یہ جو راستے ہیں جدا جدا…
زبان اردو اس ہندی یا بھاشا کی ایک شاخ ہے جو دہلی اور میرٹھ کے اطراف میں بولی جاتی تھی ...
زبان الفاظ کا ایسا مجموعہ ہے جو جذبات، محسوسات اور خیالات کے اظہار کا ذریعہ بن سکے اور جس کے ذریعے انسان اپنا مافی الضمیر دوسرے کو بتاسکے۔ یہ وہ امتیازی صلاحیت ہے جو قدرت نے صرف انسان کو عطا فرمائی، دیگر مخلوقات ارضی اس نعمت سے محروم ہیں، ماہرین لسانیات کی رائے میں انسان نے پہلے اشاروں کے ذریعے اپنے مطلب کا اظہار کرنا سیکھا، پھر اشاروں کی جگہ مفرد آوازیں استعمال ہونے لگیں اور بالآخر آوازیں مرکب ہونا شروع ہوئیں اور الفاظ وجود میں آئے، پھر الفاظ نے ایک دوسرے سے مل کر فقرے اور جملے بنائے۔ انسان کا شعور جیسے جیسے ترقی کرتا گیا اس نے آوازوں کو ملانے، الفاظ بنانے اور جملوں کو ترتیب دینے کے اصول اور قاعدے وضع کیے جس کی تکمیل رفتہ رفتہ سیکڑوں ہزاروں سال میں ہوئی۔
دنیا بھر میں بولی سمجھی اور لکھی جانیوالی زبانوں میں ایک زبان اردو بھی ہے جسے پاکستان کی قومی زبان کے طور پر اپنایا گیا۔ یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر کے ہیں، اردو میں عربی اور فارسی کے بہت سے الفاظ شامل ہیں، عربی الفاظ براہ راست شامل نہیں بلکہ عربی الفاظ جو پہلے فارسی میں شامل ہوئے، بعد میں اردو میں استعمال کیے گئے۔ اردو کی ابتدا شاعری سے ہوئی، شاعری فارسی داں لوگوں کے ہاتھ میں تھی، یہ لوگ ہندی بہت کم جانتے تھے اور سنسکرت سے بالکل ناواقف تھے، اسی وجہ سے ہونہار بچہ اپنے حقیقی والدین سے جدا ہوکر اپنے مصنوعی والدین کی آغوش میں تربیت پاتا رہا، یہ ضرور ہوا کہ فارسی کے اثر سے اردو ایک مستقل زبان کی شکل میں آج ہمارے سامنے موجود ہے۔
زبان اردو اس ہندی یا بھاشا کی ایک شاخ ہے جو دہلی اور میرٹھ کے اطراف میں بولی جاتی تھی جس کا تعلق شورسینی پراکرت سے بلاواسطہ تھا۔ بھاشا جس کو مغربی ہندی کہا جاسکتا ہے، زبان اردو کی اصل ہے۔ اردو میں ہندی الفاظ کا کثرت سے استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی ابتدا ہندی سے ہوئی۔ مسلمان بحیثیت فاتح جب ہندوستان میں آئے اور فارسی جو ان کی مادری زبان تھی ہندوستان کی شاہی زبان بن گئی اور دیسی زبان مثل خادمہ کے اپنی مالکہ زبان فارسی کی خدمت کرنے لگی، جدت پسند یا غلام ذہن طبعیتوں نے نئی زبان کی طرف رخ کیا، شاہی درباری شعراء نے اپنے آقائوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے فارسی کا بھرپور استعمال کیا۔ اٹھارہویں صدی میں اردو ہندی کے نام سے ہی جانی جاتی تھی، صرف رسم الخط کا فرق تھا، فارسی الفاظ کے اضافے کے ساتھ فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔
پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، اردو، پنجابی، سندھی سنسکرت سے ہی ماخوذ ہیں۔ پنجابی جس کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں بھی پیدا کی جاتی ہیں کہ یہ فقط ایک ''بولی'' ہے اور اس کا کوئی رسم الخط ہی موجود نہیں ہے حالانکہ پنجابی کا اصل رسم الخط ''گرمکھی'' ہے، جو شمالی انڈین گروپ کے رسم الخطوط میں سے ''گپتا'' کی ایک شاخ ''ناگری'' کی ذیلی شاخ ''دیوناگری'' سے ماخوذ ہے۔
بھارت میں اب بھی پنجابی لکھنے کے لیے ''گرمکھی'' ہی استعمال ہوتا ہے تاہم مسلمانوں نے پنجابی لکھنے کے لیے ''گرمکھی'' کے بجائے ''شاہ مکھی'' رسم الخط رائج کیا جو اس وقت پاکستان میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سندھی زبان لکھنے کے لیے بھی اٹھارہویں صدی کے آغاز تک ''خدابادی'' (دیوناگری سے ماخوذ) رسم الخط استعمال کیا جاتا تھا جسے بعد میں (عربی طرز پر) ''سندھی'' رسم الخط دیا گیا البتہ مشرقی پاکستان میں بولی جانیوالی بنگالی زبان اپنے (ناگری سے اخذ شدہ) رسم الخط پر ہی قائم رہی یا بوجوہ اسے قائم رکھا گیا۔
پاکستان کا قیام ''دوقومی نظریے'' کی بنیاد پر ہوا حالانکہ درحقیقت یہ ''دومذہبی نظریہ'' تھا اور یہاں قومیں تو بہت سی تعداد میں آباد تھیں جب کہ بڑے مذاہب دو ہی تھے، ایک ہندو اور دوسرا اسلام۔ پاکستان کی قومی زبان اردو رائج کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ یہاں پر موجود دوسری زبانوں کے سب سے زیادہ قریب تر زبان یہی تھی اور سوائے بنگالی زبان کے سبھی زبانیں ''اردو'' طرز تحریر پہلے ہی اپنا چکی تھیں، اور اگر بنگالی کا رسم الخط بھی تبدیل کردیا جاتا تو شاید ایوب خان کے لیے ملک میں انارکی کی فضا قائم کرنا مشکل ہوتا۔
اردو کی حقیقی صورت اور عہد بہ عہد تبدیلیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کا موازنہ موجودہ پنجابی سے کیا جائے تو دونوں زبانوں کی مشابہت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ دونوں ماں بیٹیاں ہیں۔ اردو زبان میں فارسی الفاظ کی کثرت سے موجودگی کے کئی اسباب ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمان جب اس ملک میں آئے تو اپنے ساتھ بہت سی نئی چیزوں کے نام لائے جن کے حروف سنسکرت یا دیسی بھاشا میں نہیں مل سکتے تھے، اس لیے فارسی الفاظ زبان میں داخل کرنا پڑے۔
البتہ پنجابی چونکہ ہندی سے ماخوذ ہے اور اردو سے پہلے ہی عام تھی، اسی لیے قدیم اردو میں پنجابی زبان کے الفاظ کثرت سے پائے جاتے ہیں، جیسے مکھ، پنکھ وغیرہ جو رفتہ رفتہ اردو میں متروک ہوتے چلے گئے۔ غالب کے شعر ''ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے...تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے''، ولی کے شعر ''کہا ہے زہر کا تاثیر اس میں... نہ چل سی کچھ مرا تدبیر اس میں''، سودا کی شاعری میں دھڑیاں، دیکھیاں وغیرہ کا استعمال جن میں بتاں، چل سی اور دیکھیاں پنجابی ہی میں استعمال ہونے والے الفاظ ہیں۔
پنجابی کے کچھ الفاظ تلفظ کی ادائیگی (Pronounciation) سے تبدیل ہوئے، ''وگاڑ'' کا ''و'' ''ب'' میں بدل کر لفظ ''بگاڑ'' وجود میں آیا، اسی طرح ''وسنا'' کا ''و'' جب ''ب'' سے بدل گیا تو لفظ ''بسنا'' بن گیا اور ''وجنا'' جو کہ پنجابی کا لفظ ہے اردو میں اس کا ''و'' ''ب'' میں بدل جانے سے یہ لفظ ''بجنا'' ہوگیا۔ اسی طرز پر کئی تراکیب میں مختلف حروف تلفظ کی ادائیگی سے دوسرے حرف میں تبدیل ہوگئے جیسے ''ویکھنا'' کا ''و'' ''د'' سے بدل کر ''دیکھنا میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
بعض الفاظ پورے کے پورے ہی، اپنی جگہ تبدیل کرنے کے ساتھ کسی حرف کی تخفیف یا آمیزش کے ساتھ تبدیل ہوگئے، جیسے ''چکڑ'' سے ''کیچڑ''، ''ہسنا'' کی ادائیگی میں ''ن'' شامل ہوا تو ''ہنسنا''، ''ٹٹنا'' میں ''و'' کے اضافے نے لفظ ''ٹوٹنا''، اسی طرح ''بھکا'' سے ''بھوکا''، ''ڈبنا'' سے ''ڈوبنا'' بن گیا، ''لوک'' ادائیگی کی تبدیلی سے ''لوگ'' بن گیا۔ اسی طرز پر بعض الفاظ میں پنجابی کا ''ہ'' اردو میں ''س'' سے بدل جانے سے جیسے ''کہیا'' سے ''کیسا''، ''چالیہ'' سے ''چالیس''، ''تیہ'' سے ''تیس''، ''سرہوں'' سے ''سرسوں'' وغیرہ وجود میں آئے۔
بعض الفاظ میں پنجابی لفظ کی ''ہ'' اردو میں ''الف'' سے بدل جاتی ہے جیسے ''ہک'' سے ''اک''، ''ہور'' سے ''اور''، اردو کی ''د'' پنجابی میں ''ت'' سے بدل جاتی ہے ''دھاگہ'' سے ''تاگہ'' وغیرہ۔ اسی طرح اردو میں استعمال ہونے والے امدادی حروف جیسے ''مانگا تانگا'' یا ''مانگے تانگے'' عام طور سے بولے جاتے ہیں مگر قواعد نویس اور اہل لغت ''تانگا'' کو بابع مہمل کہتے ہیں، اسی طرح اردو میں دیگر الفاظ ''سوچ وچار''، ''دن دیہاڑے''، ''ہلنا جلنا''، ''بھلاچنگا''، ''گوراچٹا''، ''برتن بھانڈے''۔
ان میں وچار، دیہاڑے، جلنا، چنگا، چٹا، بھانڈے وغیرہ کو عام طور پر مجہول یا بابع مہمل قرار دیا جاتا ہے، یہ ایسے الفاظ کو کہا جاتا ہے جن کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔ حالانکہ ''وچار'' کا پنجابی میں وہی مطلب ہے جو ''سوچ'' کا اردو میں، ''جلنا'' کا پنجابی میں وہی مطلب ہے جو اردو میں ''ہلنا'' کا، ''چنگا'' کا پنجابی میں وہی مطلب ہے جو اردو میں ''بھلا'' کا، ''چٹا'' کا پنجابی میں وہی مطلب ہے جو اردو میں ''گورا'' کا، ''بھانڈے'' کا پنجابی میں وہی مطلب ہے جو اردو میں ''برتن'' کا، بلکہ اردو میں استعمال ہونے والا لفظ ''برتن'' بھی پنجابی ہی کے لفظ ''ورت'' سے بنا ہے، ''ورت سے ''برت''، یا ''ورتنا'' سے ''برتنا'' وغیرہ۔
اسلام دشمن قوتوں نے اپنے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے ایسے تانے بانے تیار کیے کہ ہم تعصب اور منافرت کی دلدل میں دھنستے ہی گئے۔ انگریز کی کلوننگ کے نتیجے میں ہمیں ایسے رہنما اور اساتذہ ملے کہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والی زبانیں بولنے والے آج ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے جارہے ہیں۔ قوم پرستی کے نام پر ناخواندہ قوم کو اندھے کنوئیں میں دھکیلنے والے رہنمائوں کی تو بھرمار ہے مگر بدقسمتی سے ہمیں جوڑنے اور یکجا کرنے والا کوئی رہنما نہیں ملا۔
یہی حال ڈالر کے پجاریوں نے اپنے دین کا بھی کر ڈالا، جب اﷲ بھی ایک، رسول بھی ایک، قرآن بھی ایک تو پھر فروعی اختلافات کے نتیجے میں ایک دوسرے کے لیے نفرتیں پیدا کرنا کہاں کا انصاف ہوا۔ شاید اس بدنصیب قوم کے حصے میں وزارت پانی و بجلی کے نام پر ''وزارت فروغ منافرت'' کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جو ہمیں آدھا ملک گنوا کے بھی سمجھ نہ آسکی۔
دنیا بھر میں بولی سمجھی اور لکھی جانیوالی زبانوں میں ایک زبان اردو بھی ہے جسے پاکستان کی قومی زبان کے طور پر اپنایا گیا۔ یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر کے ہیں، اردو میں عربی اور فارسی کے بہت سے الفاظ شامل ہیں، عربی الفاظ براہ راست شامل نہیں بلکہ عربی الفاظ جو پہلے فارسی میں شامل ہوئے، بعد میں اردو میں استعمال کیے گئے۔ اردو کی ابتدا شاعری سے ہوئی، شاعری فارسی داں لوگوں کے ہاتھ میں تھی، یہ لوگ ہندی بہت کم جانتے تھے اور سنسکرت سے بالکل ناواقف تھے، اسی وجہ سے ہونہار بچہ اپنے حقیقی والدین سے جدا ہوکر اپنے مصنوعی والدین کی آغوش میں تربیت پاتا رہا، یہ ضرور ہوا کہ فارسی کے اثر سے اردو ایک مستقل زبان کی شکل میں آج ہمارے سامنے موجود ہے۔
زبان اردو اس ہندی یا بھاشا کی ایک شاخ ہے جو دہلی اور میرٹھ کے اطراف میں بولی جاتی تھی جس کا تعلق شورسینی پراکرت سے بلاواسطہ تھا۔ بھاشا جس کو مغربی ہندی کہا جاسکتا ہے، زبان اردو کی اصل ہے۔ اردو میں ہندی الفاظ کا کثرت سے استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی ابتدا ہندی سے ہوئی۔ مسلمان بحیثیت فاتح جب ہندوستان میں آئے اور فارسی جو ان کی مادری زبان تھی ہندوستان کی شاہی زبان بن گئی اور دیسی زبان مثل خادمہ کے اپنی مالکہ زبان فارسی کی خدمت کرنے لگی، جدت پسند یا غلام ذہن طبعیتوں نے نئی زبان کی طرف رخ کیا، شاہی درباری شعراء نے اپنے آقائوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے فارسی کا بھرپور استعمال کیا۔ اٹھارہویں صدی میں اردو ہندی کے نام سے ہی جانی جاتی تھی، صرف رسم الخط کا فرق تھا، فارسی الفاظ کے اضافے کے ساتھ فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔
پاکستان میں بولی جانیوالی زبانیں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، اردو، پنجابی، سندھی سنسکرت سے ہی ماخوذ ہیں۔ پنجابی جس کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں بھی پیدا کی جاتی ہیں کہ یہ فقط ایک ''بولی'' ہے اور اس کا کوئی رسم الخط ہی موجود نہیں ہے حالانکہ پنجابی کا اصل رسم الخط ''گرمکھی'' ہے، جو شمالی انڈین گروپ کے رسم الخطوط میں سے ''گپتا'' کی ایک شاخ ''ناگری'' کی ذیلی شاخ ''دیوناگری'' سے ماخوذ ہے۔
بھارت میں اب بھی پنجابی لکھنے کے لیے ''گرمکھی'' ہی استعمال ہوتا ہے تاہم مسلمانوں نے پنجابی لکھنے کے لیے ''گرمکھی'' کے بجائے ''شاہ مکھی'' رسم الخط رائج کیا جو اس وقت پاکستان میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سندھی زبان لکھنے کے لیے بھی اٹھارہویں صدی کے آغاز تک ''خدابادی'' (دیوناگری سے ماخوذ) رسم الخط استعمال کیا جاتا تھا جسے بعد میں (عربی طرز پر) ''سندھی'' رسم الخط دیا گیا البتہ مشرقی پاکستان میں بولی جانیوالی بنگالی زبان اپنے (ناگری سے اخذ شدہ) رسم الخط پر ہی قائم رہی یا بوجوہ اسے قائم رکھا گیا۔
پاکستان کا قیام ''دوقومی نظریے'' کی بنیاد پر ہوا حالانکہ درحقیقت یہ ''دومذہبی نظریہ'' تھا اور یہاں قومیں تو بہت سی تعداد میں آباد تھیں جب کہ بڑے مذاہب دو ہی تھے، ایک ہندو اور دوسرا اسلام۔ پاکستان کی قومی زبان اردو رائج کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ یہاں پر موجود دوسری زبانوں کے سب سے زیادہ قریب تر زبان یہی تھی اور سوائے بنگالی زبان کے سبھی زبانیں ''اردو'' طرز تحریر پہلے ہی اپنا چکی تھیں، اور اگر بنگالی کا رسم الخط بھی تبدیل کردیا جاتا تو شاید ایوب خان کے لیے ملک میں انارکی کی فضا قائم کرنا مشکل ہوتا۔
اردو کی حقیقی صورت اور عہد بہ عہد تبدیلیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کا موازنہ موجودہ پنجابی سے کیا جائے تو دونوں زبانوں کی مشابہت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ دونوں ماں بیٹیاں ہیں۔ اردو زبان میں فارسی الفاظ کی کثرت سے موجودگی کے کئی اسباب ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمان جب اس ملک میں آئے تو اپنے ساتھ بہت سی نئی چیزوں کے نام لائے جن کے حروف سنسکرت یا دیسی بھاشا میں نہیں مل سکتے تھے، اس لیے فارسی الفاظ زبان میں داخل کرنا پڑے۔
البتہ پنجابی چونکہ ہندی سے ماخوذ ہے اور اردو سے پہلے ہی عام تھی، اسی لیے قدیم اردو میں پنجابی زبان کے الفاظ کثرت سے پائے جاتے ہیں، جیسے مکھ، پنکھ وغیرہ جو رفتہ رفتہ اردو میں متروک ہوتے چلے گئے۔ غالب کے شعر ''ہے بزم بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے...تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے''، ولی کے شعر ''کہا ہے زہر کا تاثیر اس میں... نہ چل سی کچھ مرا تدبیر اس میں''، سودا کی شاعری میں دھڑیاں، دیکھیاں وغیرہ کا استعمال جن میں بتاں، چل سی اور دیکھیاں پنجابی ہی میں استعمال ہونے والے الفاظ ہیں۔
پنجابی کے کچھ الفاظ تلفظ کی ادائیگی (Pronounciation) سے تبدیل ہوئے، ''وگاڑ'' کا ''و'' ''ب'' میں بدل کر لفظ ''بگاڑ'' وجود میں آیا، اسی طرح ''وسنا'' کا ''و'' جب ''ب'' سے بدل گیا تو لفظ ''بسنا'' بن گیا اور ''وجنا'' جو کہ پنجابی کا لفظ ہے اردو میں اس کا ''و'' ''ب'' میں بدل جانے سے یہ لفظ ''بجنا'' ہوگیا۔ اسی طرز پر کئی تراکیب میں مختلف حروف تلفظ کی ادائیگی سے دوسرے حرف میں تبدیل ہوگئے جیسے ''ویکھنا'' کا ''و'' ''د'' سے بدل کر ''دیکھنا میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
بعض الفاظ پورے کے پورے ہی، اپنی جگہ تبدیل کرنے کے ساتھ کسی حرف کی تخفیف یا آمیزش کے ساتھ تبدیل ہوگئے، جیسے ''چکڑ'' سے ''کیچڑ''، ''ہسنا'' کی ادائیگی میں ''ن'' شامل ہوا تو ''ہنسنا''، ''ٹٹنا'' میں ''و'' کے اضافے نے لفظ ''ٹوٹنا''، اسی طرح ''بھکا'' سے ''بھوکا''، ''ڈبنا'' سے ''ڈوبنا'' بن گیا، ''لوک'' ادائیگی کی تبدیلی سے ''لوگ'' بن گیا۔ اسی طرز پر بعض الفاظ میں پنجابی کا ''ہ'' اردو میں ''س'' سے بدل جانے سے جیسے ''کہیا'' سے ''کیسا''، ''چالیہ'' سے ''چالیس''، ''تیہ'' سے ''تیس''، ''سرہوں'' سے ''سرسوں'' وغیرہ وجود میں آئے۔
بعض الفاظ میں پنجابی لفظ کی ''ہ'' اردو میں ''الف'' سے بدل جاتی ہے جیسے ''ہک'' سے ''اک''، ''ہور'' سے ''اور''، اردو کی ''د'' پنجابی میں ''ت'' سے بدل جاتی ہے ''دھاگہ'' سے ''تاگہ'' وغیرہ۔ اسی طرح اردو میں استعمال ہونے والے امدادی حروف جیسے ''مانگا تانگا'' یا ''مانگے تانگے'' عام طور سے بولے جاتے ہیں مگر قواعد نویس اور اہل لغت ''تانگا'' کو بابع مہمل کہتے ہیں، اسی طرح اردو میں دیگر الفاظ ''سوچ وچار''، ''دن دیہاڑے''، ''ہلنا جلنا''، ''بھلاچنگا''، ''گوراچٹا''، ''برتن بھانڈے''۔
ان میں وچار، دیہاڑے، جلنا، چنگا، چٹا، بھانڈے وغیرہ کو عام طور پر مجہول یا بابع مہمل قرار دیا جاتا ہے، یہ ایسے الفاظ کو کہا جاتا ہے جن کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔ حالانکہ ''وچار'' کا پنجابی میں وہی مطلب ہے جو ''سوچ'' کا اردو میں، ''جلنا'' کا پنجابی میں وہی مطلب ہے جو اردو میں ''ہلنا'' کا، ''چنگا'' کا پنجابی میں وہی مطلب ہے جو اردو میں ''بھلا'' کا، ''چٹا'' کا پنجابی میں وہی مطلب ہے جو اردو میں ''گورا'' کا، ''بھانڈے'' کا پنجابی میں وہی مطلب ہے جو اردو میں ''برتن'' کا، بلکہ اردو میں استعمال ہونے والا لفظ ''برتن'' بھی پنجابی ہی کے لفظ ''ورت'' سے بنا ہے، ''ورت سے ''برت''، یا ''ورتنا'' سے ''برتنا'' وغیرہ۔
اسلام دشمن قوتوں نے اپنے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے ایسے تانے بانے تیار کیے کہ ہم تعصب اور منافرت کی دلدل میں دھنستے ہی گئے۔ انگریز کی کلوننگ کے نتیجے میں ہمیں ایسے رہنما اور اساتذہ ملے کہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والی زبانیں بولنے والے آج ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے جارہے ہیں۔ قوم پرستی کے نام پر ناخواندہ قوم کو اندھے کنوئیں میں دھکیلنے والے رہنمائوں کی تو بھرمار ہے مگر بدقسمتی سے ہمیں جوڑنے اور یکجا کرنے والا کوئی رہنما نہیں ملا۔
یہی حال ڈالر کے پجاریوں نے اپنے دین کا بھی کر ڈالا، جب اﷲ بھی ایک، رسول بھی ایک، قرآن بھی ایک تو پھر فروعی اختلافات کے نتیجے میں ایک دوسرے کے لیے نفرتیں پیدا کرنا کہاں کا انصاف ہوا۔ شاید اس بدنصیب قوم کے حصے میں وزارت پانی و بجلی کے نام پر ''وزارت فروغ منافرت'' کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جو ہمیں آدھا ملک گنوا کے بھی سمجھ نہ آسکی۔