بیرونی سرمایہ کاری کی خوش کن باتیں

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو یہاں لانا اور غیرملکی سرمایہ کاری ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو یہاں لانا اور غیرملکی سرمایہ کاری ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ فوٹو: اے پی پی

نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ سے پچیس، پچیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری دو سے پانچ سال میں پاکستان آئے گی ۔ انھوں نے نگراں وزیرخزانہ کو معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے موثرحکمت عملی تشکیل دینے کی ہدایت کی ہے۔

کسی بھی ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہے کہ بیرونی دنیا اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے ایک قابل قدر جگہ سمجھتی ہے اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔

اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ میں آنے والی روکاٹیں ختم کردی گئی ہیں۔

پاکستان میں جاری سیاسی کشمکش، مبہم قوانین، حکومتی اداروں کے درمیان اختیارات کی اوور لیپنگ، نوآبادیاتی طرز کا پولیس سسٹم اور بیوروکریٹک ڈھانچہ اور کمزورنظام انصاف اور فیصلہ ساز طبقے کا قانونی طور پر احتساب سے ماورا ہونا، غیرملکی سرمایہ کاری ہی نہیں بلکہ ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں ۔

عوامی احساس محرومی کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر سماجی اتھل پتھل پیدا ہو سکتی ہے۔ معاشی اشاریے منفی ہیں، ادائیگیوں کا توازن خراب ہے اور تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے، ٹیکس سٹسم پیچیدہ اور مبہم ہے ۔

روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر غیرمعمولی حد تک بڑھ چکی ہے ۔ آج بھی ہم اپنی معاشی خودمختاری کے تحفظ کے لیے قابل عمل ترقی کی راہ تلاش کرنے کے بجائے بیرونی مالی امداد اور قرض لینے پر انحصار کرتے ہیں۔

ابھی پاکستانی معیشت کم شرح نمو، بلند افراط زر، بے روزگاری، گرتی ہوئی سرمایہ کاری، ضرورت سے زیادہ مالیاتی خسارے، گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر اور بھاری قرضوں کی واپسی میں جکڑی ہوئی ہے۔اگرچہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں مگر دو عوامل ایسے ہیں جن کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا اور انھی دو عوامل کا پاکستان کے موجودہ معاشی بحران میں سب سے زیادہ کردار ہے۔

حکومت کے پاس پیسہ کمانے کے دو ذرایع ہوتے ہیں۔ پہلا ذریعہ آمدن ٹیکس وصولی اور دوسرا ذریعہ سرکاری ادارے جنھیں (State owned enterprises) کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس کا نظام غیر موثر اور فرسودہ ہے جب کہ (SOEs) یا سرکاری ادارے ملکی معیشت پر بوجھ ہیں۔ ان دونوں عوامل میں اصلاحات لانے کے لیے سخت فیصلے لینے ہوں گے۔

ان اصلاحات کا دار و مدار گڈ گورننس پر ہے۔پاکستان میں حکومت کا خاطر خواہ ٹیکس ریونیو اکٹھا نہ کرنے کے پیچھے غیر موثر ٹیکس اصلاحات ہیں۔ بہت سے سروس سیکٹرز اور کاروبار آج بھی ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ وہ ملک جو قرضوں پہ چلتا ہو، ادھر ایسے ریفارمز کی سخت ضرورت ہے۔

بہت سے کاروبار حکومت کی جانب سے صارفین سے وصول کیے جانے والے جنرل سیلز ٹیکس حکومت کو پوری طرح ادا نہیں کرتے۔ اس طرف بھی توجہ دینا چاہیے۔ کاروباری حضرات اور ٹیکس حکام کی ملی بھگت اور سسٹم میں موجود خامیوں کی وجہ ٹیکس چوری ہوتا ہے۔ ٹیکس کے محکمے میں بھی ریفارمز کی شدید ضرورت ہے جس میں نئی بھرتیاں اور ریگولیٹری قوانین سر فہرست ہیں۔

دوسری طرف ملکی خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے بجٹ کے وسائل کی ایک بڑی رقم استعمال کر رہے ہیں، جو ملک خزانے کے ساتھ ساتھ اقتصادی ترقی پر بھی اثر ڈالتے ہیں۔ ان اداروں کی طرف سے اپنی پیداواری صلاحیتوں، استعداد وغیرہ کو بہتر بنانے کے لیے کوئی موثر کوشش نہیں کی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر سال حکومت کی جانب سے ان SOEs کی بقا کے لیے ایک بڑی رقم استعمال کی جاتی ہے۔

ان SOEs کی مینجمنٹ اگر بہتر کر لی جائے تو یہ نہ صرف اپنا خرچہ خود اٹھا سکتی ہیں بلکہ حکومتی خزانہ بھرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہیں۔ پاکستان ریلوے، پاکستان پوسٹ آفس، پاکستان ایئر لائن اور پاکستان اسٹیل ملز وہ ادارے ہیں جو پچھلی کئی دہائیوں سے پستی کا شکار ہیں۔

زرعی درآمدات اس وقت 8 ارب ڈالر سالانہ سے متجاوز ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور ریسرچ سے ہمارے کاشتکار ایک ایکڑ کی پیداوار میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ ماہرین کی مدد سے ان کاشتکاروں کی تربیت کی جائے، جس سے ہماری زرعی اجناس کی درآمدات میں کمی آئے گی اور 5 بلین ڈالر کے قریب زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا۔


مہنگی گاڑیاں، کاسمیٹکس، کھانے پینے کی اشیا، گارمنٹس وغیرہ کی درآمدات پر پابندی لگائی جائے۔ ہمارا ہمسایہ ملک انڈیا ایسی اشیا جو درآمد کی جاتی ہیں جیسے گاڑیاں ان کی ٹیکنالوجی اپنے ملک میں لے آیا ہے اب تمام پارٹس ملک کے اندر بنتے ہیں جس سے معیشت بہتر ہوئی اور زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا۔

چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ پٹرولیم کی درآمدات میں جون 2022 میں حجم کے لحاظ سے 50 فیصد اضافہ ہوا۔گیس کو صرف پیداواری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ توانائی کے تحفظ کے لیے ایسے اقدامات متعارف کرائیں جو پاکستان کی معیشت کو ایک سے زیادہ طریقوں سے بچا سکیں۔

بھاشا ڈیم، داسو ہائیڈرو پاور وغیرہ کو جلد از جلد مکمل کیا جانا چاہیے اور جو مکمل ہیں، ان کی مینٹینس کا میکنزم جدید بنایا جانا چاہیے ۔ہمیں تھرمل کو کم کر کے ہائیڈرو پاور انرجی کو بڑھانا ہو گا تاکہ فرنس آئل پر جو ہمارے ڈالر خرچ ہوتے ہیں وہ بچیں گے۔

نوجوان کسی بھی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو ہماری آبادی کا 60فیصد ہیں یعنی ہماری آدھی سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمر 30 سال سے کم ہیں ان کو ٹیکنیکل مہارت دینی چاہیے جس کے بعد وہ نوجوان ملک کے اندر اور بیرون ملک سے وطن عزیز کو سرمایہ فراہم کرسکتے ہیں اور بیروز گاری کم ہوگی۔

بیرونی سرمائے کے استعمال سے حاصل ہونے والے منافع کو انفرا اسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو یہاں لانا اور غیرملکی سرمایہ کاری ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے اور ہمیں کچھ وقت کے لیے ٹیکس آمدن کے اہداف کو پس پشت ڈال دینا چاہیے۔پاکستان نے بھی 66 ممالک کے ساتھ دہرے ٹیکس سے بچاؤ کے معاہدے کررکھے ہیں جن کے تحت سرمایہ کار پر یا تو اس کے آبائی وطن یا پھر جہاں وہ سرمایہ لگا رہا ہے اس ملک میں ٹیکس عائد کیے جائیں گے۔

اپنی اسٹرٹیجک لوکیشن کے ساتھ پاکستان مشرق و مغرب دونوں جانب کے سرمایہ کاروں کو سہولتیں بہم پہنچانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے ٹیکس کی شرح کم اور کاروبار کرنے میں آسانی ہونی چاہیے۔

غیرملکی سرمایہ کار اپنے دفاتر اور پیداواری یونٹ یہاں لگا سکتے ہیں اور پاکستان سے دنیا بھر میں اپنی مصنوعات برآمد کرسکتے ہیں۔ پاکستان آئی ٹی انڈسٹری میں تیزی سے ترقی کررہا ہے اگر غیرملکی کمپنیاں اپنے دفاتر یہاں قائم کریں تو باصلاحیت نوجوانوں کو بہتر ملازمتیں میسر آسکتی ہیں۔

ملک میں ایک اور بڑا مسئلہ سرکاری اداروں کا خسارہ ہے۔ افسوس ابھی تک کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔ اسٹیل مل اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں خسارے میں ہیں۔ ان تمام اداروں کو فوری طور پر یاتو نجی شعبوں میں دیا جائے یا صوبوں کے حوالے کردیا جائے۔

اس طرح ہم تقریباً100 ارب روپے کی بچت کرسکتے ہیں۔ اسی طرح خسارے میں چلنے والی تقسیم کار کمپنیوں کے بجائے منافع والی کمپنیوں کو نجی شعبے کو دیا جارہا ہے۔ اس طرح سے معاملات حل نہیں ہوسکتے۔ معیشت ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اسے سیاسی طریقے سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ یاد رہے کہ پاکستان ایک بہت ترقی پذیر معیشت رہا ہے لیکن صرف سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے آج تباہ حال معیشت کا حامل ہے۔

اگر ہم نے اپنی معیشت کو سنجیدگی سے اور جرات مندی سے نہ چلایا تو حالات بگڑسکتے ہیں۔ کوئی بھی ملک ایسے حالات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آج بنگلہ دیش اور ویت نام بھی پاکستان سے آگے ہیں۔ کل اور بہت سے ممالک بھی ترقی کی دوڑ میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ اس لیے معاشی سنجیدگی کی اشد ضرورت ہے۔

موجودہ بحرانوں کا تریاق سب کو معلوم ہے۔ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا اور اسے وسعت دینا، ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو متحرک کرنا اور توانائی کے شعبے کو ٹھیک کرنا جو گردشی قرضوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔

سرکاری فضول خرچیوں کو کم کرنے کے لیے ایک قومی ایجنڈے کی ضرورت ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت ضروری ہے۔
Load Next Story