سانحہ بابڑہہماری سیاسی تاریخ کا ایک نظرانداز مقدمہ

سانحہ بابڑہ کو گزرے پچھتر سال بیت گئے۔

سانحہ بابڑہ کو گزرے پچھتر سال بیت گئے۔ ۔ فوٹو : فائل

سانحہ بابڑہ کو پختونوں کی تاریخ میں بدترین ریاستی بربریت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، ویسے تو اس سے قبل بھی بہت سے واقعات رونما ہوئے ہیں مگر ان واقعات یا سانحات کا تعلق قیام پاکستان کے پہلے دور سے رہا یعنی وہ واقعات تحریک آزادی کے دوران انگریز سامراج کے خلاف رونما ہوئے تھے جن میں سب سے زیادہ مشہور واقعات''جلیانوالہ باغ اور '' قصہ خانی'' کا رہا ہے۔ مگر یہاں جس واقعہ کا ذکر مقصود ہے اس کا تعلق قیام پاکستان کی پہلی سالگرہ سے ہے۔

سانحہ بابڑہ کو گزرے پچھتر سال بیت گئے۔ شاید ہماری ملکی سیاسی تاریخ کی کتابوں، طالب علموں یا ہمارے ملک کے بڑے بڑے مورخین،لکھاریوں اور دانشوروں کے علم میں یہ واقعہ نہ آیا ہو یا اگر آیا بھی ہو تو اسے بیان یا رقم کرنے کی کچھ زیادہ ضرورت محسوس نہ کی گئی ہو۔

لہذا اپنی سیاسی تاریخ کو درست سمت پر ڈالنے کے لیے تاریخی حقائق کو اپنی موجودہ اور آنے والی نسلوں کے سامنے رکھنا ہمارے لئے انتہائی ضروری ہے ۔ اور یہ فیصلہ غیر جانب دار مورخین پر چھوڑتے ہیں کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے؟۔ تاہم گمراہ کن نظریات اور تاریخ قوموں کو گمراہ کر دیتی ہے ۔

قیام پاکستان کے پورے ایک سال بعد نوزائیدہ ملک کی پہلی سالگرہ چودہ اگست کے لیے پورے ملک میں تیاریاں اور سرگرمیاں جاری تھیں کہ اس سے دو دن قبل یعنی بارہ اگست1948ء کو چارسدہ کے مشہور گاوں بابڑہ کے مقام پر جمہوریت اور نظریہ پاکستان کے خلاف اس وقت کے صوبائی وزیراعلیٰ قیوم خان نے جو کھیل کھیلا ، اس بارے لکھی گئی اصل تاریخ ، تفصیل اور عینی شاہدین کے بیانات سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارا قومی اور اجتماعی حافظہ بہت کمزور ہے ہم بہت جلد بھولنے والی قوم ہیں۔ ورنہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس ملک، اس کے آئین،قانون، اداروں اور عوام کے ساتھ کیا کیا اور کیسا کیسا سلوک نہیں کیا گیا۔ ہر نئی آنے والی سول اور فوجی آمریت سمیت ایک مخصوص طبقے نے اسلام اور جمہوریت کے نام پر قائم ریاست کو کن کن نعروں اور طور طریقوں سے لوٹا؟ اور لوٹا جا رہا ہے۔

کس طرح آئین،قانون اور جمہوریت کے لباس اور نقابوں میں آئین،قانون اور جمہوریت کو اپنے پاوں تلے روندا؟ مگر ہم بھول گئے ہیں اور یہی بھول کی بیماری ہماری ذہنی،سیاسی،معاشی اور اور دیگر مسائل کی اصل بنیاد ہے۔ ہمارے تعلیمی نصاب میں بھی ہمیں تحریک آزادی کے حوالے سے اصل اور سچی تاریخ سے دور رکھا گیا ہے۔ مگر

''حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے''

جہاں تک ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ میں سانحہ بابڑہ کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ہمیں ذرا اس کے پس منظر میں جانا ہوگا۔اس وقت خدائی خدمتگار تحریک کے سالار امین جان جو واقعہ کے عینی شاہد اور احتجاجی جلوس کی نگرانی کرتے تھے، لکھتے ہیں کہ'' قیام پاکستان کے بعد جب خدائی خدمتگاروں کی حکومت (جس کا وزیراعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب تھا ) ختم کر دی اور عبدالقیوم خان نے مسلم لیگی حکومت بنائی تو چونکہ اسے صوبے کے عوام کا اعتماد حاصل نہیں تھا اور خان عبدالغفارخان کی لیڈری کے سامنے اس کا چراغ جلنا مشکل تھا۔

اس لیے اس نے خدائی خدمتگاروں کو کچلنے کا تہیہ کرلیا۔ سب سے پہلا کام اس نے یہ کیا کہ قائد اعظم جو خان برادران کو اپنانے کے خواہش مند تھے اور خان عبدالغفار خان سے ان کے مرکز عالیہ سردریاب میں ملاقات کا وعدہ بھی کر چکے تھے،انہیں یہ فریب دینے میں کامیاب ہو گیا کہ غفارخان نے ملاقات کے بہانے آپ کو اپنے گاوں میں قتل کرنے کی سازش تیار کر رکھی ہے۔ چنانچہ قائد اعظم نے فریب میںآکر اس پروگرام کو ترک کردیا۔

عبدالقیوم جانتا تھا کہ اگر غفارخان سے قائد اعظم نے کوئی سمجھوتہ کر لیا تو سرحد میں اس کے برسراقتدار آنے کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔ یہ مرحلہ ختم ہوا اور قیوم خان نے وزارت بنالی۔ پھر اسے خدشہ تھا کہ عوام کی اکثریت غفارخان کیساتھ ہے اور اس کی وزارت زیادہ دن نہیں چل سکے گی،لہذا ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خدائی خدمتگاروں کو ختم کرنے کے لیے اس نے اس جماعت کے تمام سربراہوں کو جن میں غفارخان، ڈاکٹرخان صاحب،قاضی عطااللہ خان، امیر محمد خان ہوتی اور کئی دوسرے رہنما شامل تھے۔گرفتار کر کے جیلوں میں بند کردیا۔

انہی گرفتاریوں کے خلاف ایک پرامن احتجاجی جلوس نکالنے کا فیصلہ کیا گیا ''خلاصہ کلام یہ کہ قائد اعظم اور باچاخان کے مابین دوریاں کس نے اور کیوں کر پیدا کیں؟ اس کے لیے فاروق قریشی کے تفصیلی مقدمہ کیساتھ خان قیوم ہی کی اپنی کتاب''گولڈ اینڈ گنز'' کے نئے ایڈیشن کا مطالعہ نہایت ضروری ہے ۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے جو بالکل ایک تاریخی سچائی ہے کہ خان عبدالغفار خان المعروف باچاخان خان اور ان کے ساتھیوں یعنی خدائی خدمتگاروں نے اس نئے ملک کی بنیاد رکھتے وقت اس کے بنائے گئے نقشے اور حدود پر سخت اعتراض کیا تھا کہ اس قسم کی طرز تعمیر سے یہ گھر لمبے عرصے تک محفوظ نہیں رہ سکتا (جس کا نتیجہ 24 سال بعد مشرقی پاکستان کی صورت میں نکل بھی آیا) مگر اس وقت کسی نے بھی باچاخان کی بات نہیں مانی ۔

اگرچہ خدائی خدمتگار تحریک اس وقت کانگرس کا حصہ تھی اور تقسیم کے وقت کانگرس نے بھی باچاخان کیساتھ بڑی بے وفائی کی، جس کا تفصیلی ذکر انہوں نے اپنی خودنوشت''میری زندگی اور جدوجہد'' میں کیا ہے ۔کہ ہمیں مسلم لیگ کی جانب سے سخت اور کڑوے انکار نے مجبوراً کانگرس کی جھولی میں ڈال دیا اور پھر کانگرس نے بھی تقسیم ہند کے عین موقع پر ہمارے ساتھ بہت بڑا دھوکا کیا۔ بہرحال یہ ایک الگ تفصیل کا متقاضی موضوع ہے۔ تاہم اگر کوئی جاننا چاہتا ہے تو اس حوالے سے اب ڈھیر سارا تاریخی مواد موجود ہے۔

قیام پاکستان کے ٹھیک ایک ہفتے بعد 22 اگست کو ایک خصوصی حکم نامے کے ذریعے باچاخان کی قیادت میں برسراقتدار آنے والی صوبہ سرحد میں خدائی خدمتگاروں کی بنائی ہوئی جمہوری اور آئینی حکومت (جس کے وزیراعلیٰ باچاخان کے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صاحب تھے) کو غیرآئینی اور غیرجمہوری طریقے سے چلتا کر دیا گیا اور ڈاکٹر خان صاحب کی جگہ ایک لاڈلے قیوم خان کو اس مسند پر بٹھا دیا گیا (گو کہ وہ بھی ایک زمانے میں کانگرس کے فعال رکن تھے اور اس حوالے سے ایک کتاب''گولڈ اینڈ گنز'' بھی لکھی ہے) اس کے باوجود کہ قیوم خان کے پاس صوبائی اسمبلی میں اکثریت نہیں تھی مگر اسلام، آئین اور جمہوریت کے دعوے دار نوزائیدہ ملک کی مقتدر قوتوں نے پھر بھی اس نئے تعمیر شدہ ''گھر''میں خدائی خدمتگاروں کی ایک جمہوری اور آئینی طریقے سے جیتنے اور بنانے والی اور اکثریت رکھنے والی حکومت ان سے غیرجمہوری اور غیرآئینی طریقے سے چھین کر قیوم خان کی جھولی میں ڈال دی ۔

بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ اس ملک کی اصل تاریخ سے نابلد لوگ آج بھی باچاخان اور ان کے ساتھیوں خدائی خدمتگاروں کو اس ملک کے دشمن، غدار اور تخریب کار سمجھتے ہیں اور جن قوتوں نے پہلے ہی دنوں میں اس نئے وجود میں آنے والے ملک کی بنیادوں کو کمزور اور تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے وہ اس کے مامے، چاچے، معمار، وفادار اور رکھوالے مانے جاتے ہیں۔ بقول شاعر کہ


ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

اور اس میں قصور وار ''مطالعہ پاکستان'' بنانے اور ترتیب دینے والے بھی ہیں اور وہ مورخین بھی ہیں جو مکمل جانب دار اور تصویر کا ایک ہی رخ پیش کرتے آرہے ہیں۔ نصاب پڑھانے والے تو بچارے سرکار کے ملازم اور رائج تعلیمی نصاب کے پابند ہوتے ہیں وہی کچھ پڑھائیں گے جو مطالعہ پاکستان میں لکھا گیا ہے۔

بہرحال اس کے باوجود کہ خدائی خدمتگاروں سے حکومت غیرجمہوری اور غیرآئینی طریقے سے چھین لی گئی، مگرپھر بھی جب 3 ستمبر1947ء کو خدائی خدمتگاروں کے مرکز عالیہ سردریاب چارسدہ میں جلسئہ منعقد ہوا تو اس جلسئہ میں متفقہ طور پر اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ''یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم خدائی خدمتگار ہندوستان کی تقسیم کے مخالف تھے کیونکہ ہمیں اس بات کا پورا ادراک تھا کہ ہندوستان کی تقسیم مسلمانوں کے لیے نہایت ہی مہلک اور تباہ کن ثابت ہو گی اور اس سے پاکستان اور ہندوستان دونوں کے مسلمانوں کو مالی، جانی، مذہبی اور تہذیبی نقصان پہنچے گا۔ لیکن پاکستان اب ایک حقیقت ہے اس لیے ہم پاکستان کو اپنا مادر وطن سمجھتے ہوئے اس کی تعمیر، ترقی،خوشحالی، جمہوریت،استحکام،سلامتی اور پائیداری کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

اگرچہ (ڈاکٹرخان صاحب کی حکومت کی برطرفی اور مسلم لیگی حکومت کا قیام قطعی طور پرغیرمنصفانہ اور غیرآئینی اقدام ہے لیکن پاکستان کی نوزائیدا ریاست اس وقت جس نازک صورتحال سے دوچار ہے اس کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ نئی حکومت سے تعاون کیا جائے گا اور قومی تعمیر کا جو ارادہ نئی حکومت رکھتی ہے۔

اس میں بھرپور مدد کی جائے گی اور کسی قسم کا احتجاج یا ایسی کوئی سرگرمی نہیں کی جائے گی جس سے حکومتی اُمور میں رکاوٹ پیدا ہو''۔ یہ تو سردریاب میں منعقدہ جلسئہ میں کیے گئے فیصلے تھے اس کے علاوہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی 1948ء اور اس کے بعد 1953ء میں دوسری دستور ساز اسمبلی میں باچاخان کی تقاریر اب بھی ہماری پارلیمانی تاریخ کا حصہ اور ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں انہوں نے اس نوزائیدا ریاست اور حکومت کواپنے بھرپور تعاون کا مکمل یقین دلایا تھا۔

تاہم اس تمام نیک نیتی، حب الوطنی اور اس ملک اور قوم سے بے پناہ وفاداری اور محبت کے باوجود 12اگست 1948ء کو بابڑہ چارسدہ کے مقام پر صوبائی حکومت کے وزیراعلیٰ قیوم خان نے پرامن اور عدم تشدد کے فلسفے پر مکمل کاربند خدائی خدمتگاروں کے خلاف جس قسم کی بربریت اورظلم وجبرکا مظاہرہ کیا وہ اس ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا شرم ناک باب ہے جسے نہ کوئی چھپا سکتا ہے اور نہ مٹا سکتا ہے، اور جب کبھی بھی کوئی غیرجانب دار مورخ اس ملک کی اصل اور سچی تاریخ لکھے گا وہ سانحہ بابڑہ سمیت ان تمام تلخ حقائق کو نظرانداز نہیں کر سکے گا جو ابھی تک ایک سوچھے سمجھے منصوبے کے تحت چھپائے گئے ہیں یا چھپائے جا رہے ہیں۔ مگر تاریخ بڑی بے رحم چیز ہے یہ کسی کو بھی معاف نہیں کرتی ۔

لکھ لکھ کے میرا نام مٹائے گا کہاں تک

وہ مجھ کو زمانے سے چھپائے گا کہاں تک

سانحہ بابڑہ اس ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک ایسا نظرانداز کیا ہوا مقدمہ ہے جو تاقیامت ہر آنے والے نئے سال کی12اگست کو اپنے آپ کو پیش کرے گا۔ کیونکہ اس مقدمہ کے لڑنے والے وہ ہزاروں لاکھوں لوگ اب بھی موجود ہیں جو ان شہداء کے والی وارث ہیں۔ جنہیں بڑی بے دردی اور بے رحمی سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس واقعہ کا سب سے زیادہ قابل افسوس پہلو یہ بھی ہے کہ جن لوگوں پر گولیاں برسائی گئی تھیں بعد میں ان کے ورثا سے ان کارتوسوں (میگزینز) کا تاوان بھی وصول کیا گیا تھا۔

سالار امین جان کے بقول''گولیاں مینہ کی طرح برس رہی تھیں،کشتوں کے پشتے لگ رہے تھے۔ پورے پینتالیس منٹ تک مسلسل نہتے جانبازوں پر آگ کی بارش ہوتی رہی۔

بابڑہ کسی میدان کار زار کا نقشہ پیس کر رہا تھا جہاں حد نظر تک لاشیں ہی لاشیں تھیں اور ان بے گناہ شہیدوں کا خون ندی نالیوں کی صورت بہہ رہا تھا ایک محتاط اندازے کے مطابق اس فائرنگ سے ساڑھے چھ سو افراد شہید اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے'' اس سے زیادہ تفصیل کیساتھ اس سانحے کا دل خراش ذکر اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا ذکر اب ہماری غیرجانب دار سیاسی تاریخ میں کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتا ہے۔

اس سانحہ کے حوالے سے اب بہت سے حقائق منظرعام پر آچکے ہیں اور مزید بھی آرہے ہیں کہ اس دن نئی بننے والی اسلامی جمہوری ریاست میں ایک آرڈی نینس کے ذریعے قائم ہونے والی صوبائی حکومت کے وزیراعلیٰ قیوم خان کے حکم پر تقریباً پندرہ ہزار پر مشتمل خدائی خدمتگاروں کے ایک پرامن مظاہرے پر بغیرکوئی وارننگ دیے بلا اشتعال اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ لوگوں پر دستی بم بھی پھینکے گئے جس میں سینکڑوں کی تعداد میں مرد، خواتین اور بچوں کو بڑی بے رحمی اور سفاکی سے شہید کیا گیا اور اس سے زیادہ تعداد میں لوگ زخمی ہوگئے تھے۔

اس موقع پر بعض خواتین نے فائرنگ بند کرنے کی خاطر اپنی جھولیاں پھیلائیں اور اپنے سروں پرقرآن پاک کے نسخے اٹھا رکھے تھے مگر صوبائی حکومت اس قدر سنگ دل واقع ہوئی تھی کہ اس ظلم کو جاری رکھا گیا۔ خدائی خدمتگار تحریک کے اس اجتماع پر روارکھے جانے والے اس ظلم پر اس وقت کا پریس بھی خاموش رہا اور آزاد ریاست کے مرکزی وصوبائی مسلمان حکمران بھی اندھے،گونگے اور بہرے بنے رہے ۔

یہ اسلام کے نام پر تعمیر ہونے والے اس ملک کی تاریخ کے حوالے سے حقائق پر مبنی ایک ایسا باب ہے، جو وقت آنے پر اس ملک کی تاریخ کا ناقابل فراموش سانحہ اور تعلیمی نصاب کا نظرانداز نہ کرنے والا حصہ ہوگا۔
Load Next Story