الفریڈ نیومینمیوسیقی کی دنیا کا ’گاڈ فادر‘

 9 بار آسکر جیتنے والے امریکی موسیقار کی دھنوں کا ایک زمانہ معترف ہے

 9 بار آسکر جیتنے والے امریکی موسیقار کی دھنوں کا ایک زمانہ معترف ہے ۔ فوٹو : فائل

موسیقی کو روح کی غذا کہا جاتا ہے لیکن موسیقی وہی روح کی غذا کہلائے گی، جو قلب و روح میں گوندھی ہو، بصورت دیگر یہ آوازوں اور سازوں کے شورشرابے سے زیادہ کچھ نہیں تصور ہو گی۔ موسیقی میں اگرچہ لکھاری اور آواز کی اہمیت سے انکار نہیں کیا لیکن جو چیز روح کو چھو لے، وہ اس کی لے، دھن اور سُر ہے۔ اور اس دھن اور سُر کو ترتیب دینے والے کو موسیقار کہا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں عموماً موسیقی کے معیار کو جانچنے کے لئے جو پیمانہ موجود ہے، وہ ذاتی پسند ناپسند ہے، ہم صرف اسے ہی اچھی موسیقی مانتے ہیں، جس کی ہمیں سمجھ آئے یا جس کو خاص ثقافتی پس منظر میں سننے کے ہم عادی ہو چکے ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہم دراصل موسیقی نہیں سن رہے ہوتے بلکہ اپنے پسندیدہ گلوکار کو سن رہے ہوتے ہیں۔ یا پھر پہلے سے سنے ہوئے گانوں کے ذریعے کسی گزرے ہوئے اچھے یا برے وقت کو یاد کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں لیکن موسیقی ذاتی پسند ناپسند یا عادت سے کہیں اوپر ہے۔

شاعر کے کلام اور گلوکار کی آواز کے تال میل کو موسیقی کے بدرجہ کمال تک پہنچانے میں موسیقار کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ موسیقار کو عمومی طور پر انگریزی زبان میں کمپوزر کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ لفظ کمپوزر لاطینی لفظ کمپونو سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے ''ایک ساتھ رکھنا یا اکٹھا کرنا''۔ موسیقی کے پیرائے میں اس اصطلاح کا سب سے پہلے ذکر آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں معروف موسیقار تھامس مورلے کی کتاب A Plain and Easy Introduction to Practical Music (1597ئ) کے حوالے سے ملتا ہے۔ موسیقی کے اصول و ضوابط کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کمپوزر یعنی موسیقار مختلف طریقوں سے موسیقی لکھتے اور اسے منتقل کرتے ہیں۔ یہ موسیقی عام طور پر اپنی ثقافت اور روایات کے مطابق ہوتی تو اس کی مقبولیت بھی مقامی ہی ہوتی ہے لیکن موسیقی سازی میں چند موسیقار ایسے بھی گزرے ہیں۔

جن کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور الفریڈ نیومین کا شمار ایسے ہی موسیقاروں میں ہوتا ہے، جو اگرچہ اس دنیا سے کوچ کر چکے ہیں لیکن فن موسیقی میں ان کا کام اور نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ الفریڈ نیومین وہ معروف امریکی کمپوزر (موسیقار) ہیں، جنہیں اپنے کام کے آغاز سے ہی موسیقی کے ماہر کے طور پر جانا جاتا ہے، وہ فلمی موسیقی کی تاریخ میں ایک قابل احترام شخصیت کے طور پر شمار کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے 9 اکیڈمی ایوارڈز جیتے اور 45 بار اس کے لئے نامزد ہوئے، جو ایک منفرد ریکارڈ ہے کیوں کہ آج تک موسیقاری میں اتنے آسکر کسی موسیقار نے نہیں جیتے۔

چار دہائیوں سے زیادہ پر محیط کیریئر میں، نیومین نے 200 سے زیادہ موشن پکچرز کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ ان کی چند مشہور زمانہ فلموں و ڈراموں میں وتھرنگ ہائٹس، دی ہنچ بیک آف نوٹری ڈیم، دی مارک آف زورو، ہاو گرین وز مائی ویلی، دی سونگ آف برناڈیٹ، کیپٹن فرام کاسٹیل، آل اباؤٹ ایو، اناستاسیا، ہاؤ دی ویسٹ وز وون، دی گریٹسٹ سٹوری ایور ٹول وغیرہ شامل ہیں۔ انہیں 20 ویں صدی کے فاکس (Fox) کی پروڈکشن کے آغاز میں اسٹوڈیو کے لوگو کے ساتھ دھن بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ کام اور صلاحیتوں کے اعتراف میں ان کا نام واک آف فیم میں شامل ہے۔

فوکس کے ساتھ اپنی ملازمت کا آغاز کرنے سے پہلے، نیومین نے فن فیئرز بنائے۔ وہ ان پہلے موسیقاروں میں سے تھے، جنہوں نے ہالی ووڈ کے سنہری دور میں حقیقی موسیقی ترتیب دی اور اس کا انعقاد کیا، بعد میں وہ ہالی ووڈ کی تاریخ میں ایک قابل احترام اور طاقت ور میوزک ڈائریکٹر بن گئے۔ نیومین اور ان کے دو ساتھی موسیقاروں میکس سٹینر اور دیمتری تیومکن کو "فلمی موسیقی کے تین گاڈ فادرز" بھی کہا جاتا تھا۔

معروفِ زمانہ موسیقار الفریڈ نیومین 17مارچ 1900 کو امریکی ریاست کنیکٹیکٹ کے شہر نیوہیون میں پیدا ہوئے، وہ روسی یہودی جوڑے کے دس بچوں میں سب سے بڑے تھے، یہ خاندان نیومین کی پیدائش سے کچھ عرصہ قبل ہی ہجرت کرکے یہاں بسا تھا، ان کے والد مائیکل نیومین ایک کاشتکار تھے تاہم ان کی والدہ خالصتاً گھریلو خاتون تھیں۔

الفریڈ کے والد روس میں موسیقی کے شعبہ سے وابستہ تھے، جس بناء پر انہوں نے اپنے بیٹے کو بھی اسی جانب ترغیب دی اور صرف 5 برس کی عمر میں مستقبل کے لیجنڈ موسیقار کو پیانو سیکھنے کے لئے ایک استاد کے پاس بھیج دیا گیا، یہ وہ دور تھا جب یہ خاندان انتہائی مالی مشکلات کا شکار تھا لیکن اس کے باوجود مائیکل اپنے جنون سے پیچھے نہیں ہٹے بلکہ ایک بار تو وہ وقت بھی آگیا جب نیومین کے کتے کو خوراک دینا مشکل ہوگیا تو اسے فروخت کر دیا گیا۔ اس کڑی مشقت اور جنون کا صلہ یہ ملا کہ صرف 8 برس کی عمر میں الفریڈ کو مقامی طور پر پیانو کے ایک ماہر کے طور پر جانا جانے لگا، الفریڈ کی محنت شاقہ اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے معروف پیانوسٹ ایگناتسی یان پادرفسکی نے ان کے لئے نیویارک میں پروگرام کے انعقاد کا اہتمام کروا دیا۔


یوں ان کا یہ سفر چل نکلا، پھر نیومین کو مقامی سطح پر ایک مقابلہ میں حصہ لینے کا موقع ملا، جہاں انہوں نے سونے کا تمغہ جیتا، اس دوران نیومین نے موسیقی کی کمپوزیشن کا باقاعدہ مطالعہ بھی کیا۔ 12سال کی عمر کو پہنچتے ہوئے نیومین کے والدین اس قابل بھی نہیں رہے کہ وہ تن تنہا اپنے خاندان کو پال سکیں، جس کی وجہ سے الفریڈ کو کام کرنے کی شدید ضرورت محسوس ہوئی تو انہوں نے مختلف تھیٹرز اور ریسٹورنٹس میں پیانو بجانے کا کام شروع کر دیا، جہاں سے انہیں کچھ آمدن ہونے لگی، اسی دوران ایک تھیٹر میں معروف گلوکار گریس لے رو کی نظر ان پر پڑی تو انہوں نے نیومین کے ساتھ باقاعدہ ایک معاہدہ کر لیا۔

13 سال کی عمر میں انہوں نے مشہور امریکی مصنف و شاعر ایلا ویلر ولکوکس کی توجہ حاصل کر لی، جنہوں نے نیومین کو آگے بڑھنے میں بہت معاونت فراہم کی۔ نیومین کے بارے میں ایلا ویلر ولکوکس کا کہنا تھا کہ '' وہ ایک خوبصورت نظر آنے والا لڑکا ہے، شائستہ، نرم مزاج، بے نیاز اور مکمل طور پر بے ساختہ، مجھے اس میں دلچسپی صرف اس لیے نہیں ہے کہ وہ بڑے بڑے استادوں کو اپنے ہنر سے حیران کر دیتا تھا بلکہ اس لیے کہ اس کی فطرت نادر اور نہایت دلچسپ ہے۔



اس کے والد ایک غریب روسی کسان ہیں اور الفریڈ آٹھ بچوں میں سب سے بڑا ہے۔ ماں بہت خوبصورت عورت ہے اور والدین دونوں اپنی عاجزانہ حیثیت اور وسائل کی کمی کے باوجود ان کی اچھی تربیت کر رہے تھے۔ اس خاندان نے مذکورہ لڑکے کو موسیقی کی تعلیم دینے کے لیے ہر ممکن قربانی دی ہے، اور اس کے اندر شرافت کا سب سے گہرا احساس ہے۔ کامیابی کی اس کی پوری خواہش اس کی فکر پر مبنی نظر آتی ہے کہ وہ اپنے والدین کو خوش کرے اور جو کچھ انہوں نے اس کے لیے کیا ہے وہ اس کا بدلہ دے''

زندگی کی صرف 13بہاریں دیکھتے ہی نیومین نے گلوکار گریس لے رو کے ساتھ ایک پروفیشنل کی حیثیت سے شوز میں باقاعدہ حصہ لینا شروع کر دیا، جس سے نہ صرف ان کا حوصلہ بڑھا بلکہ انہیں موسیقی کی روح تک پہنچنے میں بھی مدد ملی، جس کی ایک وجہ نیومین کے ایک استاد ویلیم ڈیلے تھے، جو معروف امریکی موسیقار اور پیانوسٹ تھے۔

موسیقار جب 19برس کے ہوئے تو انہوں نے نیویارک سٹی میں کل وقتی کام کرنا شروع کر دیا، جہاں پہلے 10 برس انہوں نے اس وقت کے معروف موسیقار جارج گریشون، رچرڈ روجرز اور جیروم کیرن کے سنگم میں گزارے۔

1930ء میں لکھاری اور موسیقار ایرونگ برلن نے نیومین کو ہالی وڈ مدعو کیا، جہاں انہوں نے اسی برس اپنی پہلی فلم Reaching the Moon کے لئے موسیقی دی، یہ فلم 29دسمبر 1930ء کو ریلیز ہوئی اور شائقین میں پسندیدگی کی سند حاصل کرنے میں کامیاب رہی، اس فلم کی کامیابی کے بعد موسیقار کی زندگی میں ایک بڑا بریک تھرو آیا اور وہ راتوں رات موسیقی کی دنیا کے ستارے بن گئے، اس کام کے بعد لیجنڈ موسیقار نے 2سو سے زائد فلموں کا میوزک کمپوز کیا اور متعدد اپنے شوز منعقد کروائے۔ یوں ایک غریب کاشتکار کے بیٹے نے دنیا کو اپنے سامنے جھکا لیا۔

الفریڈ نیومین نے 14فروری 1931ء کو الزبتھ جین میکنز سے شادی کی اور 25 ستمبر 1939ء کو ان میں طلاق ہو گئی، 1940ء میں انہوں نے دوسری شادی میری لوو ڈکس سے کی لیکن یہ رشتہ بھی صرف 3برس قائم رہا اور وہ الگ ہو گئے۔ دو ناکام شادیوں کے بعد الفریڈ نے 6 نومبر 1947ء کو معروف امریکی اداکارہ مارتھا مونٹگومرے سے بیاہ رچایا اور یہ رشتے موسیقار کی وفات ( 17 فروری 1970ئ) تک قائم رہا۔ نیومین کے تین شادیوں میں مجموعی طور پر 7 بچے ہیں۔ یہاں اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ الفریڈ نیومین کی موسیقی کی دنیا میں انٹری اور ترقی نے ان کے خاندان کے لئے بھی اس شعبہ کے دروازے کھول دیئے۔

ان کے چھوٹے بھائی کمپوزر اور پیانوسٹ لیونل نیومین درجنوں فلموں، ڈراموں اور دیگر پروگرامز کا میوزک کمپوز کر چکے ہیں، ان کے دوسرے بھائی ایمل نیومین میوزک ڈائریکٹر بنے، ان کے بیٹے ڈیوڈ نیومین نے ایک سو سے زائد فلموں کا میوزک دیا، اسی طرح ان کا مزید ایک بیٹے، بیٹی، بھتیجا، دو پوتیاں بھی موسیقی کی دنیا میں اپنا نام منوانے میں کامیاب رہے۔
Load Next Story