دہشت گردی اسمگلنگ اور افغانستان
کوئی شک نہیں کہ پاکستان سے غیر ملکی کرنسی اسمگل ہورہی ہے اور یہ کافی منافع بخش کاروبار بن گیا ہے
بلوچستان کے ضلع واشک، کوئٹہ اور خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں سی ٹی ڈی کے آپریشنز کے دوران گیارہ مبینہ دہشت گرد ہلاک ہوگئے جب کہ پنجاب کے 27 اضلاع میں خفیہ آپریشنز کیے گئے، پانچ مبینہ خواتین دہشت گردوں کو گرفتار کر کے ان کے قبضہ سے اسلحہ، دھماکا خیز مواد برآمد کرلیا گیا ۔
بلاشبہ دہشت گردوں کے خلاف قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کامیاب کارروائیاں اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہمارے ادارے پر عزم ہے، درحقیقت جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت وہاں مقیم تھی اور یکساں سوچ ہونے کی وجہ سے افغان حکومت ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہی۔ پاکستان کے مختلف سرحدی علاقوں میں افغانستان میں چھپے ہوئے دہشت گردوں نے حملے کر کے پاک فوج کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے، لیکن پاک فوج کی جوابی کارروائیوں اور بروقت ردعمل نے انھیں کوئی بڑا نقصان پہنچانے سے روک دیا ہے ۔
پاکستانی مسلح افواج کے سپہ سالار واضح انداز میں اعلان کرچکے ہیں کہ وہ ہمسایہ ملک کی سرزمین پر سے ہونے والی دہشت گردی کو برداشت نہیں کریں گے اور پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ایسے حملوں کا موثر جواب دیں گی۔
پاکستان نے بھارت سے کہیں زیادہ انویسٹمنٹ افغانستان میں کی بلکہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے وہ ایسا کر رہا ہے مگر کبھی اس انویسٹمنٹ کے پیچھے یہ نقطہ نظر نہیں رہا کہ ہم نے افغانوں کو کسی کے خلاف استعمال کرنا ہے۔
کراچی کی بندرگاہوں سے اربوں کا سامان ہر سال افغانستان جاتا ہے اور اب بھی جا رہا ہے۔ پورے افغانستان میں سارا تعمیراتی کام پاکستانیوں نے کیا، یہ تو چھوٹی موٹی باتیں ہیں، ہم نے انھیں ہمیشہ اپنا سمجھا۔ بدترین حالات میں بھی جذبہ خیر سگالی کے تحت اپنے افغان بھائیوں کا ساتھ دیا، انھیں پوری دنیا نے چھوڑ دیا مگر پاکستان نے نہیں۔ روس نے جب حملہ کیا تو تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کو پناہ دی، جن میں سے زیادہ تر لوٹ کر نہیں گئے۔
اس وقت پاکستانی سرحدی علاقوں میں جو آگ لگی ہوئی ہے، اس کا واحد حل یہی ہے کہ ہم سرحد پار دہشت گردی کے تمام مراکز تباہ کر دیں۔
پاکستانی طالبان، افغان طالبان کی بی ٹیم ہی کہلاتے ہیں اس لیے افغان حکومت اور ان کے درمیان ابھی تک ایک محبت کا رشتہ موجود ہے جس کی وجہ سے ابھی تک ان کے ٹھکانے افغانستان سے ختم نہیں ہوسکے بلکہ افغان طالبان کے حکومت میں آ جانے کے بعد یہ مزید مضبوط ہوئے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے متعدد تربیتی کیمپ افغان سرزمین میں نڈر ہوکر اور بغیر کسی رکاوٹ یا دباؤ کے کام کرتے رہتے ہیں، بڑے اجتماعات کا اہتمام کرتے ہیں اورنوجوانوں کو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی تربیت دیتے ہیں۔ ان تمام شواہد سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں دہشت گردی اور منشیات اسمگلنگ پر عالمی برادری کو تشویش ہے۔
دہشت گردی اور منشیات کا ایک دوسرے سے گہرا واسطہ ہونے کے بارے میں نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا۔ منشیات کی اسمگلنگ سے بڑے پیمانے پر رقوم حاصل کرتے ہوئے دہشت گردی کے لیے وسائل پیدا کیے جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں افغانستان میں جاری رہنے والی 2 دہائیوں پر محیط امریکی جنگ میں مختلف گروپس نے اپنی بقا کے لیے جہاں دیگر جرائم جیسا کہ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور ٹیکس کی وصولی وغیرہ کا سہارا لیا، وہیں منشیات کے کاروبار اور پوست کی کاشت ان کے لیے سب سے بڑا مالی معاون ثابت ہوئی ہے۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے منشیات کا استعمال خود کش بمباروں کو تیار اور لانچ کرنے میں سامنے آیا۔ 2007 میں اس دہشت گرد گروہ نے پاکستان کے خلاف ایک ایسی جنگ کا آغاز کیا جس کا اس سے پہلے پاکستان نے سامنا نہیں کیا تھا۔ ٹی ٹی پی کی اس جنگ کا سب سے مہلک ہتھیار بڑی تعداد میں میسر آنے والے خود کش بمبار تھے۔
عالمی دہشت گردی اور عالمی سطح پر منشیات کا کاروبار بظاہر دو مختلف مگر درحقیقت باہم جڑے ہوئے جرائم ہیں، یہ دونوں ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ منشیات کا دھندہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کو ممکن بناتا ہے تو منشیات کے اسمگلرز ہتھیاروں کی غیر قانونی نقل و حرکت میں دہشت گردوں کو مدد فراہم کرتے ہیں۔
دہشت گرد گروہ منشیات فروشوں کے لیے مخالف اسمگلر گروہوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لڑنے کے لیے افرادی قوت اور ہتھیار فراہم کرتے ہیں تو دوسری طرف منشیات کے بیوپاری ان دہشت گرد گروہوں کے لڑنے والوں کو بے خوف اور احساسات سے عاری کر دینے والی ادویات فراہم کرتے ہیں۔
ان دونوں کا یہ باہمی میل ایک الگ طرح کی دہشت گردی کا باعث ہے جسے ماہرین (Narcoterror) کا نام دیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں دہشت گردوں اور منشیات فروشوں کا گٹھ جوڑ کسی بھی ریاست کے لیے سنگین خطرات کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
جریدے بلوم برگ کے مطابق پاکستان سے روزانہ لاکھوں ڈالر افغانستان میں اسمگل کیے جا رہے ہیں، اسی اسمگلنگ کی وجہ سے امریکا اور یورپ کی پابندیوں کے باوجود طالبان کی حکومت کو سہارا مل رہا ہے جب کہ پاکستان کا معاشی بحران بڑھ رہا ہے۔
غیر ملکی کرنسی کا غیر قانونی بہاؤ یہ ظاہر کرتا ہے کہ افغان طالبان کس طرح بین الاقوامی پابندیوں سے بچ رہے ہیں۔ جب کہ پاکستان کے لیے یہ زرمبادلہ ذخائر میں کمی اور روپے کی قدر میں بتدریج کمی کا باعث بن رہا ہے جب کہ معیشت تباہی کے دہانے پر آگئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سے غیر ملکی کرنسی اسمگل ہورہی ہے اور یہ کافی منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ اگست 2021 میں جب طالبان نے دو دہائیوں کے بعد کابل پر دوبارہ قبضہ کیا تو امریکا اور یورپ نے افغان مرکزی بینک کے 9 ارب ڈالر سے زیادہ کے زرمبادلہ ذخائر کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیے جانے کے خدشے کے پیش نظر منجمد کردیا تھا۔
اقوام متحدہ کے دباؤ پر امریکا نے افغان معیشت کی مدد کے لیے اس کا نصف حصہ جاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن طالبان کی جانب سے افغان خواتین پر تعلیم اور روزگار کے حوالے سے پابندی لگانے کے بعد اسے روک دیا۔
افغانستان کو روزانہ کی بنیاد پر تقریباً ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے، اندازہ ہے کہ اس میں آدھی رقم پاکستان سے جا رہی ہے۔ پاکستان میں ڈالر تلاش کرنا مشکل ہے، اس لیے پشاور جیسی جگہوں پر سرحد کے قریب گرے مارکیٹس کا استعمال کیا جاتا ہے ، جہاں پر سرکاری شرح سے 10 فیصد زیادہ پر ڈالر خریدے جاتے ہیں۔
ایسا تقریباً تمام تاجر ہی کرتے ہیں کیونکہ افغان طالبان نے پاکستانی کرنسی ملک میں واپس لانے سے منع کیا ہے، یہاں پر مسئلہ پاکستان کی ''ناقص'' امیگریشن، تجارتی پالیسیوں اور بارڈر کنٹرولز کا ہے۔ روزانہ ہزاروں لوگ بغیر ویزے کے سرحد پار کر رہے ہیں اور ان میں سے کئی ڈالر لے کر جا رہے ہیں۔ بلوچستان میں ایک ہی دن میں دو کارروائیوں کے دوران چینی کے ہزاروں تھیلوں سے بھرے 20 ٹرک پکڑے گئے ہیں۔
یہ چینی افغانستان اسمگل کی جا رہی تھی اور ایسے موقع پر پکڑی گئی ہے جب پاکستان میں چینی کی قلت ہے اور نرخوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ چینی اور قبضے میں لی جانے والی گاڑیوں کی مارکیٹ قیمت 70 کروڑ روپے کے قریب بنتی ہے۔
کم از کم 15 ٹرک ایک کارروائی میں پکڑے گئے جب کہ 5 دوسرے واقعے میں ضبط ہوئے۔کسٹم حکام کے مطابق ایک کارروائی بلوچستان اور خیبر پختونخوا بارڈر پر واقع کسٹم فیلڈ انفورسمنٹ یونٹ نے سرانجام دی۔ کسٹم یونٹ نے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے دانا سر سے آنے والے 15 ٹرکوں پر مشتمل ایک بڑے کارواں کو روک کر چینی کے 8 ہزار 260 تھیلے تحویل میں لے لیے۔ یہ چینی بغیر پرمٹ اندرون صوبہ بلوچستان اور بعدازاں سرحدی علاقوں میں بھجوائی جارہی تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس کی منزل افغانستان تھی۔دراصل افغان طالبان کے پاکستان میں موجود نظریاتی گروپس ان کی کھلے عام حمایت کرتے رہے، غیرقانونی تجارت، اسلحہ اور گاڑیوں کی اسمگلنگ، ڈرگز اور منشیات کی اسمگلنگ نے پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ کردیا۔ بھارت نے بھی ان حالات سے خوب فائدہ اٹھایا، ماضی میں بھی بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ رہا اور اب طالبان حکومت بھی بھارت سے گندم کا عطیہ وصول کرنے میں ندامت محسوس نہیں کررہی ہے۔
افغان طالبان کو ٹی ٹی پی اور داعش کے خلاف کارروائیاں تیز کرنا ہوں گی، ورنہ پاکستان اپنے دفاع کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ پاکستانی فوج کے سپہ سالار نے بھی دو ٹوک انداز میں بیان کردیا ہے کہ اگر افغانستان کی حکومت ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں کو نشانہ نہیں بناتی تو پاکستان کو مجبوراً سخت کارروائی کرنا پڑے گی۔
بلاشبہ دہشت گردوں کے خلاف قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کامیاب کارروائیاں اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہمارے ادارے پر عزم ہے، درحقیقت جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت وہاں مقیم تھی اور یکساں سوچ ہونے کی وجہ سے افغان حکومت ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہی۔ پاکستان کے مختلف سرحدی علاقوں میں افغانستان میں چھپے ہوئے دہشت گردوں نے حملے کر کے پاک فوج کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے، لیکن پاک فوج کی جوابی کارروائیوں اور بروقت ردعمل نے انھیں کوئی بڑا نقصان پہنچانے سے روک دیا ہے ۔
پاکستانی مسلح افواج کے سپہ سالار واضح انداز میں اعلان کرچکے ہیں کہ وہ ہمسایہ ملک کی سرزمین پر سے ہونے والی دہشت گردی کو برداشت نہیں کریں گے اور پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ایسے حملوں کا موثر جواب دیں گی۔
پاکستان نے بھارت سے کہیں زیادہ انویسٹمنٹ افغانستان میں کی بلکہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے وہ ایسا کر رہا ہے مگر کبھی اس انویسٹمنٹ کے پیچھے یہ نقطہ نظر نہیں رہا کہ ہم نے افغانوں کو کسی کے خلاف استعمال کرنا ہے۔
کراچی کی بندرگاہوں سے اربوں کا سامان ہر سال افغانستان جاتا ہے اور اب بھی جا رہا ہے۔ پورے افغانستان میں سارا تعمیراتی کام پاکستانیوں نے کیا، یہ تو چھوٹی موٹی باتیں ہیں، ہم نے انھیں ہمیشہ اپنا سمجھا۔ بدترین حالات میں بھی جذبہ خیر سگالی کے تحت اپنے افغان بھائیوں کا ساتھ دیا، انھیں پوری دنیا نے چھوڑ دیا مگر پاکستان نے نہیں۔ روس نے جب حملہ کیا تو تیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کو پناہ دی، جن میں سے زیادہ تر لوٹ کر نہیں گئے۔
اس وقت پاکستانی سرحدی علاقوں میں جو آگ لگی ہوئی ہے، اس کا واحد حل یہی ہے کہ ہم سرحد پار دہشت گردی کے تمام مراکز تباہ کر دیں۔
پاکستانی طالبان، افغان طالبان کی بی ٹیم ہی کہلاتے ہیں اس لیے افغان حکومت اور ان کے درمیان ابھی تک ایک محبت کا رشتہ موجود ہے جس کی وجہ سے ابھی تک ان کے ٹھکانے افغانستان سے ختم نہیں ہوسکے بلکہ افغان طالبان کے حکومت میں آ جانے کے بعد یہ مزید مضبوط ہوئے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے متعدد تربیتی کیمپ افغان سرزمین میں نڈر ہوکر اور بغیر کسی رکاوٹ یا دباؤ کے کام کرتے رہتے ہیں، بڑے اجتماعات کا اہتمام کرتے ہیں اورنوجوانوں کو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی تربیت دیتے ہیں۔ ان تمام شواہد سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں دہشت گردی اور منشیات اسمگلنگ پر عالمی برادری کو تشویش ہے۔
دہشت گردی اور منشیات کا ایک دوسرے سے گہرا واسطہ ہونے کے بارے میں نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا۔ منشیات کی اسمگلنگ سے بڑے پیمانے پر رقوم حاصل کرتے ہوئے دہشت گردی کے لیے وسائل پیدا کیے جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں افغانستان میں جاری رہنے والی 2 دہائیوں پر محیط امریکی جنگ میں مختلف گروپس نے اپنی بقا کے لیے جہاں دیگر جرائم جیسا کہ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور ٹیکس کی وصولی وغیرہ کا سہارا لیا، وہیں منشیات کے کاروبار اور پوست کی کاشت ان کے لیے سب سے بڑا مالی معاون ثابت ہوئی ہے۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے منشیات کا استعمال خود کش بمباروں کو تیار اور لانچ کرنے میں سامنے آیا۔ 2007 میں اس دہشت گرد گروہ نے پاکستان کے خلاف ایک ایسی جنگ کا آغاز کیا جس کا اس سے پہلے پاکستان نے سامنا نہیں کیا تھا۔ ٹی ٹی پی کی اس جنگ کا سب سے مہلک ہتھیار بڑی تعداد میں میسر آنے والے خود کش بمبار تھے۔
عالمی دہشت گردی اور عالمی سطح پر منشیات کا کاروبار بظاہر دو مختلف مگر درحقیقت باہم جڑے ہوئے جرائم ہیں، یہ دونوں ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ منشیات کا دھندہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کو ممکن بناتا ہے تو منشیات کے اسمگلرز ہتھیاروں کی غیر قانونی نقل و حرکت میں دہشت گردوں کو مدد فراہم کرتے ہیں۔
دہشت گرد گروہ منشیات فروشوں کے لیے مخالف اسمگلر گروہوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لڑنے کے لیے افرادی قوت اور ہتھیار فراہم کرتے ہیں تو دوسری طرف منشیات کے بیوپاری ان دہشت گرد گروہوں کے لڑنے والوں کو بے خوف اور احساسات سے عاری کر دینے والی ادویات فراہم کرتے ہیں۔
ان دونوں کا یہ باہمی میل ایک الگ طرح کی دہشت گردی کا باعث ہے جسے ماہرین (Narcoterror) کا نام دیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں دہشت گردوں اور منشیات فروشوں کا گٹھ جوڑ کسی بھی ریاست کے لیے سنگین خطرات کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔
جریدے بلوم برگ کے مطابق پاکستان سے روزانہ لاکھوں ڈالر افغانستان میں اسمگل کیے جا رہے ہیں، اسی اسمگلنگ کی وجہ سے امریکا اور یورپ کی پابندیوں کے باوجود طالبان کی حکومت کو سہارا مل رہا ہے جب کہ پاکستان کا معاشی بحران بڑھ رہا ہے۔
غیر ملکی کرنسی کا غیر قانونی بہاؤ یہ ظاہر کرتا ہے کہ افغان طالبان کس طرح بین الاقوامی پابندیوں سے بچ رہے ہیں۔ جب کہ پاکستان کے لیے یہ زرمبادلہ ذخائر میں کمی اور روپے کی قدر میں بتدریج کمی کا باعث بن رہا ہے جب کہ معیشت تباہی کے دہانے پر آگئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سے غیر ملکی کرنسی اسمگل ہورہی ہے اور یہ کافی منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ اگست 2021 میں جب طالبان نے دو دہائیوں کے بعد کابل پر دوبارہ قبضہ کیا تو امریکا اور یورپ نے افغان مرکزی بینک کے 9 ارب ڈالر سے زیادہ کے زرمبادلہ ذخائر کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیے جانے کے خدشے کے پیش نظر منجمد کردیا تھا۔
اقوام متحدہ کے دباؤ پر امریکا نے افغان معیشت کی مدد کے لیے اس کا نصف حصہ جاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن طالبان کی جانب سے افغان خواتین پر تعلیم اور روزگار کے حوالے سے پابندی لگانے کے بعد اسے روک دیا۔
افغانستان کو روزانہ کی بنیاد پر تقریباً ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے، اندازہ ہے کہ اس میں آدھی رقم پاکستان سے جا رہی ہے۔ پاکستان میں ڈالر تلاش کرنا مشکل ہے، اس لیے پشاور جیسی جگہوں پر سرحد کے قریب گرے مارکیٹس کا استعمال کیا جاتا ہے ، جہاں پر سرکاری شرح سے 10 فیصد زیادہ پر ڈالر خریدے جاتے ہیں۔
ایسا تقریباً تمام تاجر ہی کرتے ہیں کیونکہ افغان طالبان نے پاکستانی کرنسی ملک میں واپس لانے سے منع کیا ہے، یہاں پر مسئلہ پاکستان کی ''ناقص'' امیگریشن، تجارتی پالیسیوں اور بارڈر کنٹرولز کا ہے۔ روزانہ ہزاروں لوگ بغیر ویزے کے سرحد پار کر رہے ہیں اور ان میں سے کئی ڈالر لے کر جا رہے ہیں۔ بلوچستان میں ایک ہی دن میں دو کارروائیوں کے دوران چینی کے ہزاروں تھیلوں سے بھرے 20 ٹرک پکڑے گئے ہیں۔
یہ چینی افغانستان اسمگل کی جا رہی تھی اور ایسے موقع پر پکڑی گئی ہے جب پاکستان میں چینی کی قلت ہے اور نرخوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ چینی اور قبضے میں لی جانے والی گاڑیوں کی مارکیٹ قیمت 70 کروڑ روپے کے قریب بنتی ہے۔
کم از کم 15 ٹرک ایک کارروائی میں پکڑے گئے جب کہ 5 دوسرے واقعے میں ضبط ہوئے۔کسٹم حکام کے مطابق ایک کارروائی بلوچستان اور خیبر پختونخوا بارڈر پر واقع کسٹم فیلڈ انفورسمنٹ یونٹ نے سرانجام دی۔ کسٹم یونٹ نے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے دانا سر سے آنے والے 15 ٹرکوں پر مشتمل ایک بڑے کارواں کو روک کر چینی کے 8 ہزار 260 تھیلے تحویل میں لے لیے۔ یہ چینی بغیر پرمٹ اندرون صوبہ بلوچستان اور بعدازاں سرحدی علاقوں میں بھجوائی جارہی تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس کی منزل افغانستان تھی۔دراصل افغان طالبان کے پاکستان میں موجود نظریاتی گروپس ان کی کھلے عام حمایت کرتے رہے، غیرقانونی تجارت، اسلحہ اور گاڑیوں کی اسمگلنگ، ڈرگز اور منشیات کی اسمگلنگ نے پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ کردیا۔ بھارت نے بھی ان حالات سے خوب فائدہ اٹھایا، ماضی میں بھی بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ رہا اور اب طالبان حکومت بھی بھارت سے گندم کا عطیہ وصول کرنے میں ندامت محسوس نہیں کررہی ہے۔
افغان طالبان کو ٹی ٹی پی اور داعش کے خلاف کارروائیاں تیز کرنا ہوں گی، ورنہ پاکستان اپنے دفاع کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ پاکستانی فوج کے سپہ سالار نے بھی دو ٹوک انداز میں بیان کردیا ہے کہ اگر افغانستان کی حکومت ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں کو نشانہ نہیں بناتی تو پاکستان کو مجبوراً سخت کارروائی کرنا پڑے گی۔