کھاہوڑی ’’سندھ ‘‘ کا سوال
دیکھنا پڑے گا کہ سندھ میں دھرنوں کی موجودہ فضا میں کونسی قوتیں سرگرم عمل ہیں؟
ماضی میں خطے کو مضبوط معاشی حالات فراہم کرنے والا صوبہ ''سندھ'' آج کل وڈیروں، سرداروں، پیروں کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنا ہوا ہے، میرے سندھ میں ملک کی آزادی کے بعد ترقی اور صنعتی انقلاب لانے کے بر عکس میرے سندھ کے عوام، پیروں، وڈیروں اور سرداروں کے رحم و کرم اور ڈاکو راج پر اغوا ہو رہے ہیں۔
وڈیروں کی عشرت گاہوں میں باندھی بنا کر رکھی جانے والی جوان لڑکیوں کی عزت تار تار ہو رہی ہے اور رانی پور کی '' معصوم فاطمہ'' کی مزاحمت پر '' پیر'' طاقت کے بل بوتے پر اپنی ہوس مٹا کر حویلی کو معصوم فاطمہ کا مقتل بنا رہے ہیں ، لیکن قانون تمام ثبوتوں کے ہوتے ہوئے ''پیر'' کو گرفتار کرنے کے باوجود سست رفتاری سے فاطمہ کے لواحقین کو انصاف دلانے کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے یا سکھر کے صحافی '' جان محمد مھر'' کے ناگہانی قتل کیس پر جب پولیس کے افسران سکھر کے لینڈ مافیا کے اشاروں پر ''جان محمد'' کا کیس حل کرنے کی طرف جائیں تو سمجھ جائیں کہ یہ سب وڈیرے، پیر، سردار اور لینڈ مافیا گروہ ہیں، جن کے خوف اور طاقت سے ریاست عوام پر حکمرانی کر رہی ہے اور عوام کو انصاف نہ دے کر ریاست ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے من پسند سہولت کاروں کا کوئی نقصان نہیں کرنے جا رہی، ایسے مرحلے پر عوام انصاف کی مانگ روڈ رستوں پر نہ کرے تو کیا کرے؟
سندھ میں اغوا، قتل اور تاوان کے بدلے مغویوں کو آزاد کرانے کی تحریک سندھ کے ہر شہر میں پھیل تو چکی ہے مگر ''دھرنے'' کی اہمیت کو ختم کرکے شرکا کو صرف تسلیوں اور دلاسوں پر ٹرخایا جا رہا ہے،جب کہ نہایت چالاکی سے عوام کے غم و غصہ کو ٹھنڈا کر کے ''دھرنوں'' کی سیاست کو تھکایا جا رہا ہے۔
سندھ میں عوام کے اغوا اور قتل پر جاری حالیہ ہلچل پر میں اور میرے پرانے نظریاتی سوشلسٹ دوست انور ابڑو فکر مند تھے کہ سندھ میں کشمور اور سکھر ریجن میں سرداروں کا اثر و نفوذ اور عوام سے زیادتیوں کا سلسلہ کیوں ختم نہیں کرایا جا رہا یا آیا اس پر سندھ حکومت کے ذمے داران کیوں توجہ نہیں دے رہے؟
اسی گفتگو کے دوران میں 1997 کے آخری ماہ میں چلا گیا، جب میرے ساتھ صحافی دوست عباس نقوی نے مل کر '' کچے'' کے ڈاکوئوں پر اسٹوری کرنے کی ٹھانی تھی،کچے کے علاقے میں جانے اور معلومات اکھٹا کرنے کی سہولت کاری میں ہمارے صحافی رپورٹر کامریڈ پاویل جونیجو نے ہمیں ہر ہر قدم پر مدد کی تھی جب کہ میرے آبائی شہر دادو کے تعلقہ میھڑ کے دوست ستار چنا اور دیگر اس اہم مشن میں ہمارے مددگار تھے۔
مجھے یاد آیا کہ اس صحافتی محاذ پر ہم نے تمامتر مشکلات اور خطرات کے باوجود صحافتی اصولوں کے پیش نظر اپنی '' اسٹوری'' میں ہر نکتہ نظر کو جگہ دی اور اس سلسلے میں ہم پورے '' کچے'' کے دور دراز تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، یہ وہ زمانہ تھا جب چانڈیو قبائل اور کلہوڑا / لاشاری قبائل آپس میں جنگ و جدل میں مصروف تھے اور دونوں اطراف سے آزادانہ جدید اسلحے کا استعمال کیا جارہا تھا، جس سے سندھ میں ایک خوف و ہراس کی فضا چھائی ہوئی تھی، اس اسٹوری میں ہم نے تمام ریکارڈ وڈیو میں محفوظ کر کے متاثرہ افراد کے علاوہ متحارب گروپس کے رئیس چانڈیو، لیاقت جتوئی، منور عباسی اور ابراہیم جتوئی کے انٹرویو بھی کیے تھے۔
اسٹوری کے ضمن میں معروف ڈاکو '' پرو چانڈیو '' کے گائوں بھی جانا ہوا اور کچے میں اس درگاہ کو بھی فلمبند کیا جہاں '' پرو چانڈیو'' حاضری سے واپسی میں مارا گیا تھا، اس وقت سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا تھے، جن کی مدد سے کچے میں متحارب جنگ و جدل سے محفوظ رہنے کے لیے چانڈیو قبائل کے سردار '' رئیس چانڈیو'' کی حفاظت کے لیے میھڑ تھانے کے میدان میں محفوظ پکٹ بنا کر رئیس چانڈیو کو دی گئی تھی، اس کے سیاسی مقاصد پر ایک الگ بحث ہو سکتی ہے۔
فی الحال ان وجوہات کی نشاندہی ضروری ہے جن کی وجہ سے صدیوں سے'' پر امن سندھ ''کا خطہ ڈاکوئوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے،اس بات کا کھوج نکالنا ہماری اسٹوری کا بنیادی کام تھا کہ کیا آیا یہ بات درست ہے یا غلط کہ سندھ میں ڈاکو راج ہے، یا سندھ کے بارے میں یہ ایک من گھڑت رائے ہیں، اس سلسلے میں چند بنیادی سوالات پر ہم نے یہ پر خطر صحافتی ذمے داری نبھائی تھی کہ
پہلا۔ یہ قبائل کی جنگ ہے توکیوں ہے؟
دوسرا۔ کیا یہ زمینوں پر قبضے کا مسئلہ ہے یا قبائلی طاقت کی زور آزمائی؟
تیسرا۔ آخر ان دور دراز علاقوں میں جدید ہتھیار کیوں،کیسے اورکس کی مدد سے پہنچے؟
چوتھا۔کیا اس جھگڑے کو ختم کرنے میں متحارب گروپ آمادہ ہیں اور نہیںتو کیوں نہیں؟
پانچواں۔ عام فرد اس بد امنی کو آخر کیوں برداشت کر رہا ہے؟
ان سوالات کے جوابات کی تفصیلات کافی طویل ہیں مگر مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ نہ قبائل کی جنگ ہے اور نہ اپنے قبیلے کے عوام کی معاشی بقا کی جنگ ہے بلکہ یہ بظاہر قبائل کی جنگ کے طور پر پیش کیا جانے والا وہ دھوکا ہے جس کے پیچھے برٹش راج کے نوازے ہوئے ان چند خاندانوں کے اثر و نفوذ کے قائم رہنے کو ممکن بنانا اور برٹش ایمپائر کے سرداری سسٹم کو بچانے کی زور آزمائی ہے جن کی پشت پر ریاست کی مکمل حمایت اور مدد حاصل ہے تاکہ ریاست برطانوی طرز پر ان قبائلی سرداروں کے ذریعے وہاں کی محکوم عوام کو کنٹرول کر کے عوام کو سہولیات دینے سے بچے رہیں اور سردار عوام کا اوتار بنا رہے۔
ہماری تحقیقی رپورٹ میں یہ بات مختلف سرداروں اور با اثر افراد سے انٹرویو میں واضح ہوچکی تھی کہ یہ زمینوں سے زیادہ سرداری نظام کی بقا کا مسئلہ ہے جو ڈاکو قسم کے افراد پالتے ہیں، تاکہ سردار کا رعب و دبدبہ قائم رہے اور سردار عوام پر اپنا حکم چلاتا رہے۔
جدید اسلحے کی ترسیل کرنے والے اہلکار اور سہولت کار ریاست کے علم میں ہیں ،جو ان دور دراز علاقوں میں راکٹ لانچر تک بآسانی پہنچا دیتے ہیں اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے بے خبر رہتے ہیں، پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اسلحہ کی ترسیل دینے والے کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ علاقے میں ڈاکو نہیں بلکہ یہ سردار کے وہ طاقتور افراد ہیں جو عوام کو خوف زدہ رکھنے کے لیے انھیں اغوا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، جب کہ ان علاقوں کا عام فرد چاہتا ہے کہ وہ پر سکون زندگی گذارے۔
سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظریے کے سیاست دان پچھلے پچھتر برسوں سے یہ کہتے آرہے کہ ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ وڈیرہ، چوہدری، سردار، پیر، مذہبی افراد اور طاقتور ریاستی اداروں کا وہ گٹھ جوڑ نظام ہے جو منظم سیاسی تحریک بن اختتام کو نہیں پہنچے گا، سندھ میں حالیہ اغوا اور تشدد کے واقعات پر عوامی احتجاج ایک مثبت قدم ہے مگر کیا دھرنوں کی یہ تحریک مغویوں کی بازیابی تک ہی رہے گی یا سندھ کے عوام سیاسی وڈیرہ، سردار اور پیر راج کے خاتمے تک یہ جدوجہد جاری رکھیں گے اور آیا سندھ کے شہری عوام '' ون یونٹ ہٹائو'' تحریک کی طرح اپنے سندھ کے عوام کا اس مشکل وقت میں ساتھ دیں گے؟
دیکھنا پڑے گا کہ سندھ میں دھرنوں کی موجودہ فضا میں کونسی قوتیں سرگرم عمل ہیں؟ آیا دھرنوں کی تحریک صرف مغویوں کی بازیابی تک ہے یا واقعی یہ تحریک سیاسی طور پر سندھ کے وڈیرے، سردار، پیر اور لینڈ مافیا سے جان چھڑا کر '' کھاہوڑی'' یعنی جدوجہد کا استعارہ بننا چاہتی ہے؟
وڈیروں کی عشرت گاہوں میں باندھی بنا کر رکھی جانے والی جوان لڑکیوں کی عزت تار تار ہو رہی ہے اور رانی پور کی '' معصوم فاطمہ'' کی مزاحمت پر '' پیر'' طاقت کے بل بوتے پر اپنی ہوس مٹا کر حویلی کو معصوم فاطمہ کا مقتل بنا رہے ہیں ، لیکن قانون تمام ثبوتوں کے ہوتے ہوئے ''پیر'' کو گرفتار کرنے کے باوجود سست رفتاری سے فاطمہ کے لواحقین کو انصاف دلانے کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے یا سکھر کے صحافی '' جان محمد مھر'' کے ناگہانی قتل کیس پر جب پولیس کے افسران سکھر کے لینڈ مافیا کے اشاروں پر ''جان محمد'' کا کیس حل کرنے کی طرف جائیں تو سمجھ جائیں کہ یہ سب وڈیرے، پیر، سردار اور لینڈ مافیا گروہ ہیں، جن کے خوف اور طاقت سے ریاست عوام پر حکمرانی کر رہی ہے اور عوام کو انصاف نہ دے کر ریاست ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے من پسند سہولت کاروں کا کوئی نقصان نہیں کرنے جا رہی، ایسے مرحلے پر عوام انصاف کی مانگ روڈ رستوں پر نہ کرے تو کیا کرے؟
سندھ میں اغوا، قتل اور تاوان کے بدلے مغویوں کو آزاد کرانے کی تحریک سندھ کے ہر شہر میں پھیل تو چکی ہے مگر ''دھرنے'' کی اہمیت کو ختم کرکے شرکا کو صرف تسلیوں اور دلاسوں پر ٹرخایا جا رہا ہے،جب کہ نہایت چالاکی سے عوام کے غم و غصہ کو ٹھنڈا کر کے ''دھرنوں'' کی سیاست کو تھکایا جا رہا ہے۔
سندھ میں عوام کے اغوا اور قتل پر جاری حالیہ ہلچل پر میں اور میرے پرانے نظریاتی سوشلسٹ دوست انور ابڑو فکر مند تھے کہ سندھ میں کشمور اور سکھر ریجن میں سرداروں کا اثر و نفوذ اور عوام سے زیادتیوں کا سلسلہ کیوں ختم نہیں کرایا جا رہا یا آیا اس پر سندھ حکومت کے ذمے داران کیوں توجہ نہیں دے رہے؟
اسی گفتگو کے دوران میں 1997 کے آخری ماہ میں چلا گیا، جب میرے ساتھ صحافی دوست عباس نقوی نے مل کر '' کچے'' کے ڈاکوئوں پر اسٹوری کرنے کی ٹھانی تھی،کچے کے علاقے میں جانے اور معلومات اکھٹا کرنے کی سہولت کاری میں ہمارے صحافی رپورٹر کامریڈ پاویل جونیجو نے ہمیں ہر ہر قدم پر مدد کی تھی جب کہ میرے آبائی شہر دادو کے تعلقہ میھڑ کے دوست ستار چنا اور دیگر اس اہم مشن میں ہمارے مددگار تھے۔
مجھے یاد آیا کہ اس صحافتی محاذ پر ہم نے تمامتر مشکلات اور خطرات کے باوجود صحافتی اصولوں کے پیش نظر اپنی '' اسٹوری'' میں ہر نکتہ نظر کو جگہ دی اور اس سلسلے میں ہم پورے '' کچے'' کے دور دراز تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، یہ وہ زمانہ تھا جب چانڈیو قبائل اور کلہوڑا / لاشاری قبائل آپس میں جنگ و جدل میں مصروف تھے اور دونوں اطراف سے آزادانہ جدید اسلحے کا استعمال کیا جارہا تھا، جس سے سندھ میں ایک خوف و ہراس کی فضا چھائی ہوئی تھی، اس اسٹوری میں ہم نے تمام ریکارڈ وڈیو میں محفوظ کر کے متاثرہ افراد کے علاوہ متحارب گروپس کے رئیس چانڈیو، لیاقت جتوئی، منور عباسی اور ابراہیم جتوئی کے انٹرویو بھی کیے تھے۔
اسٹوری کے ضمن میں معروف ڈاکو '' پرو چانڈیو '' کے گائوں بھی جانا ہوا اور کچے میں اس درگاہ کو بھی فلمبند کیا جہاں '' پرو چانڈیو'' حاضری سے واپسی میں مارا گیا تھا، اس وقت سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا تھے، جن کی مدد سے کچے میں متحارب جنگ و جدل سے محفوظ رہنے کے لیے چانڈیو قبائل کے سردار '' رئیس چانڈیو'' کی حفاظت کے لیے میھڑ تھانے کے میدان میں محفوظ پکٹ بنا کر رئیس چانڈیو کو دی گئی تھی، اس کے سیاسی مقاصد پر ایک الگ بحث ہو سکتی ہے۔
فی الحال ان وجوہات کی نشاندہی ضروری ہے جن کی وجہ سے صدیوں سے'' پر امن سندھ ''کا خطہ ڈاکوئوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے،اس بات کا کھوج نکالنا ہماری اسٹوری کا بنیادی کام تھا کہ کیا آیا یہ بات درست ہے یا غلط کہ سندھ میں ڈاکو راج ہے، یا سندھ کے بارے میں یہ ایک من گھڑت رائے ہیں، اس سلسلے میں چند بنیادی سوالات پر ہم نے یہ پر خطر صحافتی ذمے داری نبھائی تھی کہ
پہلا۔ یہ قبائل کی جنگ ہے توکیوں ہے؟
دوسرا۔ کیا یہ زمینوں پر قبضے کا مسئلہ ہے یا قبائلی طاقت کی زور آزمائی؟
تیسرا۔ آخر ان دور دراز علاقوں میں جدید ہتھیار کیوں،کیسے اورکس کی مدد سے پہنچے؟
چوتھا۔کیا اس جھگڑے کو ختم کرنے میں متحارب گروپ آمادہ ہیں اور نہیںتو کیوں نہیں؟
پانچواں۔ عام فرد اس بد امنی کو آخر کیوں برداشت کر رہا ہے؟
ان سوالات کے جوابات کی تفصیلات کافی طویل ہیں مگر مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ نہ قبائل کی جنگ ہے اور نہ اپنے قبیلے کے عوام کی معاشی بقا کی جنگ ہے بلکہ یہ بظاہر قبائل کی جنگ کے طور پر پیش کیا جانے والا وہ دھوکا ہے جس کے پیچھے برٹش راج کے نوازے ہوئے ان چند خاندانوں کے اثر و نفوذ کے قائم رہنے کو ممکن بنانا اور برٹش ایمپائر کے سرداری سسٹم کو بچانے کی زور آزمائی ہے جن کی پشت پر ریاست کی مکمل حمایت اور مدد حاصل ہے تاکہ ریاست برطانوی طرز پر ان قبائلی سرداروں کے ذریعے وہاں کی محکوم عوام کو کنٹرول کر کے عوام کو سہولیات دینے سے بچے رہیں اور سردار عوام کا اوتار بنا رہے۔
ہماری تحقیقی رپورٹ میں یہ بات مختلف سرداروں اور با اثر افراد سے انٹرویو میں واضح ہوچکی تھی کہ یہ زمینوں سے زیادہ سرداری نظام کی بقا کا مسئلہ ہے جو ڈاکو قسم کے افراد پالتے ہیں، تاکہ سردار کا رعب و دبدبہ قائم رہے اور سردار عوام پر اپنا حکم چلاتا رہے۔
جدید اسلحے کی ترسیل کرنے والے اہلکار اور سہولت کار ریاست کے علم میں ہیں ،جو ان دور دراز علاقوں میں راکٹ لانچر تک بآسانی پہنچا دیتے ہیں اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے بے خبر رہتے ہیں، پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اسلحہ کی ترسیل دینے والے کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ علاقے میں ڈاکو نہیں بلکہ یہ سردار کے وہ طاقتور افراد ہیں جو عوام کو خوف زدہ رکھنے کے لیے انھیں اغوا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، جب کہ ان علاقوں کا عام فرد چاہتا ہے کہ وہ پر سکون زندگی گذارے۔
سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظریے کے سیاست دان پچھلے پچھتر برسوں سے یہ کہتے آرہے کہ ملک کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ وڈیرہ، چوہدری، سردار، پیر، مذہبی افراد اور طاقتور ریاستی اداروں کا وہ گٹھ جوڑ نظام ہے جو منظم سیاسی تحریک بن اختتام کو نہیں پہنچے گا، سندھ میں حالیہ اغوا اور تشدد کے واقعات پر عوامی احتجاج ایک مثبت قدم ہے مگر کیا دھرنوں کی یہ تحریک مغویوں کی بازیابی تک ہی رہے گی یا سندھ کے عوام سیاسی وڈیرہ، سردار اور پیر راج کے خاتمے تک یہ جدوجہد جاری رکھیں گے اور آیا سندھ کے شہری عوام '' ون یونٹ ہٹائو'' تحریک کی طرح اپنے سندھ کے عوام کا اس مشکل وقت میں ساتھ دیں گے؟
دیکھنا پڑے گا کہ سندھ میں دھرنوں کی موجودہ فضا میں کونسی قوتیں سرگرم عمل ہیں؟ آیا دھرنوں کی تحریک صرف مغویوں کی بازیابی تک ہے یا واقعی یہ تحریک سیاسی طور پر سندھ کے وڈیرے، سردار، پیر اور لینڈ مافیا سے جان چھڑا کر '' کھاہوڑی'' یعنی جدوجہد کا استعارہ بننا چاہتی ہے؟