پاکستانی شراکت داروں کے فراڈ کا شکار چینی سرمایہ کار انصاف کیلئے دھکے کھانے پر مجبور

سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے دو پاکستانیوں ملک نوید اور ملک ریحان نے ژی چینگ کے ساتھ ایک کروڑ 30لاکھ ڈالر کا فراڈ کردیا

سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے دو پاکستانیوں ملک نوید اور ملک ریحان نے ژی چینگ کے ساتھ ایک کروڑ 30لاکھ ڈالر کا فراڈ کردیا

چین کے شہر شنگھائی سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کار ژی چینگ لی ( لی ڈونلڈ ) گذشتہ چھ سالوں سے اپنے پاکستانی شراکت داروں کی جانب سے کیے گئے ایک کروڑ 30لاکھ ڈالر کے مبینہ فراڈ میں انصاف کے حصول کیلئے دردر کے دھکے کھا رہا ہے۔

فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی ( ایف آئی اے ) چھ برس سے لی ڈونلڈ کی درخواست پر انکوائری مکمل کرنے سے قاصر ہےشنگھائی سے آئے ڈونلڈ کی جانب سے کیس کی پیروی کرنے اور تحقیقات میں تھوڑی سی پروگریس ہونے پر ، ایف آئی اے کے ڈائریکٹرنے انکوائری نمبر 53/2020 کمرشل بینکنگ سرکل سے اینٹی کرپشن سرکل کو بھجوائی اور اس دوران شکایت کنندہ ژی چینگ لی عرف ڈونلڈ کو اپنا موقف تک بیان کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

اسلام آباد پریس کلب میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ژی چینگ لی ڈونلڈ نے بتایا کہ انہیں کیس کی پیروی کےلیے شنگھائی سے آنا پڑتا ہے ۔ لی نے 2017 میں ایف آئی اے کے پاس اپنے پاکستانی شراکت داروں کے خلاف 13 ملین ڈالر کے فراڈ کی شکایت درج کرائی تھی۔ ایف آئی اے نے اس کیس میں انکوائری شروع کی لیکن تین سال بعد پراسرار طور پر 2020 میں بغیر کسی پیشرفت کے فائل بند کر دی ۔

لی نے دوبارہ انکوائری اوپن کرنے کے لئے درخواست دی ، جس کے بعد انکوائری دوبارہ شروع کی گئی لیکن جونہی انہوں نے کیس میں تمام شواہد پیش کیے تو متعلقہ ڈائریکٹر نے یہ کیس ملزم کی درخواست پر انکوائری نمبر 53/2020 کمرشل بینکنگ سرکل سے اینٹی کرپشن سرکل کو منتقل کر دیا اور انوسٹی گیشن افسر بھی تبدیل کر دیا۔ اس دوران شکایت کنندہ ژی چینگ لی عرف ڈونلڈ کو اپنا موقف تک بیان کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ رابطہ کرنے پر ایف آئی اے عہدیدار کا کہنا ہے کہ کیس کسی کے سپرد کرنا ان کا اختیارہے۔

ملزمان نے 2 نومبر 2016 کو ایک جعلی فارم 29 بھی ایس ای سی پی کے ریکارڈ میں جمع کرایا جس میں ژی چینگ لی کی شراکت داری 45 فیصد سے کم کرکے محض ایک فیصد کر دی گئی ہے۔

ژی چینگ لی کی جانب سے صحافیوں کو دیکھائے گئے شواہد اور دستاویزات کے مطابق سال 2015 میں چین کی ایک بڑی کمپنی ایچ بی پی نے آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( او جی ڈی سی ایل) کی جانب سے خیبر پختونخواہ کے ضلع کرک کے ناشپا آئل فیلڈ کا 178 ملین ڈالر کا کنٹریکٹ حاصل کیا۔ ژی چینگ لی کی قائم کردہ کمپنی M/s NASYS International Limited (Hong Kong) نے چینی کمپنی ایچ بی پی کے ساتھ ناشپا آئل فیلڈ سے ملحقہ تنصیبات میں گیس پروسیسنگ یونٹس ، ایل پی جی ریکوری پلانٹ کی فراہمی کا کنٹریکٹ حاصل کیا تھا۔

اس پراجیکٹ کوچلانے کےلیے ژی چینگ لی نے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے دو پاکستانیوں ملک نوید اور ملک ریحان کے ساتھ مقامی طور پر ایک کمپنی میسز نیسیز انٹرنیشنل کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ(M/s NASYS International Co. (Pvt.) Limited) قائم کی۔ ایس ای سی پی میں رجسٹر کی گئی اس کمپنی میں ژی چینگ کا شئیرز 45 فیصد تھاجبکہ ملک نوید کا حصہ بھی 45 فیصد اور ملک ریحان اعظم کے 10 فیصد شئیرز تھے۔

ژی چینگ لی ان دونوں پاکستانیوں کو 2004 میں اس وقت سے جانتے تھے جب وہ سولر پینل اور توانائی سے متعلقہ دیگر پراڈکٹ جیسے کہ موٹربوٹس کپڑا وغیرہ پاکستان کر برآمد کرتے تھے۔

لی کے مطابق سال 2016 میں جب ان کا پراجیکٹ بہت کامیابی سے چل رہا تھا اور وہ کمپنی کےلیے مزید ٹھیکوں کے حصول کےلیے کوششیں کر رہے تھے تو اسی دوران ان کے پاکستانی پارٹنرز نے پورا کاروبار ہتھیانے کے مقصد سے اسی نام اور اسٹائل سے ایک دوسری فرم بنا لی جو کہ رجسٹرار آف فرم کے پاس اسی نام سے رجسٹر کروائی گئی ۔


ملک نوید اور ملک ریحان اس فرم میں برابر کے شیئر ہولڈر تھے۔ اسی کے ساتھ ہی ملزمان نے اسی فرم اور رجسٹرد کمپنی کے بھی متوازی بینک اکائونٹ بھی دو مختلف پرائیویٹ بینکوں میں کھلوائے جن کے لئے جعلی حلف نامے اورجعلی دستخط بھی استعمال کیے گئے۔ اس عرصے کے دوران مختلف پراجیکٹ سے جو بھی آمدنی ہوتی اس میں سے زیادہ تر انہی بینک کھاتوں میں ڈالی جاتی رہی ۔

اس طرح ژی چینگ لی کے ساتھ مختلف پروجیکٹس میں تقریباً ایک کروڑ 30 لاکھ ڈالر کا فراڈ کیا گیااس جعلسازی کا علم ہونے پر لی نے اکتوبر 2017 میں ایف آئی اے کے پاس کمپنی کے ریکارڈ سے چھیڑ چھاڑ کی شکایت درج کرائی۔ ایف آئی نے اس پر تین سال تک انکوائری کی اور پھر 2020 میں بغیر کوئی وجہ بتائے بند کر دی۔

ژی چینگ لی نے دوبارہ شکایت کا اندارج کرایا اور تمام حقائق اور دستاویزی ثبوت تفتیشی افسر کو جمع کروائے۔

ژی چینگ لی کا کہنا ہے کہ اس کیس کی تحقیقات بہت آسان ہے ۔ سادہ سی بات ہے کہ جب پراجیکٹ ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ کمپنی نے حاصل کیا تھا تو منصوبے کا منافع بھی اسی کے اکاوئنٹ میں آنا تھا۔ جبکہ ملزمان کی جانب سے رجسٹرڈ فرم نے تو کوئی پراجیکٹ حاصل ہی نہیں کیا نا ہی کوئی اور کام کیا تو، اس فرم کے اکاوئنٹ میں چینی کمپنی ایچ بی او کی جانب سے کی گئی ٹرانزیکشن کیسے چلی گئیں۔

اس کے علاوہ دوہری رجسٹرڈ فرم کے اکاوئنٹ میں اتنی بڑی رقم کی موجودگی اور اس کے ذرائع آمدن نہ ہونے پر اینٹی منی لانڈرنگ کا قانون لگنا چاہیے۔

لی کے مطابق اس نے تمام ممکنہ قانونی فورمز اور عدالت، ایس ای سی پی ، ایف آئی اے اور نیب سمیت ہر فورم سے رابطہ کیا ہے مگر ابھی تک انصاف کا منتظر ہے۔

ملزمان سے ان کاموقف جاننے کےلیئے کمپنی کے نمبرز پر بار با ررابطہ کیا مگر انہوں نے ٹیلی فون اٹینڈ نہیں کیا۔

اس حوالے سے جب ایف آئی اے سے رابطہ کیا گیا تو متعلقہ افسر نے کہا کہ کیس اس لیے منتقل کیا گیا ہے کیونکہ ملزمان کو شکایت کنندہ پر اعتراض تھا ۔ اس کے علاوہ یہ ڈائریکٹر کا اختیار ہے کہ وہ کیس کسی کے بھی سپرد کر دیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ تین سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود انکوائری کیوں مکمل نہیں ہوسکتی تو ان کا کہنا تھا کہ پہلے اس کیس کی تفتیش کوئی اور افسر کر رہا تھا اور انہیں یہ کیس بعد میں ملا ہے۔
Load Next Story