’’کنج قفس‘‘
میری فواد حسن فواد سے زیادہ شناسائی نہیں رہی ہے، نہ کبھی کوئی ملاقات ہوئی، البتہ ان کے بارے میں کافی کچھ سن رکھا تھا۔ ایک رائے یہ ہے کہ جب میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے، وہ ملک چلا رہے تھے۔ میں تب بھی ان سے ملاقات سے محروم رہا۔
اس کے بعد وہ طویل عرصہ پابند سلاسل رہے، میں تب بھی ان سے ملاقات سے محروم رہا۔ میں نے ان کے کیس کو گہرائی سے پڑھا ضرور ہے۔ گزشتہ دنوں ایک عشائیہ میں ان سے ملاقات ہوئی۔ تو انھوں نے اپنی شاعری کی کتاب ''کنج قفس'' مجھے دی۔
مجھے معلوم تھا کہ انھوں نے جیل میں اپنی شاعری پر ایک کتاب مرتب کی ہے۔ لیکن میں کتاب پڑھنے سے محروم رہا تھا۔ کتاب پڑھنا ضرور چاہتا تھا لہٰذا ایک تشنگی تھی، یوں فواد حسن فواد کی جانب سے کتاب کا تحفہ میرے لیے انمول ہے۔
فواد حسن فواد کو ملکی مسائل کا گہرا ادراک ہے۔ ان کی سوچ مثبت ہے۔ میرے لیے حیرانگی کی بات تھی کہ جیل نے ان کی شخصیت پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالا ہے۔ ان کے بارے میں عمومی تاثر ایک سخت گیر افسر کا ہی تھا۔ لیکن مجھے وہ ایک نرم دل انسان لگے ۔
وہ ا مید کی بات کرتے ہیں، ناامیدی سے دور رہتے ہیں۔ فواد حسن فواد سے ملنے سے پہلے ہی میرے دل میں ان کے لیے عزت تب ہی بڑھ گئی تھی جب کپتان خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان چند دن کی اسیری کے نتیجے میں وعدہ معاف گواہ بن گئے لیکن فواد حسن فواد کئی ماہ کی اسیری، نیب کے ریمانڈ اور جیل کی سختیو ں کے باوجود نواز شریف کے خلاف وعدہ گواہ نہیں بنے۔ سب جانتے ہیںکہ ان پر وعدہ معاف گواہ بننے کے بے پناہ دباؤ تھا۔ لیکن وہ قائم رہے۔ انھوں نے ہر سختی برداشت کی۔ جیل میں ہی ریٹائر ہو گئے۔
نوکری کا بہترین عرصہ جیل میں ضایع کر دیا۔ ورنہ انھیں بہترین پوسٹنگ بھی مل سکتی تھی۔ اس لیے فواد حسن فواد ایک اصول پسند انسان ہیں۔ بہر حال ان کی شاعری کی کتاب مجھے ملی۔ کئی بار پڑھا، پھر کہیں جا کر اشعار کے مطالب واضح ہوئے ۔
شاعر کی سوچ تک پہنچنا کوئی آسان نہیں ہے۔ فواد حسن فواد نے جیل سے اپنے بیٹے کے لیے ایک نظم لکھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نظم بہت کچھ واضح کرتی ہے۔ انھوں اپنے بیٹے سلال حسن کی سالگرہ کے موقع پر یہ نظم لکھی، جو پیش خدمت ہے
مرے بیٹے مری جان / تم مری تقلید نہ کرنا
اگر اس خطہ ارضی پر رہنا ہے /تو سچ کو سچ نہ کہنا۔
حرف کی حرمت پہ کٹ مرنے کا سودا /سر میں مت رکھنا/ جو جاں دینے پر آمادہ ہوں /رد کفر کی خاطر کھڑے ہوں /ان کی بھی تائید نہ کرنا\مری تقلید نہ کرنا
جیل سے ایک باپ اپنے بیٹے کو کیا کہہ سکتا ہے۔ یہی کہہ سکتا ہے کہ میرے نقش قدم پر نہ چلنا۔ اس کی قیمت بہت سخت ہے۔ مجھے نہیں امید کہ فواد حسن فواد نے اپنے بیٹے کو جیل سے جو پیغام دیا ہے، وہ اس نے مان لیا ہوگا۔ وہ فواد حسن فواد کا بیٹا ہے، باپ سے آگے ہی ہوگا۔ اپنی بیٹی عائشہ کی سالگرہ پر بھی، انھوں نے ایک نظم لکھی ہے۔
تمھیں معلوم ہے ماؤ /پس زنداں /تمھارے بابا کی آنکھوں میں /آنسو کب اترتے ہیں/بس اتنی دیر تک /جب تک تمھارا پھول سا چہرہ /میری آنکھوں میں رہتا ہے /تمھیں معلوم ہے ماؤ/یہ روزو شب یہ ماہ و سال /جو میں نے گزارے ہیں/ انھیں ترتیب دینے میں تمھارا کتنا حصہ ہے/میں یوں تو تم سے پہلے بھی یہاں تھا /سانس لیتا تھا /مگر اس دن سے /جس دن تم نے دنیا میں قدم رکھا /مری دنیا کا سورج چاند اور تارے
تمھارے ساتھ چلتے ہیں۔
یقینا ہم سب کے بیٹیوں کے لیے یہی جذبات ہیں۔ فواد حسن فواد جتنے دن بے گناہ جیل میں رہے ہیں۔ یقینا وہ دن ان کے خاندان کے لیے کر ب سے کم نہیں تھے۔ گھر کی خوشیاں بھی غم ہی رہیں۔ ان کی شاعری میں یہ غم نمایاں ہیں۔ وہ اپنی گفتگو میں ان غموں کا بے شک ذکر نہیں کرتے ہیں۔ لیکن ان کے شعر چیخ چیخ کر یہ سب بیان کر رہے ہیں۔
لیکن مجھے ایک نظم تمام کلام پر بھاری لگی ہے۔ اس نظم کا عنوان ہے پانچ جولائی 2018۔ یہ نظم فواد حسن فواد کی لمبی جیل کی ساری کہانی بیان کر رہی ہے۔
یہی وہ دن تھا /جس دن محتسب نے جال پھینکا تھا/مری آنکھوں کے آگے لا کے /ایک تحریر رکھی تھی
مجھے بس اتنا کہنا تھا /کہ جو کچھ بھی لکھا تھا
بس وہی سچ ہے/مرے کچھ چارہ گر سمجھا رہے تھے /اطاعت وقت کے حاکم کی واجب ہے/اگر میں نے نہ ان کی بات مانی تو /مرے ذمے بہت سے ان کیے اور ان سنے /جرموں کا کھاتہ کھولنا ہوگا/یہ ایک لمبی نظم ہے لیکن اس کے اندر ایک جگہ فود حسن فواد کہتے ہیں /مگر پھر دور سے آواز ایک آتی سنائی دی/یہی وہ کربلا ہے /جس کو تم مدت سے /تحریروں میں لکھتے آرہے ہو/یہی وہ معرکہ حق و باطل ہے۔
نظم کے آخر میں فواد حسن فواد نے اپنا فیصلہ لکھتے ہوئے کہا ہے کہ
سو میں نے ایک لمحے میں ہی /اپنا فیصلہ ان کو سنا ڈالا/مجھے رب مکان ولا مکاں نے /سچ کی حرمت کو بچانے کا/فریضہ سونپ رکھا ہے /میں ان کے جرم میں کوئی اعانت کر نہیں سکتا۔
مجھے تاریخ کے اوراق میں ہی
زندہ رہنا ہے/میں اپنے آپ کو برباد کر کے مر نہیں سکتا۔
فواد حسن نے اپنے آپ کو برباد نہیں کیا۔ وہ آج بھی سب کے مشعل راہ ہیں۔ جب بھی تاریخ میں ان کاذکر ہوگا تو مرد آہن کے طور پر ہی ہوگا۔ ان کی قید ہم سب پر قرض ہے۔ لیکن فواد حسن فواد نہ تو اس قرض کی واپسی کا خواہاں ہے اور نہ ہی اسے کوئی لالچ ہے۔ وہ پی ڈی ایم کی حکومت میں گھر بیٹھا رہا۔ کوئی منصب نہیں لیا۔ اسے اقتدار کا کوئی لالچ نہیں۔ یہی اس کی سچائی کی گواہی ہے۔
اس کے بعد وہ طویل عرصہ پابند سلاسل رہے، میں تب بھی ان سے ملاقات سے محروم رہا۔ میں نے ان کے کیس کو گہرائی سے پڑھا ضرور ہے۔ گزشتہ دنوں ایک عشائیہ میں ان سے ملاقات ہوئی۔ تو انھوں نے اپنی شاعری کی کتاب ''کنج قفس'' مجھے دی۔
مجھے معلوم تھا کہ انھوں نے جیل میں اپنی شاعری پر ایک کتاب مرتب کی ہے۔ لیکن میں کتاب پڑھنے سے محروم رہا تھا۔ کتاب پڑھنا ضرور چاہتا تھا لہٰذا ایک تشنگی تھی، یوں فواد حسن فواد کی جانب سے کتاب کا تحفہ میرے لیے انمول ہے۔
فواد حسن فواد کو ملکی مسائل کا گہرا ادراک ہے۔ ان کی سوچ مثبت ہے۔ میرے لیے حیرانگی کی بات تھی کہ جیل نے ان کی شخصیت پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالا ہے۔ ان کے بارے میں عمومی تاثر ایک سخت گیر افسر کا ہی تھا۔ لیکن مجھے وہ ایک نرم دل انسان لگے ۔
وہ ا مید کی بات کرتے ہیں، ناامیدی سے دور رہتے ہیں۔ فواد حسن فواد سے ملنے سے پہلے ہی میرے دل میں ان کے لیے عزت تب ہی بڑھ گئی تھی جب کپتان خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان چند دن کی اسیری کے نتیجے میں وعدہ معاف گواہ بن گئے لیکن فواد حسن فواد کئی ماہ کی اسیری، نیب کے ریمانڈ اور جیل کی سختیو ں کے باوجود نواز شریف کے خلاف وعدہ گواہ نہیں بنے۔ سب جانتے ہیںکہ ان پر وعدہ معاف گواہ بننے کے بے پناہ دباؤ تھا۔ لیکن وہ قائم رہے۔ انھوں نے ہر سختی برداشت کی۔ جیل میں ہی ریٹائر ہو گئے۔
نوکری کا بہترین عرصہ جیل میں ضایع کر دیا۔ ورنہ انھیں بہترین پوسٹنگ بھی مل سکتی تھی۔ اس لیے فواد حسن فواد ایک اصول پسند انسان ہیں۔ بہر حال ان کی شاعری کی کتاب مجھے ملی۔ کئی بار پڑھا، پھر کہیں جا کر اشعار کے مطالب واضح ہوئے ۔
شاعر کی سوچ تک پہنچنا کوئی آسان نہیں ہے۔ فواد حسن فواد نے جیل سے اپنے بیٹے کے لیے ایک نظم لکھی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نظم بہت کچھ واضح کرتی ہے۔ انھوں اپنے بیٹے سلال حسن کی سالگرہ کے موقع پر یہ نظم لکھی، جو پیش خدمت ہے
مرے بیٹے مری جان / تم مری تقلید نہ کرنا
اگر اس خطہ ارضی پر رہنا ہے /تو سچ کو سچ نہ کہنا۔
حرف کی حرمت پہ کٹ مرنے کا سودا /سر میں مت رکھنا/ جو جاں دینے پر آمادہ ہوں /رد کفر کی خاطر کھڑے ہوں /ان کی بھی تائید نہ کرنا\مری تقلید نہ کرنا
جیل سے ایک باپ اپنے بیٹے کو کیا کہہ سکتا ہے۔ یہی کہہ سکتا ہے کہ میرے نقش قدم پر نہ چلنا۔ اس کی قیمت بہت سخت ہے۔ مجھے نہیں امید کہ فواد حسن فواد نے اپنے بیٹے کو جیل سے جو پیغام دیا ہے، وہ اس نے مان لیا ہوگا۔ وہ فواد حسن فواد کا بیٹا ہے، باپ سے آگے ہی ہوگا۔ اپنی بیٹی عائشہ کی سالگرہ پر بھی، انھوں نے ایک نظم لکھی ہے۔
تمھیں معلوم ہے ماؤ /پس زنداں /تمھارے بابا کی آنکھوں میں /آنسو کب اترتے ہیں/بس اتنی دیر تک /جب تک تمھارا پھول سا چہرہ /میری آنکھوں میں رہتا ہے /تمھیں معلوم ہے ماؤ/یہ روزو شب یہ ماہ و سال /جو میں نے گزارے ہیں/ انھیں ترتیب دینے میں تمھارا کتنا حصہ ہے/میں یوں تو تم سے پہلے بھی یہاں تھا /سانس لیتا تھا /مگر اس دن سے /جس دن تم نے دنیا میں قدم رکھا /مری دنیا کا سورج چاند اور تارے
تمھارے ساتھ چلتے ہیں۔
یقینا ہم سب کے بیٹیوں کے لیے یہی جذبات ہیں۔ فواد حسن فواد جتنے دن بے گناہ جیل میں رہے ہیں۔ یقینا وہ دن ان کے خاندان کے لیے کر ب سے کم نہیں تھے۔ گھر کی خوشیاں بھی غم ہی رہیں۔ ان کی شاعری میں یہ غم نمایاں ہیں۔ وہ اپنی گفتگو میں ان غموں کا بے شک ذکر نہیں کرتے ہیں۔ لیکن ان کے شعر چیخ چیخ کر یہ سب بیان کر رہے ہیں۔
لیکن مجھے ایک نظم تمام کلام پر بھاری لگی ہے۔ اس نظم کا عنوان ہے پانچ جولائی 2018۔ یہ نظم فواد حسن فواد کی لمبی جیل کی ساری کہانی بیان کر رہی ہے۔
یہی وہ دن تھا /جس دن محتسب نے جال پھینکا تھا/مری آنکھوں کے آگے لا کے /ایک تحریر رکھی تھی
مجھے بس اتنا کہنا تھا /کہ جو کچھ بھی لکھا تھا
بس وہی سچ ہے/مرے کچھ چارہ گر سمجھا رہے تھے /اطاعت وقت کے حاکم کی واجب ہے/اگر میں نے نہ ان کی بات مانی تو /مرے ذمے بہت سے ان کیے اور ان سنے /جرموں کا کھاتہ کھولنا ہوگا/یہ ایک لمبی نظم ہے لیکن اس کے اندر ایک جگہ فود حسن فواد کہتے ہیں /مگر پھر دور سے آواز ایک آتی سنائی دی/یہی وہ کربلا ہے /جس کو تم مدت سے /تحریروں میں لکھتے آرہے ہو/یہی وہ معرکہ حق و باطل ہے۔
نظم کے آخر میں فواد حسن فواد نے اپنا فیصلہ لکھتے ہوئے کہا ہے کہ
سو میں نے ایک لمحے میں ہی /اپنا فیصلہ ان کو سنا ڈالا/مجھے رب مکان ولا مکاں نے /سچ کی حرمت کو بچانے کا/فریضہ سونپ رکھا ہے /میں ان کے جرم میں کوئی اعانت کر نہیں سکتا۔
مجھے تاریخ کے اوراق میں ہی
زندہ رہنا ہے/میں اپنے آپ کو برباد کر کے مر نہیں سکتا۔
فواد حسن نے اپنے آپ کو برباد نہیں کیا۔ وہ آج بھی سب کے مشعل راہ ہیں۔ جب بھی تاریخ میں ان کاذکر ہوگا تو مرد آہن کے طور پر ہی ہوگا۔ ان کی قید ہم سب پر قرض ہے۔ لیکن فواد حسن فواد نہ تو اس قرض کی واپسی کا خواہاں ہے اور نہ ہی اسے کوئی لالچ ہے۔ وہ پی ڈی ایم کی حکومت میں گھر بیٹھا رہا۔ کوئی منصب نہیں لیا۔ اسے اقتدار کا کوئی لالچ نہیں۔ یہی اس کی سچائی کی گواہی ہے۔