طوفانِ مہنگائی میں ڈوبتا ارجنٹائن
میراڈونا اور میسی کے دیس میں عوام شاپنگ مالوں میں لوٹ مار کر کے اپنی ضروریات پوری کرنے لگے۔۔۔ حیرت انگیز انکشافات
فرینک ہربرٹ (متوفی 1986ء امریکا کا ممتاز ناول نگار اور دیب گذرا ہے۔ وہ اپنے مشہور ناول ''ڈیون'' میں ایک جگہ عمدہ طرزِ حکمرانی المعروف بہ گڈ گورننس کے بارے میں لکھتا ہے:
''عمدہ طرز حکمرانی قوانین سے زیادہ حکمران کی شخصی خوبیوں کے باعث جنم لیتی ہے۔ حکومت کی مشینری ہمیشہ حکمران کے تابع ہوتی ہے۔
لہٰذا اہم ترین بات یہ ہے کہ جس ملک میں بہترین خوبیوں والے حکمران نے اقتدار سنبھالا، وہ ہر لحاظ'' سے ترقی کرے گا۔ وہاں عوام اور خواص، دونوں خوشحال و مطمئن ہوں گے۔ چناں چہ ایک ملک کے لوگ عمدہ طرز حکمرانی چاہتے ہیں تو انھیں با صلاحیت اور قابل حکمران ہی حکومت میں لانے چاہئیں۔''
جنوبی امریکا کے دوسرے بڑے ملک، ارجنٹائن کی موجودہ معاشی، سیاسی اور معاشرتی صورتحال سے عیاں ہے کہ وہاں عوام اہل و قابل حکمران منتخب کرنے میں ناکام رہے۔
اسی لیے مملکت میں خراب طرز حکمرانی نے جنم لیا جس کی وجہ سے ارجنٹائن کئی شدید بحرانوں کا نشانہ بن چکا۔ خاص طور پہ وہاں مہنگائی کی شرح( 116 فیصد ) دنیا کے تمام بڑے ملکوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اس مہنگائی نے مملکت کے غریب اور متوسط طبقوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ حالت یہ ہوچکی کہ غریب غربا دکانیں اور شاپنگ مال لوٹ کر اپنی ضروریات پوری کرنے لگے ہیں۔
نا اہل حکمران طبقہ
ارجنٹائن کو معاشی، سیاسی اور معاشرتی طور پہ تیار و برباد کرنے میں نا اہل حکمران طبقے کا بنیادی کردار ہے جس کے مرکزی ارکان سیاست داں، جرنیل اور افسر شاہی( بیورو کریسی) ہیں۔ یہ تینوں ارکان اپنی مملکت میں عمدہ طرز حکمرانی نہیں لا سکے بلکہ اپنی بد انتظامی ، کرپشن اور لالچ و ہوس کی وجہ سے ایک ملک کو ارضی جہنم میں بدل دیا۔
میرا ڈونا اور میسی جیسے عالمی شہرت یافتہ فٹبالروں کا یہ جنوبی امریکن دیس کئی عشرے ہسپانیہ والوں کے قبضے میں رہا۔ ہسپانوی لٹیرے ملک کے قدرتی وسائل لوٹ کر اپنے ملک، اسپین لے جاتے رہے۔ آخر اٹھارہویں صدی میں ارجنٹائن قوم نے تحریک آزادی کا آغاز کر دیا، ہسپانوی استعمار سے طویل جنگ ہوئی۔ 1816ء میں انھوں نے قابضین کو نکال باہر کیا۔
بدقسمتی سے آزاد مملکت میں عوام کو حکومت نہیں ملی بلکہ اقتدار پہ جرنیل ، جاگیر دار اور امیر سیاست داں چھاگئے۔ اس طاقتور اشرافیہ نے ایسی پالیسیاں تشکیل دیں، ایسے قوانین بنائے اور ایسا حکومتی ڈھانچا وضع کیا جو ان کی حکمرانی کو طول دے سکے اور اسے مضبوط کر دے۔ گویا یہ حکومتی نظام اشرافیہ نے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر تشکیل دیا۔ اس میں عوام کی بھلائی کے پہلو کم ہی تھے۔ یہ عمل دور جدید کی اصطلاح میں'' اشرافیہ کا قبضہ''( ایلیٹ کیپچر) کہلاتا ہے۔
حکمرانوں کی خانہ جنگی :
ارجنٹائن کے ساتھ قدرت نے یہ عجب کھیل کھیلا کہ وہاں اقتدار پانے کے لیے جرنیلوں، سیاست دانوں اور افسر شاہی میں لڑائی ہونے لگی۔ کبھی جرنیل حکومت سنبھال لیتے تو کبھی سیاسی رہنما حکومت کرتے۔ یوں ارجنٹائن وقتاً فوقتاً خانہ جنگی اور لڑائی جھگڑوں کا نشانہ بنتا رہا۔ یہ ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، اس لیے خانہ جنگی کے بعد امن و چین کے دورآتے تو ان میں وہ معاشی ترقی کرجاتا۔درحقیقت بیسویں صدی کے اوائل میں اس کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہونے لگا تھا جوامیر و خوشحال تھے۔
مگر جرنیلوں، سیاست دانوں اور افسر شاہی کی باہمی لڑائیاں جاری رہیں۔ ان کی وجہ سے ارجنٹائن میں کوئی مستحکم و پائدار حکومت نہیں آسکی۔ یوں ملک زوال پذیر ہوگیا۔ یہ زوال روکنے کی خاطر جرنیلوں نے مناسب سمجھا کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں اور پس پردہ رہ کر حکومت چلانے لگیں۔
اس لیے 1983ء سے مملکت میں بطاہر سیاست داں حکومت کر رہے ہیں مگر اصل طاقت جرنیلوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ سویلین گورنمنٹ سے اپنے تمام مطالبات تسلیم کرالیتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ اعلیٰ فوجی افسروں نے اپنا جو شاہانہ اور آسائشوں سے پُر طرز زندگی تخلیق کر لیا ہے، وہ ہو صورت برقرار رہے ، چاہے مملکت سنگین معاشی مسائل میں گرفتار ہو جائے۔ اسی لیے ہر سویلین حکومت مجبور ہوتی ہے کہ وہ جرنیلوں کو حسب منشا فنڈز مہیا کرتی رہے۔
شاہانہ طرز زندگی:
ارجنٹائن کے سیاست دانوں، سرکاری افسروں اور ججوں نے بھی شاہانہ طرز زندگی اختیار کرلیا ہے۔وہ بھاری تنخواہیں پاتے ہیں ۔ پھر ہر حکومت بڑے جاگیرداروں، صنعت کاروں، تاجروں کو مراعات بھی دیتی ہے تاکہ وہ اس کی حمایت کرتے رہیں۔ غرض اس پورے حکومتی ڈھانچے کا خرچ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ یہ خرچ پورا کرنے کی خاطر حکمران طبقے نے عوام پہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا۔ پٹرول ، بجلی اور گیس کے بل نت نئے ٹیکس لگانے کی وجہ سے کئی گنا بڑھ گئے۔ کھانے پینے کی چیزوں پہ بھی ٹیکس لگا دئیے گئے۔ انہی ٹیکسوں نے ارجنٹائن میں مہنگائی بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ اس مملکت میں عوام ٹیکس دے دے کر حکمران طبقے کو پال رہے ہیں۔ ٹیکسوں کے بوجھ سے عام آدمی بے حال ہے جبکہ حکمران طبقہ ٹیکسوں کی رقم پاکر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے۔ عوام سے ملی رقم ہی سیاست دانوں، جرنیلوں، سرکاری افسروں اور ججوں کو اس قابل بناتی ہے کہ اپنا شاہانہ طرز زندگی قائم رکھ سکیں۔ گویا فلاحی مملکتوں کے برعکس ارجنٹائن میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ایک فلاحی مملکت میں حکمران طبقہ بیشتر حکومتی آمدن عوام کی بھلائی کے منصوبوں پہ خرچ کرتا ہے۔ جبکہ اس جنوبی امریکن ملک میں ایلیٹ طبقہ بیشتر آمدن اپنا معیار زندگی بلند سے بلند تر کرنے پہ لگا دیتا ہے۔ بقول شاعر: خرد کا نام جنوں پڑ گیا، درجنوں کا خرد، جو چاہے آپ کاحسن، کرشمہ ساز کرے۔
افسوس کہ لالچی حکمران طبقے کا پھر بھی پیٹ نہیں بھرتا اور وہ مزید دولت حاصل کرنے کے لیے سرکاری منصوبوں میں کرپشن کرتا،کک بیکس لیتا اور کمیشن کھاتا ہے۔ گویانت نئےطریقوں سے کرپشن کی جاتی ہے تاکہ سرکاری خزانے پر ڈاکا ڈالا جاسکے۔ فراڈ اور خردبرد کے واقعات بھی عام ہیں۔
اس سارے منظرنامے کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ ارکانِ حکمران طبقھ کی تنخواہیں لاکھوں پیسو( ارجنٹائنی کرنسی) میں ہیں۔ لہٰذا وہ با آسانی پٹرول، بجلی اور گیس کے بھاری بل ادا کر دیتے ہیں۔ بلکہ انھیں بہت سا پٹرول، بجلی اور گیس تو مفت ملتی ہے۔ اس لیے ٹیکس کی شرح میں اضافے، نئے ٹیکس لگنے اور ایندھن و خوراک کی قیمتیں بڑھنے سے وہ متاثر نہیں ہوتے۔ مگر عام آدمی کی آمدن تو ہزار ہا پیسو میں ہے۔ اسی باعث ٹیکسوں کے انبار اور اشیائے ضرورت کی بڑھتی قیمتوں سے وہ بہت پریشان ہے۔ اخراجات نے اسے ادھ موا کر دیا ہے۔
عام آدمی کے زخموں پہ نمک چھڑکنے کے مترادف بات یہ ہے کہ حکمران طبقہ یہ دعویٰ تو کئی بار کرتا ہے کہ سرکاری اخراجات میں کمی کر دی جائے گی مگر حقیقت میں عوام کی دی گئی رقم اپنے اللے تللوں پہ خرچ ہوتی رہتی ہے۔ سرکاری خزانے پہ شب خون مار کر قیمتی گاڑیاں، فرنیچر اور دیگر سامان خریدا جاتا ہے۔ ارکان ِ اشرافیہ اتنے بے حس اور بے ضمیر ہو چکے کہ سرکاری خزانہ اپنے اوپر بے دریغ لٹاتے ہوئے انھیں کوئی شرم نہیں آتی، الٹا وقتاً فوقتاً خود کو اصل مراعات و سہولیات میں اضافے کرتے رہتے ہیں۔
عام آدمی بے حال:
ارجنٹائن کا حکمران طبقہ مراعات میں شرابور ہے تو دوسری طرف عام ارجنٹائنی شدید مہنگائی کی وجہ سے تین کے بجائے دو وقت کی روٹی کھانے لگا ہے تاکہ اپنی آمدن کے حساب سے خرچے کرسکے۔ اس نے مہنگی غذائیں مثلاً دودھ، گوشت، انڈے کا استعمال کم کر دیا ہے۔ جن کے بچے زیادہ ہیں، وہ تو اور زیادہ معاشی مشکلات میں مبتلا ہیں۔ ان کو سمجھ نہیں آتی کہ اپنی محدود آمدن سے تمام اخراجات کیونکر پورے کیے جائیں۔ مہنگائی میں تو دن دگنا رات چوگنا اضافہ ہورہا ہے جبکہ تنخواہیں اور آمدنی منجمند ہیں۔ اسی طرح بیشتر کاروباری و تجارتی طبقھ کی آمدن بھی گھٹ رہی ہے۔
قرضوں کی نحوست:
حکمران طبقے کی کرپشن اور پھیلاؤ کے باعث حکومتی اخراجات مسلسل بڑھتے گئے۔ انھیں پورا کرنے کی خاطر حکومت مقامی اور غیر ملکی بینکوں، مالیاتی اداروں اور ملکوں سےقرضے لینے لگی۔ یہ ایک اور ظلمِ عظیم تھا جو حکمران طبقے نے اپنے مذموم مفادات پورے کرنے کے لیے بیچارے عوام پہ ڈھایا۔ وجہ یہ ہے کہ مسلسل قرضے لینے کی وجہ سے اب ریاست پر قرضوں کا انبار لد چکا۔ ان قرضوں کا صرف سود ہی اربوں پیسو میں ادا ہوتا ہے۔
یہ قرضے بھی ارجنٹائن میں مہنگائی پیدا کرنے کا اہم سبب ہیں۔ وجہ یہ کہ حکمران طبقہ اپنی آمدن بڑھانے کی خاطر ٹیکسوں پہ ٹیکس عوام پہ تھوپے جا رہا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ سود اور قرضے اتارنے کے لیے اسے رقم مل سکے۔ مگر ٹیکسوں کی زیادہ ہر ملک میں مہنگائی کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔
ارجنٹائن کی آبادی چار کروڑ چھیاسٹھ لاکھ ہے۔ اس آبادی میں صرف 10 تا 15 فیصد امیر لوگ مہنگائی سے متاثر نہیں ہیں، بقیہ 90 تا 85 فیصد باشندوں کی زندگیاں اس محترمہ نے تہ و بالا کر کے رکھ دیں۔ مہنگائی کے ہاتھں عوام اتنے تنگ آچکے کہ اب وہ آمدہ الیکشن میں انتہا پسندانہ معاشی نظریات رکھنے والے امیدوار، جاویر میلی کو کامیاب کرواسکتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر:
ستاون سالہ امیدوار، جاوید میلی اقتدار سنبھال کر پہلا حیرت انگیز اقدام یہ کرنا چاہتا ہے کہ ارجنٹائن اسٹیٹ بینک کو بند کر دے گا۔ اس کے نزدیک اسٹیٹ بینک ہی مملکت میں تمام معاشی مسائل کی جڑ ہے۔ نیز وہ چاہتا ہے کہ پیسو کی جگہ ڈالر ملکی کرنسی بن جائے۔ وہ ٹریڈ یونینوں کا سخت مخالف ہے۔ سرمایہ داری کو سوشلزم پہ ترجیح دیتا ہے۔
جاویر میلی کی خواہش ہے کہ خسارے میں چلتے سبھی سرکاری اداروں کی نجکاری کردی جائے۔ وہ وزارتیں اور سرکاری ادارے بھی کم سے کم رکھنے کا حامی ہے جو اس کی نظر میں اپنا کرنش و بے ایمانی کے گڑھ بن چکے۔ کہتا ہے کہ حکمران طبقے نے کرپشن کرنے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی خاطر ڈھیروں وزارتیں اور سرکاری ادارے تخلیق کیے ہیں۔ جاویر مگر وارتیں اور سرکاری ادارے کم کر کے حکومتی اخراجات گھٹانا چاہتا ہے۔
ارجنٹائن میں جلد صدارتی الیکشن منعقد ہوگا۔ یہ الیکشن جاویر میلی جیت گیا تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیسے حکمران طبقے کا مقابلہ کرے گا؟ ملک میں کئی عشروں سے مخصوص سیاسی خاندانوں، جرنیلوں اور افسر شاہی نے اقتدار پہ قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ سبھی سیاست داں، جرنیل اور سرکاری افسر شادی بیاہ یا کاروبار کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ لہٰذا ان کی طاقت و رسوخ کا ستون توڑنے کے لیے فوق البشر قوتیں درکار ہوں گی۔ یہ وقت ہی بتائے گا کہ جاویر میلی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لے کر فاتح ٹھہرتا ہے یا پھر حکمران طبقہ اپنی چالیں چل کر اسے کال کوٹھری میں دال دے گا۔
''عمدہ طرز حکمرانی قوانین سے زیادہ حکمران کی شخصی خوبیوں کے باعث جنم لیتی ہے۔ حکومت کی مشینری ہمیشہ حکمران کے تابع ہوتی ہے۔
لہٰذا اہم ترین بات یہ ہے کہ جس ملک میں بہترین خوبیوں والے حکمران نے اقتدار سنبھالا، وہ ہر لحاظ'' سے ترقی کرے گا۔ وہاں عوام اور خواص، دونوں خوشحال و مطمئن ہوں گے۔ چناں چہ ایک ملک کے لوگ عمدہ طرز حکمرانی چاہتے ہیں تو انھیں با صلاحیت اور قابل حکمران ہی حکومت میں لانے چاہئیں۔''
جنوبی امریکا کے دوسرے بڑے ملک، ارجنٹائن کی موجودہ معاشی، سیاسی اور معاشرتی صورتحال سے عیاں ہے کہ وہاں عوام اہل و قابل حکمران منتخب کرنے میں ناکام رہے۔
اسی لیے مملکت میں خراب طرز حکمرانی نے جنم لیا جس کی وجہ سے ارجنٹائن کئی شدید بحرانوں کا نشانہ بن چکا۔ خاص طور پہ وہاں مہنگائی کی شرح( 116 فیصد ) دنیا کے تمام بڑے ملکوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اس مہنگائی نے مملکت کے غریب اور متوسط طبقوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ حالت یہ ہوچکی کہ غریب غربا دکانیں اور شاپنگ مال لوٹ کر اپنی ضروریات پوری کرنے لگے ہیں۔
نا اہل حکمران طبقہ
ارجنٹائن کو معاشی، سیاسی اور معاشرتی طور پہ تیار و برباد کرنے میں نا اہل حکمران طبقے کا بنیادی کردار ہے جس کے مرکزی ارکان سیاست داں، جرنیل اور افسر شاہی( بیورو کریسی) ہیں۔ یہ تینوں ارکان اپنی مملکت میں عمدہ طرز حکمرانی نہیں لا سکے بلکہ اپنی بد انتظامی ، کرپشن اور لالچ و ہوس کی وجہ سے ایک ملک کو ارضی جہنم میں بدل دیا۔
میرا ڈونا اور میسی جیسے عالمی شہرت یافتہ فٹبالروں کا یہ جنوبی امریکن دیس کئی عشرے ہسپانیہ والوں کے قبضے میں رہا۔ ہسپانوی لٹیرے ملک کے قدرتی وسائل لوٹ کر اپنے ملک، اسپین لے جاتے رہے۔ آخر اٹھارہویں صدی میں ارجنٹائن قوم نے تحریک آزادی کا آغاز کر دیا، ہسپانوی استعمار سے طویل جنگ ہوئی۔ 1816ء میں انھوں نے قابضین کو نکال باہر کیا۔
بدقسمتی سے آزاد مملکت میں عوام کو حکومت نہیں ملی بلکہ اقتدار پہ جرنیل ، جاگیر دار اور امیر سیاست داں چھاگئے۔ اس طاقتور اشرافیہ نے ایسی پالیسیاں تشکیل دیں، ایسے قوانین بنائے اور ایسا حکومتی ڈھانچا وضع کیا جو ان کی حکمرانی کو طول دے سکے اور اسے مضبوط کر دے۔ گویا یہ حکومتی نظام اشرافیہ نے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر تشکیل دیا۔ اس میں عوام کی بھلائی کے پہلو کم ہی تھے۔ یہ عمل دور جدید کی اصطلاح میں'' اشرافیہ کا قبضہ''( ایلیٹ کیپچر) کہلاتا ہے۔
حکمرانوں کی خانہ جنگی :
ارجنٹائن کے ساتھ قدرت نے یہ عجب کھیل کھیلا کہ وہاں اقتدار پانے کے لیے جرنیلوں، سیاست دانوں اور افسر شاہی میں لڑائی ہونے لگی۔ کبھی جرنیل حکومت سنبھال لیتے تو کبھی سیاسی رہنما حکومت کرتے۔ یوں ارجنٹائن وقتاً فوقتاً خانہ جنگی اور لڑائی جھگڑوں کا نشانہ بنتا رہا۔ یہ ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، اس لیے خانہ جنگی کے بعد امن و چین کے دورآتے تو ان میں وہ معاشی ترقی کرجاتا۔درحقیقت بیسویں صدی کے اوائل میں اس کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہونے لگا تھا جوامیر و خوشحال تھے۔
مگر جرنیلوں، سیاست دانوں اور افسر شاہی کی باہمی لڑائیاں جاری رہیں۔ ان کی وجہ سے ارجنٹائن میں کوئی مستحکم و پائدار حکومت نہیں آسکی۔ یوں ملک زوال پذیر ہوگیا۔ یہ زوال روکنے کی خاطر جرنیلوں نے مناسب سمجھا کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں اور پس پردہ رہ کر حکومت چلانے لگیں۔
اس لیے 1983ء سے مملکت میں بطاہر سیاست داں حکومت کر رہے ہیں مگر اصل طاقت جرنیلوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ سویلین گورنمنٹ سے اپنے تمام مطالبات تسلیم کرالیتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ اعلیٰ فوجی افسروں نے اپنا جو شاہانہ اور آسائشوں سے پُر طرز زندگی تخلیق کر لیا ہے، وہ ہو صورت برقرار رہے ، چاہے مملکت سنگین معاشی مسائل میں گرفتار ہو جائے۔ اسی لیے ہر سویلین حکومت مجبور ہوتی ہے کہ وہ جرنیلوں کو حسب منشا فنڈز مہیا کرتی رہے۔
شاہانہ طرز زندگی:
ارجنٹائن کے سیاست دانوں، سرکاری افسروں اور ججوں نے بھی شاہانہ طرز زندگی اختیار کرلیا ہے۔وہ بھاری تنخواہیں پاتے ہیں ۔ پھر ہر حکومت بڑے جاگیرداروں، صنعت کاروں، تاجروں کو مراعات بھی دیتی ہے تاکہ وہ اس کی حمایت کرتے رہیں۔ غرض اس پورے حکومتی ڈھانچے کا خرچ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ یہ خرچ پورا کرنے کی خاطر حکمران طبقے نے عوام پہ ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا۔ پٹرول ، بجلی اور گیس کے بل نت نئے ٹیکس لگانے کی وجہ سے کئی گنا بڑھ گئے۔ کھانے پینے کی چیزوں پہ بھی ٹیکس لگا دئیے گئے۔ انہی ٹیکسوں نے ارجنٹائن میں مہنگائی بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
درج بالا حقائق سے آشکارا ہے کہ اس مملکت میں عوام ٹیکس دے دے کر حکمران طبقے کو پال رہے ہیں۔ ٹیکسوں کے بوجھ سے عام آدمی بے حال ہے جبکہ حکمران طبقہ ٹیکسوں کی رقم پاکر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے۔ عوام سے ملی رقم ہی سیاست دانوں، جرنیلوں، سرکاری افسروں اور ججوں کو اس قابل بناتی ہے کہ اپنا شاہانہ طرز زندگی قائم رکھ سکیں۔ گویا فلاحی مملکتوں کے برعکس ارجنٹائن میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ایک فلاحی مملکت میں حکمران طبقہ بیشتر حکومتی آمدن عوام کی بھلائی کے منصوبوں پہ خرچ کرتا ہے۔ جبکہ اس جنوبی امریکن ملک میں ایلیٹ طبقہ بیشتر آمدن اپنا معیار زندگی بلند سے بلند تر کرنے پہ لگا دیتا ہے۔ بقول شاعر: خرد کا نام جنوں پڑ گیا، درجنوں کا خرد، جو چاہے آپ کاحسن، کرشمہ ساز کرے۔
افسوس کہ لالچی حکمران طبقے کا پھر بھی پیٹ نہیں بھرتا اور وہ مزید دولت حاصل کرنے کے لیے سرکاری منصوبوں میں کرپشن کرتا،کک بیکس لیتا اور کمیشن کھاتا ہے۔ گویانت نئےطریقوں سے کرپشن کی جاتی ہے تاکہ سرکاری خزانے پر ڈاکا ڈالا جاسکے۔ فراڈ اور خردبرد کے واقعات بھی عام ہیں۔
اس سارے منظرنامے کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ ارکانِ حکمران طبقھ کی تنخواہیں لاکھوں پیسو( ارجنٹائنی کرنسی) میں ہیں۔ لہٰذا وہ با آسانی پٹرول، بجلی اور گیس کے بھاری بل ادا کر دیتے ہیں۔ بلکہ انھیں بہت سا پٹرول، بجلی اور گیس تو مفت ملتی ہے۔ اس لیے ٹیکس کی شرح میں اضافے، نئے ٹیکس لگنے اور ایندھن و خوراک کی قیمتیں بڑھنے سے وہ متاثر نہیں ہوتے۔ مگر عام آدمی کی آمدن تو ہزار ہا پیسو میں ہے۔ اسی باعث ٹیکسوں کے انبار اور اشیائے ضرورت کی بڑھتی قیمتوں سے وہ بہت پریشان ہے۔ اخراجات نے اسے ادھ موا کر دیا ہے۔
عام آدمی کے زخموں پہ نمک چھڑکنے کے مترادف بات یہ ہے کہ حکمران طبقہ یہ دعویٰ تو کئی بار کرتا ہے کہ سرکاری اخراجات میں کمی کر دی جائے گی مگر حقیقت میں عوام کی دی گئی رقم اپنے اللے تللوں پہ خرچ ہوتی رہتی ہے۔ سرکاری خزانے پہ شب خون مار کر قیمتی گاڑیاں، فرنیچر اور دیگر سامان خریدا جاتا ہے۔ ارکان ِ اشرافیہ اتنے بے حس اور بے ضمیر ہو چکے کہ سرکاری خزانہ اپنے اوپر بے دریغ لٹاتے ہوئے انھیں کوئی شرم نہیں آتی، الٹا وقتاً فوقتاً خود کو اصل مراعات و سہولیات میں اضافے کرتے رہتے ہیں۔
عام آدمی بے حال:
ارجنٹائن کا حکمران طبقہ مراعات میں شرابور ہے تو دوسری طرف عام ارجنٹائنی شدید مہنگائی کی وجہ سے تین کے بجائے دو وقت کی روٹی کھانے لگا ہے تاکہ اپنی آمدن کے حساب سے خرچے کرسکے۔ اس نے مہنگی غذائیں مثلاً دودھ، گوشت، انڈے کا استعمال کم کر دیا ہے۔ جن کے بچے زیادہ ہیں، وہ تو اور زیادہ معاشی مشکلات میں مبتلا ہیں۔ ان کو سمجھ نہیں آتی کہ اپنی محدود آمدن سے تمام اخراجات کیونکر پورے کیے جائیں۔ مہنگائی میں تو دن دگنا رات چوگنا اضافہ ہورہا ہے جبکہ تنخواہیں اور آمدنی منجمند ہیں۔ اسی طرح بیشتر کاروباری و تجارتی طبقھ کی آمدن بھی گھٹ رہی ہے۔
قرضوں کی نحوست:
حکمران طبقے کی کرپشن اور پھیلاؤ کے باعث حکومتی اخراجات مسلسل بڑھتے گئے۔ انھیں پورا کرنے کی خاطر حکومت مقامی اور غیر ملکی بینکوں، مالیاتی اداروں اور ملکوں سےقرضے لینے لگی۔ یہ ایک اور ظلمِ عظیم تھا جو حکمران طبقے نے اپنے مذموم مفادات پورے کرنے کے لیے بیچارے عوام پہ ڈھایا۔ وجہ یہ ہے کہ مسلسل قرضے لینے کی وجہ سے اب ریاست پر قرضوں کا انبار لد چکا۔ ان قرضوں کا صرف سود ہی اربوں پیسو میں ادا ہوتا ہے۔
یہ قرضے بھی ارجنٹائن میں مہنگائی پیدا کرنے کا اہم سبب ہیں۔ وجہ یہ کہ حکمران طبقہ اپنی آمدن بڑھانے کی خاطر ٹیکسوں پہ ٹیکس عوام پہ تھوپے جا رہا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ سود اور قرضے اتارنے کے لیے اسے رقم مل سکے۔ مگر ٹیکسوں کی زیادہ ہر ملک میں مہنگائی کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔
ارجنٹائن کی آبادی چار کروڑ چھیاسٹھ لاکھ ہے۔ اس آبادی میں صرف 10 تا 15 فیصد امیر لوگ مہنگائی سے متاثر نہیں ہیں، بقیہ 90 تا 85 فیصد باشندوں کی زندگیاں اس محترمہ نے تہ و بالا کر کے رکھ دیں۔ مہنگائی کے ہاتھں عوام اتنے تنگ آچکے کہ اب وہ آمدہ الیکشن میں انتہا پسندانہ معاشی نظریات رکھنے والے امیدوار، جاویر میلی کو کامیاب کرواسکتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر:
ستاون سالہ امیدوار، جاوید میلی اقتدار سنبھال کر پہلا حیرت انگیز اقدام یہ کرنا چاہتا ہے کہ ارجنٹائن اسٹیٹ بینک کو بند کر دے گا۔ اس کے نزدیک اسٹیٹ بینک ہی مملکت میں تمام معاشی مسائل کی جڑ ہے۔ نیز وہ چاہتا ہے کہ پیسو کی جگہ ڈالر ملکی کرنسی بن جائے۔ وہ ٹریڈ یونینوں کا سخت مخالف ہے۔ سرمایہ داری کو سوشلزم پہ ترجیح دیتا ہے۔
جاویر میلی کی خواہش ہے کہ خسارے میں چلتے سبھی سرکاری اداروں کی نجکاری کردی جائے۔ وہ وزارتیں اور سرکاری ادارے بھی کم سے کم رکھنے کا حامی ہے جو اس کی نظر میں اپنا کرنش و بے ایمانی کے گڑھ بن چکے۔ کہتا ہے کہ حکمران طبقے نے کرپشن کرنے اور اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی خاطر ڈھیروں وزارتیں اور سرکاری ادارے تخلیق کیے ہیں۔ جاویر مگر وارتیں اور سرکاری ادارے کم کر کے حکومتی اخراجات گھٹانا چاہتا ہے۔
ارجنٹائن میں جلد صدارتی الیکشن منعقد ہوگا۔ یہ الیکشن جاویر میلی جیت گیا تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ کیسے حکمران طبقے کا مقابلہ کرے گا؟ ملک میں کئی عشروں سے مخصوص سیاسی خاندانوں، جرنیلوں اور افسر شاہی نے اقتدار پہ قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ سبھی سیاست داں، جرنیل اور سرکاری افسر شادی بیاہ یا کاروبار کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ لہٰذا ان کی طاقت و رسوخ کا ستون توڑنے کے لیے فوق البشر قوتیں درکار ہوں گی۔ یہ وقت ہی بتائے گا کہ جاویر میلی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لے کر فاتح ٹھہرتا ہے یا پھر حکمران طبقہ اپنی چالیں چل کر اسے کال کوٹھری میں دال دے گا۔