معین علی

برطانوی ٹیسٹ کرکٹ میں نمایاں کارنامے انجام دینے والے پاکستانی نژاد کھلاڑی

برطانوی ٹیسٹ کرکٹ میں نمایاں کارنامے انجام دینے والے پاکستانی نژاد کھلاڑی ۔ فوٹو : فائل

کوئی انسان نہیں جانتا کہ کاتبِ تقدیر نے مستقبل میں اس کے لیے کیا لکھ رکھا ہے ۔اور جب لکھا سامنے آئے تو بعض اوقات انسان حیران رہ جاتا ہے۔برطانوی کرکٹ ٹیم میں کھیلنے والے پاکستانی نژاد برطانوی آل راؤنڈر، معین علی کا معاملہ ہی لیجیے۔

وہ ستمبر 2021ء میں ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرڈ ہو گئے تھے۔بالکل امکان نہیں تھا کہ عمر رسیدہ ہوتے یہ چھتیس سالہ کرکٹر مذید ٹیسٹ کھیل سکیں گے۔خدا کا کرنا یہ ہوا کہ حالیہ ایشیز 2023 ء سے قبل برطانوی ٹیم کا اسپنر، جیک لیچ زخمی ہو گیا۔

چناں چہ بطور ایمرجنسی معین علی سے درخواست کی گئی کہ وہ ریٹائرمنٹ ترک کر واپس ٹیسٹ کرکٹ میں آ جائیں۔انھوں نے خوش دلی سے پیشکش قبول کر لی اور رب تعالی نے بھی نیک نیتی کا انھیں بڑا میٹھا پھل دیا کہ معین علی نے اپنا نام برطانوی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھوا لیا۔

نمایاں کارنامے

معین علی نے سب سے پہلے ایشیز کے تیسرے ٹیسٹ میں آسٹریلوی ٹیم کی دو اہم وکٹ لے کر 200 وکٹیں لینے والے تیسرے برطانوی اسپنر کا اعزاز حاصل کر لیا۔ان سے قبل صرف دو برطانوی اسپنر، ڈیرک انڈروڈ اور گریم سوان ٹیسٹ کرکٹ میں دو سو سے زائد وکٹیں لے چکے۔

اس کے بعد ایشیز کے چوتھے ٹیسٹ میں انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں تین ہزار رن مکمل کر لیے۔یوں معین علی کو برطانوی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں بطور اسپنر آل راؤنڈر 200وکٹیں لینے اور 3000رن بنانے والے پہلے کھلاڑی بننے کا اعزاز حاصل ہوا ۔

کرکٹ کے گڑھ میں اپنی صلاحیت وقابلیت کے بل بوتے پر نمایاں کارنامے دکھانے پر معین علی مبارک باد کے مستحق ہیں۔انھوں نے اپنی شاندار کامیابیوں سے اہل پاکستان کا بھی سر فخر سے بلند کر دیا کہ میرپوری (کشمیری )دادا کی اولاد ہونے کے ناتے ان کی آبائی جڑیں پاک وطن ہی میں پیوست ہیں۔وہ بھی قلبی و روحانی طور پہ پاکستانیوں سے قربت رکھتے ہیں۔

برطانوی ٹیسٹ کرکٹ میں معین علی کی بے مثال کارکردگی اس لحاظ سے بھی یادگار ہے کہ انھوں نے اسے اپنی محنت، پیہم کوششوں اور رکاوٹوں سے مردانہ وار لڑتے ہوئے انجام دیا۔والد کی آمدن زیادہ نہیں تھی، سو وہ ٹیوشنیں پڑھا کر بھی اپنے خرچے پورے کرتے رہے۔

دکھ وغم میں اہل خانہ ایک دوسرے کو سہارا دیتے۔یوں خاندان کی محبت وحمایت اور اپنے عزم و جدوجہد سے معین علی کسی حد تک معتصب برطانوی معاشرے میں اعلی مقام اور دنیاوی کامیابیاں پانے میں کامیاب رہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ معین علی پندرہ سال کی عمر سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے لگے تھے۔انھوں نے وقتاً فوقتاً عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا مگر برطانوی کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتا انھیں نظرانداز کرتے رہے۔اس بے اعتنائی سے تعصب کی بو بھی آتی ہے ۔چونکہ معین علی غیر سفید فام تھے لہذا ان کو نظرانداز کیا جاتا رہا۔

انھوں نے مگر ہمت نہ ہاری اور مسلسل کرکٹ کھیلتے رہے ورنہ اکثر کھلاڑی بددل ہو کر کھیلنا چھوڑ دیتے ہیں۔معین علی جب ستائیس سال کے ہو گئے تب انھیں بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کا موقع دیا گیا۔اگر وہ بیس اکیس سال کی عمر میں برطانوی کرکٹ ٹیم کا حصہ بن جاتے تو یقنناً آج ٹیسٹ کرکٹ میں ان کی وکٹیں اور رن کہیں زیادہ ہوتے۔

ایلیٹ کلب

معین علی سے قبل ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں صرف پندرہ آل راؤنڈر 200سے زائد وکٹیں اور3000ہزار سے زیادہ رن بنانے کا اعزاز رکھتے ہیں۔



معین علی نے منشائے الہی سے ریٹائرمنٹ سے نکل کر یہ کارنامہ کر دکھایا ۔یوں وہ اِس ایلیٹ کلب میں شامل ہونے والے سولہویں آل راؤنڈر بن گئے جس میں نامی گرامی کھلاڑی موجود ہیں۔اس ایلیٹ کلب کے ارکان درج ذیل ہیں:

٭شین وارن...708 وکٹیں3154 رن

٭سٹیورٹ بروڈ...596وکٹیں 3640رن

٭روی چندرن ایشون...474وکٹیں3129 رن

٭کپیل دیو...434 وکٹیں 5248رن

٭رچرڈ ہیڈلی...431وکٹیں 3124رن

٭شان پولاک...421وکٹیں3781 رن

٭آئن بوتھم...383وکٹیں5200 رن


٭عمران خان ...362وکٹیں 3807رن

٭ڈئینل ویٹوری...362وکٹیں4531 رن

٭چمندا واس...355وکٹیں3089 رن

٭جیکوئس کیلاس...292 وکٹیں 13289رن

٭گیری سوبرز...235وکٹیں8032 رن

٭شکیب الحسن...233وکٹیں 4454رن

٭اینڈریو فلنٹوف ...226وکٹیں3845 رن

٭کرس کینز...218وکٹیں3320 رن

٭معین علی ...204وکٹیں 3094 رن

یہ عین ممکن تھا کہ درج بالا ایلیٹ کلب میں پاکستان کے ممتاز کرکٹر وسیم اکرم بھی شامل ہوتے۔ مگر صرف 102رن کی کمی سے وہ اس منفرد کلب کا حصہ نہیں بن سکے۔انھوں نے ایک سو چار ٹیسٹ کھیل کر 2,898 رن بنائے۔ٹیسٹوں میں ان کی وکٹوں کی تعداد 414 رہی۔وسیم اگر دو تین ٹیسٹ مذید کھیل کر تین ہزار رن مکمل کر لیتے تو آج سّکہ بند آل راؤنڈر کہلاتے اور درج بالا ایلیٹ کلب کا حصہ ہوتے۔

آسٹریلیا کے متوفی بلے باز اور مشہور ٹی وی مبصر، رچی بینیو بھی اپنے وقت کے عمدہ آل راؤنڈر تھے۔انھوں نے 1952ء تا 1964ء کے عرصے میں 63 ٹیسٹ کھیل کر 248 وکٹیں لی تھیں اور 2201رن بنائے تھے۔

گویا انھیں کرکٹ کا پہلا نمایاں آل راؤنڈر کہا جا سکتا ہے۔( گیری سوبرز نے ان کے بعد 1954ء سے کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا تھا۔)رچی کو زخمی ہونے کی وجہ سے کرکٹ چھوڑنا پڑی تھی۔اگر وہ مذید بیس پچیس ٹیسٹ کھیل لیتے تو تین ہزار بنا کر آل رائنڈروں کے ایلیٹ کلب کا حصہ بن جاتے۔

اس ایلیٹ کلب میں برطانوی کھلاڑی سب سے زیادہ ہیں یعنی چار!پھر نیوزی لینڈ کا نمبر آتا ہے جس کے تین آل راؤنڈر اس کلب میں شامل ہیں۔بھارت اور جنوبی افریقا کے دو دو اور آسٹریلیا، پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ایک ایک آل راؤنڈر اس منفرد کلب میں شامل ہوئے۔

اعدادوشمار کی رو سے شین وارن بالنگ میں سب سے کامیاب آل راؤنڈر ہیں۔جبکہ جیکوئس کیلاس اور گیری سوبرز نے بیٹنگ میں کمالات دکھائے۔جیکوئس کیلاس ٹیسٹ کرکٹ میں تیسرے سب سے زیادہ رن بنانے والے بلے باز ہیں۔دوسرے نمبر پہ فائز آسٹریلوی رکی پونٹنگ کے ان سے صرف 87 رن زیادہ ہیں۔گویا جیکوئس ایک دو ٹیسٹ مذید کھیل لیتے تو پونٹنگ کو پیچھے چھوڑ جاتے۔

مستبقل میں بھارت کے آل راؤنڈر، رویندر جدیجا بھی اس ایلیٹ کلب میں شامل ہو سکتے ہیں۔ان کی عمر ابھی چونتیس سال ہے۔رویندر نے 65 ٹیسٹ کھیل کر268 وکٹیں لے رکھی ہیں۔جبکہ 2,706 رن بنائے ہیں۔وہ ابھی دو تین سال مذید ٹیسٹ کرکٹ کھیل سکتے ہیں۔امید ہے کہ مذید 294 رن بنا کر رویندر بھی آل راؤنڈروں کے ایلیٹ کلب کا حصہ بن جائیں گے۔

فرش سے عرش تک

معین منیر علی 18 جون 1987ء کو برمھنگم میں پیدا ہوئے۔آپ کے دادا میرپور آزاد کشمیر سے برطانیہ آئے تھے۔وہاں انھوں نے بیٹی کوکس نامی انگریز خاتون سے شادی کر لی۔بعد ازاں جوڑا میر پور منتقل ہو گیا۔تب تک ان کے ہاں دو بیٹے، منیر اور شبیر علی جنم لے چکے تھے۔بیٹی کوکس نئے ماحول سے ہم آہنگ نہ ہو سکی اور بیٹوں کو لیے واپس برطانیہ چلی آئی۔

منیر علی نے سائکیٹرک نرس بننے کی تربیت پائی۔دونوں بھائیوں کو کرکٹ کا کھیل بہت پسند تھا۔انھوں نے اپنے بیٹوں کو بھی یہ کھیل کھیلنے پر ابھارا تاکہ وہ نامی کھلاڑی بن سکیں۔انھوں نے بیٹوں کی ہر ممکن مدد کی۔مثلاً دونوں بھائی مرغیاں خریدتے، گھر گھر جا کر بیچتے اور یوں آمدن بڑھا لیتے۔زائد رقم پھر کرکٹ کے بلے، گیندیں اور دیگر سازسامان خریدنے میں کام آتی۔

اکثر ایسا ہوتا کہ تمام اخراجات کے بعد کھانے پینے کی خاطر بہت کم رقم بچتی۔ تب صرف ڈبل روٹی کھا کر گذارا ہوتا۔کبھی بچوں کو اپنی ٹیموں کی جانب سے جو لنچ ملتا، وہ اسے والدین کو دے دیتے۔اس طرح والدین اور بچوں، دونوں ایک دوسرے کے لیے قربانی دیتے اور مدد کرتے پروان چڑھے۔

منیر اور شبیر کے تمام بیٹے فرسٹ کلاس کرکٹ کی سطح تک پہنچے مگر ان میں سب سے زیادہ کامیاب معین علی ہی رہے۔انھوں نے نہ صرف برطانوی قومی ٹیم میں جگہ بنائی بلکہ اپنی شاندار کارکردگی سے کئی میچ جتوا کر اپنی قوم کو خوش کر دیا۔آج ان کا شمار برطانیہ کے نامی گرامی اسپنروں اور آل راؤنڈروں میں ہوتا ہے۔معین ایک روزہ کرکٹ میں 99وکٹیں لے چکے۔یوں محض ایک وکٹ پا کر وہ وکٹوں کی اپنی سنچری مکمل کر لیں گے۔

2016ء میں معین نے قومی ٹیم کے ہمراہ بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔وہیں ان کی ملاقات ایک بنگلہ دیشی لڑکی، فیروزہ حسین سے ہوئی۔یہ ملاقات جلد محبت میں بدل گئی۔تاہم والدین کے سلسلہ جنبانی ہی سے ان کی شادی ہوئی۔آج یہ جوڑا دو پیارے سے بچوں ، ابوبکر اور ہادیہ کے فخرمند ماں باپ ہیں۔

منیر علی بتاتے ہیں کہ جب معین خاصے مذہبی ہو گئے اور انھوں نے لمبی سے ڈاڑھی رکھ لی تو وہ پریشان ہو گئے۔انھیں محسوس ہوا کہ کہیں بیٹا انتہا پسند نہ ہو جائے۔ مگر بیٹے نے باپ کو یقین دلایا کہ وہ اعتدال پسند مسلم ہے۔بعد ازاں منیر علی نے جانا کہ اسلامی تعلیمات نے معین کے کردار کو نکھار سنوار دیا ہے۔وہ کہتے ہیں:

''میرے تمام بیٹے فرماں بردار اور نیک ہیں۔یہ مسّرت کی بات ہے کہ شہرت، دولت اور عزت پا کر وہ آپے سے باہر نہیں ہوئے۔ان کا دماغ آسمان پہ نہیں پہنچا بلکہ وہ پہلے کی طرح عاجز اور منکسر مزاج ہیں۔خواہ مخواہ کے تکبر و بڑائی میں مبتلا نہیں جو اچھّوں اچھّوں کو بگاڑ کر ان سے نامعقول کام کراتی ہے۔''
Load Next Story