یوم دفاع عقیدہ ختم نبوت
آج 7ستمبر ہے، اس دن کو مسلمانان پاکستان یوم دفاع عقیدہِ ختم نبوت کے طور پر مناتے ہیں، ملک گیر سطح پر اس عنوان سے جلسے جلوس اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں، جن کا مقصد نسل نو کو عقیدہِ ختم نبوت اور اس کے دفاع کے لیے کی جانے والی جدوجہد کے بارے میں آگاہی دینا ہوتا ہے۔
ہمارے آج کے کالم کا مقصد بھی یہی ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ کے منصبِ رسالت اور ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کی اساس اورمسلمانوں میں وحدتِ اْمت کی علامت ہے۔ جھوٹے نبیوں کی ایک پوری تاریخ ہے۔ انکارِ ختمِ نبوت پر مبنی فتنوں نے ظہور اسلام کے وقت سے ہی سراٹھانا شروع کردیا تھا، ہندوستان میں بھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیاگیا۔
علمائِ اْمت کے علاوہ ڈاکٹر علامہ اقبال مرحوم جیسی جدید تعلیم یافتہ شخصیات نے عقیدہِ ختم نبوت کے تحفظ کے مورچے کو سنبھالا۔ بے شمار دینی جماعتوں نے شعبہ تبلیغ :تحفظ ختم نبوت قائم کرکے پورے ہندوستان میں امت مسلمہ کو عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور اس کے دفاع کے لیے کھڑا کیا۔
پھر پاکستان معرض وجود میں آگیا تو یہاں مجلس احرار اسلام کے قائد اور شعلہ بیان خطیب امیر شریعت مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری ؒ نے تمام مکاتب فکر کے علمائ، مشائخ، آئمہ و خطباء اور ممتاز شخصیات کو اکٹھا کیا اور ''کْل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت'' کے مشترکہ پلیٹ فارم سے جدوجہد کا آغاز کیا اور حضرت مولانا ابو الحسنات قادریؒ کے سر پر مجلس عمل کی سربراہی کا تاج رکھا، سید عطا اللہ شاہ بخاری نے اپنی ولولہ انگیز تقاریر کے ذریعے کراچی سے خیبر تک مسلمانان پاکستان کے دلوں میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا جذبہ بیدار کیا۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں پارلیمنٹ نے 13 دن کی طویل بحث اور فریقین کا مؤقف سننے کے بعد آئین میں ترمیم کرکے بالاتفاق قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ پارلیمنٹ کے اندر یہ لڑائی وقت کے درویش صفت سیاستدان شیخ الحدیث مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ نے لڑی، ان کا ساتھ دینے والوں میں مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا ظفر انصاری، پروفیسر غفور احمد، پروفیسر خورشید احمد، اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار جیسی قدآور شخصیات شامل تھے۔
پاکستان اقلیتوں کی جنت ہے، یہاں مسیحی، ہندواور سکھ بھی رہتے ہیں، دیگر مذاہب کے لوگ بھی آباد ہیں، سب کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو اسلام اور پاکستان کے آئین نے انھیں دیے ہیں۔ سب کو یہاں مذہبی، سیاسی، معاشی و معاشرتی آزادیاں حاصل ہیں کیونکہ وہ سب پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں۔
اسلام کی بنیاد توحید، رسالت اور آخرت کے علاوہ جس بنیادی عقیدہ پر ہے، وہ ہے ''عقیدہ ختم نبوت''۔ حضرت محمد ﷺ پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ آپﷺ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی شخص کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ یہ عقیدہ اسلام کی جان ہے۔
ساری شریعت اور سارے دین کا مدار اسی عقیدہ پر ہے' قرآن کریم کی ایک سو سے زائد آیات اور آنحضرت کی سیکڑوں احادیث اس عقیدہ پر گواہ ہیں۔ اہل بیت، تمام صحابہ کرام تابعین عظام، تبع تابعین، آئمہ مجتہدین اور چودہ صدیوں کے مفسرین، محدثین، متکلمین، علماء اور صوفیاء (اللہ ان سب پر رحمت کرے) کا اس پر اجماع ہے۔
چنانچہ قرآن کریم کی سورہ احزاب میں ارشاد ہوا ہے ''حضرت محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں''۔
تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ ''خاتم النبیین'' کے معنیٰ ہیں کہ: آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی کو ''منصب نبوت'' پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ عقیدہ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہے۔ اسی طرح حضور کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے۔ چند احادیث ملاحظہ ہوں:
1۔ میں خاتم النبیین ہوں' میرے بعد کسی قسم کا نبی نہیں۔ (ابوداؤد ج:2 ، ص:228)
2۔ مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ (مشکوٰۃ: 512)
3۔ رسالت ونبوت ختم ہوچکی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔ (ترمذی'ج:2، ص:51)
4۔ میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ (ابن ماجہ:297)
5۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔ (مجمع الزوائد'ج:3 ص: 273)
ان ارشادات نبوی میں اس امرکی تصریح فرمائی گئی ہے کہ آپﷺ آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی کو اس عہدہ پر فائز نہیں کیا جائے گا۔
آپﷺ سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے ان میں سے ہر نبی نے اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت دی اور گزشتہ انبیاء کی تصدیق کی۔ آپ نے گزشتہ انبیاء کی تصدیق تو فرمائی مگر کسی نئے آنے والے نبی کی بشارت نہیں دی۔
بلکہ فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ 30 کے لگ بھگ دجال اور کذاب پیدا نہ ہوں، جن میں سے ہرایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔ اس لیے جو بھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے گا وہ اس حدیث مبارکہ کی زد میں کھڑاہوگا۔ اس لیے یہ ''ختم نبوت'' امت محمدیہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم رحمت اور نعمت ہے۔
اس کی پاسداری اور شکر پوری امت محمدیہ پر واجب ہے۔ مسلمانوں میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور منکرین ختم نبوت کی سازشوں سے امت کو بچانے کے لیے کئی جماعتیں کام کررہی ہیں ان میں سر فہرست عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ہے، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ اور مجلس احرار اسلام پاکستان ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار دینی جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے اس کاز پر کام کررہی ہیں۔ سال بھر بالعموم اور ماہ ستمبر میں بالخصوص ختم نبوت کے عنوان پر جلسے، کانفرنسیں، سیمینارز، تربیتی ورکشاپس اور ریلیوں کا انعقاد ہوتا ہے۔
اتوار کو پشاور میں عظیم الشان انٹرنیشنل ختم نبوت کا انعقاد ہوا جس میں پاکستان اور بیرون ملک سے علماء و مشائخ، آئمہ و خطباء نے شرکت کی۔ 6ستمبر کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد وحدت کالونی گراؤنڈ لاہور میں ہوا جس میں ملک بھی کی دینی جماعتوں کے قائدین شریک ہوئے۔ اسی طرح مجلس احرار اسلام کی دو روزہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر میں ماہ ربیع الاول میں ہوگی۔
ایک فقیدالمثال سالانہ ختم نبوت اجتماع ضلع صوابی کے معروف علمی خانوادے شیخین کریمین شاہ منصور کی مشہور و معروف خانقاہ میں اعزاز الحق صاحب کے زیر صدارت اور مفتی اعظم ساؤتھ افریقہ مفتی رضا الحق شاہ منصور کے زیر نگرانی ہر سال منعقد ہوتا ہے اس سال انشاء اللہ اجتماع 25 و 26 نومبر بروز ہفتہ اور اتوار کو منعقد ہورہا ہے۔جس میں شمع ختم نبوت کے لاکھوں پروانے اور نامور علمائے کرام، مشائخ اور ختم نبوت کے مبلغین فرزندان امت کی تربیت کا اہتمام کریں گے۔ ان اجتماعات کا مقصد رضائے الٰہی و شفاعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، ختم نبوت کا دفاع کرنا اس تحریک کا نصب العین ہے۔
اللہ کریم ختم نبوت کے عنوان پر ہونے والے ان تمام پروگراموں کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے۔ آمین
ہمارے آج کے کالم کا مقصد بھی یہی ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ کے منصبِ رسالت اور ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کی اساس اورمسلمانوں میں وحدتِ اْمت کی علامت ہے۔ جھوٹے نبیوں کی ایک پوری تاریخ ہے۔ انکارِ ختمِ نبوت پر مبنی فتنوں نے ظہور اسلام کے وقت سے ہی سراٹھانا شروع کردیا تھا، ہندوستان میں بھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیاگیا۔
علمائِ اْمت کے علاوہ ڈاکٹر علامہ اقبال مرحوم جیسی جدید تعلیم یافتہ شخصیات نے عقیدہِ ختم نبوت کے تحفظ کے مورچے کو سنبھالا۔ بے شمار دینی جماعتوں نے شعبہ تبلیغ :تحفظ ختم نبوت قائم کرکے پورے ہندوستان میں امت مسلمہ کو عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور اس کے دفاع کے لیے کھڑا کیا۔
پھر پاکستان معرض وجود میں آگیا تو یہاں مجلس احرار اسلام کے قائد اور شعلہ بیان خطیب امیر شریعت مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری ؒ نے تمام مکاتب فکر کے علمائ، مشائخ، آئمہ و خطباء اور ممتاز شخصیات کو اکٹھا کیا اور ''کْل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت'' کے مشترکہ پلیٹ فارم سے جدوجہد کا آغاز کیا اور حضرت مولانا ابو الحسنات قادریؒ کے سر پر مجلس عمل کی سربراہی کا تاج رکھا، سید عطا اللہ شاہ بخاری نے اپنی ولولہ انگیز تقاریر کے ذریعے کراچی سے خیبر تک مسلمانان پاکستان کے دلوں میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کا جذبہ بیدار کیا۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں پارلیمنٹ نے 13 دن کی طویل بحث اور فریقین کا مؤقف سننے کے بعد آئین میں ترمیم کرکے بالاتفاق قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ پارلیمنٹ کے اندر یہ لڑائی وقت کے درویش صفت سیاستدان شیخ الحدیث مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ نے لڑی، ان کا ساتھ دینے والوں میں مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا ظفر انصاری، پروفیسر غفور احمد، پروفیسر خورشید احمد، اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار جیسی قدآور شخصیات شامل تھے۔
پاکستان اقلیتوں کی جنت ہے، یہاں مسیحی، ہندواور سکھ بھی رہتے ہیں، دیگر مذاہب کے لوگ بھی آباد ہیں، سب کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو اسلام اور پاکستان کے آئین نے انھیں دیے ہیں۔ سب کو یہاں مذہبی، سیاسی، معاشی و معاشرتی آزادیاں حاصل ہیں کیونکہ وہ سب پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں۔
اسلام کی بنیاد توحید، رسالت اور آخرت کے علاوہ جس بنیادی عقیدہ پر ہے، وہ ہے ''عقیدہ ختم نبوت''۔ حضرت محمد ﷺ پر نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ آپﷺ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی شخص کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ یہ عقیدہ اسلام کی جان ہے۔
ساری شریعت اور سارے دین کا مدار اسی عقیدہ پر ہے' قرآن کریم کی ایک سو سے زائد آیات اور آنحضرت کی سیکڑوں احادیث اس عقیدہ پر گواہ ہیں۔ اہل بیت، تمام صحابہ کرام تابعین عظام، تبع تابعین، آئمہ مجتہدین اور چودہ صدیوں کے مفسرین، محدثین، متکلمین، علماء اور صوفیاء (اللہ ان سب پر رحمت کرے) کا اس پر اجماع ہے۔
چنانچہ قرآن کریم کی سورہ احزاب میں ارشاد ہوا ہے ''حضرت محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں''۔
تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ ''خاتم النبیین'' کے معنیٰ ہیں کہ: آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی کو ''منصب نبوت'' پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ عقیدہ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہے۔ اسی طرح حضور کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے۔ چند احادیث ملاحظہ ہوں:
1۔ میں خاتم النبیین ہوں' میرے بعد کسی قسم کا نبی نہیں۔ (ابوداؤد ج:2 ، ص:228)
2۔ مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔ (مشکوٰۃ: 512)
3۔ رسالت ونبوت ختم ہوچکی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔ (ترمذی'ج:2، ص:51)
4۔ میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ (ابن ماجہ:297)
5۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔ (مجمع الزوائد'ج:3 ص: 273)
ان ارشادات نبوی میں اس امرکی تصریح فرمائی گئی ہے کہ آپﷺ آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی کو اس عہدہ پر فائز نہیں کیا جائے گا۔
آپﷺ سے پہلے جتنے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے ان میں سے ہر نبی نے اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت دی اور گزشتہ انبیاء کی تصدیق کی۔ آپ نے گزشتہ انبیاء کی تصدیق تو فرمائی مگر کسی نئے آنے والے نبی کی بشارت نہیں دی۔
بلکہ فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ 30 کے لگ بھگ دجال اور کذاب پیدا نہ ہوں، جن میں سے ہرایک یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔ اس لیے جو بھی نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرے گا وہ اس حدیث مبارکہ کی زد میں کھڑاہوگا۔ اس لیے یہ ''ختم نبوت'' امت محمدیہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم رحمت اور نعمت ہے۔
اس کی پاسداری اور شکر پوری امت محمدیہ پر واجب ہے۔ مسلمانوں میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور منکرین ختم نبوت کی سازشوں سے امت کو بچانے کے لیے کئی جماعتیں کام کررہی ہیں ان میں سر فہرست عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ہے، انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ اور مجلس احرار اسلام پاکستان ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار دینی جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے اس کاز پر کام کررہی ہیں۔ سال بھر بالعموم اور ماہ ستمبر میں بالخصوص ختم نبوت کے عنوان پر جلسے، کانفرنسیں، سیمینارز، تربیتی ورکشاپس اور ریلیوں کا انعقاد ہوتا ہے۔
اتوار کو پشاور میں عظیم الشان انٹرنیشنل ختم نبوت کا انعقاد ہوا جس میں پاکستان اور بیرون ملک سے علماء و مشائخ، آئمہ و خطباء نے شرکت کی۔ 6ستمبر کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد وحدت کالونی گراؤنڈ لاہور میں ہوا جس میں ملک بھی کی دینی جماعتوں کے قائدین شریک ہوئے۔ اسی طرح مجلس احرار اسلام کی دو روزہ ختم نبوت کانفرنس چناب نگر میں ماہ ربیع الاول میں ہوگی۔
ایک فقیدالمثال سالانہ ختم نبوت اجتماع ضلع صوابی کے معروف علمی خانوادے شیخین کریمین شاہ منصور کی مشہور و معروف خانقاہ میں اعزاز الحق صاحب کے زیر صدارت اور مفتی اعظم ساؤتھ افریقہ مفتی رضا الحق شاہ منصور کے زیر نگرانی ہر سال منعقد ہوتا ہے اس سال انشاء اللہ اجتماع 25 و 26 نومبر بروز ہفتہ اور اتوار کو منعقد ہورہا ہے۔جس میں شمع ختم نبوت کے لاکھوں پروانے اور نامور علمائے کرام، مشائخ اور ختم نبوت کے مبلغین فرزندان امت کی تربیت کا اہتمام کریں گے۔ ان اجتماعات کا مقصد رضائے الٰہی و شفاعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، ختم نبوت کا دفاع کرنا اس تحریک کا نصب العین ہے۔
اللہ کریم ختم نبوت کے عنوان پر ہونے والے ان تمام پروگراموں کو کامیابی سے ہمکنار فرمائے۔ آمین