چترال سرحد پر دہشت گردی

فائرنگ کے تبادلے میں 12دہشت گرد مارے گئے،آئی ایس پی آرکے مطابق اس لڑائی میں پاکستان کے 4 فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا

فائرنگ کے تبادلے میں 12دہشت گرد مارے گئے،آئی ایس پی آرکے مطابق اس لڑائی میں پاکستان کے 4 فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ فوٹو: فائل

افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کے بڑے جتھے نے اگلے روز پاکستان میں چترال کے علاقے کیلاش میں قائم دو فوجی چوکیوں پر حملہ کیا، دہشت گرد جدید ترین ہتھیاروں سے لیس تھے۔پاکستان کی فورسز نے دہشت گردوں کے اس حملے کو پسپا کردیا۔

فائرنگ کے تبادلے میں 12دہشت گرد مارے گئے،آئی ایس پی آر کے مطابق اس لڑائی میں پاکستان کے 4 فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا۔ افغانستان کے صوبوں نورستان اور کنڑ کے شہروں گووردیش، پتیگال، برگ متل اور بتاش میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت اور پڑاؤ کو پہلے ہی بھانپ لیا گیا تھا اور افغانستان کی عبوری حکومت کو اس نقل و حرکت کے بارے میں بروقت مطلع بھی کر دیا گیا تھا، لیکن افغانستان کی حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا، جس کی وجہ سے دہشت گردوں کے جتھے جدید ہتھیاروں سے لیس ہوکر دیدہ دلیری سے پاکستان کی چوکیوں پر حملہ آور ہوئے۔

آئی ایس پی آر کے بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ علاقے کو کلیئر کیا جا رہا ہے تاکہ وہاں موجود دہشت گردوں کو ختم کیا جا سکے، اس کے لیے چترال کے بہادر عوام بھی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں۔

افغانستان کی طالبان حکومت سے توقع تھی کہ بروقت اطلاع مل جانے پر وہ اپنی ذمے داریاں پوری کرے گی اور دہشت گردوں کو افغان سرزمین استعمال کرنے سے روکے گی،لیکن اس نے یہ ذمے داری پوری نہیں کی جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا ۔

اس حملے سے قبل ٹی ٹی پی نے ضلع چترال میں ایک 'گرینڈ آپریشن' شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، میڈیا کے مطابق ٹی ٹی پی کے ترجمان نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ چترال کے کئی دیہات جن کی سرحدیں افغانستان کے صوبوں کنڑ، نورستان اور بدخشاں سے ملتی ہیں، ان پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ افغانستان کے وسیع علاقے میں ٹی ٹی پی کے دہشت گرد بڑی تعداد میں جدید اسلحے سے لیس متحرک تھے ، یہ نہیں ہو سکتا کہ طالبان حکومت اس نقل و حرکت سے لاعلم ہو کیونکہ پاکستان نے انھیں پہلے ہی اس بارے میں آگاہ کر دیا تھا ۔ادھر پاکستان اور افغان فورسز کے درمیان طورخم بارڈر پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور شہریوں کی آمدورفت کے لیے مرکزی کراسنگ پوائنٹ بند ہو گیا،تازہ ترین جھڑپوں کے بارے میں دونوں اطراف سے تاحال کوئی سرکاری بیان جاری نہیں ہوا۔

اخبارات میں یہ خبر بھی شائع ہوئی ہے کہ جھڑپ افغانستان کی جانب سے سرحد کے ساتھ ایک چوکی بنانے پر شروع ہوئی،دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کے مطابق طورخم سرحد پر کوئی بھی نئی تعمیر دوسرے فریق سے منظوری کے بغیر شروع نہیں کی جا سکتی،افغانستان نے پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر چیک پوسٹ کی تعمیر شروع کر دی جو جھڑپ کا باعث بنی۔

میڈیا نے مزید بتایا ہے کہ واقعہ کے فوراً بعد دونوں ممالک نے دوطرفہ میکانزم دوبارہ فعال کر دیا، طورخم جھڑپ پر دونوں اطراف کی خاموشی سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوںملک اس واقعہ کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستان میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات سے یہ حقیقت مزید واضح ہوجاتی ہے کہ افغان طالبان اور ٹی پی پی کے درمیان مفادات کے گہرے رشتے ہیں،دونوں ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں ۔ افغان طالبان خود پیچھے رہ کر ٹی ٹی پی کے ذریعے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی حکمت عملی پر کاربند ہیں۔

پاکستانی طالبان اور افغان طالبان کے نظریات ، حکمت عملی اور مالی مفادات یکساں ہیں جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی کو افغانستان سے ختم نہیںکیا جا رہا ہے بلکہ وہاں ٹی ٹی پی کے تربیتی کیمپ بغیر کسی رکاوٹ ، دباؤ یا خوف کے کام کرتے، بڑے اجتماعات کا اہتمام کرتے ہیں اورنوجوانوں کو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی تربیت دیتے ہیں۔

ان تمام شواہد سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔یہ صورتحال تشویشناک ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف کارروائیوں سے کیوں نہیں روک رہے جب کہ پاکستان کی افغان طالبان سے کوئی دشمنی نہیں اور پاکستان نے ہر مشکل موقع پر افغان طالبان کی مدد کی ہے۔


حیران کن امر یہ ہے کہ افغانستان کی ہر حکومت نے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ افغانستان پر ظاہر شاہ حکمران ہو، سردار داؤد کی حکومت ہو، سوویت حمایت یافتہ حکومت ہو، طالبان کی پہلی حکومت ، کرزئی اور اشرف غنی کی امریکی حمایت یافتہ حکومت یا آج کی طالبان حکومت، ان حکومتوں نے پاکستان کے لیے ہمیشہ مشکلات پیدا کی۔

ادھر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں دہشت گردی اور منشیات اسمگلنگ پر عالمی برادری کو تشویش ہے۔

دہشت گردی اور منشیات کا ایک دوسرے سے گہرا واسطہ ہونے کے بارے میں نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا۔ منشیات کی اسمگلنگ سے بڑے پیمانے پر رقوم حاصل کر کے دہشت گردی کے لیے وسائل پیدا کیے جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں افغانستان میں جاری رہنے والی 2 دہائیوں پر محیط امریکی جنگ میں مختلف گروپس نے اپنی بقا کے لیے جہاں دیگر جرائم جیسا کہ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور ٹیکس کی وصولی وغیرہ کا سہارا لیا، وہیں منشیات کا کاروبار اور پوست کی کاشت ان کے لیے سب سے بڑا مالی معاون ثابت ہوئی ہے۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے منشیات کا کاروبار خود کش بمباروں کو تیار اور لانچ کرنے میں سامنے آیا۔ 2007 میں اس دہشت گرد گروہ نے پاکستان کے خلاف ایک ایسی جنگ کا آغاز کیا جس کا اس سے پہلے پاکستان نے سامنا نہیں کیا تھا۔

ٹی ٹی پی کی اس جنگ کا سب سے مہلک ہتھیار بڑی تعداد میں میسر آنے والے خود کش بمبار تھے۔ عالمی دہشت گردی اور عالمی سطح پر منشیات کا کاروبار بظاہر دو مختلف مگر درحقیقت باہم جڑے ہوئے جرائم ہیں، یہ دونوں ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ منشیات کا دھندہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کو ممکن بناتا ہے تو منشیات کے اسمگلرز ہتھیاروں کی غیر قانونی نقل و حرکت میں دہشت گردوں کو مدد فراہم کرتے ہیں۔

دہشت گرد گروہ منشیات فروشوں کے لیے مخالف اسمگلر گروہوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لڑنے کے لیے افرادی قوت اور ہتھیار فراہم کرتے ہیں تو دوسری طرف منشیات کے بیوپاری ان دہشت گرد گروہوں کے لڑنے والوں کو بے خوف اور احساسات سے عاری کر دینے والی ادویات فراہم کرتے ہیں۔

ان دونوں کا یہ باہمی میل ایک الگ طرح کی دہشت گردی کا باعث ہے جسے ماہرین (Narcoterror) کا نام دیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں دہشت گردوں اور منشیات فروشوں کا گٹھ جوڑ کسی بھی ریاست کے لیے سنگین خطرات کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔

جریدے بلوم برگ کے مطابق پاکستان سے روزانہ لاکھوں ڈالر افغانستان میں اسمگل کیے جا رہے ہیں، اسی اسمگلنگ کی وجہ سے امریکا اور یورپ کی پابندیوں کے باوجود طالبان کی حکومت کو سہارا مل رہا ہے جب کہ پاکستان کا معاشی بحران بڑھ رہا ہے۔ غیر ملکی کرنسی کا غیر قانونی بہاؤ یہ ظاہر کرتا ہے کہ افغان طالبان کس طرح بین الاقوامی پابندیوں سے بچ رہے ہیں۔ جب کہ پاکستان کے لیے زرمبادلہ ذخائر میں کمی اور روپے کی قدر میں بتدریج کمی کا باعث بن رہا ہے جب کہ اس کی معیشت تباہی کے دہانے پر آگئی ہے۔

امریکا نے افغانستان میں چھوڑے ہوئے امریکی اسلحے کے معاملے پر پاکستان کے بیانات کی تردید کردی۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے افغانستان میں کوئی ملٹری سازو سامان دہشت گردوں کے لیے نہیں چھوڑا، جنگی سازوسامان افغان ڈیفنس فورسز کے حوالے کر آئے تھے۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے کہا کہ بعض عناصر نے عوام اور فوج کے مقدم رشتے پر وار کرنے کی مذموم کوشش کی جسے تحمل اور سمجھداری سے ناکام بنایا۔ میجر طفیل محمد شہید نشان حیدر کے مزار پر یوم دفاع کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں صدر پاکستان عارف علوی اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی جانب سے مزار پر پھول رکھے گئے اور فاتحہ خوانی کی گئی۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے یوم دفاع کے موقع پر اپنے بیان میں کہا کہ یہ دن ہمیں اپنی مسلح افواج کی لازوال قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ سربراہ پاک فوج کا کہنا تھا پاک فوج اپنے نظم و ضبط اور اعلیٰ پیشہ ورانہ معیار کی بدولت دنیا میں نمایاں مقام رکھتی ہے، ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ ہمارا طرہ امتیاز ہے، پاک فوج دشمن کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہردم تیار ہے۔

انھوں نے کہا کہ مسلح افواج نے جس جانفشانی سے دہشتگردی کا مقابلہ کیا اس کی مثال نہیں ملتی، پاک فوج عوام کی خواہشات اورامنگوں کا محور ہے، مضبوط معیشت مضبوط دفاع کے لیے ناگزیرہے، باہمی تعاون سے پاکستان اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔
Load Next Story