مصر کے بازار میں پاکستانی شاہ کار
ہمارے شاعر اپنی شاعری کی آنکھ سے مستقبل دیکھتے آئے ہیں ۔ کچھ ایسی کوشش ہی زاہد نے کی ہے
مصر کے صدر جمال عبد الناصر پاکستان کے مقابلے میں بھارتی قیادت سے زیادہ قریب تھے اور پاکستان کے بارے میں یعض اوقات چبھتے ہوئے جملے بھی کہہ جاتے تھے جیسے کہ14؍ اگست کو پاکستان کے ساتھ اسلام بھی اتارا گیا ہے۔
اس جملے کے راوی سردار محمد اکبرخان ترین ہیں جن کا شمار بلوچستان کے بڑے زمینداروں میں ہوتا ہے۔ وہ وکیل ہیں لیکن ہماری فیوڈل کلاس کے ایک حصے کی روایت کے مطابق تاریخ اور سیاسیات عالم سے گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔
ان کے آبائی گھر واقع دکی ( بلوچستان) جانے کا موقع تو نہیں ملا لیکن ان کے کوئٹہ اور کراچی کے گھر میں ان کی لائبریری نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا۔
ان کی زبانی میں نے جمال عبد الناصر کا یہ قول سنا اور نہ چاہنے کے باوجود اس پر یقین اس لیے کیا کہ صدر ناصر ہوں یا بعض دیگر لیڈر ان کے رویے سے پاکستان کے ساتھ رقابت اور بھارت پر فریفتگی کے آثار ہمیشہ میسر آتے رہے ہیں۔
یہ پس منظر اپنے لڑکپن کے دوست برادرم ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی تازہ کتاب '' مصر: خواب اور تعبیر''کے مطالعے سے تازہ ہوا۔
ڈاکٹر صاحب وہاں کیوں گئے اور کیا کچھ کرتے رہے، اس کی پوری داستان تو اس کتاب کے مطالعے کے بعد ہی سامنے آ سکے گی لیکن میری سمجھ میں پہلی بات یہی آئی کہ سردار اکبر ترین صدر ناصر کے تعلق سے جو کہتے تھے ، درست ہی کہتے تھے۔
کسی اچھے زمانے میں فیصلہ کیا گیا ہو گا کہ دنیا بھر کی جامعات میں پاکستان چیئر، اقبال چیئر اور قائد اعظم چیئر قائم کی جائیں۔ اس مقصد کے لیے نہایت ٹھوک بجا کر اساتذہ کا انتخاب کیا جاتا جو دیار غیر میں جا کر اردو پڑھائیں، پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کریں اور انسانیت کے لیے اقبال نے جو پیغام دیا ہے، اس سے انھیں آگاہ کریں۔
اب تو خیر یہ چیئرز خواب و خیال ہی ہوگئی ہیں کہ گزشتہ پانچ سات برس سے یہ مسندیں خالی پڑی ہیں۔ اب تو دنیا کے بیس بائیس ملکوں میں قائم ان چیئرز کو گھن بھی لگ گیا ہو گا اور میزبان یونیورسٹیاں بھول بھال کر ان دفاتر لائبریریوں اور دیگر سہولیات کو کسی اور کام میں لا چکی ہوں گی۔
خیر، ذکر تھا ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی کتاب کا۔ یہ کتاب دراصل اس تقرر کی یادگار، روزنامچہ یا سفر نامہ ہے جب ڈاکٹر صاحب پاکستان اور اردو مسند پر فائز ہو کر مصر سدھارے۔ ان مسندوں کے لیے منتخب کرنے والوں نے جب ان سے انٹرویو کیا تو وہ ان کی اہلیت اور قابلیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ پیش کش کی وہ دنیا کے جس ملک میں بھی جانا چاہیں۔
ان کی خواہش کا احترام کیا جائے گا لیکن جب انھوں نے مصر جانے پر اصرار کیا تو حکام بالا دانتوں میں انگلی ڈال کر بیٹھ گئے کہ یہ کیسا آدمی ہے جو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں سے منھ موڑ کر پاکستان جیسے ہی ایک ترقی پذیر ملک پر فدا ہے۔
خیر انھوں نے اپنے فیصلے کے جواز سے انھیں آگاہ کیا تو ان کی خواہش کا احترام کیا گیا لیکن جیسے ہی میرا یہ دوست قاہرہ پہنچا، اسے اسی کیفیت سے دوچار ہونا پڑا جس کیفیت سے ان سطور کا لکھنے والا سردار اکبر ترین کی زبانی پاکستان کے بارے میں جمال عبد الناصر کا تبصرہ سن کر ہوا تھا۔
مصر انبیا کی سر زمین ہے اور یہی سر زمین، دشت و جبل اور صحرا و دریا فرعونوں کی فرعونیت کے رازوں کے امین ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ان آثار کا مشاہدہ بھی ایک سیاح کے سے تجسس اور شوق کے ساتھ کیا اور ایسی مہم جوئیوں میں اہل خانہ کو ساتھ لے جانے کا جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے، اس سے بھی شاد کام ہوئے۔
یہ روداد بھی خوب ہے اور جو صاحبان ذوق جبل طور کی برق و تجلی اور اس کے راز و نیاز کے آثار سے دل چسپی رکھتے ہیں ، اس کتاب میں ان کے لیے بھی بہت کچھ ہے لیکن میرے نزدیک اس کتاب اصل پہلو وہ ہے جس کا انکشاف ان پر مصر جا کر ہوا۔
مصر پہنچے انھیں زیادہ روز نہیں ہوئے ہوں گے کہ وہاں کی ایک بڑی دانش ور منال عبد العزیز کا سفر نامہ ہند وہاں کے سب سے بڑے اور قدیم انگریزی اخبار دی ایجیپشئن ٹائمز میں شایع ہوا۔
انھوں نے بھارت کے مسلمانوں کی زبوں حالی کا نقشہ کھینچتے ہوئے اس کی ساری ذمے داری قیام پاکستان پر ڈال دی کہ نہ یہ ملک بنتا، نہ مسلمان تقسیم ہوتے اور نہ ہندوستان میں وہ اتنے کمزور ہوتے۔ یہ وہی دلیل تھی جو کانگریسی ذہن رکھنے والے لوگ آج بھی استعمال کر کے قیام پاکستان کو نشانہ تنقید بناتے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد نے یہ مضمون پڑھا تو سوچا کہ میں یہاں صرف استاد کے طور پر تو نہیں بھیجا گیا، میں یہاں اپنے ملک کا سفارتی اور ثقافتی سفیر بھی ہوں۔ اس لیے میری یہ ذمے داری ہے کہ اس پروپیگنڈے کا جواب دیا جائے۔ یہ سوچا اور ایک کالم انھوں نے اس مضمون کا اخبار کو ارسال کر دیا کہ بی بی، آپ آج ہندوستان میں مسلمان کی جو حالت زار دیکھ کر آئی ہیں، یہ صورت تقسیم ہند سے پہلے بھی تھی اور اسی قسم کے حالات ہی نظریہ پاکستان کی بنیاد بنے تھے۔
اس مضمون کا چھپنا تھا کہ مصر میں ہاہا کار مچ گئی اور اہل علم نے اس پر بھرپور ردعمل ظاہر کیا۔ اکثر کا کہنا یہی تھا کہ پاکستان کے بارے میں یہ نقطہ نظر تو پہلی بار ہمارے سامنے آیا ہے۔
یہ مضمون غضب ڈھا گیا اور ڈاکٹر صاحب کو اس کے بعد A Pakistan's Note book کے عنوان سے مستقل طور پر کالم لکھنا پڑا۔ اپنے قیام مصر کے دوران میں انھوں نے جو کالم لکھے، ان کی وجہ سے مصری معاشرے میں پاکستان کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا ،ورنہ عام طور پر تو لوگ جمال عبد الناصر جیسا اندازفکر ہی پاکستان کے بارے میں رکھتے تھے۔
عام لوگ تو ایک طرف خود مصری دانش ور اور ادیب و شاعر بھی پاکستان کے بارے میں بہت کم جانتے تھے ۔ ان لوگوں سے ملاقاتوں کے دوران جب پاکستانی شاعری، افسانے اور ادب پر بات ہوتی تو وہ حیرت کے ساتھ سوال کرتے کہ اچھا، پاکستان میں ادب بھی لکھا جاتا ہے؟ ہم تو سمجھتے تھے کہ وہاں توصرف گولیاں چلتی ہیں اور دھماکے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا یہ اعزاز ہے کہ انھوں نے ایک ایسے سماج میں جا کر پاکستان کا مقدمہ اس کامیابی کے ساتھ پیش کیا کہ جب ان کی وطن واپسی کا وقت آیاتو اہل مصر نے انھیں دونوں ملکوں کے درمیان ثقافت کاسفیر قرار دیا۔ مصر میں ان کے قیام کی داستان اتنی دل چسپ ہے کہ انسان اس میں کھو کر رہ جاتا ہے۔
سفر نامہ اپنا ایک خاص انداز رکھتا ہے جس کی چکا چوند کے بیان میں سفرنامہ نگار سارا زور صرف کر کے قاری کو بھی اپنے ساتھ بہا لے جانا چاہتا ہے لیکن چوں کہ زاہد اپنے مزاج کے خاص ہیں، اس لیے ایسے مقامات سے بھی ایسے گزرتے ہیں جیسے کانٹوں بھرے جنگل سے کوئی کپڑے بچا کر نکل جائے۔
اسی لیے مجھے یقین ہے کہ ان کا قاری کتاب پڑھ کر سوچے گا کہ اچھا، سفر نامہ ایسا بھی ہوتا ہے؟ جہاں تک میرا معاملہ ہے، میں یہ سوچتا ہوں کہ سفرناموں کے رجحان میں زاہد کا جادو چل گیا تو پھر مستنصر حسین تارڑ کے میرے جیسے پیروکاروں کا کیا بنے گا؟
خیر، یہ تو بڑوں کا معاملہ ہے، زاہد جب قیام مصر کی روداد لکھنے بیٹھے تو ان کے بچے پیچھے کیوں رہتے؟ ان سات سال بیٹی اور نو سال بیٹا بھی کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئے۔ اپنے سفر روداد قلم بند کر دی۔ میرے دوست نے اچھا کیا کہ بیٹی ندیا اور بیٹے سروش کی یہ تحریریں
'Egyptian Times: Aview from the Nile River' کے عنوان سے کتابی شکل میں شایع کر دیں۔ انگریزی میں لکھی جانے والی یہ تحریریں اس معصوم آنکھ کا مشاہدہ ہیں جو ہر نئی چیز کو بڑی حیرت سے دیکھتا ہے اور اسے سمجھنے کی کوشش میں بعض اوقات اتنی بڑے بات کہہ دیتا ہے کہ بڑے بھی حیران رہ جاتے ہیں ۔ ہماری بھتیجی اور بھتیجے کی یہ تحریریں ایسی ہی ہیں۔
ڈاکٹر زاہد کے تعلق سے ایک بات رہی جاتی ہے۔ ان دنوں لگتا ہے کہ وہ کچھ نہیں کر رہے، بس کتابیں ہی لکھ رہے ہیں۔ اسی لیے ان کی کتاب پر کتاب آتی چلی جا رہی ہے۔ حال ہی میں ہمارے قلم فانڈیشن والے بھائی علامہ عبد الستار عاصم نے ان کی کئی کتابیں شایع کی ہیں جن میں ایک نظموں کا مجموعہ ' آتے دنوں میں گم ہے'شاعری میں زاہد کا ایک نیا آہنگ ہے۔
ہمارے شاعر اپنی شاعری کی آنکھ سے مستقبل دیکھتے آئے ہیں ۔ کچھ ایسی کوشش ہی زاہد نے کی ہے۔ اہل ذوق کے لیے اس میں کافی کچھ ہے۔ اس کے علاوہ بھائی عبدالستار عاصم نے ہی ان کی ایک اور کتاب ' دو کوزہ گر' شایع کی ہے۔ یہ مختصر کتاب ہمارے دو بزرگوں یعنی مولانا شبلی نعمانی اور مولانا ظفر علی خان کے تعلق کی داستان ہے۔
یہ داستان ہمیں اردو صحافت کے ابتدائی مزاج اور رجحانات سے اس طرح آگاہ کرتی ہے کہ آج کی صحافت میں ہمیں جو مسائل دکھائی دیتے ہیں، ان کی وجوہات اور علاج دونوں سمجھ میں آ جاتے ہیں اور یہ تو بہت خوبی کے ساتھ سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے بزرگ علم کی جستجو میں کس حد تک چلے جاتے تھے اور سفر میں استاد شاگرد کے رشتے کس معیار کو چھوتے تھے۔
اس جملے کے راوی سردار محمد اکبرخان ترین ہیں جن کا شمار بلوچستان کے بڑے زمینداروں میں ہوتا ہے۔ وہ وکیل ہیں لیکن ہماری فیوڈل کلاس کے ایک حصے کی روایت کے مطابق تاریخ اور سیاسیات عالم سے گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔
ان کے آبائی گھر واقع دکی ( بلوچستان) جانے کا موقع تو نہیں ملا لیکن ان کے کوئٹہ اور کراچی کے گھر میں ان کی لائبریری نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا۔
ان کی زبانی میں نے جمال عبد الناصر کا یہ قول سنا اور نہ چاہنے کے باوجود اس پر یقین اس لیے کیا کہ صدر ناصر ہوں یا بعض دیگر لیڈر ان کے رویے سے پاکستان کے ساتھ رقابت اور بھارت پر فریفتگی کے آثار ہمیشہ میسر آتے رہے ہیں۔
یہ پس منظر اپنے لڑکپن کے دوست برادرم ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی تازہ کتاب '' مصر: خواب اور تعبیر''کے مطالعے سے تازہ ہوا۔
ڈاکٹر صاحب وہاں کیوں گئے اور کیا کچھ کرتے رہے، اس کی پوری داستان تو اس کتاب کے مطالعے کے بعد ہی سامنے آ سکے گی لیکن میری سمجھ میں پہلی بات یہی آئی کہ سردار اکبر ترین صدر ناصر کے تعلق سے جو کہتے تھے ، درست ہی کہتے تھے۔
کسی اچھے زمانے میں فیصلہ کیا گیا ہو گا کہ دنیا بھر کی جامعات میں پاکستان چیئر، اقبال چیئر اور قائد اعظم چیئر قائم کی جائیں۔ اس مقصد کے لیے نہایت ٹھوک بجا کر اساتذہ کا انتخاب کیا جاتا جو دیار غیر میں جا کر اردو پڑھائیں، پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کریں اور انسانیت کے لیے اقبال نے جو پیغام دیا ہے، اس سے انھیں آگاہ کریں۔
اب تو خیر یہ چیئرز خواب و خیال ہی ہوگئی ہیں کہ گزشتہ پانچ سات برس سے یہ مسندیں خالی پڑی ہیں۔ اب تو دنیا کے بیس بائیس ملکوں میں قائم ان چیئرز کو گھن بھی لگ گیا ہو گا اور میزبان یونیورسٹیاں بھول بھال کر ان دفاتر لائبریریوں اور دیگر سہولیات کو کسی اور کام میں لا چکی ہوں گی۔
خیر، ذکر تھا ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی کتاب کا۔ یہ کتاب دراصل اس تقرر کی یادگار، روزنامچہ یا سفر نامہ ہے جب ڈاکٹر صاحب پاکستان اور اردو مسند پر فائز ہو کر مصر سدھارے۔ ان مسندوں کے لیے منتخب کرنے والوں نے جب ان سے انٹرویو کیا تو وہ ان کی اہلیت اور قابلیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ پیش کش کی وہ دنیا کے جس ملک میں بھی جانا چاہیں۔
ان کی خواہش کا احترام کیا جائے گا لیکن جب انھوں نے مصر جانے پر اصرار کیا تو حکام بالا دانتوں میں انگلی ڈال کر بیٹھ گئے کہ یہ کیسا آدمی ہے جو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں سے منھ موڑ کر پاکستان جیسے ہی ایک ترقی پذیر ملک پر فدا ہے۔
خیر انھوں نے اپنے فیصلے کے جواز سے انھیں آگاہ کیا تو ان کی خواہش کا احترام کیا گیا لیکن جیسے ہی میرا یہ دوست قاہرہ پہنچا، اسے اسی کیفیت سے دوچار ہونا پڑا جس کیفیت سے ان سطور کا لکھنے والا سردار اکبر ترین کی زبانی پاکستان کے بارے میں جمال عبد الناصر کا تبصرہ سن کر ہوا تھا۔
مصر انبیا کی سر زمین ہے اور یہی سر زمین، دشت و جبل اور صحرا و دریا فرعونوں کی فرعونیت کے رازوں کے امین ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ان آثار کا مشاہدہ بھی ایک سیاح کے سے تجسس اور شوق کے ساتھ کیا اور ایسی مہم جوئیوں میں اہل خانہ کو ساتھ لے جانے کا جو نتیجہ برآمد ہوتا ہے، اس سے بھی شاد کام ہوئے۔
یہ روداد بھی خوب ہے اور جو صاحبان ذوق جبل طور کی برق و تجلی اور اس کے راز و نیاز کے آثار سے دل چسپی رکھتے ہیں ، اس کتاب میں ان کے لیے بھی بہت کچھ ہے لیکن میرے نزدیک اس کتاب اصل پہلو وہ ہے جس کا انکشاف ان پر مصر جا کر ہوا۔
مصر پہنچے انھیں زیادہ روز نہیں ہوئے ہوں گے کہ وہاں کی ایک بڑی دانش ور منال عبد العزیز کا سفر نامہ ہند وہاں کے سب سے بڑے اور قدیم انگریزی اخبار دی ایجیپشئن ٹائمز میں شایع ہوا۔
انھوں نے بھارت کے مسلمانوں کی زبوں حالی کا نقشہ کھینچتے ہوئے اس کی ساری ذمے داری قیام پاکستان پر ڈال دی کہ نہ یہ ملک بنتا، نہ مسلمان تقسیم ہوتے اور نہ ہندوستان میں وہ اتنے کمزور ہوتے۔ یہ وہی دلیل تھی جو کانگریسی ذہن رکھنے والے لوگ آج بھی استعمال کر کے قیام پاکستان کو نشانہ تنقید بناتے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد نے یہ مضمون پڑھا تو سوچا کہ میں یہاں صرف استاد کے طور پر تو نہیں بھیجا گیا، میں یہاں اپنے ملک کا سفارتی اور ثقافتی سفیر بھی ہوں۔ اس لیے میری یہ ذمے داری ہے کہ اس پروپیگنڈے کا جواب دیا جائے۔ یہ سوچا اور ایک کالم انھوں نے اس مضمون کا اخبار کو ارسال کر دیا کہ بی بی، آپ آج ہندوستان میں مسلمان کی جو حالت زار دیکھ کر آئی ہیں، یہ صورت تقسیم ہند سے پہلے بھی تھی اور اسی قسم کے حالات ہی نظریہ پاکستان کی بنیاد بنے تھے۔
اس مضمون کا چھپنا تھا کہ مصر میں ہاہا کار مچ گئی اور اہل علم نے اس پر بھرپور ردعمل ظاہر کیا۔ اکثر کا کہنا یہی تھا کہ پاکستان کے بارے میں یہ نقطہ نظر تو پہلی بار ہمارے سامنے آیا ہے۔
یہ مضمون غضب ڈھا گیا اور ڈاکٹر صاحب کو اس کے بعد A Pakistan's Note book کے عنوان سے مستقل طور پر کالم لکھنا پڑا۔ اپنے قیام مصر کے دوران میں انھوں نے جو کالم لکھے، ان کی وجہ سے مصری معاشرے میں پاکستان کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا ،ورنہ عام طور پر تو لوگ جمال عبد الناصر جیسا اندازفکر ہی پاکستان کے بارے میں رکھتے تھے۔
عام لوگ تو ایک طرف خود مصری دانش ور اور ادیب و شاعر بھی پاکستان کے بارے میں بہت کم جانتے تھے ۔ ان لوگوں سے ملاقاتوں کے دوران جب پاکستانی شاعری، افسانے اور ادب پر بات ہوتی تو وہ حیرت کے ساتھ سوال کرتے کہ اچھا، پاکستان میں ادب بھی لکھا جاتا ہے؟ ہم تو سمجھتے تھے کہ وہاں توصرف گولیاں چلتی ہیں اور دھماکے ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا یہ اعزاز ہے کہ انھوں نے ایک ایسے سماج میں جا کر پاکستان کا مقدمہ اس کامیابی کے ساتھ پیش کیا کہ جب ان کی وطن واپسی کا وقت آیاتو اہل مصر نے انھیں دونوں ملکوں کے درمیان ثقافت کاسفیر قرار دیا۔ مصر میں ان کے قیام کی داستان اتنی دل چسپ ہے کہ انسان اس میں کھو کر رہ جاتا ہے۔
سفر نامہ اپنا ایک خاص انداز رکھتا ہے جس کی چکا چوند کے بیان میں سفرنامہ نگار سارا زور صرف کر کے قاری کو بھی اپنے ساتھ بہا لے جانا چاہتا ہے لیکن چوں کہ زاہد اپنے مزاج کے خاص ہیں، اس لیے ایسے مقامات سے بھی ایسے گزرتے ہیں جیسے کانٹوں بھرے جنگل سے کوئی کپڑے بچا کر نکل جائے۔
اسی لیے مجھے یقین ہے کہ ان کا قاری کتاب پڑھ کر سوچے گا کہ اچھا، سفر نامہ ایسا بھی ہوتا ہے؟ جہاں تک میرا معاملہ ہے، میں یہ سوچتا ہوں کہ سفرناموں کے رجحان میں زاہد کا جادو چل گیا تو پھر مستنصر حسین تارڑ کے میرے جیسے پیروکاروں کا کیا بنے گا؟
خیر، یہ تو بڑوں کا معاملہ ہے، زاہد جب قیام مصر کی روداد لکھنے بیٹھے تو ان کے بچے پیچھے کیوں رہتے؟ ان سات سال بیٹی اور نو سال بیٹا بھی کاغذ قلم لے کر بیٹھ گئے۔ اپنے سفر روداد قلم بند کر دی۔ میرے دوست نے اچھا کیا کہ بیٹی ندیا اور بیٹے سروش کی یہ تحریریں
'Egyptian Times: Aview from the Nile River' کے عنوان سے کتابی شکل میں شایع کر دیں۔ انگریزی میں لکھی جانے والی یہ تحریریں اس معصوم آنکھ کا مشاہدہ ہیں جو ہر نئی چیز کو بڑی حیرت سے دیکھتا ہے اور اسے سمجھنے کی کوشش میں بعض اوقات اتنی بڑے بات کہہ دیتا ہے کہ بڑے بھی حیران رہ جاتے ہیں ۔ ہماری بھتیجی اور بھتیجے کی یہ تحریریں ایسی ہی ہیں۔
ڈاکٹر زاہد کے تعلق سے ایک بات رہی جاتی ہے۔ ان دنوں لگتا ہے کہ وہ کچھ نہیں کر رہے، بس کتابیں ہی لکھ رہے ہیں۔ اسی لیے ان کی کتاب پر کتاب آتی چلی جا رہی ہے۔ حال ہی میں ہمارے قلم فانڈیشن والے بھائی علامہ عبد الستار عاصم نے ان کی کئی کتابیں شایع کی ہیں جن میں ایک نظموں کا مجموعہ ' آتے دنوں میں گم ہے'شاعری میں زاہد کا ایک نیا آہنگ ہے۔
ہمارے شاعر اپنی شاعری کی آنکھ سے مستقبل دیکھتے آئے ہیں ۔ کچھ ایسی کوشش ہی زاہد نے کی ہے۔ اہل ذوق کے لیے اس میں کافی کچھ ہے۔ اس کے علاوہ بھائی عبدالستار عاصم نے ہی ان کی ایک اور کتاب ' دو کوزہ گر' شایع کی ہے۔ یہ مختصر کتاب ہمارے دو بزرگوں یعنی مولانا شبلی نعمانی اور مولانا ظفر علی خان کے تعلق کی داستان ہے۔
یہ داستان ہمیں اردو صحافت کے ابتدائی مزاج اور رجحانات سے اس طرح آگاہ کرتی ہے کہ آج کی صحافت میں ہمیں جو مسائل دکھائی دیتے ہیں، ان کی وجوہات اور علاج دونوں سمجھ میں آ جاتے ہیں اور یہ تو بہت خوبی کے ساتھ سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے بزرگ علم کی جستجو میں کس حد تک چلے جاتے تھے اور سفر میں استاد شاگرد کے رشتے کس معیار کو چھوتے تھے۔