حقیقی ڈریکولا بھی سبزی خور تھا ماہرین
ماہرین کے مطابق ’ولاد دی امپالر‘ کے 500 سال پہلے تحریر کردہ خطوط سے معلوم ہوا ہے کہ وہ صرف سبزیاں اور پھل کھاتا تھا
ڈریکولا کا نام آتے ہیں ہمارے ذہن میں لمبے دانتوں والے خون آشام انسان کا خیال آتا ہے۔ یہ کردار ایک ناول سے مشہور ہوا جو اصلی شخص پر تھا لیکن اب اسی کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ گوشت خوری کو ناپسند کرتا تھا اور مکمل طور پر سبزیوں اور پھلوں پر گزارا کرتا تھا۔
پندرہویں صدی میں رومانیہ کے قلعے میں ایک ظالم بادشاہ ولاد سوئم رہا کرتا تھا جسے تاریخ میں 'ولاد دی امپالر' عرف ڈریکولا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کے ظلم و جبر کے بارے میں یہ مشہور ہوگیا تھا کہ وہ لوگوں کو خون بھی پیتا تھا۔ دوسری جانب اس نے قلعے میں تشدد کا ایک کمرہ بھی بنا رکھا تھا جہاں اس کے مخالفین پر ظلم ڈھائے جاتے تھے۔ یہ قلعہ آج بھی قائم ہے جہاں سیاحوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔
بریم اسٹوکر نامی ایک مصنف نے اسی کردار کو دیکھ کر ناول لکھا اور خون پینے والے ایک شخص کا ذکر کیا تھا جسے ڈریکولا کا نام دیا گیا تھا۔
تاہم اب ماہرین نے ولاد دی امپالر کے ان خطوط مطالعہ کیا ہے جو اس نے 1448سے اپنی موت یعنی 1477 کے دوران خود لکھے تھے۔ ولاد عرف ڈریکولا تین مرتبہ اپنے علاقے کا بادشاہ رہا تھا۔
اٹلی کی یونیورسٹی آف کیٹانیا کے ماہرین نے اس کے خطوط سے پسینے، خون ، فنگرپرنٹ اور دیگر معلومات جمع کیں جس کا کام اس سال مئی میں مکمل ہوگیا تھا۔ کئی خطوط پر اس کے خون کے نشانات ملے ہیں جو اس کی جنگجو فطرت کو ظاہر کرتے ہیں۔ خون کے تجزیئے سے معلوم ہوا کہ اس میں جانوروں میں پایا جانے والا اہم پروٹین غائب ہے۔ جبکہ سبزیجاتی غذا میں پایا جانے والا پروٹین اس کے خون میں موجود تھا۔
اسی بنا پر ماہرین نے کہا ہے کہ تاریخ میں خون چوسنے والا ڈریکولا بھی درحقیقت سبزی خور تھا۔
پندرہویں صدی میں رومانیہ کے قلعے میں ایک ظالم بادشاہ ولاد سوئم رہا کرتا تھا جسے تاریخ میں 'ولاد دی امپالر' عرف ڈریکولا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس کے ظلم و جبر کے بارے میں یہ مشہور ہوگیا تھا کہ وہ لوگوں کو خون بھی پیتا تھا۔ دوسری جانب اس نے قلعے میں تشدد کا ایک کمرہ بھی بنا رکھا تھا جہاں اس کے مخالفین پر ظلم ڈھائے جاتے تھے۔ یہ قلعہ آج بھی قائم ہے جہاں سیاحوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔
بریم اسٹوکر نامی ایک مصنف نے اسی کردار کو دیکھ کر ناول لکھا اور خون پینے والے ایک شخص کا ذکر کیا تھا جسے ڈریکولا کا نام دیا گیا تھا۔
تاہم اب ماہرین نے ولاد دی امپالر کے ان خطوط مطالعہ کیا ہے جو اس نے 1448سے اپنی موت یعنی 1477 کے دوران خود لکھے تھے۔ ولاد عرف ڈریکولا تین مرتبہ اپنے علاقے کا بادشاہ رہا تھا۔
اٹلی کی یونیورسٹی آف کیٹانیا کے ماہرین نے اس کے خطوط سے پسینے، خون ، فنگرپرنٹ اور دیگر معلومات جمع کیں جس کا کام اس سال مئی میں مکمل ہوگیا تھا۔ کئی خطوط پر اس کے خون کے نشانات ملے ہیں جو اس کی جنگجو فطرت کو ظاہر کرتے ہیں۔ خون کے تجزیئے سے معلوم ہوا کہ اس میں جانوروں میں پایا جانے والا اہم پروٹین غائب ہے۔ جبکہ سبزیجاتی غذا میں پایا جانے والا پروٹین اس کے خون میں موجود تھا۔
اسی بنا پر ماہرین نے کہا ہے کہ تاریخ میں خون چوسنے والا ڈریکولا بھی درحقیقت سبزی خور تھا۔