مہنگی بجلی اور فیصلہ ساز
پاکستان کی معیشت کی حقیقت اور مہنگی بجلی کی وجوہات گزری حکومت کو بھی معلوم تھی اور موجودہ نگران حکومت سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ وزارت خزانہ بھی ملک کی مالی صورت حال کو کمزور قرار دے چکی ہے ' وفاقی حکومت کے قرضوں کوبھی خطرہ قرار دیا جا چکا ہے۔
اخبارات وغیرہ میں سرکاری قرضے کے بارے میںکہا گیا ہے کہ یہ قرضہ جی ڈی پی کے 78.4 فیصد تک پہنچ ہے۔ سرکاری اداروں کے قرضے اور گارنٹیز کا بوجھ بھی بڑھ چکا ہے۔
اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ معاملات کو سدھارا کیسے جائے'میڈیا کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے بجلی کے بلوں میں ریلیف کا نیا پلان آئی ایم ایف کو بھجوا دیا ہے۔ مجوزہ پلان کے مطابق آئی پی پیز کے لیے مختص اضافی رقم کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کے لیے ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے۔
بل کی اقساط وصول ہونے پر 15ارب سے زائد کی یہ رقم واپس آئی پی پیز کے لیے مختص کی جائے گی۔ خبر میں ذرایع کے حوالے سے بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پلان پر وزارت خزانہ کے حکام دوبارہ بات کریں گے ۔
آجا کے تان اسی پر ٹوٹتی ہے کہ آئی ایم ایف اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ چند روز پہلے کی خبر میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے پلان کو تسلیم نہیں کیا 'اب نیا پلان آئی ایم ایف منظور کرتا ہے یا نہیں اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ خبر میں تو یہی کہا گیا ہے کہ اب نئے پلان میں آئی ایم ایف کو بجٹ سے باہر ریلیف نہ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
ادھر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی نے پاور ڈویژن کو200 یونٹ ماہانہ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے نرخوں میں اضافہ نہ کرنے کی سفارش کی ہے'اور ساتھ ہی متنبہ کیا کہ بجلی کے اضافی بل عوام کواحتجاج پر مجبور کر سکتے ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی اجلاس کے دوران کمیٹی ارکان نے پاور ڈویژن اور پاور ریگولیٹر کے حکام سے بجلی کے مہنگے بلوں کے بارے میں سوالات بھی پوچھے گئے ہیں۔سینیٹ کمیٹی ارکان نے گھریلو صارفین کو ریلیف دینے کے لیے پاور ڈویژن کی مبہم اور پیچیدہ پالیسیوں پر افسوس کا اظہار کیا اور اتفاق رائے سے مطالبہ کیا کہ 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والوںکے لیے ٹیرف میں اضافہ غیرمشروط طور پر ختم کیا جائے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا اس ملک گیر بحران کا واحد حل یہ ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے پر پر نظرثانی کی کوشش کی جائے اور قانونی فریم ورک کے مطابق بجلی کی تخمینہ جاتی قیمت کا دوبارہ جائزہ لیا جائے، آئی پی پیز کو کسی نگرانی کے بغیر آزادانہ طور پرکام نہیں کرنا چاہیے جس سے اوور انوائسنگ ہوتی ہے۔
پورے ڈھانچے کو دوبارہ جانچنے اور غلط معلومات اور دھوکا دہی سے متعلق شقوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔چیئرمین سینیٹ کمیٹی نے مزید کہا عوام کو اس وقت تک ریلیف نہیں ملے گا جب تک کہ پاور ڈویژن میں نااہل افسران کی تقرری کی جاتی رہے گی۔ کمیٹی نے آئی پی پیز کو 10 سال کے دوران ادائیگی کی تفصیلات کی عدم فراہمی پر تحفظات کا اظہار کیا۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ حکومت بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔کمیٹی نے بتایا کہ معاشرے کے کمزور طبقوں کو ٹیرف میں آئے روز جھٹکے دینے کے بجائے ان کے حق میں پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ کمیٹی نے سیکریٹری پاور اور چیئرمین نیپرا کی اجلاس میں عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کیا۔
قائمہ کمیٹی نے نگران وزیر توانائی، سیکریٹری توانائی اور چیئرمین نیپرا کو طلب کرلیا اور کہا نیپرا اور پاور ڈویژن غیر سنجیدگی دکھا رہے ہیں۔ سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہا کہ چینلز پر بیٹھ کر کہا جاتا ہے کہ یہ آئی ایم ایف کی وجہ سے ہے، بجلی چوری اور ڈیفالٹ روکنے سے آئی ایم ایف نے تو منع نہیں کیا۔
سینیٹ کی کمیٹی برائے توانائی کے ارکان نے جو کچھ کہا ہے' وہ درست ہے لیکن مسئلہ توسسٹم اور قوانین کا ہے۔ جب تک سسٹم کو خرابیوں سے پاک نہیں کیا جائے گا' پاکستان میں استحکام ممکن نہیں ہے۔پاکستان کا سسٹم طاقتور طبقوں'مذہبی انتہا پسندوںاور ریاستی اداروں کے اعلیٰ عہدے داروں کے اختیارات کو تحفظ دیتا ہے حالانکہ یہی طبقے خرابی کی بنیادی اینٹ ہیں۔معیشت کا معاملہ ہو'داخلی امن و امان اور سروس سیکٹر کے اداروں کا معاملہ ہو'جوڈیشل سسٹم ہو یا ملک کا آئینی ڈھانچہ ہو'پاکستان کا عدم استحکام کا منبع یہیں ہے۔
بجلی کی مہنگائی کو ہی دیکھ لیں'بجلی کی مارکٹنگ کمپنیاں یعنی ڈسکوز ہوں'واپڈا ہو یا آئی پی پیز'آئین'قانون'ادارہ جاتی قواعد و ضوابط نے اس معاملے کواتنا پیچیدہ بنا دیا ہے کہ کوئی بھی اپنی ذمے داری لینے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی آئین' قوانین اور ضوابط کسی کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں 'یوں بجلی کے صارفین دفاتر کے چکر لگا لگا کر تھک جاتے ہیں' جو ذرا خوشحال ہیں وہ قانونی چارہ جوئی کرتے ہیں لیکن آخر کار بجلی کے بل میں کمی نہیں کروا سکتے اور انھیں پوری رقم جمع کرانا پڑتی ہے'پی ڈی ایم حکومت نے 200یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو ریلیف دیا تھا 'لیکن عملاً یہ ریلیف کن لوگوں کو ملا ہے ' اس کے اعدادوشمار کسی کے پاس نہیں ہیں۔
اب خبروں میں بتایا گیا ہے کہ نگران حکومت نے تین سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے بلوں میں ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ ریلیف اکتوبرکے بلوں میں ملے گا۔ اب یہ ریلیف کن لوگوں کو ملے گا 'اس کے بارے میں سب جانتے ہیں 'یہ ریلیف بھی پیچیدہ اور مبہم قواعد و ضوابط کی نظر ہو جائے گا۔اصل مسئلہ قواعد و ضوابط کو سادہ اور مختصر ہونا چاہیے' ان قواعد میں اعلیٰ افسران کے احتساب کا میکنزم بھی شامل کیا جانا چاہیے ' جب تک اعلیٰ افسران احتساب کی زد میں نہیں آئیں گے ' کوئی بھی ریلیف عوام تک نہیں پہنچ پائے گا۔
مالیاتی توازن برقرار رکھنے کے لیے موجودہ نگران حکومت کسی بھی ٹیکس کی وصولی میں کمی یا تاخیرنہیں کر سکتی۔ ملک میں بجلی مہنگی ہونے کی بنیادی وجہ کیپسٹی چارجزکا نفاذ ہے ۔ حکومت نے کیپسٹی چارجزکو ضروری قرار دیا ہے حالانکہ اس پالیسی کی منطق اور انصاف کے تقاضے کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہے۔
ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی ہو رہی ہے 'لوگ بجلی کے استعمال میں بھی احتیاط کر رہے ہیں لیکن بجلی کے بل مسلسل بڑھ رہے ہیں ۔عام پاکستانیوں کے لیے بے پناہ مالی مشکلاتپیدا ہو چکی ہیں۔ نگراں وزیر اعظم 'کابینہ اور سینیٹ کمیٹیاں جتنے مرضی اجلاس بلائیں' بحث و مباحثہ کریں، آئی ایم ایف کے حکام کو قائل کیے بغیر بجلی کی قیمتیں کم نہیں ہو سکتیں۔عالمی منڈی میںپٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوجائیں تب بھی پاکستان میںاس کی قیمتیں بڑھیں گی۔
کیونکہ بجلی کا گردشی قرضہ مسلسل بڑھ رہا ہے اوراسے ادا کرنے کے لیے عام صارفین پر مسلسل بوجھ ڈالا جا رہا ہے حالانکہ عوام کا ان قرضوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ وہ تو اپنا پورا بل دے رہے ہیں۔ گردشی قرضوں میں اضافے کی ذمے دار بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اورآئی پی پیز کے ساتھ شرائط طے کرنے والے فیصلہ ساز ہیں۔
جب بجلی اتنی مہنگی ہے تو پھر آئی پی پیز سے معاہدے کیے کیے گئے؟ لائن لاسز اور چوری ہیںروکنا بجلی کے صارفین کی ذمے داری نہیں ہے'حکومتی عہدے دار' نیپرا اورڈسکوز کی افسر شاہی یہ تو بتاتے ہیں کہ اتنے اربوں روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے اور اتنے ارب کے لائن لاسز ہیںلیکن سوال یہ ہے کہ ان پر قابو پانا کس کی ذمے داری ہے؟
آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ حال ہی میں کیے گئے تین ارب ڈالرزکے معاہدے میں بجلی کے شعبہ میں اصلاحات کرنے اور گردشی قرضے کو روکنے کی شرط رکھی ہے۔ حکومت نے گزشتہ ایک سال میں بجلی کی قیمتوں میں 81 فیصد کے قریب اضافہ کیا ہے مگر اس کے باوجود بجلی کا گردشی قرضہ 400 ارب روپے سے بڑھا ہے۔
اس میں نہ تو آئی ایم ایف کا کوئی قصور ہے اور نہ ہی بجلی صارفین کا۔جن کی ذمے داری ہے 'وہی اپنی بے بسی 'مظلومیت کا اظہار کرتے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں ہمارا کوئی قصور' غلطی 'کوتاہی یا غفلت کا مظاہرہ نہیں ہے بلکہ اس کے ذمے دار بجلی چور ہیں۔
یہ دلیل اس لیے دی جاتی ہے کہ قوانین اور ضوابط ذمے داروں اور قصور واروں کو تحفظ دیتے ہیں اور وہ کسی قسم کے احتساب سے باہر ہیں۔سینیٹرز کو اپنی تنخواہوں اور مراعات کی فکر ہوتی ہے'وہ اپنے استحقاق کے مجروح ہونے پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔لیکن عوام کے لیے سوائے باتوں کے کچھ نہیں کرتے۔یہی حال وزیروں اور مشیروں کا ہے اور یہی کچھ افسر شاہی کر رہی ہے۔
ادھر حکومت نے ایک بار پھر لگژری اشیاء کی درآمد پر ٹیکس میں اضافہ کرنے پر غور شروع کردیا ہے، درآمدات کی حوصلہ شکنی کے لیے مختلف تجاویز نگران وزیرخزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کو پیش کی گئی ہیں، ماضی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جب درآمدات پر ٹیکسز میں اضافہ کیا گیا تو افغان بارڈر کے ذریعے اسمگلنگ میں اضافہ ہوا۔محض امپورٹس پر ٹیکس بڑھانے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ شمال مغربی سرحدوں پر ہونے والی غیر قانونی ٹریڈ کے خاتمے کے لیے بھی کام کرنا ہو گا۔
اخبارات وغیرہ میں سرکاری قرضے کے بارے میںکہا گیا ہے کہ یہ قرضہ جی ڈی پی کے 78.4 فیصد تک پہنچ ہے۔ سرکاری اداروں کے قرضے اور گارنٹیز کا بوجھ بھی بڑھ چکا ہے۔
اب مسئلہ صرف یہ ہے کہ معاملات کو سدھارا کیسے جائے'میڈیا کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت نے بجلی کے بلوں میں ریلیف کا نیا پلان آئی ایم ایف کو بھجوا دیا ہے۔ مجوزہ پلان کے مطابق آئی پی پیز کے لیے مختص اضافی رقم کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کے لیے ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے۔
بل کی اقساط وصول ہونے پر 15ارب سے زائد کی یہ رقم واپس آئی پی پیز کے لیے مختص کی جائے گی۔ خبر میں ذرایع کے حوالے سے بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پلان پر وزارت خزانہ کے حکام دوبارہ بات کریں گے ۔
آجا کے تان اسی پر ٹوٹتی ہے کہ آئی ایم ایف اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ چند روز پہلے کی خبر میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے پلان کو تسلیم نہیں کیا 'اب نیا پلان آئی ایم ایف منظور کرتا ہے یا نہیں اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ خبر میں تو یہی کہا گیا ہے کہ اب نئے پلان میں آئی ایم ایف کو بجٹ سے باہر ریلیف نہ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
ادھر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی نے پاور ڈویژن کو200 یونٹ ماہانہ سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے نرخوں میں اضافہ نہ کرنے کی سفارش کی ہے'اور ساتھ ہی متنبہ کیا کہ بجلی کے اضافی بل عوام کواحتجاج پر مجبور کر سکتے ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی اجلاس کے دوران کمیٹی ارکان نے پاور ڈویژن اور پاور ریگولیٹر کے حکام سے بجلی کے مہنگے بلوں کے بارے میں سوالات بھی پوچھے گئے ہیں۔سینیٹ کمیٹی ارکان نے گھریلو صارفین کو ریلیف دینے کے لیے پاور ڈویژن کی مبہم اور پیچیدہ پالیسیوں پر افسوس کا اظہار کیا اور اتفاق رائے سے مطالبہ کیا کہ 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والوںکے لیے ٹیرف میں اضافہ غیرمشروط طور پر ختم کیا جائے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا اس ملک گیر بحران کا واحد حل یہ ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے پر پر نظرثانی کی کوشش کی جائے اور قانونی فریم ورک کے مطابق بجلی کی تخمینہ جاتی قیمت کا دوبارہ جائزہ لیا جائے، آئی پی پیز کو کسی نگرانی کے بغیر آزادانہ طور پرکام نہیں کرنا چاہیے جس سے اوور انوائسنگ ہوتی ہے۔
پورے ڈھانچے کو دوبارہ جانچنے اور غلط معلومات اور دھوکا دہی سے متعلق شقوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔چیئرمین سینیٹ کمیٹی نے مزید کہا عوام کو اس وقت تک ریلیف نہیں ملے گا جب تک کہ پاور ڈویژن میں نااہل افسران کی تقرری کی جاتی رہے گی۔ کمیٹی نے آئی پی پیز کو 10 سال کے دوران ادائیگی کی تفصیلات کی عدم فراہمی پر تحفظات کا اظہار کیا۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ حکومت بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔کمیٹی نے بتایا کہ معاشرے کے کمزور طبقوں کو ٹیرف میں آئے روز جھٹکے دینے کے بجائے ان کے حق میں پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ کمیٹی نے سیکریٹری پاور اور چیئرمین نیپرا کی اجلاس میں عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کیا۔
قائمہ کمیٹی نے نگران وزیر توانائی، سیکریٹری توانائی اور چیئرمین نیپرا کو طلب کرلیا اور کہا نیپرا اور پاور ڈویژن غیر سنجیدگی دکھا رہے ہیں۔ سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہا کہ چینلز پر بیٹھ کر کہا جاتا ہے کہ یہ آئی ایم ایف کی وجہ سے ہے، بجلی چوری اور ڈیفالٹ روکنے سے آئی ایم ایف نے تو منع نہیں کیا۔
سینیٹ کی کمیٹی برائے توانائی کے ارکان نے جو کچھ کہا ہے' وہ درست ہے لیکن مسئلہ توسسٹم اور قوانین کا ہے۔ جب تک سسٹم کو خرابیوں سے پاک نہیں کیا جائے گا' پاکستان میں استحکام ممکن نہیں ہے۔پاکستان کا سسٹم طاقتور طبقوں'مذہبی انتہا پسندوںاور ریاستی اداروں کے اعلیٰ عہدے داروں کے اختیارات کو تحفظ دیتا ہے حالانکہ یہی طبقے خرابی کی بنیادی اینٹ ہیں۔معیشت کا معاملہ ہو'داخلی امن و امان اور سروس سیکٹر کے اداروں کا معاملہ ہو'جوڈیشل سسٹم ہو یا ملک کا آئینی ڈھانچہ ہو'پاکستان کا عدم استحکام کا منبع یہیں ہے۔
بجلی کی مہنگائی کو ہی دیکھ لیں'بجلی کی مارکٹنگ کمپنیاں یعنی ڈسکوز ہوں'واپڈا ہو یا آئی پی پیز'آئین'قانون'ادارہ جاتی قواعد و ضوابط نے اس معاملے کواتنا پیچیدہ بنا دیا ہے کہ کوئی بھی اپنی ذمے داری لینے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی آئین' قوانین اور ضوابط کسی کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں 'یوں بجلی کے صارفین دفاتر کے چکر لگا لگا کر تھک جاتے ہیں' جو ذرا خوشحال ہیں وہ قانونی چارہ جوئی کرتے ہیں لیکن آخر کار بجلی کے بل میں کمی نہیں کروا سکتے اور انھیں پوری رقم جمع کرانا پڑتی ہے'پی ڈی ایم حکومت نے 200یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو ریلیف دیا تھا 'لیکن عملاً یہ ریلیف کن لوگوں کو ملا ہے ' اس کے اعدادوشمار کسی کے پاس نہیں ہیں۔
اب خبروں میں بتایا گیا ہے کہ نگران حکومت نے تین سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے بلوں میں ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ ریلیف اکتوبرکے بلوں میں ملے گا۔ اب یہ ریلیف کن لوگوں کو ملے گا 'اس کے بارے میں سب جانتے ہیں 'یہ ریلیف بھی پیچیدہ اور مبہم قواعد و ضوابط کی نظر ہو جائے گا۔اصل مسئلہ قواعد و ضوابط کو سادہ اور مختصر ہونا چاہیے' ان قواعد میں اعلیٰ افسران کے احتساب کا میکنزم بھی شامل کیا جانا چاہیے ' جب تک اعلیٰ افسران احتساب کی زد میں نہیں آئیں گے ' کوئی بھی ریلیف عوام تک نہیں پہنچ پائے گا۔
مالیاتی توازن برقرار رکھنے کے لیے موجودہ نگران حکومت کسی بھی ٹیکس کی وصولی میں کمی یا تاخیرنہیں کر سکتی۔ ملک میں بجلی مہنگی ہونے کی بنیادی وجہ کیپسٹی چارجزکا نفاذ ہے ۔ حکومت نے کیپسٹی چارجزکو ضروری قرار دیا ہے حالانکہ اس پالیسی کی منطق اور انصاف کے تقاضے کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہے۔
ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی ہو رہی ہے 'لوگ بجلی کے استعمال میں بھی احتیاط کر رہے ہیں لیکن بجلی کے بل مسلسل بڑھ رہے ہیں ۔عام پاکستانیوں کے لیے بے پناہ مالی مشکلاتپیدا ہو چکی ہیں۔ نگراں وزیر اعظم 'کابینہ اور سینیٹ کمیٹیاں جتنے مرضی اجلاس بلائیں' بحث و مباحثہ کریں، آئی ایم ایف کے حکام کو قائل کیے بغیر بجلی کی قیمتیں کم نہیں ہو سکتیں۔عالمی منڈی میںپٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوجائیں تب بھی پاکستان میںاس کی قیمتیں بڑھیں گی۔
کیونکہ بجلی کا گردشی قرضہ مسلسل بڑھ رہا ہے اوراسے ادا کرنے کے لیے عام صارفین پر مسلسل بوجھ ڈالا جا رہا ہے حالانکہ عوام کا ان قرضوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ وہ تو اپنا پورا بل دے رہے ہیں۔ گردشی قرضوں میں اضافے کی ذمے دار بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اورآئی پی پیز کے ساتھ شرائط طے کرنے والے فیصلہ ساز ہیں۔
جب بجلی اتنی مہنگی ہے تو پھر آئی پی پیز سے معاہدے کیے کیے گئے؟ لائن لاسز اور چوری ہیںروکنا بجلی کے صارفین کی ذمے داری نہیں ہے'حکومتی عہدے دار' نیپرا اورڈسکوز کی افسر شاہی یہ تو بتاتے ہیں کہ اتنے اربوں روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے اور اتنے ارب کے لائن لاسز ہیںلیکن سوال یہ ہے کہ ان پر قابو پانا کس کی ذمے داری ہے؟
آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ حال ہی میں کیے گئے تین ارب ڈالرزکے معاہدے میں بجلی کے شعبہ میں اصلاحات کرنے اور گردشی قرضے کو روکنے کی شرط رکھی ہے۔ حکومت نے گزشتہ ایک سال میں بجلی کی قیمتوں میں 81 فیصد کے قریب اضافہ کیا ہے مگر اس کے باوجود بجلی کا گردشی قرضہ 400 ارب روپے سے بڑھا ہے۔
اس میں نہ تو آئی ایم ایف کا کوئی قصور ہے اور نہ ہی بجلی صارفین کا۔جن کی ذمے داری ہے 'وہی اپنی بے بسی 'مظلومیت کا اظہار کرتے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں ہمارا کوئی قصور' غلطی 'کوتاہی یا غفلت کا مظاہرہ نہیں ہے بلکہ اس کے ذمے دار بجلی چور ہیں۔
یہ دلیل اس لیے دی جاتی ہے کہ قوانین اور ضوابط ذمے داروں اور قصور واروں کو تحفظ دیتے ہیں اور وہ کسی قسم کے احتساب سے باہر ہیں۔سینیٹرز کو اپنی تنخواہوں اور مراعات کی فکر ہوتی ہے'وہ اپنے استحقاق کے مجروح ہونے پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔لیکن عوام کے لیے سوائے باتوں کے کچھ نہیں کرتے۔یہی حال وزیروں اور مشیروں کا ہے اور یہی کچھ افسر شاہی کر رہی ہے۔
ادھر حکومت نے ایک بار پھر لگژری اشیاء کی درآمد پر ٹیکس میں اضافہ کرنے پر غور شروع کردیا ہے، درآمدات کی حوصلہ شکنی کے لیے مختلف تجاویز نگران وزیرخزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کو پیش کی گئی ہیں، ماضی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جب درآمدات پر ٹیکسز میں اضافہ کیا گیا تو افغان بارڈر کے ذریعے اسمگلنگ میں اضافہ ہوا۔محض امپورٹس پر ٹیکس بڑھانے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ شمال مغربی سرحدوں پر ہونے والی غیر قانونی ٹریڈ کے خاتمے کے لیے بھی کام کرنا ہو گا۔