جے شاہ ذمہ دار ہیں

پی سی بی نے یو اے ای کو بطور متبادل وینیو پیش کیا لیکن پھر بی سی سی آئی نے شور مچا دیا کہ گرمی بہت ہے

پی سی بی نے یو اے ای کو بطور متبادل وینیو پیش کیا لیکن پھر بی سی سی آئی نے شور مچا دیا کہ گرمی بہت ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

میری طرح آپ میں سے بھی کئی لوگ بچپن میں محکمہ موسمیات کی پیشگوئیوں کا مذاق اڑاتے ہوں گے، جس دن وہ کہتے آج بارش ہو گی تب تیز دھوپ نکلی ہوتی، جب کہا جاتا کہ آج آسمان صاف رہے گا تو ابر رحمت برسنے لگتی، البتہ پھر حالات تبدیل ہوئے، اب دنیا بھر ایک ہی جگہ سے موسم کا حال بتایا جاتا ہے۔

آپ اپنے موبائل پر سرچ کریں دنیا کے کسی بھی ملک میں کب کیسا موسم رہے گا قریب ترین پیشگوئی سامنے آ جاتی ہے،ایسے میں آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھ رہا ہو گا کہ پھر وہ کون ''عقلمند'' تھا جس نے سری لنکا میں ان دنوں ایشیا کپ کرانے کا فیصلہ کیا، پاکستان اس ایونٹ کا میزبان ہے، بھارت نے حسب توقع رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے دورے سے انکار کیا تو ہائبرڈ ماڈل سامنے لایا گیا۔

پی سی بی نے یو اے ای کو بطور متبادل وینیو پیش کیا لیکن پھر بی سی سی آئی نے شور مچا دیا کہ گرمی بہت ہے، ہمارے کھلاڑی انجرڈ نہ ہو جائیں، انھوں نے سری لنکا میں انعقاد پر زور دیا، جے شاہ ایشین کرکٹ کونسل کے بھی سربراہ ہیں،انھوں نے پی سی بی پر دباؤ ڈالتے ہوئے میچز سری لنکن گراؤنڈز میں منتقل کرا لیے، ظاہر ہے دیگر بورڈز کی کہاں اتنی ہمت کہ وہ بھارت کے سامنے آواز اٹھاتے، سری لنکا تو خوش ہوا کہ دیوالیہ معیشت کو ڈالرز سے کچھ سہارا ملے گا،البتہ اس میں نقصان کرکٹ کا ہو رہا ہے۔

بھارت2021 کی آئی پی ایل ستمبر ،اکتوبر میں یو اے ای میں ہی کرا چکا، نیوزی لینڈ نے حال ہی میں وہاں میزبان سے سیریز کھیلی،گورے تو ویسے ہی گرمی سے بے حال ہو جاتے ہیں مگر کوئی کیوی کرکٹر انجرڈ نہیں ہوا، چلیں مان لیتے ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے کرکٹ میں فرق ہوتا ہے، ایسے میں میچز تھوڑی تاخیر سے شروع کیے جا سکتے تھے، ایشیائی ممالک کا موسم تو ویسے ہی گرم رہتا ہے، ہمارے کھلاڑی تو اس کے عادی ہیں،دراصل اس کے پیچھے بھارتی توہم پرستی بھی ہے، انھیں ''حساب کتاب'' سے پتا چلا کہ دبئی میں ابھی میچز کھیلنا نیک شگون نہیں ہوگا، پاکستان سے ہارنے کا امکان زیادہ ہے۔

یو اے ای میں روایتی حریف سے دو گذشتہ شکستیں بھی ذہن میں تھیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ گرین شرٹس اماراتی پچز کے چیمپئن ہیں، وہاں انھیں ہرانا آسان نہیں ہوتا،البتہ جتنا ایڈوانٹیج پاکستان کو ملتا اتنا ہی دیگر کے حصے میں بھی آتا، سب سے بڑی بات اسٹیڈیمز بھرے ہوتے خصوصا پاک بھارت میچ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی، سری لنکا میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ روایتی حریفوں کے مقابلے میں کافی حد تک اسٹیڈیم خالی تھا،بہت سے لوگوں نے پہلے ہی موسم کی رپورٹس دیکھ کر سفری پلان نہیں بنایا۔

وہ جانتے تھے کہ بارشیں ہوں گی اور بعد میں درست بھی ثابت ہوئے،بھارت شکست کے ڈر سے یو اے ای نہیں گیا لیکن اگر موسم مداخلت نہ کرتا تو پالے کیلی میں بھی پاکستان نے کافی حد تک اسے قابو کر ہی لیا تھا، کھیل میں ہار جیت تو ہوتی ہی ہے ڈرنے سے کیا فائدہ ہوگا، اصل نقصان ان کروڑوں شائقین کا ہوا جو گھنٹوں ٹی وی اسکرین کے سامنے کھیل دیکھنے کیلیے بیٹھے رہے،انھیں بار بار بارش کی وجہ سے مقابلہ رکنے کی کوفت سے گذرنا پڑا۔


اس معاملے پر نجم سیٹھی بھی سوشل میڈیا پر کافی تنقید کر رہے ہیں حالانکہ انھیں اسی وقت یہ سوال اٹھانا چاہیے تھا کہ بارش میں کرکٹ کیسے ہوگی؟ وہ شیڈول سے اتفاق نہیں کرتے اور یو ایای پر زور دیتے رہتے، اب ٹوئٹس سے کیا ملے گا؟ جب وقت تھا تب انھوں نے کچھ نہیں کیا، آج تو 10 ستمبر کے ممکنہ پاک بھارت میچ والے دن کولمبو کے موسم کی رپورٹ بھی انھوں نے شیئر کی جس میں بارش کا امکان ظاہر کیا گیا ہے، کاش وہ اپنے دور اقتدار میں جے شاہ کو بھی اسے دکھا دیتے۔

ہم اس معاملے میں ذکا اشرف کو قصوروار قرار نہیں دے سکتے کیونکہ انھیں ہائبرڈ ماڈل کے تحت ایشیا کپ کرانا ورثے میں ملا، اگر کوئی تبدیلی کرتے تو پی سی بی کی ساکھ متاثر ہوتی، جے شاہ کو نہ صرف پاکستانی بلکہ بھارتی شائقین بھی برا بھلا کہہ رہے ہیں،لوگ کرکٹ دیکھنا چاہتے ہیں، اگر ہارنے سے ڈرتے ہیں تو آئی سی سی اور اے سی سی ایونٹس میں بھی نہ کھیلا کریں، اب اگر ورلڈکپ میں پاکستان نے احمد آباد میں بھارتی ٹیم کو ہرا دیا تو کیا فائنل بھی کسی اور شہر منتقل کر دیں گے؟

اچھی بات یہ ہے کہ بھارتی کرکٹرز اپنے بورڈ کی طرح تنگ نظر نہیں ہیں، ہر دور میں ان کے پاکستانی کھلاڑیوں سے اچھے تعلقات رہے، فرق یہ ہے کہ پہلے فیلڈ میں غصہ دکھایا جاتا تھا باہر دوستی چلتی تھی، اب فیلڈ میں بھی گالم گلوچ سے پرہیز کیا جاتا ہے، سب ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں،بابر اعظم اور ویراٹ کوہلی جیسے اسٹارز کا اس میں اہم کردار ہے،اس طرح کے رویے دونوں ممالک کے تعلقات کی بہتری میں اہم کردار ادا کریں گے، بچے بھی ٹی وی پر میچز دیکھ کر سیکھتے ہیں۔

آپ دوستانہ رویہ دکھائیں گے تو عام لوگ بھی دوست سمجھیں گے، دشمن کی طرح پیش آئیں گے تو عوام کا رویہ بھی دشمنوں جیسا ہی ہوگا، مسئلہ کھلاڑیوں کا نہیں بھارتی بورڈ کا ہے، سیاسی بنیادوں پر تقرریاں ہوتی ہیں، اب پاکستان دشمن سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر امیت شاہ کا بیٹا جے شاہ پاکستان سے دوستی کی باتیں کرے گا تو پتا جی کا سیاسی کیریئر تو ختم ہو جائے گا ناں، اسی لیے وہ ایسے کام کرتے ہیں جس سے لوگ کہیں بیٹا باپ سے بھی آگے ہے۔

ایشیا کپ کو سیاسی معاملات کی بھینٹ چڑھا کر جے شاہ کی انا کو تسکین تو مل گئی لیکن شائقین خوشیوں کے لمحات سے محروم ہو رہے ہیں، کاش جے شاہ سری لنکا کے بجائے یو اے ای میں ہی میچزپر مان جاتے تو شائقین موسم کی رپورٹ دیکھنے کے بجائے میچ سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے، جو کچھ ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار جے شاہ ہی ہیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
Load Next Story