عقل اور گھٹنے کا تعلق
یہ غلط فہمی اکثر لوگوں کو ہوجاتی ہے کہ یہ جو میرے ساتھ ہیں یا پیچھے چلے آرہے ہیں ’’میرے ساتھ ہیں ‘‘
ایک الجھن جو ہمیں عرصہ درازسے لاحق تھی اورباوجود سعی بیسار کے اس کی ''سلجھن'' ہماری سمجھ میں نہیں آرہی تھی ، بڑی آسانی سے ہمارے دوست جاوید چوہدری نے حل کردی۔
الجھن یہ تھی کہ یہاں وہاں سے سن سنا کر ہمیں یہ تو معلوم تھا کہ ''عقل '' کاکوئی رشتہ''گھٹنوں'' سے ضرورہے اورگھٹنوں کا بھی ''عقل'' سے کوئی نہ کوئی ناطہ ہے لیکن وہ رشتہ وہ ناطہ کیاہے؟ یہ معلوم نہ تھا حالانکہ ہم نے اپنی تحقیق کا ٹٹو اسصحرائے جستجو میں بہت دوڑایا تھا لیکن خداکا فضل وکرم دیکھیے، نہ جہاں میں کہیں اماں ملی جو ملی تو کہاں ملی ۔
حالانکہ جاوید چوہدری صاحب بات ہمارے کپتان، ہمارے چئیرمین ، ہمارے وژن اور ہمارے صادق وامین اورسابق سربراہ ریاست مدینہ کی کررہے تھے کہ یہ سب کچھ جو ان پر نازل ہو رہاہے، اس لیے ہورہاہے کہ ان کا ''گھٹنا'' نہیں باندھا گیا، اگر اب بھی وہ اپنا گھٹنا باندھنا سیکھ لیں تو بہت کچھ بن سکتاہے اور یہیں پر محترم نے گھٹنا باندھنے کی معلومات فراہم کرتے ہوئے لکھا ہے ۔
کہ پرانے زمانے میں جب عرب کے بدو کہیں قیام کرتے تھے تو اپنے اونٹ یا اونٹوں کا ایک گھٹنا موڑ کر رسی سے باندھ لیتے تھے جس کی وجہ سے اونٹ بھاگ نہیں سکتا یا بے مہار نہیں ہوسکتا تھا، رسی کے اس ٹکڑے کو وہ لوگ ''عقال''کہتے ہیں ۔
اس سے آگے کاقصہ ہم سناتے ہیں، وہ لوگ جب استراحت کرنے و الے ہوتے تو اونٹ کا گھٹنا کھول کر وہ رسی کا ٹکڑا اپنے سر پر لپیٹ لیتے تھے تاکہ جو کپڑا ان کے سر اورچہرے کو لو اورگردوغبار سے بچاتا تھا، وہ سر پر مضبوطی سے ٹکا رہے ۔
یوں اس چھوٹے سے رسی کے ٹکڑے کو قیام کے لیے دوسرا مقام مل جاتا تھا چنانچہ اس عقال سے آہستہ آہستہ ''عقل'' کالفظ بنا جس کے مجموعی معنی باندھنے یا گرہ لگانے کے ہوتے ہیں ، اردو میں کہیں نہ کہیں یہی معنی لیے جاتے ہیں ۔ چونکہ رسی کایہ چھوٹا سا ٹکڑا سر اورگھٹنے دونوں پر قابض ہوگیا، اس لیے شعرا نے اس کے بہت سارے قصیدے بھی پڑھے اورپڑھ رہے ہیں ۔
لازم ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
اوریہ سن کرتو آپ حیران ہوجائیے کہ اگر زیادہ تر عقل دار لوگ ، عقل کو سرکے بجائے گھٹنوں پر باندھے رکھتے ہیں ۔
یہ پتہ ہمیں اس وقت چلا جب ہم اپنے ایک لیڈر کی عیادت کو گئے۔ سنا تھا ، ان کاہلکا سا ایکسڈنٹ ہوگیاہے ، جان تو بچ گئی لیکن گھٹنوں پر چوٹیں آئی ہیں لیکن وہاں اس کے بندہ خاص نے بتایا کہ جناب ابھی تک بے ہوش ہیں اورکوما میں پڑے ہیں ۔حیرت رفع کرنے کے لیے ملازم خاص سے پوچھا کہ چوٹ تو ان کو گھٹنے پر لگی ہے، پھر بے ہوش کیسے ہوئے اورکوما میں کیسے پہنچ گئے ۔
ملازم خاص نے رازدارانہ طریقے سے بتایا کہ دراصل اس وقت اس کی عقل بھی گھٹنوں میں رکھی ہوئی تھی کیوں کہ موصوف کا قاعدہ ہے کہ جب بھی باہرجاتے ہیں، عقل کو گھٹنوں پر باندھ کر محفوظ کردیتے ہیں کیوں کہ ''سر'' تو ہروقت خطرے کی زد میں رہتاہے اوراتنی قیمتی متاع کو سر میں رکھنے کا رسک نہیں لیاجاسکتا۔
عرب لوگ ہوشیار اورعقل مند ہیں چنانچہ اب نہ وہ اونٹ رہے نہ عقل ایجاد کرنے والے بدورہے لیکن جو کام کی چیز تھی عقل یاعقال یعنی اونٹ ہی کے اون کی بنی ہوئی وہ چھو ٹی سی رسی،اسے سنبھال کر سر پر رکھ لیاہے کہ قیمتی چیز سر آنکھوں پر رکھی جاتی ہے، یوں اگر ہم بات ادھر ادھر سے سمیٹ کر دو لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو یہ ہے کہ ''عقل'' گھٹنوں ہی سے سیکھی جاتی ہے یاعقل کی اصل جائے پیدائش گھٹنے ہی ہیں، شاید انسان سب سے پہلے گھٹنوں کے بل چلنا سیکھتاہے ۔
ہمارے ہاں چوںکہ اونٹ نہیں ہے ،بھینس ہے، اس لیے ہم نے گھٹنوں سے عقل بھی نہیں سیکھی، صرف بین بجانا سیکھ لیاہے اورسر پر دوسنگ۔ چنانچہ کبھی تو بھینس کے آگے بین بجاتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کو سنگ مارتے ہیں ۔البتہ گھٹنوں کے بارے میں کچھ محاورے ایسے رکھتے ہیں جن میں گھٹنوں کاذکر ہوتاہے لیکن ان کامطلب بھی کوئی نہیں جانتا مثلاً ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ اب گھٹنے اورآنکھ کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ اس محاورے کے پیچھے والی کہانی کسی کو معلوم نہیں ۔
خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہوا کہ جس اونٹ کاذکر خیر ہورہاہے اورجس کی کوئی کل بھی سیدھی نہیں اگر اس کاکسی نے گھٹنا باندھا ہوتاتو اس کا آج یہ حال نہ ہوتا کہ ۔
سناہے دن کو اسے ''مکھیاں'' ستاتی ہیں
سناہے رات کو مچھر اتر کے دیکھتے ہیں
توقع تھی کہ محترمہ پیرنی اس کاگھٹنا عقال سے باندھ دے گی لیکن وہ بھی سیاسی کاموں میں اتنی بزی ہوگئیں کہ کپتان کے گھٹنے کو عقال دینا بھول گئیں ۔ ظاہر ہے کہ جس اونٹ کاگھٹنا نہ بندھا ہو، وہ تو دوڑے گا اوربے تحاشادوڑے گا ۔
رومیں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں
جس کا نتیجہ وہی نکلنا تھا جو نکل آیا کہ اس کے چاروں گھٹنے مفلوج ہیں کیوں کہ جس ''جمگھٹ''کے زورپروہ دوڑ رہاتھا، وہ نہ جانے کہاں چلاگیا ۔
دشت تنہائی ہجراں میں کھڑا سوچتاہوں
ہائے کیالوگ تھے جو ساتھ نبھانے نکلے
یہ غلط فہمی اکثر لوگوں کو ہوجاتی ہے کہ یہ جو میرے ساتھ ہیں یا پیچھے چلے آرہے ہیں ''میرے ساتھ ہیں '' لیکن یہ پیچھے چلے آنے والے کسی کے بھی ساتھ نہیں ہوتے، صرف ''اپنے ساتھ'' ہوتے ہیں ۔
پلٹ کے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا ہوا کے سوا
جو میرے ساتھ تھے جانے کدھر گئے چپ چاپ
الجھن یہ تھی کہ یہاں وہاں سے سن سنا کر ہمیں یہ تو معلوم تھا کہ ''عقل '' کاکوئی رشتہ''گھٹنوں'' سے ضرورہے اورگھٹنوں کا بھی ''عقل'' سے کوئی نہ کوئی ناطہ ہے لیکن وہ رشتہ وہ ناطہ کیاہے؟ یہ معلوم نہ تھا حالانکہ ہم نے اپنی تحقیق کا ٹٹو اسصحرائے جستجو میں بہت دوڑایا تھا لیکن خداکا فضل وکرم دیکھیے، نہ جہاں میں کہیں اماں ملی جو ملی تو کہاں ملی ۔
حالانکہ جاوید چوہدری صاحب بات ہمارے کپتان، ہمارے چئیرمین ، ہمارے وژن اور ہمارے صادق وامین اورسابق سربراہ ریاست مدینہ کی کررہے تھے کہ یہ سب کچھ جو ان پر نازل ہو رہاہے، اس لیے ہورہاہے کہ ان کا ''گھٹنا'' نہیں باندھا گیا، اگر اب بھی وہ اپنا گھٹنا باندھنا سیکھ لیں تو بہت کچھ بن سکتاہے اور یہیں پر محترم نے گھٹنا باندھنے کی معلومات فراہم کرتے ہوئے لکھا ہے ۔
کہ پرانے زمانے میں جب عرب کے بدو کہیں قیام کرتے تھے تو اپنے اونٹ یا اونٹوں کا ایک گھٹنا موڑ کر رسی سے باندھ لیتے تھے جس کی وجہ سے اونٹ بھاگ نہیں سکتا یا بے مہار نہیں ہوسکتا تھا، رسی کے اس ٹکڑے کو وہ لوگ ''عقال''کہتے ہیں ۔
اس سے آگے کاقصہ ہم سناتے ہیں، وہ لوگ جب استراحت کرنے و الے ہوتے تو اونٹ کا گھٹنا کھول کر وہ رسی کا ٹکڑا اپنے سر پر لپیٹ لیتے تھے تاکہ جو کپڑا ان کے سر اورچہرے کو لو اورگردوغبار سے بچاتا تھا، وہ سر پر مضبوطی سے ٹکا رہے ۔
یوں اس چھوٹے سے رسی کے ٹکڑے کو قیام کے لیے دوسرا مقام مل جاتا تھا چنانچہ اس عقال سے آہستہ آہستہ ''عقل'' کالفظ بنا جس کے مجموعی معنی باندھنے یا گرہ لگانے کے ہوتے ہیں ، اردو میں کہیں نہ کہیں یہی معنی لیے جاتے ہیں ۔ چونکہ رسی کایہ چھوٹا سا ٹکڑا سر اورگھٹنے دونوں پر قابض ہوگیا، اس لیے شعرا نے اس کے بہت سارے قصیدے بھی پڑھے اورپڑھ رہے ہیں ۔
لازم ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
اوریہ سن کرتو آپ حیران ہوجائیے کہ اگر زیادہ تر عقل دار لوگ ، عقل کو سرکے بجائے گھٹنوں پر باندھے رکھتے ہیں ۔
یہ پتہ ہمیں اس وقت چلا جب ہم اپنے ایک لیڈر کی عیادت کو گئے۔ سنا تھا ، ان کاہلکا سا ایکسڈنٹ ہوگیاہے ، جان تو بچ گئی لیکن گھٹنوں پر چوٹیں آئی ہیں لیکن وہاں اس کے بندہ خاص نے بتایا کہ جناب ابھی تک بے ہوش ہیں اورکوما میں پڑے ہیں ۔حیرت رفع کرنے کے لیے ملازم خاص سے پوچھا کہ چوٹ تو ان کو گھٹنے پر لگی ہے، پھر بے ہوش کیسے ہوئے اورکوما میں کیسے پہنچ گئے ۔
ملازم خاص نے رازدارانہ طریقے سے بتایا کہ دراصل اس وقت اس کی عقل بھی گھٹنوں میں رکھی ہوئی تھی کیوں کہ موصوف کا قاعدہ ہے کہ جب بھی باہرجاتے ہیں، عقل کو گھٹنوں پر باندھ کر محفوظ کردیتے ہیں کیوں کہ ''سر'' تو ہروقت خطرے کی زد میں رہتاہے اوراتنی قیمتی متاع کو سر میں رکھنے کا رسک نہیں لیاجاسکتا۔
عرب لوگ ہوشیار اورعقل مند ہیں چنانچہ اب نہ وہ اونٹ رہے نہ عقل ایجاد کرنے والے بدورہے لیکن جو کام کی چیز تھی عقل یاعقال یعنی اونٹ ہی کے اون کی بنی ہوئی وہ چھو ٹی سی رسی،اسے سنبھال کر سر پر رکھ لیاہے کہ قیمتی چیز سر آنکھوں پر رکھی جاتی ہے، یوں اگر ہم بات ادھر ادھر سے سمیٹ کر دو لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو یہ ہے کہ ''عقل'' گھٹنوں ہی سے سیکھی جاتی ہے یاعقل کی اصل جائے پیدائش گھٹنے ہی ہیں، شاید انسان سب سے پہلے گھٹنوں کے بل چلنا سیکھتاہے ۔
ہمارے ہاں چوںکہ اونٹ نہیں ہے ،بھینس ہے، اس لیے ہم نے گھٹنوں سے عقل بھی نہیں سیکھی، صرف بین بجانا سیکھ لیاہے اورسر پر دوسنگ۔ چنانچہ کبھی تو بھینس کے آگے بین بجاتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کو سنگ مارتے ہیں ۔البتہ گھٹنوں کے بارے میں کچھ محاورے ایسے رکھتے ہیں جن میں گھٹنوں کاذکر ہوتاہے لیکن ان کامطلب بھی کوئی نہیں جانتا مثلاً ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ اب گھٹنے اورآنکھ کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ اس محاورے کے پیچھے والی کہانی کسی کو معلوم نہیں ۔
خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہوا کہ جس اونٹ کاذکر خیر ہورہاہے اورجس کی کوئی کل بھی سیدھی نہیں اگر اس کاکسی نے گھٹنا باندھا ہوتاتو اس کا آج یہ حال نہ ہوتا کہ ۔
سناہے دن کو اسے ''مکھیاں'' ستاتی ہیں
سناہے رات کو مچھر اتر کے دیکھتے ہیں
توقع تھی کہ محترمہ پیرنی اس کاگھٹنا عقال سے باندھ دے گی لیکن وہ بھی سیاسی کاموں میں اتنی بزی ہوگئیں کہ کپتان کے گھٹنے کو عقال دینا بھول گئیں ۔ ظاہر ہے کہ جس اونٹ کاگھٹنا نہ بندھا ہو، وہ تو دوڑے گا اوربے تحاشادوڑے گا ۔
رومیں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں
جس کا نتیجہ وہی نکلنا تھا جو نکل آیا کہ اس کے چاروں گھٹنے مفلوج ہیں کیوں کہ جس ''جمگھٹ''کے زورپروہ دوڑ رہاتھا، وہ نہ جانے کہاں چلاگیا ۔
دشت تنہائی ہجراں میں کھڑا سوچتاہوں
ہائے کیالوگ تھے جو ساتھ نبھانے نکلے
یہ غلط فہمی اکثر لوگوں کو ہوجاتی ہے کہ یہ جو میرے ساتھ ہیں یا پیچھے چلے آرہے ہیں ''میرے ساتھ ہیں '' لیکن یہ پیچھے چلے آنے والے کسی کے بھی ساتھ نہیں ہوتے، صرف ''اپنے ساتھ'' ہوتے ہیں ۔
پلٹ کے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا ہوا کے سوا
جو میرے ساتھ تھے جانے کدھر گئے چپ چاپ