میرٹ کو ترجیح دی جائے
اندھیرے کتنے ہی ہوں بہرحال روشنی کی ایک کرن ہر وقت موجود رہتی ہے
عظیم فلسفی جان لاک کہتا ہے قابلیت اور نیک کام انسان کی حرکت کی انتہا ہے اور اسی کا ضمیر انسان کے آرام کی تکمیل ہے کیونکہ اگر ایک آدمی خدا کے تھیٹر کا حصہ دار بن سکتا ہے تو وہ اسی طرح خدا کے آرام کا بھی حصہ دار ہو گا۔
لوگوں کو ان کی فطری صلاحیتوں اور مہارت کی بنیاد پر مختلف پلیٹ فارمز پر بھرتی کرنا میرٹو کریسی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک مثالی معاشرہ میرٹ کریسی پر چلنا چاہیے جس کا بہت سے شہری خواب دیکھتے ہیں یہ بہت اہم ہے۔
تعلیم کے بعد میرٹ کی بنیاد پر ملازمت دینا حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے اور ملازمتوں میں جس قدر شفافیت اختیار کی جائے اس کے نتیجے میں اتنی ہی حکومت پر اعتماد کی فضاء بنتی ہے لیکن اگر حکومتیں میرٹ کے خلاف ورزی کرنے لگیں تو پھر اس کے نتیجے میں اہل اور قابل تعلیم یافتہ نوجوانوں میں احساس محرومی جنم لیتی ہے۔ جس کے اثرات اکثر مواقعوں پر منفی ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں صورتحال یکسر تبدیل ہو جاتی ہے۔
حکومتوں کی اولین خواہش ہوتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملک میں کلیدی عہدوں پر فائز کیا جائے تاکہ ملک کے انتظام بہتر انداز میں چلایا جاسکے لیکن عمومی طور پر اس حوالے سے بیشتر مواقعوں پر کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں اور یہ کوتاہیاں کسی نہ کسی طور پر اقرباء پروری کی شکل اختیار کر جاتی ہے جس سے بے چینی کی ایک فضاء بنتی ہے اور اس بے چینی کے نتیجے میں احساس محرومی جنم لیتی ہے اور میرٹ کو نقصان پہنچتا ہے۔
اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے لیے قابل اور اہل نوجوانوں کو ایک مرحلے سے گذارا جاتا ہے جس میں اس کی قابلیت کو جانچنے کے لیے مختلف طریقوں سے چیزیں چیک کی جاتی ہیں۔ سندھ پبلک سروس کمیشن وہ ادارہ ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ان کی اہلیت کی بنیاد پر مختلف شعبوں میں اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس ادارے سے بہت سارے لوگوں سے شکایت بھی رہی ہیں لیکن یہ ہی وہ واحد ادارہ ہے جس نے بیوروکریسی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
سندھ پبلک سروس کمیشن اپنے قیام کے بعد سے صوبے بھر کے بیروزگار نوجوانوں کی ضرورت کو پورا کر نے میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے ۔ اس ادارے کو بعض مواقعوں پر غلط بھی استعمال کیا گیا لیکن بہرحال معاشرے میں حائل مشکلات کے باوجود یہ ادارہ غریب اور باصلاحیت نوجوانوں کے لیے مشعل راہ بن گیا ہے۔ پبلک سروس کمیشن کے بارے میں بہت سی آراء موجود ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو جو کہ پیپلزپارٹی کے بانی و ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم تھے ان کے دور میں اس کے قیام کے وقت اعلیٰ عہدوں کے لیے اس امتحان کو پاس کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا اور اس کے لیے قانون سازی بھی کی گئی۔ بعد میں سندھ پبلک سروس کمیشن کا کردار کئی مرتبہ مشکوک بھی ہوا اور اس ادارے پر الزامات کے بادل بھی چھائے رہے کیونکہ انتظامیہ کے یکے بعد دیگرے سیٹ اپ جو حکومت کی طرف سے بنائے گئے وہ کھڑے ہونے کے بجائے ہمیشہ اس کے سامنے جھکتے رہے، یہی وجہ تھی کہ عوام کی نظر سندھ پبلک سروس کمیشن نے ماضی میں اپنی ساکھ اس حد تک کھودی کہ قابل اور ذہین امیدواروں نے صوبائی مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے درخواستیں دینا ہی بند کر دیں، لہٰذا مرکزی ادارے میں جو کچھ میسر تھا وہ آسانی سے صوبے کی بیوروکریسی کے سیٹ اپ میں شامل ہوگیا۔
اندھیرے کتنے ہی ہوں بہرحال روشنی کی ایک کرن ہر وقت موجود رہتی ہے اور سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئر مین محمد وسیم نے آکر اس ادارے کی ساکھ کو ایک مرتبہ پھر سنبھالا اور ادارے میں میرٹ کو رائج کرکے یہ ثابت کیا کہ اگر ادارے نیک ہوں اور کچھ کرنے کی لگن ہو تو بہترین حالات میں بھی بہترین کام کیا جاسکتا ہے۔
محمد وسیم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اگر میرٹ کا قتل کر کے کسی نااہل شخص کو سفارش یا کسی اور وجوہات کی بناء پر بیوروکریسی میں شامل کروا دیا تو اس سے ہونے والا ناقابل تلافی نقصان ہر ایک کو بھگتنا پڑے گا اور ماضی کی یہ روش اس بات کی گواہ ہے کہ اس ادارے سے ایسے ایسے لوگوں کو آگے بڑھایا گیا جنھوں نے اپنے اپنے شعبوں میں جاکر تباہی کی تاریخیں رقم کیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبہ سندھ ٹیلنٹ کے حوالے سے زرخیز ترین صوبہ ہے یہاں کے نوجوان جو اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کی بناء پر ہمیشہ سے اچھے مقامات پر تعیناتی کی خواہش رکھتے ہیں، اگر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو اس سے معاشرے میں بہتری آسکتی ہے۔
سندھ کے نوجوان اس لحاظ سے خوش قسمت ثابت ہورہے ہیں کہ سندھ پبلک سروس کمیشن میں موجود چیئرمین محمد وسیم کی صورت میں ایک دیانت دار شخص کی بناء پر اب تک ہزاروں سندھ کے نوجوانوں کو ان کی قابلیت، میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر بغیر کسی سفارش کے نوکریاں مل چکی ہیں اور وہ سندھ کی تعمیرو ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس بات کا ہر ایک کو بخوبی اندازہ ہے کہ سندھ کے نوجوان قابل، محنتی اور باصلاحیت ہیں، انھوں نے مشکل حالات میں بھی اپنے حوصلے اور ہمت کی بنیاد پر اپنے آپ کو منوایا ہے۔
سندھ کے نوجوان جو کہ میرٹ کی بنیاد پر سندھ کی بیورو کریسی کی کلیدی عہدوں پر تعینات ہوئے ہیں وہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کے انتہائی شکر گزار ہیں کہ جنھوں نے ایک سال میں وہ کارنامے انجام دیے ہیں، جس کا سندھ کے نوجوانوں کو سالوں سے انتظار تھا۔ اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اگر ادارے میں محمد وسیم جیسے قابل افسر ہوں تو پھر بہت سارے لوگ ان اداروں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
شہریوں اور خاص طور پر نوجوانوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اداروں میں موجود قابل اور اہل افراد کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کے خلاف کسی بھی سطح پر ہونے والی سازش کا بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے یہ ثابت کردیں کہ اب صرف میرٹ اور اہلیت ہی کی بنیاد پر چیزیں آگے جائیں گی تاکہ پاکستان ترقی بھی کرسکے اور ایک مضبوط اور شفاف معاشرہ جنم لے جس سے آنے والی نسل کو فوائد پہنچ سکیں۔
لوگوں کو ان کی فطری صلاحیتوں اور مہارت کی بنیاد پر مختلف پلیٹ فارمز پر بھرتی کرنا میرٹو کریسی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک مثالی معاشرہ میرٹ کریسی پر چلنا چاہیے جس کا بہت سے شہری خواب دیکھتے ہیں یہ بہت اہم ہے۔
تعلیم کے بعد میرٹ کی بنیاد پر ملازمت دینا حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے اور ملازمتوں میں جس قدر شفافیت اختیار کی جائے اس کے نتیجے میں اتنی ہی حکومت پر اعتماد کی فضاء بنتی ہے لیکن اگر حکومتیں میرٹ کے خلاف ورزی کرنے لگیں تو پھر اس کے نتیجے میں اہل اور قابل تعلیم یافتہ نوجوانوں میں احساس محرومی جنم لیتی ہے۔ جس کے اثرات اکثر مواقعوں پر منفی ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں صورتحال یکسر تبدیل ہو جاتی ہے۔
حکومتوں کی اولین خواہش ہوتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ملک میں کلیدی عہدوں پر فائز کیا جائے تاکہ ملک کے انتظام بہتر انداز میں چلایا جاسکے لیکن عمومی طور پر اس حوالے سے بیشتر مواقعوں پر کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں اور یہ کوتاہیاں کسی نہ کسی طور پر اقرباء پروری کی شکل اختیار کر جاتی ہے جس سے بے چینی کی ایک فضاء بنتی ہے اور اس بے چینی کے نتیجے میں احساس محرومی جنم لیتی ہے اور میرٹ کو نقصان پہنچتا ہے۔
اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے لیے قابل اور اہل نوجوانوں کو ایک مرحلے سے گذارا جاتا ہے جس میں اس کی قابلیت کو جانچنے کے لیے مختلف طریقوں سے چیزیں چیک کی جاتی ہیں۔ سندھ پبلک سروس کمیشن وہ ادارہ ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ان کی اہلیت کی بنیاد پر مختلف شعبوں میں اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس ادارے سے بہت سارے لوگوں سے شکایت بھی رہی ہیں لیکن یہ ہی وہ واحد ادارہ ہے جس نے بیوروکریسی بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
سندھ پبلک سروس کمیشن اپنے قیام کے بعد سے صوبے بھر کے بیروزگار نوجوانوں کی ضرورت کو پورا کر نے میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے ۔ اس ادارے کو بعض مواقعوں پر غلط بھی استعمال کیا گیا لیکن بہرحال معاشرے میں حائل مشکلات کے باوجود یہ ادارہ غریب اور باصلاحیت نوجوانوں کے لیے مشعل راہ بن گیا ہے۔ پبلک سروس کمیشن کے بارے میں بہت سی آراء موجود ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو جو کہ پیپلزپارٹی کے بانی و ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم تھے ان کے دور میں اس کے قیام کے وقت اعلیٰ عہدوں کے لیے اس امتحان کو پاس کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا اور اس کے لیے قانون سازی بھی کی گئی۔ بعد میں سندھ پبلک سروس کمیشن کا کردار کئی مرتبہ مشکوک بھی ہوا اور اس ادارے پر الزامات کے بادل بھی چھائے رہے کیونکہ انتظامیہ کے یکے بعد دیگرے سیٹ اپ جو حکومت کی طرف سے بنائے گئے وہ کھڑے ہونے کے بجائے ہمیشہ اس کے سامنے جھکتے رہے، یہی وجہ تھی کہ عوام کی نظر سندھ پبلک سروس کمیشن نے ماضی میں اپنی ساکھ اس حد تک کھودی کہ قابل اور ذہین امیدواروں نے صوبائی مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے درخواستیں دینا ہی بند کر دیں، لہٰذا مرکزی ادارے میں جو کچھ میسر تھا وہ آسانی سے صوبے کی بیوروکریسی کے سیٹ اپ میں شامل ہوگیا۔
اندھیرے کتنے ہی ہوں بہرحال روشنی کی ایک کرن ہر وقت موجود رہتی ہے اور سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئر مین محمد وسیم نے آکر اس ادارے کی ساکھ کو ایک مرتبہ پھر سنبھالا اور ادارے میں میرٹ کو رائج کرکے یہ ثابت کیا کہ اگر ادارے نیک ہوں اور کچھ کرنے کی لگن ہو تو بہترین حالات میں بھی بہترین کام کیا جاسکتا ہے۔
محمد وسیم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اگر میرٹ کا قتل کر کے کسی نااہل شخص کو سفارش یا کسی اور وجوہات کی بناء پر بیوروکریسی میں شامل کروا دیا تو اس سے ہونے والا ناقابل تلافی نقصان ہر ایک کو بھگتنا پڑے گا اور ماضی کی یہ روش اس بات کی گواہ ہے کہ اس ادارے سے ایسے ایسے لوگوں کو آگے بڑھایا گیا جنھوں نے اپنے اپنے شعبوں میں جاکر تباہی کی تاریخیں رقم کیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبہ سندھ ٹیلنٹ کے حوالے سے زرخیز ترین صوبہ ہے یہاں کے نوجوان جو اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کی بناء پر ہمیشہ سے اچھے مقامات پر تعیناتی کی خواہش رکھتے ہیں، اگر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو اس سے معاشرے میں بہتری آسکتی ہے۔
سندھ کے نوجوان اس لحاظ سے خوش قسمت ثابت ہورہے ہیں کہ سندھ پبلک سروس کمیشن میں موجود چیئرمین محمد وسیم کی صورت میں ایک دیانت دار شخص کی بناء پر اب تک ہزاروں سندھ کے نوجوانوں کو ان کی قابلیت، میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر بغیر کسی سفارش کے نوکریاں مل چکی ہیں اور وہ سندھ کی تعمیرو ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس بات کا ہر ایک کو بخوبی اندازہ ہے کہ سندھ کے نوجوان قابل، محنتی اور باصلاحیت ہیں، انھوں نے مشکل حالات میں بھی اپنے حوصلے اور ہمت کی بنیاد پر اپنے آپ کو منوایا ہے۔
سندھ کے نوجوان جو کہ میرٹ کی بنیاد پر سندھ کی بیورو کریسی کی کلیدی عہدوں پر تعینات ہوئے ہیں وہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کے انتہائی شکر گزار ہیں کہ جنھوں نے ایک سال میں وہ کارنامے انجام دیے ہیں، جس کا سندھ کے نوجوانوں کو سالوں سے انتظار تھا۔ اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اگر ادارے میں محمد وسیم جیسے قابل افسر ہوں تو پھر بہت سارے لوگ ان اداروں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
شہریوں اور خاص طور پر نوجوانوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اداروں میں موجود قابل اور اہل افراد کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کے خلاف کسی بھی سطح پر ہونے والی سازش کا بھرپور مقابلہ کرتے ہوئے یہ ثابت کردیں کہ اب صرف میرٹ اور اہلیت ہی کی بنیاد پر چیزیں آگے جائیں گی تاکہ پاکستان ترقی بھی کرسکے اور ایک مضبوط اور شفاف معاشرہ جنم لے جس سے آنے والی نسل کو فوائد پہنچ سکیں۔