افریقہ برائے فروخت نہیں رہا قسط دوم

حکومتیں سابق نوآبادیاتی طاقتوں سے یہ مطالبہ کرنے لگی ہیں کہ ہمیں تمہارے بے جا مشوروں اور حفاظتی نظام کی ضرورت نہیں

آپ نے کبھی نہ کبھی ٹمبکٹو کا نام تو سنا ہوگا۔آج یہ نام غیرسنجیدگی کا استعارہ ہے مگر یورپی طاقتوں کی ہوس ناک نگاہوں سے قبل ٹمبکٹو مغربی افریقہ کی خوشحال ترین سلطنت مالی کا دارالحکومت تھا جہاں چہار جانب کے تجارتی قافلے ملتے تھے۔

دو ہزار تیرہ میں اس شہر کے ساتھ یہ سانحہ ہوا کہ داعش نے شمالی مالی پر قبضہ کر کے ٹمبکٹو کے احمد بابا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو راکھ میں تبدیل کر دیا۔یہ راکھ تیرہویں و چودھویں صدی میں لکھے گئے بیس ہزار سے زائد قلمی نسخوں کی تھی۔اس راکھ میں قرآنِ کریم کے نایاب نسخے ، سائنسی تحقیقی مقالات ، ادبی فن پارے اور خطاطی کے نادر نمونے شامل تھے۔

مغربی افریقہ کتنا خوشحال تھا۔اس کا پتہ منسا موسی کی کہانی سے چل سکتا ہے جس نے تیرہ سو بارہ تا تیرہ سو سینتیس عیسوی (اکیس برس ) اس علاقے پر حکمرانی کی۔اس کی سلطنت بحر اوقیانوس کے کنارے موجود سینیگال سے لے کے صحرائے اعظم میں چاڈ تک پھیلی ہوئی تھی۔مالی کی دولت میں نمک اور سونے کی کانکنی کے علاوہ ہاتھی دانت کی مصنوعاتی تجارت نے کلیدی کردار ادا کیا۔

سن تیرہ سو چوبیس عیسوی میں منسا موسی مصر کے راستے سیکڑوں مصاحبین کے ہمراہ حج پر روانہ ہوا۔ درجنوں اونٹوں پر صرف سونا لدا ہوا تھا۔راستے بھر اور پھر مصر میں اس نے اپنے میزبان سلطان اور رعایا میں اتنا سونا بانٹا کہ اگلے بارہ برس تک مصر اور گرد و نواح کے ممالک میں سونے کی کھپت اور قیمت گرتی چلی گئی۔

حج سے واپسی پر منسا اپنے ہمراہ مسلمان دنیا کے جید اساتذہ اور تعمیراتی ہنرمند لایا۔جنھوں نے اس کی سلطنت کو علم و ہنر و ثقافت کا گہوارہ بنا ڈالا۔ اور پھر دو سو برس بعد یہ خطہ غلام پکڑ کے بیچنے والے یورپی قزاقوں کے ہتھے چڑھ گیا۔

جب غلاموں کی اسمگلنگ ماند پڑی تو نوآبادیاتی طاقتوں نے اس خطے کے نقشے کو اٹھارہ سو چوراسی کی برلن کانفرنس کی میز پر کیک کی طرح کاٹا اور اس کی معدنی دولت '' چوری کا کپڑا اور بانسوں کے گز '' کے اصول پر لوٹنے کا عمل شروع ہوا۔یہ عمل آج تک نیو کولونیئل ازم کی شکل میں طفیلی حکمرانوں کے توسط سے جاری ہے۔

افریقہ دنیا کی تیس فیصد قیمتی معدنیات کا مالک ہے۔ بارہ فیصد تیل اور گیس کے آٹھ فیصد عالمی ذخائر افریقہ میں ہیں۔دنیا کا چالیس فیصد سونا ، اڑتیس فیصد کرومائیٹ اور مینگنیز ، اکیس فیصد فاسفیٹ افریقہ سے نکلتا ہے۔دو ہزار انیس میں افریقہ میں چار سو چھ ارب ڈالر کی ایک ارب ٹن معدنیات نکالی گئیں۔موبائیل فون سمیت الیکٹرونک انڈسٹری کی بیٹریاں لیتھیم اور کوبالٹ سے بنتی ہیں اور کوبالٹ کی تریسٹھ فیصد عالمی پیداوار کانگو سے نکالی جاتی ہے (شاید اسی لیے وہاں تیس برس سے جاری خانہ جنگی میں لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔)

ٹیٹانئیم الیکٹرونکس کے آلات کا لازمی جزو ہیں۔ کانگو اور روانڈا ڈیجیٹل انقلاب کو زندہ رکھنے والے ٹیٹانئیم کی آدھی عالمی پیداوار فراہم کرتے ہیں۔مینگنیز کے سب سے بڑے ذخائر گیبون میں ہیں ( یہاں ستاون برس سے بونگو خاندان کی حکومت ہے ۔)

پٹرول اور کوئلہ افریقہ کے چون میں سے بائیس ممالک میں پایا جاتا ہے۔نائجیریا افریقہ کا پچیس فیصد، انگولا سترہ فیصد اور الجزائر سولہ فیصد تیل پیدا کرتا ہے۔صنعتی و آرائشی ہیروں کی تہتر فیصد پیداوار افریقہ سے آتی ہے ( ہیروں کی پیداوار میں سرِ فہرست بوٹسوانا ، زائر ، جنوبی افریقہ اور انگولا ہیں ۔)

نواسی فیصد سونا افریقہ اگلتا ہے ( جنوبی افریقہ چھپن فیصد ، گھانا تیرہ فیصد ، تنزانیہ دس فیصد، مالی آٹھ فیصد)۔ یورینئیم کی سولہ فیصد پیداوار افریقہ سے حاصل ہوتی ہے (سرِ فہرست نمیبیا ، نائجر اور جنوبی افریقہ ہیں )۔

باکسائیٹ کی نو فیصد عالمی پیداوار گنی اور گھانا سے حاصل ہوتی ہے۔پانچ فیصد عالمی المونیم (جنوبی افریقہ ، موزمبیق ، مصر ) ، پانچ فیصد تانبا ( زمبیا ، جنوبی افریقہ ، زائر ، مصر )۔دنیا کا بانوے فیصد پلاٹینیم و پلاڈیم اور پانچ فیصد کوئلہ صرف جنوبی افریقہ پیدا کرتا ہے۔


جنوبی افریقہ کی سالانہ معدنی آمدنی ایک سو پچیس ارب ڈالر، نائجیریا کی تریپن ارب ڈالر، الجزائر کی انتالیس ارب ڈالر ، انگولا کی بتیس اور لیبیا کی ستائیس ارب ڈالر ہے۔یہی پانچ ممالک براعظم کی دو تہائی معدنی دولت بھی پیدا کرتے ہیں۔

کوئی پانچ سو برس تک افریقی غلام امریکا لے جائے جاتے رہے۔دو سو برس پہلے امریکا کے کھیتوں میں اگایا جانے والا زرعی خام مال صنعتی انقلاب کے سرخیل یورپ جاتا رہا اور یورپ میں یہ خام مال مہنگی صنعتی مصنوعات میں ڈھل کے افریقہ سمیت باقی دنیا کو بیچا جاتا رہا۔ نوآبادیات کی صنعت و حرفت اور انفرادی ہنرمندی برباد کر کے انھیں صرف خام معدنیات اور زرعی پیداوار کے مراکز میں تبدیل کر کے مغرب پر دار و مدار کے منحوس چکر میں پھنسا دیا گیا۔

پہلی عالمی جنگ دراصل معدنیات کی لوٹ کھسوٹ کی دوڑ میں شامل یورپی سامراجی طاقتوں کی باہمی لڑائی تھی۔جس میں لاکھوں نوآبادیاتی سپاہیوں کو بھی جنگی خام مال کے طور پر جھونکا گیا۔

اکسیویں صدی آنے تک افریقی کم ازکم یہ گیم سمجھ چکے ہیں۔اگرچہ اب بھی ان کی قدرتی دولت کرپٹ آمروں اور دلال خانوادوں کے توسط سے کثیر قومی کارپوریشنز کے چنگل میں ہے۔ مگر کم ازکم اتنا تو ہوا کہ اب افریقی حکومتیں محض خام مال برآمد کرنے کے بجائے اسے مقامی سطح پر پختہ و نیم پختہ شکل دینے اور ہنرمندی کی منتقلی اور مقامی صنعت کاری کے فروغ کا مطالبہ کرنے کے قابل ہو چکی ہیں۔

وہ آپس میں پہلے سے کہیں زیادہ باہمی تجارت کرتی ہیں۔براعظم کو جوڑنے کے لیے شمالاً جنوباً شرقاً غرباً ہائی ویز تعمیر ہو رہی ہیں۔مشترکہ تجارت کے لیے پان افریقن بینک فعال ہیں۔ آپس کے جھگڑے نپٹانے کے لیے افریقی اتحاد کی تنظیم، جنوب ہائے افریقی ممالک کی اقتصادی تنظیم اور مغربی افریقہ کے سولہ ممالک کی سیاسی و اقتصادی تنظیم پہلے سے زیادہ فعال ہیں۔

گزشتہ تین دہائیوں سے افریقہ کے میدانوں میں چینی سرمایہ کار اترنے سے ان ممالک کی مغرب کے مقابلے میں سودے بازی کی قوت پہلی بار اتنی مستحکم نظر آ رہی ہے کہ اب وہاں کی حکومتیں سابق نوآبادیاتی طاقتوں سے یہ مطالبہ کرنے لگی ہیں کہ ہمیں تمہارے بے جا مشوروں اور حفاظتی نظام کی ضرورت نہیں۔ہم خود اپنا انتظام کر سکتے ہیں۔

فی الحال یہ کش مکش سابق نوآبادیاتی آقاؤں اور ان کی پیدا کردہ مقامی حکمران کلاس کے درمیان ہے۔اس کش مکش کا اگلا مرحلہ مقامی غاصب اشرافیہ اور عوام کے درمیان حقوق کی جدوجہد ہے۔ آج ایک عام افریقی حتی المقدور پڑھنے لکھنے اور نئی ٹیکنالوجی اپنانے کا بھوکا نظر آ رہا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو افریقہ ساٹھ ، ستر ، اسی کی دہائی تک وسائل کی بلا روک ٹوک لوٹ کھسوٹ کی خاطر تنگ نظر قوم پرستی کا جھنڈا بلند کرنے والی خانہ جنگیوں کی آگ میں جھونک دیا گیا تھا۔آج ان خانہ جنگیوں کا دائرہ سکڑتے سکڑتے تین سے چار افریقی ممالک تک محدود ہو گیا ہے۔

کئی افریقی ممالک مذہبی دہشت گردی کی زد میں بھی ہیں مگر ان ممالک کی نیم پختہ جمہوریتیں دہشت گردی کو فرو کرنے کے بہانے مغربی ممالک کی فوجی موجودگی کے بھی اتنے ہی خلاف ہیں جتنا کہ دھشت گردی کی وبا کے خلاف۔

امید ہے کہ ایک ارب تیس کروڑ انسانوں کا یہ براعظم گرتا پڑتا اپنے پاؤں پر جلد کھڑا ہو جائے گا اور زیادہ اعتماد کے ساتھ اپنے قدرتی وسائل کی تجارت میں وہ قیمت وصول کر پائے گا جو کہ اس کا صدیوں سے غصب شدہ حق ہے۔( ختم شد )

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
Load Next Story