امید بہار

وطن عزیز میں سیاسی رسہ کشی جاری ہے اگرچہ آیندہ عام انتخابات کا چرچا مسلسل جاری ہے۔ جتنے منہ اُتنی باتیں

S_afarooqi@yahoo.com

ہمارا پیارا وطن پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں برف پوش، اونچے اونچے پہاڑ، گنگناتے آبشار اور لہلہاتے سبزہ زار ہیں۔

یہاں من لبھاتی ہوئی وادیاں اور سونا اگلتی ہوئی کھیتیاں ہیں۔ یہاں کے عوام محنت کش اور ذہین ہیں جنہوں نے ریگزاروں میں چمنستان کھلائے ہیں اور دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، انھوں نے ثابت کیا ہے کہ ہم بھی کسی سے پیچھے نہیں۔

کھیل کے میدان کو ہی لے لیجیے۔ انھوں نے وطن عزیز کا نام روشن کیا ہے جس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ ارشد ندیم نے جیولن تھرو کے حالیہ بین الاقوامی مقابلہ میں پاکستان کو پہلا میڈل دلوا کر وطن عزیز کا سر فخر سے بلند کردیا ہے، کسی بین الاقوامی مقابلہ میں حصہ لینے والے وہ پہلے پاکستانی جیولن تھروور ہیں جنہوں نے سلور میڈل جیتا ہے۔

پاکستان جس وقت معرضِ وجود میں آیا تھا اُس وقت کے حالات انتہائی مشکل تھے۔ اِس کا اندازہ صرف اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُس وقت ملک میں صرف 41 فیکٹریاں موجود تھیں جن میں ایک ماچس فیکٹری بھی شامل تھی لیکن ملک نے صنعتی میدان میں جو برق رفتار ترقی کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بہت ساری صنعتیں قائم ہوتی چلی گئیں جس میں ٹیکسٹائل صنعت سرِ فہرست ہے۔

اِس ترقی سے نہ صرف اندرونِ ملک کپڑے کی ضروریات پوری ہوئیں بلکہ برآمدات کے شعبہ میں یہ غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کا ایک بڑا اور بہترین ذریعہ بھی ثابت ہوا۔پاکستان میں تیار ہونے والا کپڑا دنیا بھر میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔

اِس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ پاکستانی لان کو نہ صرف دنیا کی دوسری منڈیوں میں مقبولیت حاصل ہے بلکہ کوائلٹی اور ڈیزائننگ کے معاملہ میں پڑوسی ملک میں بھی اِس کی مقبولیت بہت زیادہ ہے۔

دیگر شعبوں کے علاوہ دفاعی ساز و سامان کی تیاری میں بھی پاکستان کا ایک مخصوص مقام ہے جس میں ٹینکوں کے علاوہ بحری اور ہوائی جہاز بھی شامل ہیں۔ہمیں فخر ہے کہ افواجِ پاکستان جس میں پاکستان کی بری فوج، بحریہ اور فضائیہ شامل ہیں افواجِ عالم میں اپنا ایک بلند مقام رکھتی ہیں۔

مدتِ دراز سے وطن عزیز کے حالات مسلسل ابتری کا شکار ہیں جس میں معاشی حالات بھی شامل ہیں۔حالت یہ ہے کہ بنگلہ دیش جو کبھی ہمارا ایک بازو ہوا کرتا تھا ہم سے علیحدہ ہونے کے بعد ترقی کی دوڑ میں ہم سے کافی آگے نکل چکا ہے اور اس کی معیشت ہمارے مقابلہ میں بہت زیادہ مضبوط اورمستحکم ہے جس کی وجہ سے اس کی کرنسی کی قدر و قیمت ہماری کرنسی سے کافی زیادہ ہے اور تو اور افغانستان جیسے پسماندہ پڑوسی ملک کی کرنسی کی ویلیو پاکستانی روپے کے مقابلہ میں کافی زیادہ ہوچکی ہے۔یہ صورتحال سال دو سال کی نہیں بلکہ گزشتہ کئی برسوں پر محیط ہماری مجرمانہ غفلت، کوتاہی اور ناقص کارکردگی کا شاخسانہ ہے۔


ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے وطن عزیز کو ایک اکھاڑا بنایا ہوا ہے اور جسے بھی دیکھیے اقتدار کی کرسی اس کی منزل ہے۔

اقتدار کی ہوس اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ہر لیڈر اور اس کی جماعت ایک مرتبہ سے زیادہ حکمرانی کا مزہ چکھ لینے کے بعد دوبارہ مسند اقتدار پر قابض ہونے کی جستجو میں ہے۔ ملک و قوم کا کیا بنے گا اس سے انھیں نہ کوئی غرض ہے اور نہ کوئی دلچسپی۔ سب کے لیبل جدا جدا ہیں لیکن مقاصد ایک ہیں۔

عام انتخابات کا کھیل کئی مرتبہ کھیلا جاچکا ہے لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات رہا کیونکہ کسی نے بھی انتخابی نتائج کو اسپورٹس مین اسپرٹ کے ساتھ تسلیم نہیں کیا اور اُکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ جاری رہا۔ملک اور قوم کا مفاد کسی کے پیشِ نظر نہیں رہا۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہر ایک نے قومی خزانہ کو مالِ غنیمت اور باپ کی جاگیر سمجھ کر دل کھول کر زیادہ سے زیادہ لُوٹا۔

اس وقت ملک کی باگ ڈور نگراں حکومت کے ہاتھوں میں ہے اور کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ یہ صورتحال کب تک یونہی جاری رہے گی۔وطن عزیز میں سیاسی رسہ کشی جاری ہے اگرچہ آیندہ عام انتخابات کا چرچا مسلسل جاری ہے۔ جتنے منہ اُتنی باتیں۔ غالبؔ کا شعر یاد آرہا ہے:

آہ کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سَر ہونے تک

لیکن اپنے آپ اور عوام کو تسلی دینے کے لیے ہم تو اتنا ہی کہنے پر اکتفا کریں گے:

ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
Load Next Story