نیٹو گریڈ ہتھیاروں سے لیس دہشت گردی پھیل رہی ہے
اس وقت افغانستان میں بیس سے زائد چھوٹے بڑے مسلح گروہ متحرک ہیں
مارچ دو ہزار بائیس میں پینٹاگون اہل کاروں نے امریکی کانگریس کے روبرو شہادت دی کہ فوجی انخلا کے دوران افغانستان میں سات اعشاریہ دو ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار اور آلات چھوڑنے پڑگئے۔
کابل پر قبضے کے بعد ایک سینئیر طالبان اہلکار نے بتایا کہ امریکی فوج اور سابق افغان فوج کے زیرِ استعمال یا ذخیرہ کردہ تین لاکھ ہلکے ہتھیار ، چھبیس ہزار بھاری ہتھیار ، اور مختلف نوعیت کی اکسٹھ ہزار فوجی استعمال کی گاڑیاں طالبان کو ورثے میں ملیں۔
پھر یہ اطلاعات آنے لگیں کہ امریکی اور ناٹو افواج کے زیرِاستعمال معیاری ہتھیاروں تک افغانستان میں متحرک دیگر گروہوں کی رسائی بھی ہو گئی ہے اور بہت سے ہتھیار پاک افغان بلیک مارکیٹ میں بھی بالکل اسی طرح دستیاب ہیں جیسے انیس سو اسی کی دہائی میں ہمارے آس پاس روسی اور مغربی ہتھیاروں اور آلات کا جمعہ بازار لگا اور اس نے پاک افغان سماج کو تشدد میں لپیٹ کے کھدیڑ دیا۔
اگرچہ طالبان انتظامیہ جدید ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی نئی وبا سے سرکاری طور پر بظاہر لاعلم ہے مگر دبے دبے یہ اقرار بھی کرتی ہے کہ ہو سکتا ہے کچھ ہتھیار بلیک مارکیٹ تک پہنچ گئے ہوں مگر اس کے ذمے دار زیادہ تر سابق افغان فوج کے اہلکار ہیں۔
ریڈیو لبرٹی پراگ کے لیے کام کرنے والے افغان امور کے ماہر ابوبکر صدیق کی مارچ میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بلیک مارکیٹ میں اس وقت امریکی فوج کے زیرِ استعمال ایم سولہ اسالٹ رائفل تین سے چار ہزار ڈالر میں ایم فور رائفل چودہ سو ڈالر میں ، فوجی استعمال کا پورٹیبل کمیونی کیشن سسٹم ساڑھے تین ہزار ڈالر اور ساختہ آسٹریا کلوگ ہینڈ گن پندرہ سو ڈالر تک دستیاب ہے۔مسلح پرتشدد گروہوں کے ہاتھ یہ ہتھیار لگنے کے سب سے منفی اثرات خیبر پختون خواہ پولیس کو بھگتنے پڑ رہے ہیں جس کے زیرِ استعمال ہتھیار دھشت گردوں کے اسلحے کے مقابلے میں فرسودہ ہیں۔
اس خطرے کی جانب کئی ماہ پہلے نومبر میں سابق پولیس چیف کے پی کے معظم جاہ انصاری نے توجہ دلائی تھی۔تب سے اب تک دھشت گردی کے حملوں میں ناٹو ملٹری گریڈ پروفیشنل ہتھیاروں کے استعمال میں معتدبہ اضافہ ہو گیا ہے۔ مثلاً تھرمل ٹیلی اسکوپ سے لیس اسنائپر رائفلز سے متعدد پولیس افسروں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔تھرمل ٹیلی اندھیرے میں بھی انسانی حرارت کو پکڑ کے ہدف کو پورا پورا بے نقاب کر دیتی ہے۔لہٰذا ہدف کو بطخ کی طرح شکار کیا جا سکتا ہے۔ ایسے حملوں کے بارے میں ٹی ٹی پی متعدد پبلسٹی وڈیوز بھی ریلیز کر چکی ہے۔
جون میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے روبرو کاؤنٹر ٹیررازم اہلکاروں نے جو رپورٹ پیش کی۔اس کے مطابق پاکستان کی مغربی سرحد کے ساتھ لگنے والے افغان صوبوں ننگر ہار ، کنر ، لوگر ، پکتیکا ، پکتیا اور خوست میں ٹی ٹی پی کے چار سے چھ ہزار کے درمیان مسلح ارکان موجود ہیں۔گزشتہ نومبر میں ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے سرحد پار کارروائیوں میں کم ازکم چالیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اگرچہ افغان طالبان کا سب سے بڑا حریف داعش کو سمجھا جاتا ہے۔مگر داعش اور ٹی ٹی پی کے درمیان غیر اعلانیہ مبینہ آپریشنل تعاون سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر قابو پانا خود افغان طالبان کے بھی بس سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب بیعت یافتہ ٹی ٹی پی کے خلاف نظریاتی ہم آہنگی کے سبب افغان طالبان کھل کے نہ کوئی موثر کارروائی کر سکتے اور نہ ہی کسی خاص علاقے تک محدود کر سکتے ہیں۔ان حالات کو کابل انتظامیہ پاکستان کے ساتھ اسٹرٹیجک توازن برقرار رکھنے کے لیے بھی استعمال کرتی ہے۔
اگست میں اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کو کاؤنٹر ٹیررازم پینل نے جو تازہ ترین رپورٹ کی وہ جون میں جاری رپورٹ سے بھی کہیں تشویش ناک ہے۔اس کے مطابق ناٹو کے زیرِ استعمال جو جدید ترین ہتھیار افغان فوج کو دیے گئے تھے اب داعش، ٹی ٹی پی اور ایسٹرن ترکستان اسلامک موومنٹ تک پہنچ چکے ہیں۔ داعش کے ماہرین ان ہتھیاروں کو مزید موثر بنانے ، ان کی دھماکا خیز قوت میں اضافے اور ڈرونز کے زریعے بارودی مواد کی ترسیل کا حجم بڑھانے پر کام کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان میں بیس سے زائد چھوٹے بڑے مسلح گروہ متحرک ہیں۔وہ اپنے اہداف کو پہلے سے بہتر انداز میں منصوبہ بند طریقے سے نشانہ بنانے کی صلاحیتوں میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔اگرچہ اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی کوششوں سے داعش کی بین الاقوامی قیادت کو شام سے افغانستان تک کے نیم دائرے میں خاصا نقصان پہنچایا جا چکا ہے اور اس کے مالی وسائل محدود کرنے کی کوششوں کے سبب داعش کے پاس پچیس تا پچاس ملین ڈالر سرمائے کا اندازہ ہے۔
اتنے قلیل سرمائے کی مدد سے محدود پیمانے پر ہی آپریشن ہو سکتے ہیں۔مگر رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ سماج کو دبانے کے افغانستان میں سخت گیر اقدامات ، پتلی اقتصادی حالت اور عوامی اکثریت کی غربت و بے روزگاری وہ اجزاِ ترکیبی ہیں جن سے علاقائی امن کے لیے ایک تباہ کن کاک ٹیل کبھی بھی تیار ہو سکتی ہے۔ البتہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حسبِ توقع ان رپورٹوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انھیں لاعلمی پر مبنی پروپیگنڈہ قرار دیا ہے۔
ترجمان کا دعوی ہے کہ افغانستان میں اس وقت داعش کی موجودگی زیرو ہے۔مگر مغربی مبصرین سمجھتے ہیں کہ طالبان کی جانب سے یکسر تردیدی بیانات سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یا تو طالبان قیادت کو اپنے ہی ملک کے زمینی حقائق کا مکمل ادراک نہیں یا پھر وہ ان حقائق کا سامنا اور اعتراف کرنے میں دشواری محسوس کر رہی ہے۔اس طرزِ عمل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھیں نامساعد حالات کے باوجود بین الاقوامی برادری میں اپنی کم ازکم جگہ بنانے کی بہت عجلت بھی نہیں۔
جب کہ دو روز قبل خراسان ڈائری نامی ایک ذمے دار پاکستانی خبری و تحقیقی ویب سائٹ پر ایک تشویش ناک رپورٹ شایع ہوئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعش کا ہدف اب روایتی مدارس کے بجائے پاکستانی اشرافیہ کے تعلیمی ادارے ہیں۔ خوشحال پس منظر کے باصلاحیت طلبا کو آن لائن رجھانے اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال ہونے پر آمادہ کرنے کے لیے نہایت نفیس انداز میں کوویڈ کے لاک ڈاؤن کے زمانے سے کوششیں جاری ہیں۔اس نیٹ ورک کا پتہ حال ہی میں کچھ گرفتاریوں کے نتیجے میں لگا ہے۔گویا ریاست کو ایک اور چیلنج درپیش ہو چکا ہے۔ اشرف جہانگیر قاضی بطور سینئر سفارت کار بھارت ، چین ، امریکا اور اقوامِ متحدہ جیسی اہم جگہوں پر پاکستان کی نمایندگی کر چکے ہیں۔
انھوں نے ایک حالیہ مضمون میں علاقائی نقشہ کھینچتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک میں سے بھارت پاکستان سے تعلقات کی خرابی کو فی الحال اپنے مفاد میں سمجھتا ہے۔ایران سے تعلقات میں سردمہری کا سبب پاکستان پر امریکی سفارتی و اقتصادی دباؤ ہے۔ چین سے تعلقات بہتر ضرور ہیں مگر سی پیک کے تناظر میں پاکستان میں جاری سیاسی و اقتصادی بحران کے سبب یہ تعاون لگ بھگ ایک جگہ رکا ہوا ہے۔ دو طرفہ تعاون کے ثمرات سیمٹنے کی ہمارے پاس شاید اتنی اہلیت بھی نہیں جتنی کہ چین کو توقع تھی۔
روس سے تعلقات معلق ہیں کیونکہ امریکا پسند اشرافیہ ایک حد سے آگے بڑھنے پر آمادہ نہیں اور روس کی علاقائی پالیسی پر آج بھی بھارت اثرانداز ہوتا ہے۔جب کہ خود امریکا سے تعلقات بھی دو طرفہ شکوک و بے یقینی کی دلدل میں ہیں۔ویسے بھی پاکستان بھارت کے مقابلے میں واشنگٹن کے پالیسی سازوں کے لیے اپنی گزشتہ اہمیت بہت حد تک کھو چکا ہے۔جب کہ افغانستان سے ہمارے تعلقات اسٹرٹیجک نابینا پن کا شکار ہیں۔
کیا پاکستان کی موجودہ قیادت میں کوئی ایسا مدبر وژنری بچا ہے جو مخالف علاقائی و بین الاقوامی حالات کی ٹیبل اپنے حق میں الٹ سکے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی شاید کسی پالیسی ساز کو کوئی جلدی بھی نہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
کابل پر قبضے کے بعد ایک سینئیر طالبان اہلکار نے بتایا کہ امریکی فوج اور سابق افغان فوج کے زیرِ استعمال یا ذخیرہ کردہ تین لاکھ ہلکے ہتھیار ، چھبیس ہزار بھاری ہتھیار ، اور مختلف نوعیت کی اکسٹھ ہزار فوجی استعمال کی گاڑیاں طالبان کو ورثے میں ملیں۔
پھر یہ اطلاعات آنے لگیں کہ امریکی اور ناٹو افواج کے زیرِاستعمال معیاری ہتھیاروں تک افغانستان میں متحرک دیگر گروہوں کی رسائی بھی ہو گئی ہے اور بہت سے ہتھیار پاک افغان بلیک مارکیٹ میں بھی بالکل اسی طرح دستیاب ہیں جیسے انیس سو اسی کی دہائی میں ہمارے آس پاس روسی اور مغربی ہتھیاروں اور آلات کا جمعہ بازار لگا اور اس نے پاک افغان سماج کو تشدد میں لپیٹ کے کھدیڑ دیا۔
اگرچہ طالبان انتظامیہ جدید ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی نئی وبا سے سرکاری طور پر بظاہر لاعلم ہے مگر دبے دبے یہ اقرار بھی کرتی ہے کہ ہو سکتا ہے کچھ ہتھیار بلیک مارکیٹ تک پہنچ گئے ہوں مگر اس کے ذمے دار زیادہ تر سابق افغان فوج کے اہلکار ہیں۔
ریڈیو لبرٹی پراگ کے لیے کام کرنے والے افغان امور کے ماہر ابوبکر صدیق کی مارچ میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بلیک مارکیٹ میں اس وقت امریکی فوج کے زیرِ استعمال ایم سولہ اسالٹ رائفل تین سے چار ہزار ڈالر میں ایم فور رائفل چودہ سو ڈالر میں ، فوجی استعمال کا پورٹیبل کمیونی کیشن سسٹم ساڑھے تین ہزار ڈالر اور ساختہ آسٹریا کلوگ ہینڈ گن پندرہ سو ڈالر تک دستیاب ہے۔مسلح پرتشدد گروہوں کے ہاتھ یہ ہتھیار لگنے کے سب سے منفی اثرات خیبر پختون خواہ پولیس کو بھگتنے پڑ رہے ہیں جس کے زیرِ استعمال ہتھیار دھشت گردوں کے اسلحے کے مقابلے میں فرسودہ ہیں۔
اس خطرے کی جانب کئی ماہ پہلے نومبر میں سابق پولیس چیف کے پی کے معظم جاہ انصاری نے توجہ دلائی تھی۔تب سے اب تک دھشت گردی کے حملوں میں ناٹو ملٹری گریڈ پروفیشنل ہتھیاروں کے استعمال میں معتدبہ اضافہ ہو گیا ہے۔ مثلاً تھرمل ٹیلی اسکوپ سے لیس اسنائپر رائفلز سے متعدد پولیس افسروں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔تھرمل ٹیلی اندھیرے میں بھی انسانی حرارت کو پکڑ کے ہدف کو پورا پورا بے نقاب کر دیتی ہے۔لہٰذا ہدف کو بطخ کی طرح شکار کیا جا سکتا ہے۔ ایسے حملوں کے بارے میں ٹی ٹی پی متعدد پبلسٹی وڈیوز بھی ریلیز کر چکی ہے۔
جون میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے روبرو کاؤنٹر ٹیررازم اہلکاروں نے جو رپورٹ پیش کی۔اس کے مطابق پاکستان کی مغربی سرحد کے ساتھ لگنے والے افغان صوبوں ننگر ہار ، کنر ، لوگر ، پکتیکا ، پکتیا اور خوست میں ٹی ٹی پی کے چار سے چھ ہزار کے درمیان مسلح ارکان موجود ہیں۔گزشتہ نومبر میں ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے سرحد پار کارروائیوں میں کم ازکم چالیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اگرچہ افغان طالبان کا سب سے بڑا حریف داعش کو سمجھا جاتا ہے۔مگر داعش اور ٹی ٹی پی کے درمیان غیر اعلانیہ مبینہ آپریشنل تعاون سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر قابو پانا خود افغان طالبان کے بھی بس سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری جانب بیعت یافتہ ٹی ٹی پی کے خلاف نظریاتی ہم آہنگی کے سبب افغان طالبان کھل کے نہ کوئی موثر کارروائی کر سکتے اور نہ ہی کسی خاص علاقے تک محدود کر سکتے ہیں۔ان حالات کو کابل انتظامیہ پاکستان کے ساتھ اسٹرٹیجک توازن برقرار رکھنے کے لیے بھی استعمال کرتی ہے۔
اگست میں اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کو کاؤنٹر ٹیررازم پینل نے جو تازہ ترین رپورٹ کی وہ جون میں جاری رپورٹ سے بھی کہیں تشویش ناک ہے۔اس کے مطابق ناٹو کے زیرِ استعمال جو جدید ترین ہتھیار افغان فوج کو دیے گئے تھے اب داعش، ٹی ٹی پی اور ایسٹرن ترکستان اسلامک موومنٹ تک پہنچ چکے ہیں۔ داعش کے ماہرین ان ہتھیاروں کو مزید موثر بنانے ، ان کی دھماکا خیز قوت میں اضافے اور ڈرونز کے زریعے بارودی مواد کی ترسیل کا حجم بڑھانے پر کام کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان میں بیس سے زائد چھوٹے بڑے مسلح گروہ متحرک ہیں۔وہ اپنے اہداف کو پہلے سے بہتر انداز میں منصوبہ بند طریقے سے نشانہ بنانے کی صلاحیتوں میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔اگرچہ اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی کوششوں سے داعش کی بین الاقوامی قیادت کو شام سے افغانستان تک کے نیم دائرے میں خاصا نقصان پہنچایا جا چکا ہے اور اس کے مالی وسائل محدود کرنے کی کوششوں کے سبب داعش کے پاس پچیس تا پچاس ملین ڈالر سرمائے کا اندازہ ہے۔
اتنے قلیل سرمائے کی مدد سے محدود پیمانے پر ہی آپریشن ہو سکتے ہیں۔مگر رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ سماج کو دبانے کے افغانستان میں سخت گیر اقدامات ، پتلی اقتصادی حالت اور عوامی اکثریت کی غربت و بے روزگاری وہ اجزاِ ترکیبی ہیں جن سے علاقائی امن کے لیے ایک تباہ کن کاک ٹیل کبھی بھی تیار ہو سکتی ہے۔ البتہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حسبِ توقع ان رپورٹوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انھیں لاعلمی پر مبنی پروپیگنڈہ قرار دیا ہے۔
ترجمان کا دعوی ہے کہ افغانستان میں اس وقت داعش کی موجودگی زیرو ہے۔مگر مغربی مبصرین سمجھتے ہیں کہ طالبان کی جانب سے یکسر تردیدی بیانات سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یا تو طالبان قیادت کو اپنے ہی ملک کے زمینی حقائق کا مکمل ادراک نہیں یا پھر وہ ان حقائق کا سامنا اور اعتراف کرنے میں دشواری محسوس کر رہی ہے۔اس طرزِ عمل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھیں نامساعد حالات کے باوجود بین الاقوامی برادری میں اپنی کم ازکم جگہ بنانے کی بہت عجلت بھی نہیں۔
جب کہ دو روز قبل خراسان ڈائری نامی ایک ذمے دار پاکستانی خبری و تحقیقی ویب سائٹ پر ایک تشویش ناک رپورٹ شایع ہوئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعش کا ہدف اب روایتی مدارس کے بجائے پاکستانی اشرافیہ کے تعلیمی ادارے ہیں۔ خوشحال پس منظر کے باصلاحیت طلبا کو آن لائن رجھانے اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال ہونے پر آمادہ کرنے کے لیے نہایت نفیس انداز میں کوویڈ کے لاک ڈاؤن کے زمانے سے کوششیں جاری ہیں۔اس نیٹ ورک کا پتہ حال ہی میں کچھ گرفتاریوں کے نتیجے میں لگا ہے۔گویا ریاست کو ایک اور چیلنج درپیش ہو چکا ہے۔ اشرف جہانگیر قاضی بطور سینئر سفارت کار بھارت ، چین ، امریکا اور اقوامِ متحدہ جیسی اہم جگہوں پر پاکستان کی نمایندگی کر چکے ہیں۔
انھوں نے ایک حالیہ مضمون میں علاقائی نقشہ کھینچتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک میں سے بھارت پاکستان سے تعلقات کی خرابی کو فی الحال اپنے مفاد میں سمجھتا ہے۔ایران سے تعلقات میں سردمہری کا سبب پاکستان پر امریکی سفارتی و اقتصادی دباؤ ہے۔ چین سے تعلقات بہتر ضرور ہیں مگر سی پیک کے تناظر میں پاکستان میں جاری سیاسی و اقتصادی بحران کے سبب یہ تعاون لگ بھگ ایک جگہ رکا ہوا ہے۔ دو طرفہ تعاون کے ثمرات سیمٹنے کی ہمارے پاس شاید اتنی اہلیت بھی نہیں جتنی کہ چین کو توقع تھی۔
روس سے تعلقات معلق ہیں کیونکہ امریکا پسند اشرافیہ ایک حد سے آگے بڑھنے پر آمادہ نہیں اور روس کی علاقائی پالیسی پر آج بھی بھارت اثرانداز ہوتا ہے۔جب کہ خود امریکا سے تعلقات بھی دو طرفہ شکوک و بے یقینی کی دلدل میں ہیں۔ویسے بھی پاکستان بھارت کے مقابلے میں واشنگٹن کے پالیسی سازوں کے لیے اپنی گزشتہ اہمیت بہت حد تک کھو چکا ہے۔جب کہ افغانستان سے ہمارے تعلقات اسٹرٹیجک نابینا پن کا شکار ہیں۔
کیا پاکستان کی موجودہ قیادت میں کوئی ایسا مدبر وژنری بچا ہے جو مخالف علاقائی و بین الاقوامی حالات کی ٹیبل اپنے حق میں الٹ سکے ؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی شاید کسی پالیسی ساز کو کوئی جلدی بھی نہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)