مستقبل میں حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ
اگر عوام کے احتجاج نے مزید شدت اختیار کر لی تو ملک میں مزید انارکی پیدا ہوگی
ملک میں 76 برسوں سے برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے بجلی کی پیداوارکے بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جس کے نتیجہ میں عوام آج احتجاج پر مجبور ہیں۔ احتجاج کرنے والوں میں سے بعض زیادہ جذباتی نوجوانوں نے بجلی کمپنیوں کے اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔
کراچی، حیدرآباد، ملتان اور پشاور وغیرہ میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں نے اپنے کارکنوں کے تحفظ کے لیے پولیس حکام سے مدد طلب کی ہے، اگرچہ عبوری وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو صورتحال پر تشویش ہے مگر بجلی کی وزارت کا دعویٰ ہے کہ بجلی کے ٹیرف میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران اضافوں سے 63فیصد صارفین متاثر نہیں ہونگے مگر حقائق وزارت بجلی کے بابوؤں کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔ چاروں صوبوں سے آنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ غریب مزدور سے لے کر امراء تک کے بجلی کے بل تین سے چارگنا بڑھ گئے ہیں۔
صارفین جو صرف 200 یونٹ استعمال کرتے ہیں ان کے بل 15 ہزار تک آئے ہیں، جو صارفین 300 یونٹ بجلی استعمال کرتے ہیں ان کو 30 ہزار روپے سے 35 ہزار روپے تک کے بل ملے ہیں۔ اسی طرح جو صارف 100 سے 200 یونٹ بجلی استعمال کرتا ہے انھیں 5 سے 10 ہزار روپے تک کے بل موصول ہوئے ہیں، جو صارفین تین فیزکی بجلی استعمال کرتے ہیں، ان کے بل 80 ہزار سے1لاکھ اور اس سے زائد کے بل وصول ہوئے ہیں۔
پاکستان میں بجلی کی بھی عجب کہانی ہے۔ برسراقتدار حکومتوں نے کبھی سستی بجلی کی پیداوارکو اپنی اولین ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں سندھ طاس معاہدہ کے بعد دو بڑے ڈیم منگلا اور تربیلا تعمیر ہوئے۔
ان ڈیموں سے ہائیڈرو الیکٹرک بجلی پیدا ہونے لگی، دنیا بھر میں ایٹمی بجلی گھر بننے لگے۔ ایک زمانہ تھا کہ ایٹمی بجلی سب سے سستی بجلی تھی، اس وقت ماحولیات کے مسائل بھی پید ا نہیں ہوتے تھے۔ کینیڈا نے کراچی میں پہلا ایٹمی بجلی گھرکیمپ قائم کیا تھا۔
بھارتی جارحیت کے جواب میں وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ایٹم بم بنانے کی منصوبہ بندی شروع کی، یوں برسوں تک ایٹمی بجلی کا معاملہ پس پشت چلا گیا۔ چرنوبل حادثہ کے بعد ایٹمی بجلی پر سخت اعتراضات ہوئے۔
جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے بجلی کی پیداوار بڑھانے اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ نہ دی۔ صنعتی ترقی اور نئی ہاؤسنگ اسکیموں کے پھیلاؤ کی بناء پر بجلی کی قلت پیدا ہونے لگی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں کراچی اور دیگر شہروں میں لوڈ شیڈنگ شروع ہوئی۔
وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت سے بجلی حاصل کرنے کے بارے میں سوچا مگر سیکیورٹی مسائل کی بناء پر یہ معاملہ محض خیال کی حد تک محدود رہا۔ پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت میں بے نظیر بھٹو دوسری دفعہ وزیر اعظم بنیں۔ ان کے دور اقتدار میں غیر ملکی فرموں کو بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کے قیام کے لیے مدعوکیا گیا، پھر تمام حکومتوں نے اس پالیسی کو برقرار رکھا، یوں Independent Power Products (IPPs) نے ملک میں 42 بجلی گھر قائم کیے۔
حب پاورکمپنی (حب کو) سب سے بڑا بجلی گھر ہے جو بلوچستان میں حب کے مقام پر تعمیر کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے IPPs کی انتہائی سخت شرائط قبول کیں اور ان سے کیے گئے معاہدوں کو خفیہ رکھا گیا۔
ایک طرف نجی شعبہ کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا گیا مگر دوسری طرف بجلی کی تقسیم کے نظام کو جدید خطوط پر استوارکرنے پر توجہ نہ دی گئی، ان میں سے بیشتر کارخانے فرنس آئل استعمال کرتے ہیں، بجلی کی تقسیم میں رکاوٹوں کو دورکرنے پر توجہ نہ دی گئی۔ حکومت 90ء کی دہائی کے معاہدوں کی بناء پر IPPs کو ڈالروں میں رقم ادا کرنے کی پابند تھی۔ گزشتہ حکومت میں یہ ادائیگی پاکستانی روپے میں ہونے لگی تھی۔ ماہرین انھیں اندھے معاہدے قرار دیتے ہیں۔
گزشتہ 76 برسوں میں بجلی کے بل کی وصولی کا نظام پسماندہ رہا۔ کہا جاتا ہے کہ پورے ملک میں ہر سال اربوں روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے۔
بجلی چوری کرنے والوں میں غریب لوگوں کا تناسب کم ہے۔ بڑے بیوروکریٹ، جاگیردار، سردار اور بااثر سیاسی رہنماؤں کے ہاں بجلی کے بل ادا کرنے کا رجحان کم ہے۔
اب برسر اقتدار حکومتوں کی کوششوں سے بجلی کے بل ادا کرنے کی شرح بڑھی ہے جب کہ گردشی قرضہ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ صرف 2023ء کے مالیاتی سال میں گردشی قرضہ بڑھ کر 2.631 بلین ہوگیا ہے۔ گزشتہ سال یہ قرضہ 2.450 بلین تھا۔ افسروں کو مفت اور رعایتی نرخوں پر بجلی کی فراہمی کا معاملہ علیحدہ سے اہم ہے۔
آئی ایم ایف کے فلسفہ کے تحت ان کے قرضہ کی رقم عوام کو سبسڈی دینے کے لیے استعمال نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف نے مذاکرات میں بہت سی شرائط عائد کی ہیں۔ ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے سابقہ حکومت نے پٹرول، بجلی اور گیس پر سبسڈی ختم کر دی۔ یوں بجلی پر آنے والی لاگت بڑھ گئی۔ حکومت نے بجلی کے بلوں میں48 فیصد ٹیکس بھی عائد کیے۔
حکومت، پی ٹی وی کی لائسنس فیس بھی بجلی کے بل میں وصول کرتی ہے۔ حکومت کو آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے ایک ماہ بعد مزید ایک اور ٹیکس عائد کرنا ہے، یوں بجلی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوگئی۔
اس وقت خطے کے ممالک میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی پاکستان میں ہے۔ پاکستان میں تیز ہوائیں قدرت کا تحفہ ہیں مگر ونڈ انرجی کے بہت کم پروجیکٹس پر کام ہو رہا ہے۔ اب گزشتہ حکومت نے شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والے آلات پر ڈیوٹی کم کی تھی مگر ڈالر کی قیمت بڑھنے سے سولر انرجی کے آلات بھی مہنگے ہوگئے ہیں۔
عوام پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کے خلاف احتجاج کررہے ہیں مگر سیاسی جماعتیں اس احتجاج کو منظم شکل دینے کو تیار نہیں ہیں، یوں اگر عوام کے احتجاج نے مزید شدت اختیار کر لی تو ملک میں مزید انارکی پیدا ہوگی مگر نگراں حکومت میں اتنی اہلیت نہیں ہے کہ اس بحران کو روک سکے۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ مستقبل میں حالات مزید خراب ہونگے۔
کراچی، حیدرآباد، ملتان اور پشاور وغیرہ میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں نے اپنے کارکنوں کے تحفظ کے لیے پولیس حکام سے مدد طلب کی ہے، اگرچہ عبوری وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو صورتحال پر تشویش ہے مگر بجلی کی وزارت کا دعویٰ ہے کہ بجلی کے ٹیرف میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران اضافوں سے 63فیصد صارفین متاثر نہیں ہونگے مگر حقائق وزارت بجلی کے بابوؤں کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔ چاروں صوبوں سے آنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ غریب مزدور سے لے کر امراء تک کے بجلی کے بل تین سے چارگنا بڑھ گئے ہیں۔
صارفین جو صرف 200 یونٹ استعمال کرتے ہیں ان کے بل 15 ہزار تک آئے ہیں، جو صارفین 300 یونٹ بجلی استعمال کرتے ہیں ان کو 30 ہزار روپے سے 35 ہزار روپے تک کے بل ملے ہیں۔ اسی طرح جو صارف 100 سے 200 یونٹ بجلی استعمال کرتا ہے انھیں 5 سے 10 ہزار روپے تک کے بل موصول ہوئے ہیں، جو صارفین تین فیزکی بجلی استعمال کرتے ہیں، ان کے بل 80 ہزار سے1لاکھ اور اس سے زائد کے بل وصول ہوئے ہیں۔
پاکستان میں بجلی کی بھی عجب کہانی ہے۔ برسراقتدار حکومتوں نے کبھی سستی بجلی کی پیداوارکو اپنی اولین ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں سندھ طاس معاہدہ کے بعد دو بڑے ڈیم منگلا اور تربیلا تعمیر ہوئے۔
ان ڈیموں سے ہائیڈرو الیکٹرک بجلی پیدا ہونے لگی، دنیا بھر میں ایٹمی بجلی گھر بننے لگے۔ ایک زمانہ تھا کہ ایٹمی بجلی سب سے سستی بجلی تھی، اس وقت ماحولیات کے مسائل بھی پید ا نہیں ہوتے تھے۔ کینیڈا نے کراچی میں پہلا ایٹمی بجلی گھرکیمپ قائم کیا تھا۔
بھارتی جارحیت کے جواب میں وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ایٹم بم بنانے کی منصوبہ بندی شروع کی، یوں برسوں تک ایٹمی بجلی کا معاملہ پس پشت چلا گیا۔ چرنوبل حادثہ کے بعد ایٹمی بجلی پر سخت اعتراضات ہوئے۔
جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے بجلی کی پیداوار بڑھانے اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ نہ دی۔ صنعتی ترقی اور نئی ہاؤسنگ اسکیموں کے پھیلاؤ کی بناء پر بجلی کی قلت پیدا ہونے لگی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں کراچی اور دیگر شہروں میں لوڈ شیڈنگ شروع ہوئی۔
وزیر اعظم نواز شریف نے بھارت سے بجلی حاصل کرنے کے بارے میں سوچا مگر سیکیورٹی مسائل کی بناء پر یہ معاملہ محض خیال کی حد تک محدود رہا۔ پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت میں بے نظیر بھٹو دوسری دفعہ وزیر اعظم بنیں۔ ان کے دور اقتدار میں غیر ملکی فرموں کو بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کے قیام کے لیے مدعوکیا گیا، پھر تمام حکومتوں نے اس پالیسی کو برقرار رکھا، یوں Independent Power Products (IPPs) نے ملک میں 42 بجلی گھر قائم کیے۔
حب پاورکمپنی (حب کو) سب سے بڑا بجلی گھر ہے جو بلوچستان میں حب کے مقام پر تعمیر کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے IPPs کی انتہائی سخت شرائط قبول کیں اور ان سے کیے گئے معاہدوں کو خفیہ رکھا گیا۔
ایک طرف نجی شعبہ کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا گیا مگر دوسری طرف بجلی کی تقسیم کے نظام کو جدید خطوط پر استوارکرنے پر توجہ نہ دی گئی، ان میں سے بیشتر کارخانے فرنس آئل استعمال کرتے ہیں، بجلی کی تقسیم میں رکاوٹوں کو دورکرنے پر توجہ نہ دی گئی۔ حکومت 90ء کی دہائی کے معاہدوں کی بناء پر IPPs کو ڈالروں میں رقم ادا کرنے کی پابند تھی۔ گزشتہ حکومت میں یہ ادائیگی پاکستانی روپے میں ہونے لگی تھی۔ ماہرین انھیں اندھے معاہدے قرار دیتے ہیں۔
گزشتہ 76 برسوں میں بجلی کے بل کی وصولی کا نظام پسماندہ رہا۔ کہا جاتا ہے کہ پورے ملک میں ہر سال اربوں روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے۔
بجلی چوری کرنے والوں میں غریب لوگوں کا تناسب کم ہے۔ بڑے بیوروکریٹ، جاگیردار، سردار اور بااثر سیاسی رہنماؤں کے ہاں بجلی کے بل ادا کرنے کا رجحان کم ہے۔
اب برسر اقتدار حکومتوں کی کوششوں سے بجلی کے بل ادا کرنے کی شرح بڑھی ہے جب کہ گردشی قرضہ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ صرف 2023ء کے مالیاتی سال میں گردشی قرضہ بڑھ کر 2.631 بلین ہوگیا ہے۔ گزشتہ سال یہ قرضہ 2.450 بلین تھا۔ افسروں کو مفت اور رعایتی نرخوں پر بجلی کی فراہمی کا معاملہ علیحدہ سے اہم ہے۔
آئی ایم ایف کے فلسفہ کے تحت ان کے قرضہ کی رقم عوام کو سبسڈی دینے کے لیے استعمال نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف نے مذاکرات میں بہت سی شرائط عائد کی ہیں۔ ان شرائط کو پورا کرنے کے لیے سابقہ حکومت نے پٹرول، بجلی اور گیس پر سبسڈی ختم کر دی۔ یوں بجلی پر آنے والی لاگت بڑھ گئی۔ حکومت نے بجلی کے بلوں میں48 فیصد ٹیکس بھی عائد کیے۔
حکومت، پی ٹی وی کی لائسنس فیس بھی بجلی کے بل میں وصول کرتی ہے۔ حکومت کو آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے ایک ماہ بعد مزید ایک اور ٹیکس عائد کرنا ہے، یوں بجلی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوگئی۔
اس وقت خطے کے ممالک میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی پاکستان میں ہے۔ پاکستان میں تیز ہوائیں قدرت کا تحفہ ہیں مگر ونڈ انرجی کے بہت کم پروجیکٹس پر کام ہو رہا ہے۔ اب گزشتہ حکومت نے شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والے آلات پر ڈیوٹی کم کی تھی مگر ڈالر کی قیمت بڑھنے سے سولر انرجی کے آلات بھی مہنگے ہوگئے ہیں۔
عوام پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کے خلاف احتجاج کررہے ہیں مگر سیاسی جماعتیں اس احتجاج کو منظم شکل دینے کو تیار نہیں ہیں، یوں اگر عوام کے احتجاج نے مزید شدت اختیار کر لی تو ملک میں مزید انارکی پیدا ہوگی مگر نگراں حکومت میں اتنی اہلیت نہیں ہے کہ اس بحران کو روک سکے۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ مستقبل میں حالات مزید خراب ہونگے۔