غربت بچوں سے بدسلوکی
کسی بھی حکومت نے والدین کو بچوں کو اسکول میں داخل کروانے کے لیے معقول معاوضہ دینے کی کوئی اسکیم شروع نہیں کی
رانی پور کے ایک پیر کے گھر میں گھریلو ملازمہ فاطمہ کے قتل کوکئی ماہ گزر گئے ہیں مگر ایک ملزمہ حنا شاہ کی عدم گرفتاری سے قانون کے نفاذ کے بارے میں شبہات سنگین ہوگئے ہیں۔
اس سے نگران وزیر اعلیٰ سندھ مقبول باقر کی انتظامی معاملات پر گرفت کے حوالے سے بھی سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔ پولیس نے ملزم اسد شاہ کو گرفتار کیا لیکن اس کی اہلیہ نے مقامی عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر لی ہے۔
رانی پور تھانے کے ڈی ایس پی نے اپنی تحقیقات کو عدالت میں پیش کرنے کے بجائے ملزمان کی مدد اور جرم کو چھپانے کے الزام میں گرفتار ایس ایچ او ، ڈاکٹر اور ڈسپنسر وغیرہ کو 27 اگست 2023 کو رہا کیا تھا۔
متعلقہ ڈی ایس پی کا دعویٰ تھا کہ ملزمان نے اپنی بے گناہی کے ثبوت دے دیے ہیں مگر ٹی وی چینل پر یہ خبر نشر ہونے اور سوشل میڈیا پر ملزمان کی رہائی کی خبر وائرل ہونے پر مقامی انتظامیہ حرکت میں آئی اور ملزمان کو دوبارہ حوالات میں بھیج دیا گیا۔
اب خبر آئی ہے کہ ان ملزمان کو باقاعدہ رہا کر دیا گیا ہے۔ اس دوران مجسٹریٹ کے حکم پر متوفی ملازمہ فاطمہ کی قبر کشائی کر کے لاش کا پوسٹ مارٹم ہوا۔
ڈاکٹروں نے ابتدائی رپورٹ میں متوفی کی آبروریزی کا خدشہ ظاہر کیا اور لاش سے حاصل ہونے والا مواد لیاقت میڈیکل یونیورسٹی بھیج دیا مگر خواتین کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی اراکین نے فاطمہ کے جسم کے بعض اجزاء کو لیب بھیجنے پر تشویش کا اظہار کیا۔
سندھ یونیورسٹی کی پروفیسر امر سندھو نے اس فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان انتہائی با اثر ہیں، وہ لیب سے غلط رپورٹ حاصل کر سکتے ہیں۔
ملزم اسد شاہ کی گرفتاری اور ان کی اہلیہ کو مقدمے میں ملوث کرنے پر ان کے مریدوں اور کچے کے ڈاکوؤں نے دھمکیاں دینی شروع کردیں۔
کچے کے ڈاکوؤں کی ایک وڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ڈاکوؤں کے سرغنہ نے کہا کہ پیر اسد شاہ کو گرفتار کر کے گدی کی توہین کی گئی ہے۔ ڈاکوؤں نے رانی پور کے صحافیوں کو دھمکی دی ہے کہ وہ پیر اسد کے خلاف خبریں نہ بھیجیں ورنہ خطرناک نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ سندھی میڈیا میں فاطمہ کے قتل کی پرزور مذمت ہو رہی ہے۔
صحافیوں کا کہنا ہے کہ بااثر طبقے کی حویلیوں میں جرائم ہوتے رہتے ہیں مگر کبھی ان پر قانون کا نفاذ نہیں ہوا۔ پہلی دفعہ ایک پیر گھرانے کے ایک فرد کی گرفتاری ہوئی ہے۔ ایک اور دانشور نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی میعاد ختم ہونے اور نگران حکومت کے قیام کی بنا پر فاطمہ کے قتل کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔
گھریلو ملازم خاص طور پر کم سن بچوں بچیوں کا امیروں کے گھروں میں ملازمت کرنا ایک سنگین سماجی و معاشی مسئلہ ہے۔ کمسن ملازمہ پر تشدد کا یہ سندھ میں پہلا کیس رپورٹ ہوا ہے۔
پنجاب میں کئی برسوں سے کم سن ملازموں پر تشدد کے واقعات میڈیا کی خبروں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک خاص بات یہ ہے کہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کے جو تین واقعات زیادہ مشہور ہوئے ان کا تعلق پنجاب سے تھا۔
کئی سال قبل اسلام آباد کے ایک ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر ، اپنی ملازمہ طیبہ پر تشدد کرنے پر 2016 میں تین تین سال کی سزا دی گئی تھی۔
لاہور بار ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار اور ان کی اہلیہ پر اپنی گھریلو ملازمہ پر تشدد کرنے اور پر اسرار موت کا الزام لگایا گیا تھا مگر وکلاء کے دباؤ کے نتیجے میں یہ معاملہ دبا دیا گیا۔
گزشتہ ماہ لاہور کے سول جج شیخ ندیم کی اہلیہ افشاں پر کمسن گھریلو ملازمہ پر بدترین تشدد کا الزام لگا ۔ یہ معاملہ اب عدالت میں ہے۔
بچوں سے مشقت لینے کا مسئلہ غربت سے منسلک ہے۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق 22.8 ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ یہ بچے اپنے والدین کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ والدین خاص طور پر بچیوں کو متوسط اور امراء کے گھروں میں کام کے لیے بھیج دیتے ہیں۔
پنجاب میں عموما کوئی ٹھیکیدار قسم کا فرد بچوں کو شہر میں کام دلانے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ ان غریب بچوں کے والد عموما مالک سے پیشگی رقم لے لیتے ہیں، اس طرح یہ بچے اور بچیاں مکمل طور پر اپنے مالک کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد اور ملتان وغیرہ میں بیوروکریٹ، تاجر اور بڑے زمیندار ان بچیوں کو ملازمت دیتے ہیں۔
ان بچیوں کے والد یا سرپرست بچیوں کی قیمت وصول کرچکے ہوتے ہیں تو گھروں کی مالکن ان کے ساتھ غلاموں اور کنیزوں جیسا سلوک کرتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بیوروکریٹ، ججوں اور تاجروں وغیرہ کی بیویاں تعلیم یافتہ ہوتی ہیں مگر نوکروں کو غلام سمجھنے کی ذہنیت کی بناء پر وہ بدترین تشدد کو اپنا حق جانتی ہیں۔
دیہی علاقوں میں پیروں، جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کے گھروں میں غریب لوگ اپنے بچوں کو بیگار کے لیے بھیجنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان بچوں کے والدین کو تو شہروں میں کام کرنے والے بچوں کی طرح تنخواہ بھی نہیں ملتی۔
سندھ میں سماجی مسائل پر گہری نگاہ رکھنے والے سینئر صحافی سہیل سانگی کہتے ہیں کہ بعض معاملات میں غریب کسان اپنے بچوں کو بڑے لوگوں کے گھروں میں ملازم رکھوا دیتے ہیں اور اس کا معاوضہ بھی خود وصول کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے برسر اقتدار حکومتوں نے غربت کے خاتمے کے لیے ادارہ جاتی منصوبہ بندی نہیں کی۔ شہروں کے مقابلے میں دیہاتوں میں غربت کی شرح زیادہ ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے صنعتی ترقی کا ہونا ضروری ہے مگر ملک میں صنعتی ترقی کی رفتار بھی بہت کم ہے۔
بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے صنعتوں کے بند ہونے سے مزدوروں کے بے روزگار ہونے کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی ہے۔
کسی بھی حکومت نے والدین کو بچوں کو اسکول میں داخل کروانے کے لیے معقول معاوضہ دینے کی کوئی اسکیم شروع نہیں کی، اگر حکومتیں بچوں کو اسکولوں میں داخلہ کروانے کے عمل کی نگرانی کریں تو خواندگی کی شرح بڑھنے کے ساتھ چائلڈ لیبر کا مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے۔ اسی طرح والدین کو کم بچے پیدا کرنے پر راغب کرنے کے لیے موثر حکمت عملی وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے۔
گزشتہ سال کے دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں غربت کی شرح میں 35.7 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ غربت کے عالمی انڈیکس Internation Poverty Index کے مطابق 116ممالک میں پاکستان کا 92واں نمبر ہے۔ ماہرین غربت کی سطح کا اندازہ ایک بالغ شخص کی فی کس کلوریز کے استعمال سے لگاتے ہیں۔
پاکستان میں ایک بالغ شخص 2.3 کلوریز استعمال کرتا ہے۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک عام آدمی کتنی کم خوراک استعمال کرتا ہے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ یہ خوراک بھی اس کو خیرات کی شکل میں دی جاتی ہے۔ غیر سرکار ی تنظیم ساحل کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے 2227 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
بچیوں کو تعلیم نہ دلانے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ ان تمام روایات کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے، اگرچہ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے ملک میں کئی قوانین نافذ ہیں مگر جب تک غربت ختم نہیں ہوتی تعلیم عام نہیں ہوگی اور بچوں سے بدسلوکی کا سلسلہ جاری رہے گا، کبھی رضوانہ، کبھی فاطمہ !
اس سے نگران وزیر اعلیٰ سندھ مقبول باقر کی انتظامی معاملات پر گرفت کے حوالے سے بھی سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔ پولیس نے ملزم اسد شاہ کو گرفتار کیا لیکن اس کی اہلیہ نے مقامی عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر لی ہے۔
رانی پور تھانے کے ڈی ایس پی نے اپنی تحقیقات کو عدالت میں پیش کرنے کے بجائے ملزمان کی مدد اور جرم کو چھپانے کے الزام میں گرفتار ایس ایچ او ، ڈاکٹر اور ڈسپنسر وغیرہ کو 27 اگست 2023 کو رہا کیا تھا۔
متعلقہ ڈی ایس پی کا دعویٰ تھا کہ ملزمان نے اپنی بے گناہی کے ثبوت دے دیے ہیں مگر ٹی وی چینل پر یہ خبر نشر ہونے اور سوشل میڈیا پر ملزمان کی رہائی کی خبر وائرل ہونے پر مقامی انتظامیہ حرکت میں آئی اور ملزمان کو دوبارہ حوالات میں بھیج دیا گیا۔
اب خبر آئی ہے کہ ان ملزمان کو باقاعدہ رہا کر دیا گیا ہے۔ اس دوران مجسٹریٹ کے حکم پر متوفی ملازمہ فاطمہ کی قبر کشائی کر کے لاش کا پوسٹ مارٹم ہوا۔
ڈاکٹروں نے ابتدائی رپورٹ میں متوفی کی آبروریزی کا خدشہ ظاہر کیا اور لاش سے حاصل ہونے والا مواد لیاقت میڈیکل یونیورسٹی بھیج دیا مگر خواتین کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کی اراکین نے فاطمہ کے جسم کے بعض اجزاء کو لیب بھیجنے پر تشویش کا اظہار کیا۔
سندھ یونیورسٹی کی پروفیسر امر سندھو نے اس فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان انتہائی با اثر ہیں، وہ لیب سے غلط رپورٹ حاصل کر سکتے ہیں۔
ملزم اسد شاہ کی گرفتاری اور ان کی اہلیہ کو مقدمے میں ملوث کرنے پر ان کے مریدوں اور کچے کے ڈاکوؤں نے دھمکیاں دینی شروع کردیں۔
کچے کے ڈاکوؤں کی ایک وڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ڈاکوؤں کے سرغنہ نے کہا کہ پیر اسد شاہ کو گرفتار کر کے گدی کی توہین کی گئی ہے۔ ڈاکوؤں نے رانی پور کے صحافیوں کو دھمکی دی ہے کہ وہ پیر اسد کے خلاف خبریں نہ بھیجیں ورنہ خطرناک نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ سندھی میڈیا میں فاطمہ کے قتل کی پرزور مذمت ہو رہی ہے۔
صحافیوں کا کہنا ہے کہ بااثر طبقے کی حویلیوں میں جرائم ہوتے رہتے ہیں مگر کبھی ان پر قانون کا نفاذ نہیں ہوا۔ پہلی دفعہ ایک پیر گھرانے کے ایک فرد کی گرفتاری ہوئی ہے۔ ایک اور دانشور نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی میعاد ختم ہونے اور نگران حکومت کے قیام کی بنا پر فاطمہ کے قتل کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔
گھریلو ملازم خاص طور پر کم سن بچوں بچیوں کا امیروں کے گھروں میں ملازمت کرنا ایک سنگین سماجی و معاشی مسئلہ ہے۔ کمسن ملازمہ پر تشدد کا یہ سندھ میں پہلا کیس رپورٹ ہوا ہے۔
پنجاب میں کئی برسوں سے کم سن ملازموں پر تشدد کے واقعات میڈیا کی خبروں کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک خاص بات یہ ہے کہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کے جو تین واقعات زیادہ مشہور ہوئے ان کا تعلق پنجاب سے تھا۔
کئی سال قبل اسلام آباد کے ایک ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر ، اپنی ملازمہ طیبہ پر تشدد کرنے پر 2016 میں تین تین سال کی سزا دی گئی تھی۔
لاہور بار ایسوسی ایشن کے ایک عہدیدار اور ان کی اہلیہ پر اپنی گھریلو ملازمہ پر تشدد کرنے اور پر اسرار موت کا الزام لگایا گیا تھا مگر وکلاء کے دباؤ کے نتیجے میں یہ معاملہ دبا دیا گیا۔
گزشتہ ماہ لاہور کے سول جج شیخ ندیم کی اہلیہ افشاں پر کمسن گھریلو ملازمہ پر بدترین تشدد کا الزام لگا ۔ یہ معاملہ اب عدالت میں ہے۔
بچوں سے مشقت لینے کا مسئلہ غربت سے منسلک ہے۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق 22.8 ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ یہ بچے اپنے والدین کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ والدین خاص طور پر بچیوں کو متوسط اور امراء کے گھروں میں کام کے لیے بھیج دیتے ہیں۔
پنجاب میں عموما کوئی ٹھیکیدار قسم کا فرد بچوں کو شہر میں کام دلانے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ ان غریب بچوں کے والد عموما مالک سے پیشگی رقم لے لیتے ہیں، اس طرح یہ بچے اور بچیاں مکمل طور پر اپنے مالک کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد اور ملتان وغیرہ میں بیوروکریٹ، تاجر اور بڑے زمیندار ان بچیوں کو ملازمت دیتے ہیں۔
ان بچیوں کے والد یا سرپرست بچیوں کی قیمت وصول کرچکے ہوتے ہیں تو گھروں کی مالکن ان کے ساتھ غلاموں اور کنیزوں جیسا سلوک کرتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ بیوروکریٹ، ججوں اور تاجروں وغیرہ کی بیویاں تعلیم یافتہ ہوتی ہیں مگر نوکروں کو غلام سمجھنے کی ذہنیت کی بناء پر وہ بدترین تشدد کو اپنا حق جانتی ہیں۔
دیہی علاقوں میں پیروں، جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کے گھروں میں غریب لوگ اپنے بچوں کو بیگار کے لیے بھیجنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان بچوں کے والدین کو تو شہروں میں کام کرنے والے بچوں کی طرح تنخواہ بھی نہیں ملتی۔
سندھ میں سماجی مسائل پر گہری نگاہ رکھنے والے سینئر صحافی سہیل سانگی کہتے ہیں کہ بعض معاملات میں غریب کسان اپنے بچوں کو بڑے لوگوں کے گھروں میں ملازم رکھوا دیتے ہیں اور اس کا معاوضہ بھی خود وصول کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے برسر اقتدار حکومتوں نے غربت کے خاتمے کے لیے ادارہ جاتی منصوبہ بندی نہیں کی۔ شہروں کے مقابلے میں دیہاتوں میں غربت کی شرح زیادہ ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے صنعتی ترقی کا ہونا ضروری ہے مگر ملک میں صنعتی ترقی کی رفتار بھی بہت کم ہے۔
بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے صنعتوں کے بند ہونے سے مزدوروں کے بے روزگار ہونے کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی ہے۔
کسی بھی حکومت نے والدین کو بچوں کو اسکول میں داخل کروانے کے لیے معقول معاوضہ دینے کی کوئی اسکیم شروع نہیں کی، اگر حکومتیں بچوں کو اسکولوں میں داخلہ کروانے کے عمل کی نگرانی کریں تو خواندگی کی شرح بڑھنے کے ساتھ چائلڈ لیبر کا مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے۔ اسی طرح والدین کو کم بچے پیدا کرنے پر راغب کرنے کے لیے موثر حکمت عملی وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے۔
گزشتہ سال کے دستیاب اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں غربت کی شرح میں 35.7 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ غربت کے عالمی انڈیکس Internation Poverty Index کے مطابق 116ممالک میں پاکستان کا 92واں نمبر ہے۔ ماہرین غربت کی سطح کا اندازہ ایک بالغ شخص کی فی کس کلوریز کے استعمال سے لگاتے ہیں۔
پاکستان میں ایک بالغ شخص 2.3 کلوریز استعمال کرتا ہے۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک عام آدمی کتنی کم خوراک استعمال کرتا ہے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ یہ خوراک بھی اس کو خیرات کی شکل میں دی جاتی ہے۔ غیر سرکار ی تنظیم ساحل کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے 2227 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
بچیوں کو تعلیم نہ دلانے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے۔ ان تمام روایات کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے، اگرچہ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے ملک میں کئی قوانین نافذ ہیں مگر جب تک غربت ختم نہیں ہوتی تعلیم عام نہیں ہوگی اور بچوں سے بدسلوکی کا سلسلہ جاری رہے گا، کبھی رضوانہ، کبھی فاطمہ !