آبادی کا ٹائم بم
جن ترقی یافتہ ملکوں کو ہم دن رات کوستے ہیں ان کی ایجادات کو بھی استعمال کرتے ہیں ...
لاہور:
اقوام متحدہ نے ایک سروے کیا ہے جس میں جائزہ لیا گیا ہے کہ 2050ء میں آبادی کا تناسب کیا ہو گا اور ہر ملک کی آبادی میں کتنا اضافہ ہو گا۔ بڑھتی ہوئی آبادی دنیا کے لیے مہیب خطرات لا رہی ہے۔ یہ آبادی کا بڑھتا ہوا ٹائم بم ہے۔ یہ خطرہ ہر خطرے سے بڑا ہے لیکن ہم بے خبر ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بھارت 2050ء تک آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ اس وقت سب سے آگے ہے۔ چینی حکومت نے اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت پالیسی اپنائی یعنی فی جوڑا ایک بچہ جس کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ بھارت کی موجودہ آبادی2050ء میں ایک ارب 50 کروڑ ہو جائے گی۔ جب کہ دنیا کی آبادی اس سال جولائی میں ساڑھے چھ ارب تک پہنچ جائے گی۔
دنیا کی آبادی اقوام متحدہ کے تخمینے کے تحت 1970ء میں چار ارب سے تھوڑی زائد تھی۔ صرف 44 سال میں اس ڈھائی ارب نفوس کا اضافہ ہو گیا۔ ایک ماہر آبادی کے مطابق اگر کسی ملک کی آبادی میں ایک فیصد سالانہ اضافہ ہوتا ہے تو اس ملک کی آبادی دوگنی ہونے کے لیے تقریباً 70 سال کا عرصہ لگے گا۔ اگر آبادی کی شرح دو فیصد اضافہ ہو تو آبادی 35 سال میں دوگنی ہو جائے گی۔ اگر یہ اضافہ تین فیصد ہو تو 23 سال اور چار فیصد سالانہ ہو تو صرف 17 سال میں اس ملک کی آبادی دوگنی ہو جائے گی۔ پاکستان نے آبادی کے اضافے میں براعظم افریقہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آبادی کو کنٹرول کرنے کی تمام حکومتی کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔
بھارت ہو یا چین دنیا کا ہر ملک بڑھتی ہوئی آبادی سے پریشان و خوفزدہ ہے۔ ہم کیونکہ ہر معاملے میں بھارت کی برابری کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اس معاملے میں بھی ہم بھارت کو پچھاڑنے کے چکر میں ہیں۔ اگر آبادی میں اضافہ ہی کسی ملک کی ترقی کی بنیاد ہو تو یورپ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ملک اپنی آبادی میں کمی کے بجائے اس میں زیادہ اضافہ کرتے۔ آبادی میں اضافہ کی بنیاد پر آپ دنیا کو فتح نہیں کر سکتے سوائے اس کہ سستی لیبر ترقی یافتہ ملکوں کو مہیا کر کے ان کے منافع میں بے پناہ اضافہ کر رہے ہیں۔
وہ اس طرح کہ ترقی یافتہ ملک اپنی صنعتیں ترقی پذیر ملکوں میں منتقل کر دیتے ہیں۔ ہماری ذہنی پسماندگی کا یہ حال ہے کہ ہمارے ہاں پولیو ورکرز کو اس لیے مارا جا رہا ہے کہ ہماری آبادی کے ایک بڑے حصے کے خیال میں پولیو قطرے تولیدی صلاحیت میں کمی کرتے ہیں۔ آج کی دنیا پر غلبہ آپ اپنی تعداد کی بنیاد پر نہیں کر سکتے۔ ماضی میں تو یہ فارمولا کارآمد تھا۔ آبادی بے شک کم ہو لیکن سائنس و ٹیکنالوجی سے مسلح ہو تو ایسی قومیں ہی دنیا پر غلبہ حاصل کر سکتی ہیں۔ اب تو ایران میں بھی خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کیا جا رہا ہے حالانکہ وہاں علماء کی حکومت ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی کا نتیجہ بے روزگاری' غربت محرومی کی شکل میں نکلتا ہے اور یہ عوامل آخر کار انتہا پسندی جنونیت دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں۔ کسی قوم کی حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی آبادی ہر طرح کی پسماندگی کا سبب بنتی ہے۔ آج ہم جس دہشت گردی کا شکار ہیں اس کا بنیادی سبب بھوک افلاس ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ کے مطابق دو سو روپے یومیہ کمانے والا شخص غریب ہے۔ ہمارے ہاں تو کروڑوں افراد کو ایک وقت کی روٹی بمشکل میسر ہے۔ جب یہ صورت حال ہو تو وہاں پر شدت پسندی جنونیت دہشت گردی پیدا نہیں ہو گی تو اور کیا ہو گا۔
یہ آبادی کا دبائو ہی ہے جس کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک کی کثیر تعداد ترقی یافتہ ممالک میں منتقل ہونا چاہتی ہے کیونکہ ان کے اپنے ملکوں میں وسائل کی کمی ہے۔ پچھلے 50 سالوں میں ترقی پذیر ممالک کی آبادی امریکا یورپ و دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں منتقل ہو رہی ہے لیکن اب یہ دروازہ بھی بند ہونے کے قریب ہے۔
ترقی یافتہ ممالک نے اپنی کم آبادی پر زیادہ وسائل خرچ کر کے سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیاد پر دنیا پر بالادستی حاصل کر لی ہے ۔
جن ترقی یافتہ ملکوں کو ہم دن رات کوستے ہیں ان کی ایجادات کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ چاہیے یہ میدان جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیار ہوں یا عام زندگی کی سہولیات۔ ایک سیل فون کو ہی لے لیں انگلی کی ایک پور کی جنبش سے پوری دنیا کھل جاتی ہے۔ ہے نا کھل جا سم سم کی عملی تفسیر۔ یہ سب چیزیں سیکولر ملکوں کے علمی اداروں میں ایجاد ہوئیں۔ یہ سب معاشرے لبرل سیکولر ہیں جس پر ہم دن رات تبرا بھیجتے ہیں۔ سیکولر کا مطلب لادینیت نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کی نظر میں سب مذاہب برابر ہیں۔ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں۔ بہرحال ہم لوگ تو الف لیلیٰ کی کہانیاں ہی پڑھتے رہ گئے مگر غیر مسلموں نے اسے حقیقت بنا دیا۔ پچھلے تین چار سو سال میں مسلم دنیا میں ایجاد کا خانہ خالی ہے۔ ہاں یاد آیا ہم نے ایک چیز ایجاد کی ہے وہ ہے خودکش بمبار۔
بات ہو رہی تھی بڑھتی آبادی کی۔ ہماری زمین جب ساڑھے چار ارب سال پہلے وجود میں آئی۔ اس پر انسانی زندگی کی ابتدا چالیس لاکھ سال پہلے ہوئی۔ اس وقت انسانی آبادی ایک کروڑ سے زائد نہیں تھی۔ اب دنیا کی آبادی 35 سال بعد دو گنا ہو جاتی ہے۔ آبادی کی اس تیز رفتار بڑھوتری کی وجہ سے 3000ء میں سطح زمین پر قدم رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچے گی۔ سطح زمین اور برفانی علاقے سمیت زمین کے ''ہر مربع کلو میٹر'' پر دو ہزار افراد ہوں گے۔۔۔۔ اسے کہتے ہیں آبادی کا ٹائم بم۔۔۔ ہم اپنی آیندہ نسلوں کے دوست ہیں یا دشمن، ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں۔
...میڈیا اور ملٹری کشیدگی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اس کا پتہ مئی کے تیسرے چوتھے ہفتے میں چلے گا۔
سیل فون:۔ 0346-4527997
اقوام متحدہ نے ایک سروے کیا ہے جس میں جائزہ لیا گیا ہے کہ 2050ء میں آبادی کا تناسب کیا ہو گا اور ہر ملک کی آبادی میں کتنا اضافہ ہو گا۔ بڑھتی ہوئی آبادی دنیا کے لیے مہیب خطرات لا رہی ہے۔ یہ آبادی کا بڑھتا ہوا ٹائم بم ہے۔ یہ خطرہ ہر خطرے سے بڑا ہے لیکن ہم بے خبر ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بھارت 2050ء تک آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک بن جائے گا۔ اس وقت سب سے آگے ہے۔ چینی حکومت نے اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت پالیسی اپنائی یعنی فی جوڑا ایک بچہ جس کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ بھارت کی موجودہ آبادی2050ء میں ایک ارب 50 کروڑ ہو جائے گی۔ جب کہ دنیا کی آبادی اس سال جولائی میں ساڑھے چھ ارب تک پہنچ جائے گی۔
دنیا کی آبادی اقوام متحدہ کے تخمینے کے تحت 1970ء میں چار ارب سے تھوڑی زائد تھی۔ صرف 44 سال میں اس ڈھائی ارب نفوس کا اضافہ ہو گیا۔ ایک ماہر آبادی کے مطابق اگر کسی ملک کی آبادی میں ایک فیصد سالانہ اضافہ ہوتا ہے تو اس ملک کی آبادی دوگنی ہونے کے لیے تقریباً 70 سال کا عرصہ لگے گا۔ اگر آبادی کی شرح دو فیصد اضافہ ہو تو آبادی 35 سال میں دوگنی ہو جائے گی۔ اگر یہ اضافہ تین فیصد ہو تو 23 سال اور چار فیصد سالانہ ہو تو صرف 17 سال میں اس ملک کی آبادی دوگنی ہو جائے گی۔ پاکستان نے آبادی کے اضافے میں براعظم افریقہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ آبادی کو کنٹرول کرنے کی تمام حکومتی کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔
بھارت ہو یا چین دنیا کا ہر ملک بڑھتی ہوئی آبادی سے پریشان و خوفزدہ ہے۔ ہم کیونکہ ہر معاملے میں بھارت کی برابری کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ اس معاملے میں بھی ہم بھارت کو پچھاڑنے کے چکر میں ہیں۔ اگر آبادی میں اضافہ ہی کسی ملک کی ترقی کی بنیاد ہو تو یورپ امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ملک اپنی آبادی میں کمی کے بجائے اس میں زیادہ اضافہ کرتے۔ آبادی میں اضافہ کی بنیاد پر آپ دنیا کو فتح نہیں کر سکتے سوائے اس کہ سستی لیبر ترقی یافتہ ملکوں کو مہیا کر کے ان کے منافع میں بے پناہ اضافہ کر رہے ہیں۔
وہ اس طرح کہ ترقی یافتہ ملک اپنی صنعتیں ترقی پذیر ملکوں میں منتقل کر دیتے ہیں۔ ہماری ذہنی پسماندگی کا یہ حال ہے کہ ہمارے ہاں پولیو ورکرز کو اس لیے مارا جا رہا ہے کہ ہماری آبادی کے ایک بڑے حصے کے خیال میں پولیو قطرے تولیدی صلاحیت میں کمی کرتے ہیں۔ آج کی دنیا پر غلبہ آپ اپنی تعداد کی بنیاد پر نہیں کر سکتے۔ ماضی میں تو یہ فارمولا کارآمد تھا۔ آبادی بے شک کم ہو لیکن سائنس و ٹیکنالوجی سے مسلح ہو تو ایسی قومیں ہی دنیا پر غلبہ حاصل کر سکتی ہیں۔ اب تو ایران میں بھی خاندانی منصوبہ بندی پر عمل کیا جا رہا ہے حالانکہ وہاں علماء کی حکومت ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی کا نتیجہ بے روزگاری' غربت محرومی کی شکل میں نکلتا ہے اور یہ عوامل آخر کار انتہا پسندی جنونیت دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں۔ کسی قوم کی حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی آبادی ہر طرح کی پسماندگی کا سبب بنتی ہے۔ آج ہم جس دہشت گردی کا شکار ہیں اس کا بنیادی سبب بھوک افلاس ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ کے مطابق دو سو روپے یومیہ کمانے والا شخص غریب ہے۔ ہمارے ہاں تو کروڑوں افراد کو ایک وقت کی روٹی بمشکل میسر ہے۔ جب یہ صورت حال ہو تو وہاں پر شدت پسندی جنونیت دہشت گردی پیدا نہیں ہو گی تو اور کیا ہو گا۔
یہ آبادی کا دبائو ہی ہے جس کے نتیجے میں ترقی پذیر ممالک کی کثیر تعداد ترقی یافتہ ممالک میں منتقل ہونا چاہتی ہے کیونکہ ان کے اپنے ملکوں میں وسائل کی کمی ہے۔ پچھلے 50 سالوں میں ترقی پذیر ممالک کی آبادی امریکا یورپ و دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں منتقل ہو رہی ہے لیکن اب یہ دروازہ بھی بند ہونے کے قریب ہے۔
ترقی یافتہ ممالک نے اپنی کم آبادی پر زیادہ وسائل خرچ کر کے سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیاد پر دنیا پر بالادستی حاصل کر لی ہے ۔
جن ترقی یافتہ ملکوں کو ہم دن رات کوستے ہیں ان کی ایجادات کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ چاہیے یہ میدان جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیار ہوں یا عام زندگی کی سہولیات۔ ایک سیل فون کو ہی لے لیں انگلی کی ایک پور کی جنبش سے پوری دنیا کھل جاتی ہے۔ ہے نا کھل جا سم سم کی عملی تفسیر۔ یہ سب چیزیں سیکولر ملکوں کے علمی اداروں میں ایجاد ہوئیں۔ یہ سب معاشرے لبرل سیکولر ہیں جس پر ہم دن رات تبرا بھیجتے ہیں۔ سیکولر کا مطلب لادینیت نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کی نظر میں سب مذاہب برابر ہیں۔ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں۔ بہرحال ہم لوگ تو الف لیلیٰ کی کہانیاں ہی پڑھتے رہ گئے مگر غیر مسلموں نے اسے حقیقت بنا دیا۔ پچھلے تین چار سو سال میں مسلم دنیا میں ایجاد کا خانہ خالی ہے۔ ہاں یاد آیا ہم نے ایک چیز ایجاد کی ہے وہ ہے خودکش بمبار۔
بات ہو رہی تھی بڑھتی آبادی کی۔ ہماری زمین جب ساڑھے چار ارب سال پہلے وجود میں آئی۔ اس پر انسانی زندگی کی ابتدا چالیس لاکھ سال پہلے ہوئی۔ اس وقت انسانی آبادی ایک کروڑ سے زائد نہیں تھی۔ اب دنیا کی آبادی 35 سال بعد دو گنا ہو جاتی ہے۔ آبادی کی اس تیز رفتار بڑھوتری کی وجہ سے 3000ء میں سطح زمین پر قدم رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچے گی۔ سطح زمین اور برفانی علاقے سمیت زمین کے ''ہر مربع کلو میٹر'' پر دو ہزار افراد ہوں گے۔۔۔۔ اسے کہتے ہیں آبادی کا ٹائم بم۔۔۔ ہم اپنی آیندہ نسلوں کے دوست ہیں یا دشمن، ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں۔
...میڈیا اور ملٹری کشیدگی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اس کا پتہ مئی کے تیسرے چوتھے ہفتے میں چلے گا۔
سیل فون:۔ 0346-4527997