روایات سے جڑی منہدی

خوشی کے مواقع رنگ حنا کے بغیر ادھورے ہیں.

خوشی کے مواقع رنگ حنا کے بغیر ادھورے ہیں۔ فوٹو: فائل

منہدی قدیم زمانے سے خواتین کے بنائو سنگھار کا اہم اور لازمی حصہ ہے۔ نو عمر لڑکیوں سے لے کر عمر رسیدہ خواتین تک منہدی کا استعمال نہایت ذوق و شوق سے کرتی چلی آرہی ہیں۔ سجنے سنورنے کے اس قدرتی تحفے کو حنا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

نباتات کی دنیا میں منہدی کا اصطلاحی نام Lawsonia inermis ہے، اس کا پودا برصغیرپاک و ہند، ایران، مصر اور شمالی امریکا میں پایا جاتا ہے۔ اس کی شاخوں پرسفید، زرد یا گلابی رنگ کے پھول کھلتے ہیں۔ منہدی کا پودا گرم اور مرطوب علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ منہدی کی تیاری کے لیے اس کے پتوں اور ڈالیوں کو کاٹ کر ان کا سفوف بنایا جاتا ہے، جسے نیل ملا کر سیاہ کیا جا سکتا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں زمانہ قدیم ہی سے اس سفوف سے بال اور ہاتھ، پیر رنگے جاتے رہے ہیں۔ منہدی گرم اور خشک علاقوں میں زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ شدید گرمی میں منہدی ٹھنڈک کا احساس پہنچاتی ہے۔ منہدی کے معیار کا تعلق اس کے پتوں سے ہے۔

پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں جہاں جہاں منہدی کا استعمال کیا جاتا ہے، وہاں اسے ''حنا'' ہی کہا جاتا ہے۔ پرانے وقتوں میں منہدی تیار کرنا ایک طویل عمل تھا۔ پہلے منہدی کے پتوں کو رات بھر بھگو یا جاتا یا پھر اسے پانی کے ساتھ پیس لیا جاتا۔ اس کے بعد ا س آمیزے میںرنگ تیز کرنے کے لیے مختلف چیزوں کا اضافہ کیا جاتا، پھر اسے ہاتھوں پر لگانے کے لیے باریک تنکے یا سوئی کی مدد لی جاتی۔ یہ بہت جان جوکھم کا کام ہوتا تھا۔ اس لیے پرانے وقتوں میں ڈیزائن وغیرہ پر کوئی خاص توجہ نہ دی جاتی، بلکہ ہاتھوں پر دائرہ بنا دیا جاتا یا پھر پورے ہاتھ کو منہدی کے آمیزے سے رنگ دیا جاتا۔ تلووں اور انگلیوں پر بھی ایسا ہی کیا جاتا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس طرح ہر شے میں جدت پیدا ہوتی چلی گئی۔ بالکل اسی طرح منہدی نے بھی کون کی جدید شکل اختیار کر لی، جس کے باعث منہدی لگا نا بہت آسان ہو گیا۔

اب دن کے کسی بھی پہر منہدی لگالی جاتی ہے، پہلے بڑی بوڑھیاں کہا کرتی تھیں کہ منہدی ہمیشہ رات میں لگانی چاہیے، کیوں کہ دن میں منہدی شرماتی ہے! لیکن اب ایسا کوئی رواج نہیں رہا۔ کون کے ذریعے اب نہ صرف ہاتھوں، بلکہ کلائیوں اور بازووں پر بھی نقش ونگار بنائے جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی منہدی کی بھی نت نئی اقسام سامنے آرہی ہیں، جن میں چمک دمک، اور فائن لائن خاصی مقبول ہیں۔

برصغیر پاک وہند میں شادی کے نوقع پر ایک تقریب ''مہندی کی رات'' کے نام سے بھی موسوم ہے۔ آج کل زیادہ ترعربی، میمنی، انڈین، راجستھانی، افریقی اور پاکستانی ڈیزائن پسند کیے جا رہے ہیں۔

منہدی کا استعمال خوشی کے مواقع اور مختلف تہواروں میں کیا جانا لازمی سمجھا جاتا ہے، جیسے عید، بقرعید، شادی بیاہ وغیرہ کے علاوہ گھروں میں ہونے والی چھوٹی موٹی تقریبات کے لیے منہدی لگائی جاتی ہے۔ برصغیر پاک وہند میں شادی کے موقع پر ایک تقریب ''مہند ی کی رات'' کے نام سے بھی موسوم ہے۔ اس تقریب میں خواتین رت جگا کرتی ہیں۔۔۔ شادی کے گیت گاتی ہیں اور ایک دوسرے کو منہدی لگاتی ہیں۔ عید کے موقع پر بھی چاند رات کی رونق منہدی کے دَم سے ہے ہے۔ جب تک خواتین منہدی نہ لگا لیں، انہیں عید کا احساس ہی نہیں ہوتا۔

منہدی کا رنگ تیز کرنے کے لیے مختلف ٹوٹکے بھی آزمائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی کچھ روایات سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہیں، جیسے دُلہن کے ہاتھوں پر منہدی کا رنگ تیز آئے تو اس کا مطلب یہ قرار دیا جاتا ہے کہ اسے سسرال میں بہت زیادہ پیار ملے گا۔ بازار میں دست یاب منہدی میں رنگ تیز کرنے کے لیے لیمن پائوڈر، تیز پتی، کافی پائوڈر، پسی چینی اور آئل ملایا جاتا ہے۔ یہ سیاہ اور گہرے برائون رنگ کے پائوڈر کی منہدی کاسفوف بالوں کو رنگنے کے لیے استعمال کیا جا تا ہے۔

کون منہدی کا رنگ تیز کرنے کے لیے منہدی سوکھنے کے بعد وکس یا روئی کی مدد سے چینی ملا لیموں کا رس لگائیں۔ لونگ کو پیس کر اس کا سفوف قہوے میں ملا لیں اور روئی یاصاف کپڑے کی مدد سے سوکھ جانے والی منہدی پر لگائیں تو اس سے بھی رنگ اچھا آتا ہے۔

آج کل منہدی کے بہت سے ڈیزائن بازار میں دست یاب ہیں۔ ان میں عربی، میمنی، انڈین، راجستھانی، افریقی اور پاکستانی ڈیزائن شامل ہیں۔ ان سب میں عربی ڈیزائن سب سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ تصور کیے جاتے ہیں، کیوں کہ ان میں ڈیزائن کی مدد سے پورے ہاتھ کو بھر دیا جاتا ہے۔ عربی ڈیزائن ہتھیلی سے شروع ہو کر کلائیوں تک بنتا ہے۔ یہ ڈیزائن تہواروں کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے۔ اس قسم میں ڈائمنڈ اور ڈاٹ شیپ کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے۔

مشرق کا یہ رواج اب مغرب میں بھی مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ مغرب کی نام وَر اداکارائیں منہدی کو بطور ٹیٹو استعمال کر رہی ہیں۔ دوسرے طریقے سے ٹیٹو بنوانے سے بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے، جب کہ اس کے ذریعے بہ آسانی بنا کسی تکلیف کے مختلف نقش ونگار بنائے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story