پارٹی کی شیری رحمان کو حکومت سے فراغت کے بعد پہلی دفعہ علم ہوا کہ بجلی کے بلوں کی وجہ سے عوام بلبلا اٹھے ہیں۔ انھوں نے کمال انجان بنتے ہوئے ارشاد فرمایا ؛ حکومت کو چاہیے کہ عوام کو فوری ریلیف دیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ڈیڑھ ہفتہ پہلے یہی لوگ حکومت میں تھے، اس وقت انھیں یہ ریلیف یاد نہ آیا۔ یہ ریلیف انھیں اس وقت بھی یاد نہ آیا جب وہ اندھا دھند آئی ایم ایف کی ایسی ایسی شرائط مان رہے تھے جن کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا ۔
عوام کے پاس کوئی چارہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ سینہ کوبی کریں ، سڑکوں پر آئیں ، غصے کا اظہار کریں کہ ان کے ساتھ جو ظلم روا رکھا جا رہا ہے اس کا مداوا کیا جائے۔ تاہم ایک بات عوام کے سمجھنے کی بھی ہے کہ بجلی کے بلوں میں یہ اندھا دھند اضافہ ہونا ہی تھا۔ 1994 سے لے کر جو انرجی پالیسیز روا رکھی گئیں ان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو ہر طرح کی مراعات دی گئیں اور بعض صورتوں میں ناجائز شرائط بھی مانی گئیں۔
بجلی پیدا کرنے کے لیے ایندھن کے ذرایع امپورٹ پر مبنی تھے۔حکومت نے ریاستی گارنٹیز بھی فراہم کیں، منافع بھی ڈالرز میں اور ہر طرح کے ریٹ ایڈجسٹمنٹ اور پیداواری اخراجات کو ڈالر انڈیکسیشن میں روا رکھا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان تمام سالوں میں تقریبا تمام انویسٹمنٹ بجلی کی پیداوار میں ہوئی جب کہ بجلی کی ترسیل کی طرف کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔
حکمران اشرافیہ خوب جانتی تھی کہ بجلی کی پیداوار میں مقامی وسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اور صرف تھرمل کے ذرایع پر انحصار کا نتیجہ ایک نہ ایک دن یہی نکلنا تھا ۔
اچھا ہوتا اگر 2017 کے بعد سیاسی عمل فطری طرز پر جاری و ساری رہتا۔ عوام کو فیصلے کرنے کا اختیار دیا جاتا تو شاید یہی دو بڑی جماعتیں جنھوں نے ان انرجی پالیسیوں کو روا رکھا، انھیں عوام کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا ۔ پی ڈی ایم اتحاد نے اپنی ضرورت اور مفاد کے لیے قانون سازی کی ، اس دوران پی ٹی آئی نے محاذ آرائی کو ایک نئے مقام تک پہنچا دیا۔ اس وقت سیاست میں محاذآرائی، تعصب نفرت اس مقام تک پہنچ چکی ہے جہاں سنجیدہ بحث ناممکن ہو گئی ہے۔
سیاسی عمل اگر طبعی طریقے سے جاری رہتا تو بجلی کی بڑھی ہوئی قیمتیں، شرح مبادلہ، مہنگائی اور دیگر مسائل سمیت کی وضاحت کے لیے ان ہی سیاست دانوں کو عوام کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا جن کی پالیسیوں، کرپشن ، بیڈ گورننس نے یہ دن دکھائے۔ لیکن اس ملک اور عوام کی بدقسمتی کہ چھ سال سے جاری سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور قلا بازیوں نے منظر ہی بدل ڈالا۔ سنجیدہ بحث اور ذمے داری فکس کرنے کا ماحول بننے ہی نہیں دیا۔ جس حکمران اشرافیہ کی وجہ سے ہم اس مقام تک پہنچے ہیں وہ دھڑلے سے آج اپنی معصومیت ثابت کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔
میڈیا اور سوشل میڈیا کی پاور بھی کمال دکھا رہی ہے، دھیرے دھیرے یہ لوگ اپنے آپ کو ایک بار پھر معصوم ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس وقت تنقید کا بار نگران حکومتوں پہ ہے اور ان کی ڈھال آئی ایم ایف ہے۔
بجلی بلز اور معاشی آتش فشاں کی بحث کامیابی سے خلط مبحث کا شکار ہو چکی۔ اشرافیہ کی ہوشیاری سمجھیں یا خوش قسمتی ، وہ بحث کا رخ کامیابی سے موڑ چکے۔ عوام آج کا دن نکالنے کی کوشش میں ہیں مگر دن آسانی سے ٹلتا دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری جانب ملک مشکلات سے نکلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا بلکہ مشکلات کا پہاڑ پھیلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایک طرف بجلی کے بلز کی دہائی ہے تو دوسری طرف انھیں شہروں میں بجلی کی چوری بھی اپنے عروج پر ہے۔ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔ ان کے خیال کے مطابق بجلی کے بلز کا بحران اتنا بڑا ہے نہیں جتنا بنا دیا گیا۔
نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کہا کہ سبسڈی بھول جائیں، بجلی پٹرول مزید مہنگا ہوگا، آئی ایم ایف کے ساتھ بجلی بلوں میں ریلیف کی بات کی ہے تحریری پلان ان کو دیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ حالات اندازے سے زیادہ خراب ہیں۔خزانہ خالی ہے۔
عالمی سطح پر انرجی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ عوام کو منتقل کرنا پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام پر عمل نہ کرنے سے حالات مزید مشکل ہوں گے۔ بااثر گروپوں سے مفت بجلی کی سہولت واپس نہیں لے سکتے۔ حیران ہوں میں نے یہ ذمے داری کیوں قبول کی۔
ان کے بیان کا آخری حصہ سن کر اسٹاک ایکسچینج بھی ان کے غم میں برابر کی شریک ہو گئی اور ایک ہی دن میں 1700 پوائنٹ سے زیادہ نیچے آن گری۔ عوام کو اگر ریلیف کی کچھ توقع تھی بھی تو ان کی توقع کا رات گئے جواب مل گیا، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھا دی گئیں۔ تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ روپے کی شرح مبادلہ، پٹرول اور ڈیزل سب کے سب تین سو روپے سے اوپر ہیں۔ اگلا ہندسہ کیا ہوگا ؟یہ سوچ سوچ کر عوام بے حال اور پریشان ہیں ۔
بجلی کی قیمتیں کیسے بڑھیں؟پچھلے 30 / 35سال سے جاری انرجی پالیسیز کا نتیجہ یہی نکلنا تھا لیکن حیرت ہوتی ہے کل کے حکمران جنھوں نے یہ پالیسیاں وضع کیں، ان پالیسیوں کو چلایا، ان پالیسیوں سے اپنوں کو نوازا، آج وہی لوگ حکومت سے باہر بیٹھ کر انجان بنے بیٹھے ہیں، بلکہ مشورہ دے رہے ہیں کہ نگران حکومت کو چاہیے عوام کو ریلیف دے۔خواجہ آصف جو ڈیڑھ ہفتہ قبل حکومت سے نکلے ہیں انھوں نے نگران حکومت کو یہ قیمتی مشورہ دیا جس پر خود عمل نہ کر سکے۔
پیپلز پارٹی کی شیری رحمان کو حکومت سے فراغت کے بعد پہلی دفعہ علم ہوا کہ بجلی کے بلوں کی وجہ سے عوام بلبلا اٹھے ہیں۔ انھوں نے کمال انجان بنتے ہوئے ارشاد فرمایا ؛ حکومت کو چاہیے کہ عوام کو فوری ریلیف دیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ڈیڑھ ہفتہ پہلے یہی لوگ حکومت میں تھے، اس وقت انھیں یہ ریلیف یاد نہ آیا۔ یہ ریلیف انھیں اس وقت بھی یاد نہ آیا جب وہ اندھا دھند آئی ایم ایف کی ایسی ایسی شرائط مان رہے تھے جن کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا ۔
عوام کے پاس کوئی چارہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ سینہ کوبی کریں ، سڑکوں پر آئیں ، غصے کا اظہار کریں کہ ان کے ساتھ جو ظلم روا رکھا جا رہا ہے اس کا مداوا کیا جائے۔ تاہم ایک بات عوام کے سمجھنے کی بھی ہے کہ بجلی کے بلوں میں یہ اندھا دھند اضافہ ہونا ہی تھا۔ 1994 سے لے کر جو انرجی پالیسیز روا رکھی گئیں ان میں بیرونی سرمایہ کاروں کو ہر طرح کی مراعات دی گئیں اور بعض صورتوں میں ناجائز شرائط بھی مانی گئیں۔
بجلی پیدا کرنے کے لیے ایندھن کے ذرایع امپورٹ پر مبنی تھے۔حکومت نے ریاستی گارنٹیز بھی فراہم کیں، منافع بھی ڈالرز میں اور ہر طرح کے ریٹ ایڈجسٹمنٹ اور پیداواری اخراجات کو ڈالر انڈیکسیشن میں روا رکھا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان تمام سالوں میں تقریبا تمام انویسٹمنٹ بجلی کی پیداوار میں ہوئی جب کہ بجلی کی ترسیل کی طرف کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔
حکمران اشرافیہ خوب جانتی تھی کہ بجلی کی پیداوار میں مقامی وسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اور صرف تھرمل کے ذرایع پر انحصار کا نتیجہ ایک نہ ایک دن یہی نکلنا تھا ۔
اچھا ہوتا اگر 2017 کے بعد سیاسی عمل فطری طرز پر جاری و ساری رہتا۔ عوام کو فیصلے کرنے کا اختیار دیا جاتا تو شاید یہی دو بڑی جماعتیں جنھوں نے ان انرجی پالیسیوں کو روا رکھا، انھیں عوام کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا ۔ پی ڈی ایم اتحاد نے اپنی ضرورت اور مفاد کے لیے قانون سازی کی ، اس دوران پی ٹی آئی نے محاذ آرائی کو ایک نئے مقام تک پہنچا دیا۔ اس وقت سیاست میں محاذآرائی، تعصب نفرت اس مقام تک پہنچ چکی ہے جہاں سنجیدہ بحث ناممکن ہو گئی ہے۔
سیاسی عمل اگر طبعی طریقے سے جاری رہتا تو بجلی کی بڑھی ہوئی قیمتیں، شرح مبادلہ، مہنگائی اور دیگر مسائل سمیت کی وضاحت کے لیے ان ہی سیاست دانوں کو عوام کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا جن کی پالیسیوں، کرپشن ، بیڈ گورننس نے یہ دن دکھائے۔ لیکن اس ملک اور عوام کی بدقسمتی کہ چھ سال سے جاری سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور قلا بازیوں نے منظر ہی بدل ڈالا۔ سنجیدہ بحث اور ذمے داری فکس کرنے کا ماحول بننے ہی نہیں دیا۔ جس حکمران اشرافیہ کی وجہ سے ہم اس مقام تک پہنچے ہیں وہ دھڑلے سے آج اپنی معصومیت ثابت کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔
میڈیا اور سوشل میڈیا کی پاور بھی کمال دکھا رہی ہے، دھیرے دھیرے یہ لوگ اپنے آپ کو ایک بار پھر معصوم ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس وقت تنقید کا بار نگران حکومتوں پہ ہے اور ان کی ڈھال آئی ایم ایف ہے۔
بجلی بلز اور معاشی آتش فشاں کی بحث کامیابی سے خلط مبحث کا شکار ہو چکی۔ اشرافیہ کی ہوشیاری سمجھیں یا خوش قسمتی ، وہ بحث کا رخ کامیابی سے موڑ چکے۔ عوام آج کا دن نکالنے کی کوشش میں ہیں مگر دن آسانی سے ٹلتا دکھائی نہیں دیتا۔ دوسری جانب ملک مشکلات سے نکلتا ہوا دکھائی نہیں دیتا بلکہ مشکلات کا پہاڑ پھیلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔