نائیجیریا کی معصوم طالبات کا المیہ

کیا طالبات کے اغوا کے واقعہ کا نتیجہ نائیجیریا کی تقسیم کی صورت میں سامنے آئے گا؟

مذہب کے نام پر بدترین سفاکی کی ایک اور واردات۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD:
مغربی افریقا کے اہم ملک فیڈرل ری پبلک آف نائیجیریا میں سرگرم''بوکوحرام'' نامی ایک عسکری گروپ نے اسکول کی اڑھائی سو کے قریب طالبات کو اغواء کرکے بین الاقوامی ابلاغی اداروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہوئے یہ ثابت کردیا ہے کہ مٹھی بھرعسکریت پسند نائیجیریا جیسے مضبوط ملک کو چاروں شانے چت کرسکتے ہیں۔

اسکول کی طالبات کے اغواء کی گھناؤنی واردات میں واقعی بوکوحرام ہی ملوث ہے مگر تصویر کا ایک دوسرا رخ جسے ہمیشہ نظرانداز کردیا جاتا ہے وہ بھی قابل غور ہے۔ یہ دوسرا رخ دراصل نائجیریا کے مستقبل سے وابستہ ہے، جس کے ذیل میں کئی سوال ابھر رہے ہیں۔ بوکو حرام کی کارروائی کے پس منظر میں جھانکنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاملہ بہت پیچیدہ ہے۔

یہ صرف کسی ایک عسکری گروپ تک محدود نہیں۔ دوربین نگاہ رکھنے والے مبصرین مسئلے کو ایک اور پہلو سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ یہ کہ نائجیری کے خلاف بہ یک وقت دو سازشیں ہو رہی ہیں۔ ایک سازش کا تعلق سوڈان کی طرز پرمسلم اور عیسائی کی بنیاد پر اس کی تقسیم کی راہ ہموار کرنا اور دوسری تیز رفتار ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے۔ بادی النظر میں دونوں سازشوں کو آگے بڑھانے کے لیے''بوکو حرام'' اپنا کندھا فراہم کررہی ہے۔

بوکو حرام اور نائیجیریا میں تازہ شورش کو سمجھنے کے لیے ہمیں ملک کی جغرافیائی اور آبادیاتی تقسیم کو سمجھنا ضرری ہے۔ نائیجیریا کی کل سترہ کروڑ آبادی میں 55 فی صد مسلمان40 فی صد عیسائی اور پانچ فی صد دوسرے مذاہب کے پیروکار آباد ہیں۔ ملک کی اٹھارہ شمالی ریاستوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جن میں سے بارہ میں سنہ 1999ء اور 2000ء کے دوران اسلامی شریعت بھی نافذ کی گئی تھی۔ یہ علاقے عیسائی آبادی والی دیگر ریاستوں سے زیادہ غریب اور پسماندہ ہیں، کیونکہ تیل کی دولت سے مالا مال ڈیلٹا اور صحارا کے علاقے عیسائی آبادی کے پاس ہیں۔



ملک کی آبادیاتی تقسیم کے باعث قدرتی وسائل سے بھرپورریاستوں کو عیسائیوں کی ملکیت خیال کیا جاتا۔ یورپ کے قریب پڑوسی ممالک فرانس، اٹلی، جرمنی حتیٰ کہ برطانیہ اور امریکا نے بھی ہمیشہ جنوبی نائیجیریا کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ماضی میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہونے والے فسادات کے دوران مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر یہ مطالبہ اٹھایا گیا کہ فسادات روکنے کے لیے ملک کو جنوبی اور شمالی ریاستوں میں بانٹ دیا جائے لیکن فوری طور پرایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا ہے۔

بوکو حرام نامی عسکری گروپ کی جانب سے اسکول کی طالبات کو یرغمال بنائے جانے کے دعوے کے بعد نائیجیریا کا میڈیا بھی واضح طورپر دو گروپوں میں منقسم دکھائی دیتا ہے۔ شمالی ریاستوں اور مسلمانوں کے ترجمان اخبارات کھلے ایک دوسرے پر تنقید کررہے ہیں۔ جنوبی ریاستوں اور عیسائیوں کے زیراثر اخبارات یہ الزام عائد کررہے ہیں کہ بوکو حرام کو سرکردہ مسلمان رہ نماؤں کی سرپرستی حاصل ہے۔ ایسی ہی بات صدر گڈ لک جوناتھن نے بھی کی، جس کے بعد جنوبی میڈیا کو اپنے دعوے کے لیے جواز مل گیا۔ شمالی ریاستوں کے ذرائع ابلاغ بھی بوکو حرام کے بارے میں کوئی نرم رویہ نہیں رکھتے لیکن ان کا خیال ہے کہ تنظیم کو بیرونی سازشی عناصر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ان مذموم مقاصد میں ملک کی تقسیم یا معاشی طورپر دیوالیہ کرنا ہے۔

مسلم مبصرین کے خیال میں اسکول کی لڑکیوں کو اغواء کرکے دراصل جوبا کی تیز رفتاری معاشی دوڑ کو کاٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ الجیرین عربی روزنامہ''الجزائر نیوز'' کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسکول کی لڑکیوں کو اغواء کرنا معمولی بات نہیں لیکن اس سارے کھیل کے پس پردہ کچھ دیگر عوامل بھی کار فرما ہیں۔ ان عوامل میں فرانس، اٹلی، امریکا اور برطانیہ جیسے ملکوں کے مفادات ہیں جو بہر صورت نائیجیریا کو معاشی طورپر آگے بڑھنے سے روکنا چاہتے ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ہے بلکہ ماضی قریب میں بھی جوبا کے خلاف عالمی سطح پر مختلف سازشیں وجود میں آتی رہی ہیں۔ بوکو حرام کو جن بیرونی ہاتھوں سے مدد مل رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تنظیم بھی کسی اور کی سازش کو آگے بڑھانے کے لیے تیار کی گئی ہے''۔

الجیرین اخبار کے تجزیے سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ نائیجیریا جسے 2014ء کے آغاز میں افریقا کا مضبوط ترین معاشی ملک ہونے کا درجہ مل چکا ہے ایک مرتبہ پھر ترقی معکوس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ گوکہ قدرتی تیل اور گیس کے غیرمعمولی وسائل کی بدولت نائیجیریا اب بھی قرن افریقا کے تمام ملکوں سے آگے ہے اور اقتصادی ماہرین کی پیشن گوئی کے مطابق 2050ء میں نائیجیریا دنیا کی بیسویں بڑی معیشت بن جائے گا۔ یہ تاثر نیا نہیں بلکہ صدیوں پہلے سے نائیجیریا کو افریقا کا ''ستارا'' کہا جاتا رہا ہے۔

174 ملین آبادی کے ملک میں 500 بڑے قبائل اور اقوام آباد ہیں۔ گوکہ سرکاری زبان انگریزی ہے مگر عربی سمیت درجنوں دوسری زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ مذبی، لسانی، قبائلی اور جغرافیائی تقسیم میں بٹے نائیجیریا میں فرقہ وارانہ فسادات کوئی انوکھی بات نہیں۔ نائیجیریا کی تاریخ ایسے ہزاروں خونی فسادات سے بھری پڑی ہے۔ سب سے بڑی سول وار 1967ء سے 1970 تک جاری رہی جس میں کم سے کم ایک ملین افرادلقمہ اجل بنے۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں نفاذ شریعت کے مطالبے کی حمایت اور مخالفت میں منقسم کلمہ گو ایک دوسرے کی گردنیں آج تک کاٹتے چلے آ رہے ہیں۔



نائجیریا کی 36 ریاستوں میں سے 12 میں اب شرعی قوانین نافذہیں۔یہ تمام ریاستیں وفاق کے زیرانتظام ہیں لیکن عملا ایسے لگ رہا ہے کہ وفاقی حکومت کا ان پر زیادہ زور نہیں چلتا۔ ان ریاستوں کی جانب سے جب کوئی مطالبہ سامنے آتا ہے تووفاق اسے فورا مان لیتا ہے۔ ملک کے شمال میں واقع مسلم اکثریتی ریاستیں ہی دراصل بوکو حرام جیسے گروپوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں، جہاں تنظیم کے مالی سرچشمے موجود ہیں اور وہیں سے افرادی قوت بھی مل رہی ہے۔امریکا میں نائن الیون کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹا گون میں وزارت دفاع پرحملوں کے بعد نائیجیریا میں عیسائی، مسلم فسادات اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان فسادات نے اس وقت مزید شدت اختیار کرلی جب امریکا نے افغانستان پرحملہ کیا۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بوکو حرام جیسے گروپ بھی دراصل مسلمانوں پر مغربی یلغار کا ردعمل ہیں کیونکہ یہ تنظیم اس وقت وجود میں آئی جب افغانستان میں طالبان کی حکومت ختم کردی گئی اور اس کے رد عمل میں نائیجیریا کی مسلمان ریاستوں میں سخت غم وغصے کا اظہار کیا جانے لگا۔ قصہ مختصرنائیجیریا میں تازہ کشیدگی اور طالبات کے اغواء کے بہت سے دیگر پہلوؤں میں ملک کو سوڈان کی طزر پرشمالی اور جنوبی حصوں میں مسلم، عیسائی اکثریت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی سازشوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

افریقی اور عرب ذرائع ابلاغ بار بار یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ نائیجیریا میں بوکو حرام کی تازہ شورش دراصل قدرتی وسائل سے مالا مال ملک میں غیرملکی مداخلت کی راہ ہموار کرنے کی ایک گہری سازش ہے۔ چونکہ جوبا حکومت بوکوحرام کو قابو کرنے میں ناکام رہی ہے، اس لیے تنظیم کی سرکوبی کی آڑ میں جمہوریت اور امن کے عالمی علمبردار بالخصوص امریکا نائیجیریا میں فوجی مداخلت کے لیے اوزار تیز کرنے میں مصروف ہے۔ بدقسمتی سے نائیجیرین صدر گڈ لک جوناتھن بھی عالمی برادری سے بوکو حرام کے خلاف کارروائی کی درخواست کردی ہے۔ اس لیے یہ امکان موجود ہے کہ امریکا کی قیادت میں کسی بھی وقت عالمی فوجیں نائیجیریا کا رخ کرسکتی ہیں۔

بوکو حرام کے خلاف کارروائی کی آڑ میں غیرملکی فوجی مداخلت کے کیا نتائج برآمد ہوں گے، ان کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے لیکن جس پریشانی کا اظہار مقامی میڈیا میں ہو رہا ہے وہ تیل کی اسمگلنگ ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق نائیجیریا اس وقت پوری دنیا میں قدرتی تیل کی چوری کا سب سے بڑا اڈہ بن چکا ہے۔ تیل چوری کرنے اور غیرقانونی طریقے اسے اسمگل کرنے میں کوئی ایک گروپ نہیں بلکہ ہزاروں ملکی اور غیرملکی گروپ ملوث ہیں۔ اگر غیرملکی فوجیں نائیجیریا میں داخل ہوتی ہیں تو اس کے نتیجے میں تیل چوری کرنے والے گروپوں کی چاندی ہوسکتی ہے۔

نائیجیریا میں اس وقت روزانہ ایک لاکھ بیرل تیل چوری ہو رہا ہے اور شورش میں اضافے کے نتیجے میں یہ مقدار دوگنا ہوسکتی ہے۔ نائیجیرین خاتون وزیر مالیات نغوزی اوکونجو ایالا کا کہنا ہے کہ حکومت نے تیل کی اسمگلنگ کی روک تھام کے کچھ اقدامات کیے ہیں۔ کیونکہ دوس سال قبل یومیہ چار لاکھ بیرل تیل چوری کیا جاتا تھا، جو اب ایک لاکھ بیرل تک آگیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے الزام لگایا ہے کہ نائیجیریا کی فوج کو اسکول پر حملے کی اطلاع چار گھنٹے قبل ہی دے دی گئی تھی لیکن اس سلسلے میں کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔

والدین اپنی بچیوں کی شناخت ظاہر نہیں کر رہے

اطلاعات کے مطابق اغواشدگان میں سے 53 لڑکیاں بوکوحرام جنگجوؤں کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ ان میں سے چند نے اپنے ساتھ بیتے ہوئے واقعات کو بیان کیا ہے، جبکہ زیادہ تر لڑکیاں ابھی تک ذہنی صدمے اور خوف میں مبتلا ہیں، اور ان کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ اس حالت میں نہیں ہیں کہ میڈیا سے گفتگو کر سکیں۔

فرار ہونے والی ایک لڑکی نے رپورٹر کو بتایا کہ بوکو حرام کے جنگجو ان کے اسکول میں حکومتی فوجیوں کا روپ دھار کر آئے۔ انہوں نے لڑکیوں کا گھیراؤ کر کے انہیں وہاں سے اٹھنے کا کہا اور باہر نکال آئے۔ لڑکیاں اس صورتحال سے پریشان ضرور ہوئیں، لیکن انہیں کسی خطرے کا احساس نہ ہوا کیونکہ اپنی دانست میں وہ حکومتی فوجیوں کے ساتھ تھیں۔ تاہم جب یہ جنگجو ان لڑکیوں کو گھیر کر جنگل میں لے گئے، جہاں انہوں نے ہوائی فائرنگ اور نعرے بلند کرنے شروع کر دئیے، تو انہیں احساس ہوا کہ وہ بوکو حرام کی قید میں ہیں۔

جب وہ بوکو حرام کے کیمپوں میں پہنچیں تو جنگجوؤں نے انہیں صفائی کرنے، کھانا پکانے، جلانے کی لکڑیاں اکھٹی کرنے اور پانی لانے کا حکم دے دیا۔ فرار ہونے والی لڑکی نے بتایا: ''وہاں پہنچنے کے دو گھنٹے بعد میں نے اپنی دو سہلیوں کے ساتھ فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ کچھ جنگجوؤں نے ہمیں فرار ہوتے دیکھ لیا تھا، لیکن انہوں نے ہمارا تعاقب نہیں کیا۔ میں اپنے گاؤں کی طرف بھاگنے لگی۔ رات ایک اجنبی گھر میں بسر کی، جہاں میرا خیال رکھا گیا۔ اگلی صبح گھر کے مالک کی مدد سے میں خوش قسمتی سے اپنے خاندان کے لوگوں سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔''




بی بی سی کے مطابق فرار ہونے والی کچھ لڑکیاں، اغواء ہونے والی دوسری لڑکیوں کی بازیابی کے لیے ہونے والے مظاہروں میں بھی شریک ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ انہیں فرار ہونے کی کوشش کرنے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی، لیکن وہ کسی نہ کسی صورت میں بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ 276 لڑکیاں اب بھی ان کی حراست میں ہیں۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ سرکاری ذرائع لڑکیوں کے نام اور ان کی شناخت کے بارے میں دیگر معلومات ظاہر نہیں کر رہے۔

اس بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ اغوا ہونے والی لڑکیوں کے اہل خانہ ان کی شناخت کے بارے میں دیگر معلومات ظاہر نہیں کر رہے۔ اس بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ اغوا ہونے والی لڑکیوں کے اہل خانہ ان کی پہچان ظاہر کرنے پر آمادہ نہیں کیونکہ نائیجیریا کے سماجی ماحول میں اغواء ہونے والی لڑکی کا کوئی مستقبل نہیں۔

ایک تاثر یہ بھی ہے کہ لڑکیوں کی پہچان اس لیے ظاہر نہیں کی جا رہی کہ ان لڑکیوں کی مذہبی پہچان ظاہر ہونے کی صورت میں دوسرے مذاہب سے وابستہ لوگوں کی اغواء کے واقعے میں دلچسپی جاتی رہے گی۔ بوکو حرام کی قیادت کے دعویدار ابوبکر شیکاؤ کا کہنا ہے کہ ان لڑکیوں کو شادی کے خواہش مندوں کو بیچ دیا جائے گا۔(حسان خالد)

بوکو حرام کس بلا کا نام ہے؟

شمالی نائیجیریا کی مسلم اکثریتی ریاستوں میں ''بوسہ'' زبان بولی جاتی ہے۔''بوکو'' اسی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب عام طورپر مغربی تعلیم لیا جاتا ہے۔ سنہ 1903ء میں برطانیہ نے نائیجیریا کی بیشتر ریاستوں پرقبضہ کرنے کے بعد مشنری اسکولوں کا ایک جال بچھا دیا۔

ان اسکولوں میں دی جانے والی تعلیم چونکہ مکمل مغربی طرز پرتھی، اس لیے ایک سو سال پہلے ہی نائیجیریا کے مسلمانوں نے اس کے خلاف اپنا رد عمل ظاہر کرنا شروع کردیا تھا۔ یہ مشنری اسکول اب بھی نہ صرف قائم ہیں بلکہ ان کا دائرہ مزید پھیل گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں نے دینی مدارس اور دینی و عصری تعلیم پر مشتمل اسکول بھی قائم کیے لیکن مشنری اسکولوں کو سرکاری تعلیمی اداروں کا درجہ حاصل ہونے کے بعد قدامت پسند اسلام پرستوں کے لیے انہیں برداشت کرنا اور بھی مشکل ہوگیا۔ یوں کئی عشروں تک غیراعلانیہ طورپر نائیجیریا کے مسلمان مغربی طرز کے اسکولوں کا بائیکاٹ کرتے آرہے تھے۔

2002ء میں سلفی مسلک کے ایک نوجوان عالم دین الشیخ محمد یوسف نے جدید مغربی تعلیم کے خلاف ایک نئی مہم شروع کی۔ انہوں نے شمالی ریاست بورنو کے صدر مقام میدو گری میں ''جماعت اہل سنت دعوت وجہاد'' کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ تنظیم کے ہیڈ کواٹر میں ایک بڑا دینی مدرسہ بھی قائم کیا گیا۔ انہوں نے ملک کے سیکولر نظام حکومت اور مغربی تعلیمی نظام کے خلاف پوری قوت سے آواز بلند کی۔ مغربی تعلیم کو قطعی ''حرام'' قرار دیا۔ گوکہ انہوں نے خود سے یہ نام تو نہیں دیا مگر مقامی اور علاقائی ذرائع ابلاغ نے از خود'بوکو حرام'' کی اصطلاح متعارف کرائی جو بعد میں ایک منظم تنظیم کی شکل میں تبدیل ہوگئی۔

تنظیم کے بانی نے سیکولرنظام ، ملک میں شریعت کے نفاذ اور مغربی تعلیم کو حرام قرار دیا مگر انہوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے اور نہ ہی اس کی اجازت دی ۔سنہ 2009 ء تک تنظیم کا کام دعوتی سرگرمیوں تک محدود رہا۔ اس دوران کسی ریاستی ادارے پر بوکو حرام کی طرف سے حملے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

سنہ 2009ء کو پولیس نے میدو گری میں تنظیم کے ہیڈ کواٹر کا محاصرہ کرکے متعدد افراد کو حراست میں لیا جس پر تنظیم کے ارکان سخت مشتعل ہوئے۔ انہوں نے پولیس پرپتھراؤ کیا۔ پولیس کی جوابی کارروائی میں بوکو حرام کے کئی ارکان زخمی ہوئے لیکن احتجاج ٹھنڈا پڑنے کے بجائے ملک کی پانچ ریاستوں تک پھیل گیا۔پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے تنظیم کے سربراہ امام محمد یوسف سمیت درجنوں افراد کو گولیاں مار کرقتل کردیا۔ الشیخ یوسف کی میت ہتھکڑیاں لگی اس کے ورثاء کے حوالے کی گئی لیکن کہا گیا کہ اسے پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا ہے۔

طاقت کے استعمال کے نتیجے میں بوکو حرام کی دعوتی سرگرمیاں ختم ہوگئیں لیکن تنظیم نے عسکری گروپ کی صورت اختیار کرنے کے بعد ملک بھرمیں اسکولوں، جامعات۔ فوج اور حکومتی مراکز اور عیسائی گرجا گھروں پرحملوں کی نہ صرف دھمکی دی بلکہ پے درپے حملوں میں چار سال کے دوران کم سے کم تین ہزار افراد کو قتل کردیا گیا۔

بوکو حرام کا دعویٰ ہے کہ پولیس تشدد کے نتیجے میں تنظیم کے ڈیڑھ ہزار ارکان مارے جا چکے ہیں۔ الشیخ یوسف کی موت کے بعد ان کے نائب ابو بکر شیکاؤ ایک سال تک روپوش رہے۔ پولیس نے شیکاؤ کے قتل کا بھی دعویٰ کیا تھا مگر 2011ء میں وہ اچانک نمودار ہوااور ایک ویڈیو پیغام میں اس نے گرجا گھروں۔ فوج اور اسکولوں پرحملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ گذشتہ برس ابو بکر شیکاؤ نے کھلے الفاظ میں کہا کہ ملک میں موجود مغربی اسکولوں کے خاتمے تک ان کی جنگ جاری رہے گی۔ اس جنگ میں مغربی نظام تعلیم کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو بھی انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا۔



بوکو حرام نے گذشتہ اپریل میں کوئی ایک سو کے قریب طالبات کو اغواء کیا، لیکن حیرت کی بات ہے کہ نہ صرف عالمی میڈیا میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہوا بلکہ عرب ذرائع ابلاغ بھی خاموش رہے۔ بوکو حرام نے یکے بعد دیگر اسکولوں پر چار حملے کیے جن میں کم سے کم 270 طالبات کو اغواء کرلیا گیا۔

ان میں سے چالیس کے قریب لڑکیاں کسی نہ کسی ذریعے بچ بچا کر عسکریت پسندوں کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب رہی ہیں لیکن باقی ابھی تک ان کے قبضے میں ہیں۔ جوبا حکومت سنہ 2009ء کے بعد بوکو حرام کے خلاف دوسرا بڑا آپریشن شروع کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ امکان ہے کہ اس آپریشن کی آڑ میں نائیجیریا کو امریکا کی عسکری مدد بھی حاصل ہوگی۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ آیا اس آپریشن کے خاطر خواہ نتائج سامنے آتے ہیں یانہیں۔

آپریشن کی ناکامی کے امکانات اس لیے زیادہ بتائے جاتے ہیں کہ بوکو حرام نے اپنا نیٹ ورک نہ صرف نائیجیریا میں پھیلا رکھا ہے بلکہ پڑوسی ملکوں چاڈ، کیمرون اور دوسری افریقی ریاستوں میں بھی اس کے ٹھکانے موجود ہیں۔ خدا نخواستہ مغوی بچیاں دوسرے ملک منتقل کردی جاتی ہیں اور انہیں واقعی سماج دشمن عناصر کے ہاتھ فروخت کردیا جاتا ہے تو یہ نائیجیریا ہی نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کے لیے ایک سنگین المیہ ہوگا۔ بعید نہیں کہ جو گروپ مغربی تعلیم کو حرام قرار دیتے ہوئے مارنے مرنے پرآجائے وہ بچیوں کو لونڈیاںبنا کر فروخت بھی کرسکتا ہے۔

بوکو حرام ، القاعدہ اور طالبان

نائن الیون کے بعد عالمی سطح پر اسلام کی سخت گیر تشریح کرنے والوں کو کسی نہ کسی شکل میں مقتول اسامہ بن لادن کی قائم کردہ تنظیم القاعدہ کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں تین درجن ایسے گروپ موجود ہیں جنہیں القاعدہ کے دست وبازو قرار دیا جاتا ہے۔

جہاں تک بوکو حرام کا القاعدہ کے ساتھ تعلق کا سوال ہے تو یہ دعویٰ سوائے امریکا کے کسی دوسرے ملک کی طرف سے ابھی تک سامنے نہیں آیا کہ بوکو حرام کے القاعدہ کے ساتھ رابطے ہیں۔ گذشتہ برس امریکی وفاقی تحقیقاتی ادارے''سی آئی اے'' نے ایک خفیہ مراسلے میں بتایا کہ القاعدہ اور بوکو حرام کے درمیان براہ راست روابط موجود ہیں۔ سی آئی اے کے مراسلے کے مطابق اسامہ بن لادن اور بوکو حرام کے بانی الشیخ محمد یوسف کے درمیان بھی ای میل کے ذریعے کئی بار مراسلت رہی ہے۔ اس کے علاوہ بالواسطہ طورپر بوکو حرام کے افغان طالبان کے ساتھ بھی تعلقات قائم رہے ہیں۔

تاہم یہ آشکار ہے کہ القاعدہ، طالبان اور بوکو حرام جیسے گروپ فکری اور نظریاتی اعتبار سے ایک ہی سرچشمے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستانی طالبان کی طرح بوکو حرام بھی نائیجیریا کے آئین کو نہیں مانتے، ان کا بنیادی مطالبہ ملک بھر میں اسلامی شریعت کا نفاذ اور مغربی تعلیمی اداروں کا خاتمہ ہے۔

بوکو حرام ملک کو تقسیم کرنے یا توڑنے کی حامی نہیں اور نہ ہی اس کے مطالبات میں علاحدگی پسندی کا کوئی عنصر شامل ہے۔ بعینہ طالبان بھی پاکستانی پرچم کا احترام کرتے ہیں مگر وہ آئین کو نہیں مانتے۔ یوں ان میں یہ مشترکہ قدریں ہی ایک دوسرے سے تعلقات کی قیاس آرائیوں کو مضبوط کررہی ہیں۔
Load Next Story