مظلوم کی فریاد سنو۔۔۔
یہ ایک ایسی آگ ہے جس کو بجھایا نہ گیا تو اس کی تپش آہستہ آہستہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی.
پچھلے دنوں جب میں خبریں پڑھ رہا تھا تو ایک خبر نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا ۔وہ خبر یہ تھی کہ سعودیہ عرب میں میاں نے بیوی کو تھپڑ مار دیا اور تھپڑ مارنے کی سزکے طور پر میاں کو ایک دن جیل کی سزا کھانی پڑی ۔ میں نے سوچا کتنا اچھا اور انصاف پسند ملک ہے کہ انصاف خود چل کر مظلوم کے پاس آتا ہے ۔ اگر اسی انصاف کو ہم اپنے ملک میں تلاش کریں تو شاید ہی کوئی ایسا انسان ہوگا جیسے ایسا انصاف کبھی ملا ہو۔
ہمارے ملک میں لوگ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے انصاف کی امید لئے اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں ۔یا یوں کہئے کہ جب مظلوم لوگوں کی انصاف ملنے کی امیدیں دم توڑنے لگتی ہیں تو دہ اللہ کی طرف امید کی آس لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاں تو انصاف ملے گا۔
اس پر مجھے ایک شعر یا د آگیا ہے ۔
جب لوگ یہ کہتے ہیں خدا دیکھ رہا ہے
میں سوچنے لگتا ہوں کیا دیکھ رہا ہے
خدا بھی تو یہ دیکھتا ہو گا کہ مظلوم اور غریب لوگ انصاف کے لئے کس قدر مایوس ہیں ۔اور انصاف دینے والے ادارے سسک سسک کر دم توڑ رہے ہیں۔سعودی عرب میں تو ایک تھپڑ کی گونج پورے ملک میں پھیل گئی لیکن پاکستان میں خواتین پر تشدد کے واقعات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ بدقسمتی سے اسلامی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں خواتین غیر محفوظ ہیں۔ ہم اخبار اٹھاکر دیکھیں تو شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جس دن عورتوں پر تشد د اور قتل کی خبر نہ چپھی ہو ۔ کہیں مظفر گڑھ کی آمنہ پولیس کے سامنے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا یقین دلاتے ہوئے موت کو گلے لگا لیتی ہے ۔ تو کہیں لاہور کی سڑکوں پر نرسوں کو بدترین تشددکا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گوجرانولہ میں پولیس کے آفسر کے بیٹے حو ا کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں ۔اور پسرور میں گھریلو ناچاقی پر خاوند اپنی شریک حیات کو زندہ جلا کر مار دیتا ہے ۔لاہو ر میں آدم کے بیٹے حوا کی معصوم پانچ سالہ بیٹی کو اپنی حوس کا نشانہ بناتے ہیں ۔ تو کہیں ملک کے دارلحکومت میں قومی اسمبلی کے سامنے خواتین پر بد ترین تشدد کیا جاتا ہے ۔وہی قومی اسمبلی جس پر لوگوں کے منتخب کردہ نمائندے عوام کے مسائلے پر بحث اور تجاویز زیر غور لاتے ہیں ۔
ان بڑی بڑی گاڑیوں میں آنے والے خواتین حکمرانوں کو تو شاید پتہ ہی نہیں کہ خواتین روز مرہ کس کس طرح کے ظلم سہتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جس ملک میں وڈیروں اور پٹواریوں کا راج ہے وہی ہوتا جو وہ چاہتے ہیں ۔یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔
یہ خواتین پر تشدد اور ظلم کے صرف چند واقعات ہیں جو میں نے بیان کئے ۔ ایسے لاکھوں واقعات اور بھی ہیں ، جنھیں میں لکھنا شروع کر و تو میرے قلم کی سیاہی ختم ہوجائے گی مگر واقعات کا تسلسل ختم نہ ہوگا۔اگر ہم ایک نظر ہیومن رائٹس 2013 کی رپورٹ میں خواتین پر تشدد اور قتل پر ڈالیں تو رونگھٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ رپورٹ کے مطابق 2013 کے دوران پاکستان میں 56 خواتین کو صرف اس لئے قیل کیا گیا کیونکہ انہوں نے بیٹے کی جگہ بیٹی کو جنم دیا تھا ۔ میرے نزدیک یہ صرف زمانہ جہالت ہے اور کچھ نہیں۔ اولاد میں بیٹا یا بیٹی دینا کا اخیتار صرف اللہ تعالی کے پاس ہے ۔ مگر یہ لوگ نہیں سمجھتے اور نہ ہی سمجھنا چاہتے ہیں ۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ2013 کے دوران حالات اور واقعات سے تنگ آکر 800 خواتین نے خود کشی کر لی ۔ 869 خواتین کو غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ اسی سال کے دوران 172 خواتین کو بے آبرو کیا گیا ۔ 2013 میں ماہ ستمبر میں سب سے زیادہ 38 خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی ۔ 2013 میں 68 فیصد بچیوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ اس رپورٹ کوپڑھنے کے بعد کوئی بھی شخص یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی ہم اہنے ذہنوں کو جہالت سے آزاد نہیں کرسکے۔
ہمارے حکمرانوں ، انصاف کے نعرے لگانے والے ادارے، پولیس سب کیا کررہے ہیں؟ کیا انہیں حالات کی چکی میں بسی حوا کی بیٹی کی چینخیں سنائی نہیں دیتیں؟ کیا انہیں بے بس خواتین انصاف کے لئے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دیتے دیکھائی نہیں دیتے؟ یہ ایک ایسی آگ ہے جس کو بجھایا نہ گیا تو اس کی تپش آہستہ آہستہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔اور ہمارے پاس سوائے افسوس کے کچھ نہ رہے گا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں لوگ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے انصاف کی امید لئے اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں ۔یا یوں کہئے کہ جب مظلوم لوگوں کی انصاف ملنے کی امیدیں دم توڑنے لگتی ہیں تو دہ اللہ کی طرف امید کی آس لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاں تو انصاف ملے گا۔
اس پر مجھے ایک شعر یا د آگیا ہے ۔
جب لوگ یہ کہتے ہیں خدا دیکھ رہا ہے
میں سوچنے لگتا ہوں کیا دیکھ رہا ہے
خدا بھی تو یہ دیکھتا ہو گا کہ مظلوم اور غریب لوگ انصاف کے لئے کس قدر مایوس ہیں ۔اور انصاف دینے والے ادارے سسک سسک کر دم توڑ رہے ہیں۔سعودی عرب میں تو ایک تھپڑ کی گونج پورے ملک میں پھیل گئی لیکن پاکستان میں خواتین پر تشدد کے واقعات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ بدقسمتی سے اسلامی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں خواتین غیر محفوظ ہیں۔ ہم اخبار اٹھاکر دیکھیں تو شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جس دن عورتوں پر تشد د اور قتل کی خبر نہ چپھی ہو ۔ کہیں مظفر گڑھ کی آمنہ پولیس کے سامنے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا یقین دلاتے ہوئے موت کو گلے لگا لیتی ہے ۔ تو کہیں لاہور کی سڑکوں پر نرسوں کو بدترین تشددکا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گوجرانولہ میں پولیس کے آفسر کے بیٹے حو ا کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں ۔اور پسرور میں گھریلو ناچاقی پر خاوند اپنی شریک حیات کو زندہ جلا کر مار دیتا ہے ۔لاہو ر میں آدم کے بیٹے حوا کی معصوم پانچ سالہ بیٹی کو اپنی حوس کا نشانہ بناتے ہیں ۔ تو کہیں ملک کے دارلحکومت میں قومی اسمبلی کے سامنے خواتین پر بد ترین تشدد کیا جاتا ہے ۔وہی قومی اسمبلی جس پر لوگوں کے منتخب کردہ نمائندے عوام کے مسائلے پر بحث اور تجاویز زیر غور لاتے ہیں ۔
ان بڑی بڑی گاڑیوں میں آنے والے خواتین حکمرانوں کو تو شاید پتہ ہی نہیں کہ خواتین روز مرہ کس کس طرح کے ظلم سہتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جس ملک میں وڈیروں اور پٹواریوں کا راج ہے وہی ہوتا جو وہ چاہتے ہیں ۔یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔
یہ خواتین پر تشدد اور ظلم کے صرف چند واقعات ہیں جو میں نے بیان کئے ۔ ایسے لاکھوں واقعات اور بھی ہیں ، جنھیں میں لکھنا شروع کر و تو میرے قلم کی سیاہی ختم ہوجائے گی مگر واقعات کا تسلسل ختم نہ ہوگا۔اگر ہم ایک نظر ہیومن رائٹس 2013 کی رپورٹ میں خواتین پر تشدد اور قتل پر ڈالیں تو رونگھٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ رپورٹ کے مطابق 2013 کے دوران پاکستان میں 56 خواتین کو صرف اس لئے قیل کیا گیا کیونکہ انہوں نے بیٹے کی جگہ بیٹی کو جنم دیا تھا ۔ میرے نزدیک یہ صرف زمانہ جہالت ہے اور کچھ نہیں۔ اولاد میں بیٹا یا بیٹی دینا کا اخیتار صرف اللہ تعالی کے پاس ہے ۔ مگر یہ لوگ نہیں سمجھتے اور نہ ہی سمجھنا چاہتے ہیں ۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ2013 کے دوران حالات اور واقعات سے تنگ آکر 800 خواتین نے خود کشی کر لی ۔ 869 خواتین کو غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ اسی سال کے دوران 172 خواتین کو بے آبرو کیا گیا ۔ 2013 میں ماہ ستمبر میں سب سے زیادہ 38 خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی ۔ 2013 میں 68 فیصد بچیوں کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ اس رپورٹ کوپڑھنے کے بعد کوئی بھی شخص یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی ہم اہنے ذہنوں کو جہالت سے آزاد نہیں کرسکے۔
ہمارے حکمرانوں ، انصاف کے نعرے لگانے والے ادارے، پولیس سب کیا کررہے ہیں؟ کیا انہیں حالات کی چکی میں بسی حوا کی بیٹی کی چینخیں سنائی نہیں دیتیں؟ کیا انہیں بے بس خواتین انصاف کے لئے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دیتے دیکھائی نہیں دیتے؟ یہ ایک ایسی آگ ہے جس کو بجھایا نہ گیا تو اس کی تپش آہستہ آہستہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔اور ہمارے پاس سوائے افسوس کے کچھ نہ رہے گا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔