بجلی کے بلز معیشت اور آئی ایم ایف
ملک کا طاقتور مراعات یافتہ طبقہ اس قدر سنگین بحران میں بھی اپنی مراعات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے
مہنگائی اور اوور بلنگ کے ستائے عوام کو نگران حکومت نے ریلیف دینے کا پلان بنا لیا ہے، حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ تین سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے بلوں میں ریلیف اکتوبرکے بلوں میں ملے گا۔
دوسری جانب، اس موقع پر جب کہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کرنے سے عوام قاصر ہو رہے ہیں، ان پرکیپسٹی چارجز کی مد میں 1.3 ٹریلین روپے کا مزید بوجھ ڈالا جا رہا ہے، جو رواں برس بند پڑے پاور پلاٹنس کو ادا کیے جانے ہیں۔ بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے علاوہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔
ماہرین کے مطابق مالیاتی توازن برقرار رکھنے اور آئی ایم ایف کے دباؤ کے پیش نظر موجودہ نگران حکومت کے لیے کسی بھی ٹیکس کی وصولی میں کمی یا تاخیر ممکن نہیں۔ ملک میں بجلی مہنگی ہونے کی بنیادی وجہ کیپسٹی چارجزکا نفاذ ہے جو کہ ملک کی بجلی کی پیداواری صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے اضافی فیسیں ہیں۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے اور ملک میں بجلی کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کیپسٹی چارجزکو ضروری اقدام قرار دیا ہے۔
تاہم، بہت سے لوگوں نے اس پالیسی کی منطق اور انصاف پر سوال اٹھائے ہیں، خاص طور پر جب ملک کو اب بھی مسلسل لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی بندش کا سامنا ہے۔
بھاری بلوں نے عام پاکستانیوں کے لیے بے پناہ مشکلات کھڑی کردی ہیں جو پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری، غربت اورکرپشن سے نبرد آزما ہیں۔
اس پوری صورت حال میں سب سے بری خبر یہ ہے کہ نگراں وزیر اعظم کی جانب سے خواہ کتنے ہی اجلاس بلائے جائیں، آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے تحت ملک میں بجلی کی قیمتیں برقرار رہیں گی۔ بین الاقوامی منڈی میں ایندھن کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود پاکستان میں بڑھیں گی۔
پاور ڈویژن کے مطابق بجلی کا گردشی قرضہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور اس میں اضافے کی بنیادی وجہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے لائن لاسز اور چوری ہیں، جب کہ بجلی کے بلوں کی پوری وصولیاں نہ ہونے کی وجہ سے بھی گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ حال ہی میں کیے گئے تین ارب ڈالرزکے معاہدے میں بجلی کے شعبہ میں اصلاحات کرنے اور گردشی قرضے کو روکنے کی شرط رکھی ہے۔
حکومت نے گزشتہ ایک سال میں بجلی کی قیمتوں میں 81 فیصد کے قریب اضافہ کیا ہے مگر اس کے باوجود بجلی کا گردشی قرضہ 400 ارب روپے سے بڑھا ہے۔ حکومت کو بجلی کے شعبہ میں 23 فیصد چوری ہے، جسے لائن لاسزکہا جاتا ہے،کو سستی بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے کم کرنا ہوگا۔
پاکستان میں بجلی کے ترسیلی نظام سے جڑی خرابیاں اپنی جگہ لیکن بجلی کی چوری بھی ایک نہایت ہی اہم مسئلہ ہے جو ہر سال 520 ارب روپے کی بجلی چوری کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ جب بجلی چوری ہوتی ہے، تو چوری شدہ بجلی کی قیمت جملہ صارفین پر تقسیم کر دی جاتی ہے۔
اس سلسلے میں چند شہروں میں بجلی چوری کی شرح بھی بتائی گئی ہے۔ پشاور میں بجلی چوری کی شرح 37 فیصد ہے۔ سکھر میں 35 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔ حیدر آباد میں 32 فیصد،کوئٹہ میں28 فیصد،لاہور میں گیارہ فی صد ،گوجرانوالہ نو فیصد اور فیصل آباد میں بھی نو فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے جہاں گھریلو صارفین پریشان ہیں، وہیں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ برآمدات متاثر ہوں گی۔ پاکستان میں مہنگے ذرایع سے بجلی کی پیداوار بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے بجلی کی قیمت علاقائی ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ بھارت میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بجلی آٹھ سینٹ، بنگلہ دیش میں 10 سینٹ اور ویت نام میں چھ سینٹ میں فراہم کی جا رہی ہے۔
بجلی کے بلوں پر بھاری ٹیکسز،کراس سبسڈیز اور بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کی نااہلی کا بوجھ صارفین پر ڈالا جا رہا ہے اور موجودہ حالات میں ملکی برآمدات عالمی مارکیٹ میں دیگر ممالک کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے فیکٹریوں سے نوکریاں ختم ہوں گی، مزید سرمایہ کاری نہیں ہوگی اور برآمدات کم ہوں گی۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور نامساعد ملکی اور عالمی حالات کے باعث ملکی برآمدات کم ہوکر 16 ارب ڈالرز تک آ چکی ہیں اور توقع ہے کہ اگلے سال مزید کم ہوکر 12 ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گی۔
50 فیصد ٹیکسٹائل انڈسٹری غیر فعال ہے اگر حالات یہی رہے تو 25 فیصد ٹیکسٹائل انڈسٹری مزید بند ہو جائے گی، جس سے قومی خزانے کو 10 ارب ڈالرزکا نقصان ہو سکتا ہے۔20 ہزار ایکڑ پر مشتمل پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی زون کراچی میں ہے، اس میں کاٹیج انڈسٹری سے ملٹی نیشنل انڈسٹریز تک موجود ہیں، موجودہ صورتحال کے باعث 60 فیصد نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔
روزگار نہ ہونے کی وجہ سے امن و امان کی صورت حال بگڑتی جا رہی ہے، بجلی اور گیس مہنگی ہونے کی وجہ سے حالات خراب ہو رہے ہیں، ڈالرکی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔
بجلی چوری روکنے کے لیے ریاست کو بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔ تیس فیصد بجلی کی ریکوری نہیں ہو رہی، افسرشاہی کے گھروں اُور دفاترکے بل ادا نہیں ہو رہے۔ کیپسٹی پیمنٹ پر بجلی گھروں سے معاہدوں پر نظرثانی کیوں نہیں کی جاتی۔ اگلے سال دو ہزار ارب روپے کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں ادا کرنا ہوں گے۔
دوسری جانب افغانستان کے معاشی حالات پر ورلڈ بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افغانستان میں گزشتہ سال کے مقابلے میں مہنگائی کی شرح میں نہ صرف نو فیصد سے زائد اور اشیا خورونوش کی قیمتوں میں 12 فیصد کمی دیکھی گئی ہے بلکہ افغان کرنسی بھی دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں مستحکم ہوئی ہے۔
افغانستان کے مقابلے میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کی دو بنیادی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک تو معاشی بحران ہے، جو پوری دنیا میں ہے جب کہ دوسری وجہ سیاسی بحران اور انتظامی معاملات میں کمزوری ہے۔
معاشی ماہرین کہتے ہیں یہ بہت مشکل ہے کہ پاکستانی معیشت کی ڈالرائزیشن کی جا سکے اور اگر ایسا کر لیا گیا تو یہ بھی معاشی مشکلات کا حل ثابت نہیں ہو گا۔ کسی بھی ملک کی معیشت کو ڈالرائزکرنے کے لیے ڈالرز کا ہونا ضروری ہوتا ہے، جس کے لیے ڈالرز خریدنے پڑیں گے لیکن کیونکہ ملک نے پہلے بہت زیادہ قرضہ لیا ہوا ہے اس لیے یہ ممکن ہوتا دکھائی نہیں دیتا کہ اسے مزید قرضہ ملے گا۔
اہم بات یہ بھی ہے ہر ملک کی اپنی معیشت ہونی چاہیے اور اگرکوئی ملک کسی دوسرے ملک کی مانیٹری پالیسی کے رحم و کرم پر ہو تو یہ الگ سے خطرناک ہو سکتا ہے۔ اسی لیے کنورٹیبلٹی سے پہلے یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ مالیاتی خسارے یا معاشی عدم استحکام جیسے مسائل کو حل کیا جائے لیکن اگر وہ برقرار رہتے ہیں تو یہ بھی مسئلے کا حل نہیں یعنی معیشت کو ڈالرائزنگ کرنا کوئی علاج نہیں ہے۔
ہماری انتظامی کمزوری یہ ہے کہ حکومت ڈالرکی اسمگلنگ روکنے میں ناکام ہے، اور یہاں جو انرجی ٹیرف اسٹرکچر بنایا گیا ہے، اس کو ہم ٹھیک نہیں کرسکتے کیونکہ ہم نے انرجی کے حل کے لیے مختلف کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں لیکن ہم ان معاہدوں کو ریوائز نہیں کرسکتے۔
ملک کے اندر ایک سیاسی بحران چل رہا ہے، جو ہرکسی کو نظر آتا ہے اور اسی وجہ سے پاکستانی روپیہ مستحکم نہیں ہے اور اسی بحران کی وجہ سے صنعت کار سرمایہ کاری کرنے سے کتراتے ہیں۔
یہ بات کرنا اب کافی نہیں کہ جو ہو چکا سو ہو چکا، جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ روز لوگ مر رہے ہیں۔ روز خود کشیاں ہو رہی ہیں۔ اس میں کتنا وقت مزید لگے گا؟اصولی طور پر تو آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے میں جن شرائط پر اتفاق کیا گیا ہے، وہ عوام کے سامنے آنی چاہیں۔
ملک کا طاقتور مراعات یافتہ طبقہ اس قدر سنگین بحران میں بھی اپنی مراعات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ادھر عوام کی حالت یہ ہے کہ ان کی مالی حالت اس قدر پتلی ہو چکی ہے کہ وہ طاقتور طبقے کی مراعات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔عالمی مالیاتی اداروں کو پاکستان کے حقائق سے مکمل آگہی ہے'آئی ایم ایف ہو یا کوئی چین جیسا دوست ملک ہو 'لین دین کے معاملے میں سب کا رویہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔
اس لیے کسی عالمی مالیاتی ادارے یا ملک کو اپنے معاشی یا سیاسی بحران کا ذمے دار قرار دینا 'دراصل اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔پاکستان میں سرکاری مراعات یافتہ طبقے کا حجم بہت بڑھ گیا ہے 'پاکستانی معیشت میں اتنا دم خم نہیں رہا کہ وہ اس مراعات یافتہ طبقے کا بوجھ اٹھا سکے۔
دوسری جانب، اس موقع پر جب کہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کرنے سے عوام قاصر ہو رہے ہیں، ان پرکیپسٹی چارجز کی مد میں 1.3 ٹریلین روپے کا مزید بوجھ ڈالا جا رہا ہے، جو رواں برس بند پڑے پاور پلاٹنس کو ادا کیے جانے ہیں۔ بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے علاوہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔
ماہرین کے مطابق مالیاتی توازن برقرار رکھنے اور آئی ایم ایف کے دباؤ کے پیش نظر موجودہ نگران حکومت کے لیے کسی بھی ٹیکس کی وصولی میں کمی یا تاخیر ممکن نہیں۔ ملک میں بجلی مہنگی ہونے کی بنیادی وجہ کیپسٹی چارجزکا نفاذ ہے جو کہ ملک کی بجلی کی پیداواری صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے اضافی فیسیں ہیں۔
حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے اور ملک میں بجلی کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کیپسٹی چارجزکو ضروری اقدام قرار دیا ہے۔
تاہم، بہت سے لوگوں نے اس پالیسی کی منطق اور انصاف پر سوال اٹھائے ہیں، خاص طور پر جب ملک کو اب بھی مسلسل لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی بندش کا سامنا ہے۔
بھاری بلوں نے عام پاکستانیوں کے لیے بے پناہ مشکلات کھڑی کردی ہیں جو پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری، غربت اورکرپشن سے نبرد آزما ہیں۔
اس پوری صورت حال میں سب سے بری خبر یہ ہے کہ نگراں وزیر اعظم کی جانب سے خواہ کتنے ہی اجلاس بلائے جائیں، آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے تحت ملک میں بجلی کی قیمتیں برقرار رہیں گی۔ بین الاقوامی منڈی میں ایندھن کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود پاکستان میں بڑھیں گی۔
پاور ڈویژن کے مطابق بجلی کا گردشی قرضہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور اس میں اضافے کی بنیادی وجہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے لائن لاسز اور چوری ہیں، جب کہ بجلی کے بلوں کی پوری وصولیاں نہ ہونے کی وجہ سے بھی گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ حال ہی میں کیے گئے تین ارب ڈالرزکے معاہدے میں بجلی کے شعبہ میں اصلاحات کرنے اور گردشی قرضے کو روکنے کی شرط رکھی ہے۔
حکومت نے گزشتہ ایک سال میں بجلی کی قیمتوں میں 81 فیصد کے قریب اضافہ کیا ہے مگر اس کے باوجود بجلی کا گردشی قرضہ 400 ارب روپے سے بڑھا ہے۔ حکومت کو بجلی کے شعبہ میں 23 فیصد چوری ہے، جسے لائن لاسزکہا جاتا ہے،کو سستی بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے کم کرنا ہوگا۔
پاکستان میں بجلی کے ترسیلی نظام سے جڑی خرابیاں اپنی جگہ لیکن بجلی کی چوری بھی ایک نہایت ہی اہم مسئلہ ہے جو ہر سال 520 ارب روپے کی بجلی چوری کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ جب بجلی چوری ہوتی ہے، تو چوری شدہ بجلی کی قیمت جملہ صارفین پر تقسیم کر دی جاتی ہے۔
اس سلسلے میں چند شہروں میں بجلی چوری کی شرح بھی بتائی گئی ہے۔ پشاور میں بجلی چوری کی شرح 37 فیصد ہے۔ سکھر میں 35 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔ حیدر آباد میں 32 فیصد،کوئٹہ میں28 فیصد،لاہور میں گیارہ فی صد ،گوجرانوالہ نو فیصد اور فیصل آباد میں بھی نو فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے جہاں گھریلو صارفین پریشان ہیں، وہیں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ برآمدات متاثر ہوں گی۔ پاکستان میں مہنگے ذرایع سے بجلی کی پیداوار بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے بجلی کی قیمت علاقائی ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ بھارت میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بجلی آٹھ سینٹ، بنگلہ دیش میں 10 سینٹ اور ویت نام میں چھ سینٹ میں فراہم کی جا رہی ہے۔
بجلی کے بلوں پر بھاری ٹیکسز،کراس سبسڈیز اور بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کی نااہلی کا بوجھ صارفین پر ڈالا جا رہا ہے اور موجودہ حالات میں ملکی برآمدات عالمی مارکیٹ میں دیگر ممالک کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے فیکٹریوں سے نوکریاں ختم ہوں گی، مزید سرمایہ کاری نہیں ہوگی اور برآمدات کم ہوں گی۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور نامساعد ملکی اور عالمی حالات کے باعث ملکی برآمدات کم ہوکر 16 ارب ڈالرز تک آ چکی ہیں اور توقع ہے کہ اگلے سال مزید کم ہوکر 12 ارب ڈالرز تک پہنچ جائیں گی۔
50 فیصد ٹیکسٹائل انڈسٹری غیر فعال ہے اگر حالات یہی رہے تو 25 فیصد ٹیکسٹائل انڈسٹری مزید بند ہو جائے گی، جس سے قومی خزانے کو 10 ارب ڈالرزکا نقصان ہو سکتا ہے۔20 ہزار ایکڑ پر مشتمل پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی زون کراچی میں ہے، اس میں کاٹیج انڈسٹری سے ملٹی نیشنل انڈسٹریز تک موجود ہیں، موجودہ صورتحال کے باعث 60 فیصد نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔
روزگار نہ ہونے کی وجہ سے امن و امان کی صورت حال بگڑتی جا رہی ہے، بجلی اور گیس مہنگی ہونے کی وجہ سے حالات خراب ہو رہے ہیں، ڈالرکی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔
بجلی چوری روکنے کے لیے ریاست کو بڑے فیصلے کرنا ہوں گے۔ تیس فیصد بجلی کی ریکوری نہیں ہو رہی، افسرشاہی کے گھروں اُور دفاترکے بل ادا نہیں ہو رہے۔ کیپسٹی پیمنٹ پر بجلی گھروں سے معاہدوں پر نظرثانی کیوں نہیں کی جاتی۔ اگلے سال دو ہزار ارب روپے کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں ادا کرنا ہوں گے۔
دوسری جانب افغانستان کے معاشی حالات پر ورلڈ بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق افغانستان میں گزشتہ سال کے مقابلے میں مہنگائی کی شرح میں نہ صرف نو فیصد سے زائد اور اشیا خورونوش کی قیمتوں میں 12 فیصد کمی دیکھی گئی ہے بلکہ افغان کرنسی بھی دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں مستحکم ہوئی ہے۔
افغانستان کے مقابلے میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کی دو بنیادی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک تو معاشی بحران ہے، جو پوری دنیا میں ہے جب کہ دوسری وجہ سیاسی بحران اور انتظامی معاملات میں کمزوری ہے۔
معاشی ماہرین کہتے ہیں یہ بہت مشکل ہے کہ پاکستانی معیشت کی ڈالرائزیشن کی جا سکے اور اگر ایسا کر لیا گیا تو یہ بھی معاشی مشکلات کا حل ثابت نہیں ہو گا۔ کسی بھی ملک کی معیشت کو ڈالرائزکرنے کے لیے ڈالرز کا ہونا ضروری ہوتا ہے، جس کے لیے ڈالرز خریدنے پڑیں گے لیکن کیونکہ ملک نے پہلے بہت زیادہ قرضہ لیا ہوا ہے اس لیے یہ ممکن ہوتا دکھائی نہیں دیتا کہ اسے مزید قرضہ ملے گا۔
اہم بات یہ بھی ہے ہر ملک کی اپنی معیشت ہونی چاہیے اور اگرکوئی ملک کسی دوسرے ملک کی مانیٹری پالیسی کے رحم و کرم پر ہو تو یہ الگ سے خطرناک ہو سکتا ہے۔ اسی لیے کنورٹیبلٹی سے پہلے یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ مالیاتی خسارے یا معاشی عدم استحکام جیسے مسائل کو حل کیا جائے لیکن اگر وہ برقرار رہتے ہیں تو یہ بھی مسئلے کا حل نہیں یعنی معیشت کو ڈالرائزنگ کرنا کوئی علاج نہیں ہے۔
ہماری انتظامی کمزوری یہ ہے کہ حکومت ڈالرکی اسمگلنگ روکنے میں ناکام ہے، اور یہاں جو انرجی ٹیرف اسٹرکچر بنایا گیا ہے، اس کو ہم ٹھیک نہیں کرسکتے کیونکہ ہم نے انرجی کے حل کے لیے مختلف کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں لیکن ہم ان معاہدوں کو ریوائز نہیں کرسکتے۔
ملک کے اندر ایک سیاسی بحران چل رہا ہے، جو ہرکسی کو نظر آتا ہے اور اسی وجہ سے پاکستانی روپیہ مستحکم نہیں ہے اور اسی بحران کی وجہ سے صنعت کار سرمایہ کاری کرنے سے کتراتے ہیں۔
یہ بات کرنا اب کافی نہیں کہ جو ہو چکا سو ہو چکا، جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ روز لوگ مر رہے ہیں۔ روز خود کشیاں ہو رہی ہیں۔ اس میں کتنا وقت مزید لگے گا؟اصولی طور پر تو آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے میں جن شرائط پر اتفاق کیا گیا ہے، وہ عوام کے سامنے آنی چاہیں۔
ملک کا طاقتور مراعات یافتہ طبقہ اس قدر سنگین بحران میں بھی اپنی مراعات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ادھر عوام کی حالت یہ ہے کہ ان کی مالی حالت اس قدر پتلی ہو چکی ہے کہ وہ طاقتور طبقے کی مراعات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔عالمی مالیاتی اداروں کو پاکستان کے حقائق سے مکمل آگہی ہے'آئی ایم ایف ہو یا کوئی چین جیسا دوست ملک ہو 'لین دین کے معاملے میں سب کا رویہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔
اس لیے کسی عالمی مالیاتی ادارے یا ملک کو اپنے معاشی یا سیاسی بحران کا ذمے دار قرار دینا 'دراصل اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔پاکستان میں سرکاری مراعات یافتہ طبقے کا حجم بہت بڑھ گیا ہے 'پاکستانی معیشت میں اتنا دم خم نہیں رہا کہ وہ اس مراعات یافتہ طبقے کا بوجھ اٹھا سکے۔