محمد بن سلمان کا بھارتی دَورہ اور پاکستان
ابھی محمد بن سلمان کے پاکستان آمد بارے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہُوا ہے
اگلے دو ایام (9اور10ستمبر2023) کے دوران بھارتی راجدھانی ، نئی دہلی، میں، بھارت کے زیرصدارت، G20کا سربراہی اجلاس ہونے جا رہا ہے : معاشی اور اقتصادی اعتبار سے دُنیا کے20 طاقتور ترین ممالک کا سربراہی اجلاس! جی ٹونٹی کا رکن ہونے کے ناتے امریکہ و مشرقِ وسطیٰ سمیت مغربی ممالک بھی بھارت کے جملہ ناز نخرے اُٹھاتے نظر آ رہے ہیں ۔
G20کے اِس سربراہی اجلاس میں سعودی عرب کے طاقتور اور جواں عمر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان صاحب بھی مبینہ طور پر شرکت فرما رہے ہیں ۔
خبروں کے مطابق ، محترم شہزادہ صاحب بھارت جاتے ہُوئے کچھ گھنٹوں کے لیے پاکستان میں بھی رُکیں گے ۔ اِسی طرح کی چند گھنٹہ قیام فرمائی، اِس سے قبل سابق امریکی صدر، بل کلنٹن، بھی فرما چکے ہیں ۔ وہ( مارچ 2000میں) بھارتی دَورے سے امریکہ واپس جاتے ہُوئے چند گھنٹوں کے لیے پاکستان رُکے تھے ۔
اِس پر بھی ہماری خوشیاں دیدنی تھیں ۔اب محمد بن سلمان صاحب کے چند گھنٹہ قیام کے لیے بھی ہم شدت سے منتظر ہیں ۔ ہمارے سوشل میڈیا پر مگر عجب عجب تبصرے اور پیش گوئیاں کی جارہی ہیں ۔ یہ پیشگوئیاں دراصل ہماری غیر سنجیدگی کا شاہکار ہیں ۔
سوشل میڈیا پر کہا جارہا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان صاحب دراصل چیئرمین پی ٹی آئی کو( مستقل طور پر) سعودی عرب بھجوانے کے لیے پاکستان میں قدم رنجہ فرما رہے ہیں۔ شائد یہ کہنا سچ ہی ہے کہ آج بوجوہ ہمارا سماج اور میڈیا، کسی کی محبت اور کسی کی نا محبت میں، دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے ۔
پاکستان میں یہ تقسیم روز بروز گہری ہوتی جارہی ہے جب کہ بھارت اپنے ہاں G20کے اجلاس منعقد کروا کر ترقی اور عالمی شہرت کے زینے پھلانگتا جارہا ہے ۔ ورلڈ اسٹیج پر بھارت کا قد بڑھ رہا ہے اور ہمارا قد؟ بھارت جی ٹونٹی کے اِس اجلاس کے لیے خوب تیاریاں کررہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق:جی ٹونٹی کے اِس اجلاس اور اِس کے شرکت کنندگان کی حفاظت کے لیے دہلی کی80ہزار پولیس کے علاوہ بھارتی پیرا ملٹری فورس اور بارڈر سیکیورٹی فورسز کے ایک لاکھ 30 ہزار مسلح جوان تعینات کیے جا رہے ہیں۔
40ہزار فائر فائٹرز متعین کیے گئے ہیں۔ سیکیورٹی کی نگرانی دہلی پولیس کے دو اسپیشل کمشنرز (رنویر سنگھ کرشنا اور دپندر پاٹھک)کو سونپی گئی ہے۔ دونوں کہتے ہیں: ہم اِس تاریخی اور پُر فخر موقع کو یادگار بنا دیں گے ۔ 9اور10ستمبر کو نئی اور پرانی دہلی کے سبھی سرکاری دفاتر،تجارتی مراکزاور تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسندوں پر خاص نظر رکھنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں ۔
انڈین ائر فورس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جی ٹونٹی اجلاس کے دونوں ایام کے دوران دہلی کی فضائی حدود کو محفوظ رکھنے کے لیے کسی قسم کا کوئی ڈرون بھی اُڑنے نہیں پائیگا ۔ اگر کوئی اُڑے گا تو اُسے اینٹی ڈرون سسٹم کے تحت فوری طور پر مار گرایا جائے گا۔
عالمی معزز مہمانوں کو ائر پورٹ سے لانے اور لے جانے کے لیے 20بُلٹ پروف لیموزین گاڑیاں لیز پر لی گئی ہیں ۔اِن گاڑیوں کے کرایوں پر 22لاکھ ڈالرز( تقریباً70کروڑ پاکستانی روپے) خرچ ہو رہے ہیں ۔
چاہیے تو یہ تھا کہ ہمارے مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں اِس امر پر سنجیدہ مباحث ہوتے کہ شہزادہ محمد بن سلمان صاحب پاکستان ایسے سعودی دوست ملک میں صرف چند گھنٹے کیوں رُکیں گے؟ باقاعدہ دَورہ کیوں نہیں؟بھارتی میڈیا نے تو پہلے ہی بے پر کی اُڑاتے ہُوئے کہہ دیا ہے کہ محمد بن سلمان چند گھنٹوں کے لیے بھی پاکستان نہیں رُکیں گے۔شہزادہ محمد بن سلمان(MBS) کی شرکت سے سعودی عرب سمیت مشرقِ وسطیٰ کے خلیجی امیر ممالک بھارت کے مزید قریب آ جائیں گے ۔
جی ٹونٹی کا یہ اجلاس اور ایم بی ایس کی پاکستان میں چند گھنٹوں کی آمد ایسے ایام میں ہو رہی ہے جب پاکستان میں گھر گھر بجلی کے بلوں نے قیامتیں برپا کررکھی ہیں۔
جب پاکستان میں ہر آن روپے کی گھٹتی اور ڈالر کی ہر لمحہ بڑھتی قیمت نے مملکتِ خداداد، عوام اور نگران حکومت کے اوسان خطا کر رکھے ہیں۔ جب پورے پاکستان میں سعودی عرب کی تحفے میں دی گئی قیمتی ترین گھڑی کی ''بلیک مارکیٹ'' میں فروخت کی داستانیں بازگشت بن کر سنائی دے رہی ہیں۔جب سعودی شاہی خاندان کی عطا کردہ گھڑی کی فروخت کے نتیجے میں ہمارے سابق وزیر اعظم اٹک جیل میں پہنچ گئے ہوں ۔
جب بے پناہ مہنگائی سے پاکستانی عوام کی چیخیں تا آسمان سنائی دے رہی ہیں۔ جب ٹی ٹی پی کے دہشت گرد آئے روز ہمارے جوانوں کو شہید اور زخمی کررہے ہیں۔ ایسے پریشان حال اور محتاج ملک کا باقاعدہ دَورہ قبلہ شہزادہ محمد بن سلمان بھلا کیونکر کریں گے ؟
ابھی محمد بن سلمان کے پاکستان آمد بارے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہُوا ہے( ممکن ہے اِن سطور کی اشاعت تک کوئی حتمی خبر آ جائے) ہمیں مگر کسی نہ کسی سطح پر یہ احساس تکلیف دے رہا ہے کہ سعودی ولی عہد صاحب بھارت جاتے ہُوئے مبینہ طور پر کیوں چند گھنٹوں کے لیے پاکستان میں قیام فرمائیں گے؟ ہم مگر اپنی اداؤں پر غور فرمانے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ کپتان کے دَور میں پاک سعودی تعلقات کو دھچکا کیوں پہنچا اور کس نے پہنچایا؟ ہماری کج ادائیاں ہیں کہ ہم غیر ملکی دولتمندوں کے محتاج بھی ہیں۔
اُن کی امداد بھی ہمیں چاہیے مگر ہماری اکڑ نہیں جاتی۔ سعودی ولی عہد نے چیئرمین پی ٹی آئی پر اپنی محبتیں نچھاور کیں لیکن چیئرمین نے جواباً شہزادہ بارے کیا رویہ اختیار کیا؟ یہ کہانیاں چہار سُو گردش میں ہیں۔ اِن کا بھگتان اب پورا پاکستان بھگت رہا ہے ۔
اگلے روز پاکستان کے جن سرمایہ داروں نے ہمارے دو بڑوں سے تفصیلی ملاقاتیں کی ہیں، وہاں بھی یہ کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے ہماری بیوروکریسی بارے سخت شکایات ہیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ پھر بھی ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ محمد بن سلمان کیوں چند گھنٹوں کے لیے ہمارے ہاں قیام کریں گے؟
بھارت میں G20اجلاس ایسے ایام میں ہورہا ہے جب حال ہی میں بھارتی چاند گاڑی کامیابی کے ساتھ چاند کے ساؤتھ پول پر اُتری ہے ۔ اُس نے دو ہفتے وہاں قیام بھی کیا ہے اور مختلف النوع تجربات بھی کیے ہیں۔ اِس کامیابی پر ساری دُنیا کے میڈیا میں بھارت کا ڈنکا بج رہا تھا۔ اب جی ٹونٹی اجلاس سے پھر دُنیا میں اُس کے نام کا غلغلہ اُٹھے گا۔
جس اجلاس میں امریکی، رُوسی ، برطانوی، چینی، جاپانی ، فرانسیسی ایسے طاقتور صدور اور وزرائے اعظم یا اُن کے نمائندگان شرکت کررہے ہوں، عالمی میڈیا کی نظریں اُس اجلاس اور اُس کے میزبان ملک کی جانب کیوں نہ اُٹھیں گی ؟ خبریں مگر یہ ہیں کہ رُوسی اور چینی صدور (ولادیمیر پوٹن اور شی جن پنگ) جی ٹونٹی کے مذکورہ اجلاس میں بوجوہ شرکت نہیں کررہے ہیں۔ امریکی صدر، جو بائیڈن، نے اِس پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔
آجکل ایک نقشے کے قضیئے کی وجہ سے چین اور بھارت میں ویسے ہی سخت کشیدگی پائی جا رہی ہے ۔ابھی چند دن پہلے ہی چین نے سرکاری طور پر اپنا جوStandard Map جاری کیا ہے، اِس میں اکسائی چن(Aksai Chin) اور بھارت کی شمال مشرقی ریاست '' ارونچل پردیش'' کو چینی علاقے کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
بھارت اپنی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، ارندم باگچی، کے توسط سے اِس نقشے پر سخت احتجاج اور واویلا کررہا ہے لیکن چین کا کہنا ہے کہ یہ دونوں علاقے قدیم چینی سلطنت کا حصہ رہے ہیں، اس لیے یہ Territory اب بھی ہماری ہے ۔
G20کے اِس سربراہی اجلاس میں سعودی عرب کے طاقتور اور جواں عمر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان صاحب بھی مبینہ طور پر شرکت فرما رہے ہیں ۔
خبروں کے مطابق ، محترم شہزادہ صاحب بھارت جاتے ہُوئے کچھ گھنٹوں کے لیے پاکستان میں بھی رُکیں گے ۔ اِسی طرح کی چند گھنٹہ قیام فرمائی، اِس سے قبل سابق امریکی صدر، بل کلنٹن، بھی فرما چکے ہیں ۔ وہ( مارچ 2000میں) بھارتی دَورے سے امریکہ واپس جاتے ہُوئے چند گھنٹوں کے لیے پاکستان رُکے تھے ۔
اِس پر بھی ہماری خوشیاں دیدنی تھیں ۔اب محمد بن سلمان صاحب کے چند گھنٹہ قیام کے لیے بھی ہم شدت سے منتظر ہیں ۔ ہمارے سوشل میڈیا پر مگر عجب عجب تبصرے اور پیش گوئیاں کی جارہی ہیں ۔ یہ پیشگوئیاں دراصل ہماری غیر سنجیدگی کا شاہکار ہیں ۔
سوشل میڈیا پر کہا جارہا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان صاحب دراصل چیئرمین پی ٹی آئی کو( مستقل طور پر) سعودی عرب بھجوانے کے لیے پاکستان میں قدم رنجہ فرما رہے ہیں۔ شائد یہ کہنا سچ ہی ہے کہ آج بوجوہ ہمارا سماج اور میڈیا، کسی کی محبت اور کسی کی نا محبت میں، دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے ۔
پاکستان میں یہ تقسیم روز بروز گہری ہوتی جارہی ہے جب کہ بھارت اپنے ہاں G20کے اجلاس منعقد کروا کر ترقی اور عالمی شہرت کے زینے پھلانگتا جارہا ہے ۔ ورلڈ اسٹیج پر بھارت کا قد بڑھ رہا ہے اور ہمارا قد؟ بھارت جی ٹونٹی کے اِس اجلاس کے لیے خوب تیاریاں کررہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق:جی ٹونٹی کے اِس اجلاس اور اِس کے شرکت کنندگان کی حفاظت کے لیے دہلی کی80ہزار پولیس کے علاوہ بھارتی پیرا ملٹری فورس اور بارڈر سیکیورٹی فورسز کے ایک لاکھ 30 ہزار مسلح جوان تعینات کیے جا رہے ہیں۔
40ہزار فائر فائٹرز متعین کیے گئے ہیں۔ سیکیورٹی کی نگرانی دہلی پولیس کے دو اسپیشل کمشنرز (رنویر سنگھ کرشنا اور دپندر پاٹھک)کو سونپی گئی ہے۔ دونوں کہتے ہیں: ہم اِس تاریخی اور پُر فخر موقع کو یادگار بنا دیں گے ۔ 9اور10ستمبر کو نئی اور پرانی دہلی کے سبھی سرکاری دفاتر،تجارتی مراکزاور تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسندوں پر خاص نظر رکھنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں ۔
انڈین ائر فورس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جی ٹونٹی اجلاس کے دونوں ایام کے دوران دہلی کی فضائی حدود کو محفوظ رکھنے کے لیے کسی قسم کا کوئی ڈرون بھی اُڑنے نہیں پائیگا ۔ اگر کوئی اُڑے گا تو اُسے اینٹی ڈرون سسٹم کے تحت فوری طور پر مار گرایا جائے گا۔
عالمی معزز مہمانوں کو ائر پورٹ سے لانے اور لے جانے کے لیے 20بُلٹ پروف لیموزین گاڑیاں لیز پر لی گئی ہیں ۔اِن گاڑیوں کے کرایوں پر 22لاکھ ڈالرز( تقریباً70کروڑ پاکستانی روپے) خرچ ہو رہے ہیں ۔
چاہیے تو یہ تھا کہ ہمارے مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں اِس امر پر سنجیدہ مباحث ہوتے کہ شہزادہ محمد بن سلمان صاحب پاکستان ایسے سعودی دوست ملک میں صرف چند گھنٹے کیوں رُکیں گے؟ باقاعدہ دَورہ کیوں نہیں؟بھارتی میڈیا نے تو پہلے ہی بے پر کی اُڑاتے ہُوئے کہہ دیا ہے کہ محمد بن سلمان چند گھنٹوں کے لیے بھی پاکستان نہیں رُکیں گے۔شہزادہ محمد بن سلمان(MBS) کی شرکت سے سعودی عرب سمیت مشرقِ وسطیٰ کے خلیجی امیر ممالک بھارت کے مزید قریب آ جائیں گے ۔
جی ٹونٹی کا یہ اجلاس اور ایم بی ایس کی پاکستان میں چند گھنٹوں کی آمد ایسے ایام میں ہو رہی ہے جب پاکستان میں گھر گھر بجلی کے بلوں نے قیامتیں برپا کررکھی ہیں۔
جب پاکستان میں ہر آن روپے کی گھٹتی اور ڈالر کی ہر لمحہ بڑھتی قیمت نے مملکتِ خداداد، عوام اور نگران حکومت کے اوسان خطا کر رکھے ہیں۔ جب پورے پاکستان میں سعودی عرب کی تحفے میں دی گئی قیمتی ترین گھڑی کی ''بلیک مارکیٹ'' میں فروخت کی داستانیں بازگشت بن کر سنائی دے رہی ہیں۔جب سعودی شاہی خاندان کی عطا کردہ گھڑی کی فروخت کے نتیجے میں ہمارے سابق وزیر اعظم اٹک جیل میں پہنچ گئے ہوں ۔
جب بے پناہ مہنگائی سے پاکستانی عوام کی چیخیں تا آسمان سنائی دے رہی ہیں۔ جب ٹی ٹی پی کے دہشت گرد آئے روز ہمارے جوانوں کو شہید اور زخمی کررہے ہیں۔ ایسے پریشان حال اور محتاج ملک کا باقاعدہ دَورہ قبلہ شہزادہ محمد بن سلمان بھلا کیونکر کریں گے ؟
ابھی محمد بن سلمان کے پاکستان آمد بارے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہُوا ہے( ممکن ہے اِن سطور کی اشاعت تک کوئی حتمی خبر آ جائے) ہمیں مگر کسی نہ کسی سطح پر یہ احساس تکلیف دے رہا ہے کہ سعودی ولی عہد صاحب بھارت جاتے ہُوئے مبینہ طور پر کیوں چند گھنٹوں کے لیے پاکستان میں قیام فرمائیں گے؟ ہم مگر اپنی اداؤں پر غور فرمانے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ کپتان کے دَور میں پاک سعودی تعلقات کو دھچکا کیوں پہنچا اور کس نے پہنچایا؟ ہماری کج ادائیاں ہیں کہ ہم غیر ملکی دولتمندوں کے محتاج بھی ہیں۔
اُن کی امداد بھی ہمیں چاہیے مگر ہماری اکڑ نہیں جاتی۔ سعودی ولی عہد نے چیئرمین پی ٹی آئی پر اپنی محبتیں نچھاور کیں لیکن چیئرمین نے جواباً شہزادہ بارے کیا رویہ اختیار کیا؟ یہ کہانیاں چہار سُو گردش میں ہیں۔ اِن کا بھگتان اب پورا پاکستان بھگت رہا ہے ۔
اگلے روز پاکستان کے جن سرمایہ داروں نے ہمارے دو بڑوں سے تفصیلی ملاقاتیں کی ہیں، وہاں بھی یہ کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے ہماری بیوروکریسی بارے سخت شکایات ہیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ پھر بھی ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ محمد بن سلمان کیوں چند گھنٹوں کے لیے ہمارے ہاں قیام کریں گے؟
بھارت میں G20اجلاس ایسے ایام میں ہورہا ہے جب حال ہی میں بھارتی چاند گاڑی کامیابی کے ساتھ چاند کے ساؤتھ پول پر اُتری ہے ۔ اُس نے دو ہفتے وہاں قیام بھی کیا ہے اور مختلف النوع تجربات بھی کیے ہیں۔ اِس کامیابی پر ساری دُنیا کے میڈیا میں بھارت کا ڈنکا بج رہا تھا۔ اب جی ٹونٹی اجلاس سے پھر دُنیا میں اُس کے نام کا غلغلہ اُٹھے گا۔
جس اجلاس میں امریکی، رُوسی ، برطانوی، چینی، جاپانی ، فرانسیسی ایسے طاقتور صدور اور وزرائے اعظم یا اُن کے نمائندگان شرکت کررہے ہوں، عالمی میڈیا کی نظریں اُس اجلاس اور اُس کے میزبان ملک کی جانب کیوں نہ اُٹھیں گی ؟ خبریں مگر یہ ہیں کہ رُوسی اور چینی صدور (ولادیمیر پوٹن اور شی جن پنگ) جی ٹونٹی کے مذکورہ اجلاس میں بوجوہ شرکت نہیں کررہے ہیں۔ امریکی صدر، جو بائیڈن، نے اِس پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔
آجکل ایک نقشے کے قضیئے کی وجہ سے چین اور بھارت میں ویسے ہی سخت کشیدگی پائی جا رہی ہے ۔ابھی چند دن پہلے ہی چین نے سرکاری طور پر اپنا جوStandard Map جاری کیا ہے، اِس میں اکسائی چن(Aksai Chin) اور بھارت کی شمال مشرقی ریاست '' ارونچل پردیش'' کو چینی علاقے کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
بھارت اپنی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، ارندم باگچی، کے توسط سے اِس نقشے پر سخت احتجاج اور واویلا کررہا ہے لیکن چین کا کہنا ہے کہ یہ دونوں علاقے قدیم چینی سلطنت کا حصہ رہے ہیں، اس لیے یہ Territory اب بھی ہماری ہے ۔