وسائل کی منصفانہ تقسیم اور درپیش چیلنجز
مشترکہ مفادات کونسل خیبرپختونخوا کے تحفظات دور کرے
خیبر پختون خوا کو ایک طویل عرصہ کے دوران بیرونی اور اندرونی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان میں چار عشروں پر محیط افغان تنازع کے نتائج، سابقہ فاٹا میں عسکریت پسندی کا پھیلاؤ جس نے صوبے کے پورے سماجی نظام کو بری طرح متاثر کیا اور 30 لاکھ افراد کو اندرونی طور پر بے گھرکرنے کا باعث بنا۔
اس صورت حال میں 2005ء میں آنے والے تباہ کن زلزلے اور سال 2010ء میں آنے والے غیر معمولی سیلاب نے مزید اضافہ کیا۔ ان تمام واقعات و اسباب کے صوبے پر شدید معاشی اور سماجی اثرات مرتب ہوئے۔
مزید برآں خیبر پختون خوا میں معاشی ترقی خصوصاً صنعت کاری کی رفتار سست رہی ہے جس کی بنیادی وجہ بینکوں اور مالیاتی اداروں کی مالی معاونت میں رکاوٹیں، بنیادی ڈھانچے کی ناقص سہولیات اور بہت سے زرخیر علاقوں میں بجلی، ٹیلی کمیونی کیشن اورگیس جیسی ناکافی سہولیات ہیں۔
اس غیرتسلی بخش منظرنامے سے نمٹنے کے لیے1973ء کے آئین کے فریم ورک پر مبنی مربوط نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو صوبے کی سیاسی قیادت، پالیسی ماہرین، دانشوروں اورنوجوانوں کی طرف سے درکار ہے۔ آئین بنیادی قانونی اور سیاسی انتظامات سے متعلق ایک دستاویز ہے، جس کے تحت مختلف ادارے کام کرتے ہیں اور ملک کا انتظام چلایا جاتا ہے۔
1973ء کے آئین میں وفاقی اکائیوں کاایک ایسا دائرہ کار تفویض کیاگیا ہے جو نہ صرف وفاقی اکائیوں کے خصوصی دائرہ کار کے تحت آتا ہے بلکہ مشترکہ دائرہ اختیارکا بھی احاطہ کرتا ہے جب کہ آئین میں خصوصی دفعات کے ذریعے اس کی نگرانی کی جاتی ہے۔ یہ خصوصی دفعات آرٹیکل 151تا 158،160،161اور 172ریاست کے وفاقی نظام کی بقا اورسالمیت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ خصوصی دفعات صوبوں کے مختلف مطالبات کو پورا کرتی ہیں اور صوبوں کے حقوق کی ضامن ہیں۔ بدقستمی سے مخصوص حالات کے باعث ان پر من وعن عمل کرنا دشوار بن جاتا ہے جس سے خصوصاً چھوٹے صوبے مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔
آئیے اس حوالے سے خیبر پختون خوا کو جن مسائل خصوصاً توانائی جیسے مسائل کا جو سامنا ہے، اس کو مذکورہ آئینی دفعات کے آئینے میں پرکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے توانائی سے متعلق امورکے ماہرخیبرپختون خواحکومت کے سابق مشیر حمایت اللہ خان نے روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ آرٹیکل 153 ون مشترکہ مفادات کونسل کے قیام سے متعلق ہے ، جس کے پاس خصوصی دائرہ کار اور اختیارات ہیں۔
مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی تشکیل کے بعد صوبائی خود مختاری کے اہم مسئلے اور ملک کے دولخت ہونے کے بعد وفاقی ڈھانچے کے اندر وفاقی اکائیوں کی حیثیت کو مناسب طریقے سے حل کیا گیا، سپریم کورٹ نے بھی تسلیم کیا کہ سی سی آئی ایک محض سفارشی ادارہ نہیں بلکہ ایک طاقتور ادارہ ہے جس نے ایسے معاملات کا موثر فیصلہ کرنا ہے جن کے خلاف صرف پارلیمنٹ میں اپیل کی جاسکتی ہے، بدقسمتی سے مشترکہ مفادات کونسل کو آزادی اور پختگی کی وہ سطح حاصل نہیں ہوئی جس کا تصورآئین میں متعین کیاگیا تھا۔
سابق صوبائی مشیر حمایت اللہ خان نے بتایا کہ آرٹیکل 161۔1 قومی اقتصادی کمیشن (این ایف سی) سے متعلق ہے جو وفاق اور صوبوں کے درمیان محصولات کی تقسیم سے متعلق سفارشات مرتب کرتا ہے، اس وقت قومی محصولات میں خیبرپختون خواکا حصہ جو1970میں 15.5 فیصد تھا، سے کم ہوکر 14.6فی صد رہ گیا ہے ، فاٹا کے انضمام کے بعد خیبرپختون خوا کے حصے پر موافق نظرثانی کے بغیر اضافی ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں۔
سابقہ فاٹا کے سماجی اور ترقیاتی اشاریوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، خیبرپختون خوا میں آبادی اورغربت کی شرح میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ فاٹا کے انضمام کے لیے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے فریم ورک کے اندر خیبرپختون خوا کے حصے پر فوری نظرثانی اور عبوری تصیفے کی ضرورت ہے۔ خیبرپختون خوا کوجن چیدہ چیدہ مسائل کا سامنا ہے یہاں ان کاتذکرہ کیا جا رہا ہے۔
غذائی تحفظ
نئے ضم ہونے والے اضلاع سمیت خیبر پختون خوا کی آبادی چارکروڑ سے زائد ہے، 50 لاکھ ٹن کی تخمینہ ضروریات کے مقابلے میں صوبہ اپنی گندم کی ضرورت کا تقریباً پچیس فی صد پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں 75 فی صد کمی واقع ہوتی ہے۔
اس کمی کو پورا کرنے کے لیے خیبرپختون خواکو پنجاب سے گندم خریدنا ہوتی ہے، خیبرپختون خواکو وقتاً فوقتاً گندم کی بین الصوبائی نقل وحرکت پر پابندیوں کے نتیجے میں غذائی قلت کا سامناکرنا پڑتا ہے، کسی بھی صوبائی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر عائد کی گئی بین الصوبائی تجارت اور سامان کی آزادانہ نقل وحرکت پر پابندیاں آئین کے آرٹیکل151کی روشنی میں غیر قانونی اورغیرآئینی ہیں۔
16 مارچ1991کو وفاقی اکائیوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاہدے پر دستخط کئے گئے تھے، صوبوں کو پانی کے اپنے مناسب حصے کو استعمال کرنے کے قابل بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں ہرصوبے کو ایک اسکیم فراہم کی، خیبرپختون خوا کے علاوہ ہرصوبے میں مطلوبہ بنیادی ڈھانچہ تعمیرکیاگیا ہے۔
بنیادی ڈھانچے کے نہ ہونے کی وجہ سے خیبرپختون خوا کو پانی کے اپنے مناسب حصے کے کم استعمال کی شکل میں نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے لہذا صوبے کو اس کے حصے کے غیر استعمال شدہ پانی جو دوسرے صوبوں نے استعمال کیا ہے، کا معاوضہ دیناچاہیے، چشمہ رائٹ بنک لفٹ کینال سمیت دیگر منصوبے گومل زام ڈیم ، ٹانک زام ڈیم اورکرم تنگی منصوبوں کی تعمیر کے ذریعے تقریباً آٹھ لاکھ ایکڑ رقبے کو سیراب کیاجاسکتا ہے جس سے صوبے کو خوراک کی شدید قلت پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
خالص آبی منافع
خالص آبی منافع، آئین کے آرٹیکل 161۔2 کے تحت صوبوں کو ادا کیا جاتا ہے۔ آرٹیکل161 کی وضاحت کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل کو این ایچ پی کا تعین کرنے کے لیے خصوصی کردار سونپاگیا ہے، سی سی آئی کے متعدد فیصلوں کے باوجود آئین کے مطابق صوبوں کو این ایچ پی کی ادائیگی نہیں کی گئی۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے این ایچ پی کا طریقہ کار تجویزکرنے کے لیے دوکمیٹیاں تشکیل دی تھیں، ڈپٹی چیرمئین پلاننگ کمیشن اے جی این قاضی کے تحت پہلی کمیٹی نے ایک قابل عمل فارمولے کی سفارش کی جسے عام طور پر قاضی کمیٹی میتھڈولوجی کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے1991میں سی سی آئی نے منظورکیا تھا۔
پھر ڈپٹی چیرمین پلاننگ کمیشن جہانزیب خان کی قیادت میں دوسری کمیٹی نے دسمبر2019 میں سی سی آئی کو رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ سال2017 کے سی ایم کی بنیاد پر حساب کی جانے والی رقم 52 ارب روپے اور 128ارب روپے بالترتیب پنجاب اورخیبرپختون کے این ایچ پی حصے ہیں اوروفاقی حکومت ضامن کے طورپر اب آئین کے آرٹیکل 161۔2 کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے دونوں صوبوں کو واجب الادارقم کی ادائیگی کو یقینی بنائے ۔
خیبر پختون خوا کااصولی موقف یہ ہے کہ این ایچ پی کا طریقہ کار اورحساب کی گئی رقم طے شدہ معاملات ہیں اور وفاقی حکومت کو اب صرف یہ کارروائی کرنی ہے کہ دونوں صوبوں کو اصل ادائیگیاں کی جائیں۔
بجلی کی وہیلنگ
صوبے کے غیر فائدہ مند محل وقوع جس میں بڑی منڈیوں اور بندرگاہوں سے دوری، سستی بجلی کی قلت اور ترقیاتی ڈھانچے کی کمی کی وجہ سے صوبے کے بہت سے صنعتی یونٹ خراب اور بند پڑے ہیں جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بے روزگاری پیدا ہوئی ہے ، اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے پختون خوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) نے صوبے میں صنعتی ترقی کو فروغ دینے کے لیے صنعتی شعبے کو مسابقتی نرخوں پر سستی اورقابل برداشت پن بجلی فراہم کرنے کے لیے بجلی وہیلنگ کا اختراعی اقدام شروع کیا۔
پیہورہائیڈرو پاوراسٹیشن سے اٹھارہ میگاواٹ کی بجلی کی وہیلنگ صوبے کے پانچ صنعتی یونٹوں کوکھلی مسابقتی بولی اور شفاف عمل کے ذریعے کی گئی، وہیلنگ کا دوسرا مرحلہ بھی شروع کرنے کی ضرورت ہے جس میں صوبے کی صنعتی شعبے کو اضافی 148 میگاواٹ بجلی فراہم کی جائے گی۔
خیبرپختون خوا ٹرانسمیشن اینڈ گرڈ کمپنی
خیبر پختون خوا کی پن بجلی کی صلاحیت بنیادی طور پر سوات اورچترال کی وادیوں میں دستیاب ہے ، خیبرپختون خوا کو درپیش ایک اہم مسئلہ ان منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی کی ترسیل ہے، پیڈوکو ان علاقوں سے بجلی نکالنے کے لیے وفاقی حکومت کی نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان منصوبوں کو چلانے میں غیرمعمولی تاخیر ہوتی ہے۔
ان مسائل پر قابو پانے، صوبے کو درپیش محل وقوع کے نقصانات کو دورکرنے اور پیڈو منصوبوں سے بجلی کی ترسیل اور تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے صوبے کے صنعتی شعبے کو قابل اعتماد اور سستی بجلی فراہم کرنے کے لیے کے پی ٹرانسمیشن اینڈ گرڈ کمپنی قائم کی گئی،کمپنی کوفوری طور پر فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے مقاصد کو پورا کرسکے۔
گیس کی وزنی اوسط لاگت
پاکستان کو گیس کی شدید قلت کاسامنا ہے جسے آر ایل این جی کی درآمد کے ذریعے پوراکیاجاتا ہے ، ای سی سی نے 2019 میں مہنگی ری گیسیفڈ مائع قدرتی گیس کو سستے مقامی گیس کی قیمت کی شرح پر فروخت کرکے گھریلو شعبے کی مانگ کو پورا کرنے کا فیصلہ کیاتھا۔
خیبرپختون خوا کی مقامی سطح پر پیدا ہونے والے گیس کی قیمت تقریباً چار امریکی ڈالرایم ایم بی ٹی یو ہے جس کے مقابلے میں درآمدی آرایل این جی کی قیمت تقریباً بائیس امریکی ڈالر ایم ایم بی ٹی یو ہے جس کی وجہ سے مالی سال19۔2018 اور21۔2020 میں117ارب روپے گردشی قرضہ کی صورت میں رہا، مقامی طور پر تیارکی جانے والی سستی گیس اور مہنگی آر ایل این جی کے نرخوں کو گیس کی اوسط لاگت ڈبلیو اے سی اوجی کے ذریعے ضم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
خیبر پختون خوا میں تقریباً 430 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پیدا ہوتی ہے جب کہ اس کی ضرورت تقریباً 216 ایم ایم سی ایف ڈی ہے جس سے قومی نیٹ ورک میں تقریباً200 ایم ایم سی ایف ڈی سستی گیس شامل ہوتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 158 کے مطابق جس صوبے میں قدرتی گیس کا کنواں واقع ہے وہاں سے گیس کی ضروریات پوری کرنے کا پہلا حق اسی صوبے کو حاصل ہوگا۔
مقامی گیس میں آر ایل این جی کی قیمت شامل کرنے سے گیس سرپلس صوبہ ہونے کے باوجود صنعتی صارفین سمیت خیبرپختون خوا میں ہرقسم کے صارفین کے لیے گیس کی اوسط قیمت میں اضافہ ہوگا جس سے صوبے میں صنعتی ترقی اور سرمایہ کاری کے مواقع کی حوصلہ شکنی ہوگی اور مہنگے آر ایل این جی کے بوجھ کا ایک حصہ خیبرپختون خوا صارفین کو منتقل ہوگا جو آرٹیکل 158کی خلاف ورزی ہوگی۔
قدرتی گیس اور معدنی تیل پر ایکسائز ڈیوٹی
آئین کے آرٹیکل 161۔1میں کہاگیا ہے کہ قدرتی گیس اورتیل پر فیڈرل ایکسائزڈیوٹی اس صوبے کو اداکی جائے گی جہاں قدرتی گیس اورتیل کاکنواں واقع ہے، قدرتی گیس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی آخری بار وفاقی مالیتی ایکٹ2010 کے ذریعے دس روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقررکیاگیا تھا جو خیبر پختون خوا حکومت کے لیے سالانہ ایک عشاریہ تین ارب روپے بنتا ہے۔
اس کے بعد اس شرح میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے ، گزشتہ دس سال کے دوران افراط زر میں بڑھتے ہوئے رجحانات کے پیش نظر قدرتی گیس پر موجودہ ایف ای ڈی کو دس روپے سے بڑھا کر بائیس روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کرنے کی ضرورت ہے ، تیل پر ایف ای ڈی آخری بار 1982میں عائد کیاگیا تھا جسے 1990 میں بند کردیاگیا ، آئین کے آرٹیکل161۔1Bکی روشنی میں تیل پر ایف ای ڈی کی بحالی کی ضرورت ہے۔
چوں کہ معدنی تیل اور قدرتی گیس وفاقی قانون ساز فہرست کے حصہ دوئم میں آئی ہے لہذا آئین کے آرٹیکل 154 کی روشنی میں اس معاملہ پر فیصلہ کرنا سی سی آئی کے خصوصی دائرہ اختیار میں آتا ہے ۔ قدرتی گیس پر موجودہ ایف ای ڈی میں اضافے اور خام تیل پر ایف ای ڈی کے نفاذ کامعاملہ آرٹیکل161۔1B کی دفعات کے مطابق سی سی آئی کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے ۔
ونڈ فال لیوی
ونڈ فال لیوی کے تحت تیل اورگیس کمپنیاں ایک خاص رقم کی ادائیگی کی پابند ہیں، 2012ء کی پالیسی کے مطابق ونڈ فال لیوی کی رقم وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے درمیان یکساں طور پر شیئرکی جاتی ہے ، خیبر پختون خوا میں واقع تال اور ناشپا بلاکس کو 1997کی پیٹرولیم پالیسی کے تحت دیا گیا تھا، تل بلاک جے وی شراکت داروں نے گیس کی زیادہ قیمت حاصل کرنے کے لیے پٹیرولیم پالیسی2012 میں تبدیلی کے لیے درخواست دی۔
جے وی پارٹنرزگیس کی قیمتوں میں اضافہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تاہم تیل پر ونڈ فال لیوی کے نفاذ والی شق کو اس رعایتی معاہدے سے یکطرفہ طور پر خیبرپختون خوا کو اعتماد میں لئے بغیر نکال دیاگیا جس کی وجہ سے خیبرپختون خواکو2012 تا2021 کے دوران 45 ارب روپے کانقصان ہوا ، تیل پر ونڈفال لیوی کے نفاذ کا فیصلہ سی سی آئی نے ستائیس دسمبر2017 کو خیبرپختون خوا کے حق میں دیا تھا، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سی سی آئی کے اس فیصلے پر من وعن عمل کیا جائے۔
ایل پی جی پر ادائیگی
پیٹرولیم پالیسی2012 کی شق ون کے مطابق رائیلٹی ادائیگی فیلڈ گیٹ پر ساڑھے بارہ فی صد کی شرح سے اداکی جائے گی۔ خیبرپختون خوا میں سالانہ چار سو تیس ایم ایم سی ایف ڈی قدرتی گیس آٹھ سو ٹن ایل پی جی اور چالیس ہزار بیرل تیل پیدا ہو رہا ہے۔
ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیاں ایل پی جی کی شرح سے رائیلٹی ادا نہیں کررہی ہیں بلکہ وہ اسے قدرتی گیس کی شرح سے اداکررہی ہیں چونکہ قدرتی گیس ایل پی جی سے تقریباً دس گنا سستی ہے اس لیے خیبر پختون کو ایل پی جی کے حساب سے رائیلٹی کی عدم ادائیگی کی وجہ سے تقریباً دوارب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے۔
پبلک اکاونٹس کمیٹی کی ماہرکمیٹی نے 2012ء میں پی اے سی کو پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایل پی جی پر رائیلٹی ''فروخت کی قیمت'' پر اداکی جاتی ہے ، پشاورہائی کورٹ نے 2013 کے اپنے فیصلے میں صوبائی حکومت کو ایل پی جی پر رائیلٹی کی فوری ادائیگی کی بھی ہدایت کی تھی۔
جی ایچ پی ایل کے ساتھ صوبائی ہولڈنگ کمپنیوں کاحصہ
آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے متعارف کرائے گئے آرٹیکل 172۔3 میں کہاگیا ہے کہ صوبے کے اندرمعدنی تیل اور قدرتی گیس مشترکہ اوریکساں طور پر اس صوبے اوروفاقی حکومت کی ملکیت ہوں گی، اس سے قبل صرف وفاقی حکومت کے پاس گورنمنٹ ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کے ذریعے تیل اورگیس کی خصوصی ملکیت تھی۔
تال اور ناشپا بلاکس میں جی ایچ پی ایل کے پاس موجود پچاس فی صد حصص گورنمنٹ آف خیبرپختون خوا یا اس کی صوبائی ہولڈنگ کمپنی کو منتقل کیے جانے چاہیئں۔ مختصراً یہ کہ وفاقی نظام کی کامیابی سے چلنے کے لیے صوبوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے اورریاست کی مضبوطی کے لیے 1973ء کے آئین کی متعلقہ تمام دفعات پر من وعن عمل وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے ۔
اس صورت حال میں 2005ء میں آنے والے تباہ کن زلزلے اور سال 2010ء میں آنے والے غیر معمولی سیلاب نے مزید اضافہ کیا۔ ان تمام واقعات و اسباب کے صوبے پر شدید معاشی اور سماجی اثرات مرتب ہوئے۔
مزید برآں خیبر پختون خوا میں معاشی ترقی خصوصاً صنعت کاری کی رفتار سست رہی ہے جس کی بنیادی وجہ بینکوں اور مالیاتی اداروں کی مالی معاونت میں رکاوٹیں، بنیادی ڈھانچے کی ناقص سہولیات اور بہت سے زرخیر علاقوں میں بجلی، ٹیلی کمیونی کیشن اورگیس جیسی ناکافی سہولیات ہیں۔
اس غیرتسلی بخش منظرنامے سے نمٹنے کے لیے1973ء کے آئین کے فریم ورک پر مبنی مربوط نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو صوبے کی سیاسی قیادت، پالیسی ماہرین، دانشوروں اورنوجوانوں کی طرف سے درکار ہے۔ آئین بنیادی قانونی اور سیاسی انتظامات سے متعلق ایک دستاویز ہے، جس کے تحت مختلف ادارے کام کرتے ہیں اور ملک کا انتظام چلایا جاتا ہے۔
1973ء کے آئین میں وفاقی اکائیوں کاایک ایسا دائرہ کار تفویض کیاگیا ہے جو نہ صرف وفاقی اکائیوں کے خصوصی دائرہ کار کے تحت آتا ہے بلکہ مشترکہ دائرہ اختیارکا بھی احاطہ کرتا ہے جب کہ آئین میں خصوصی دفعات کے ذریعے اس کی نگرانی کی جاتی ہے۔ یہ خصوصی دفعات آرٹیکل 151تا 158،160،161اور 172ریاست کے وفاقی نظام کی بقا اورسالمیت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ خصوصی دفعات صوبوں کے مختلف مطالبات کو پورا کرتی ہیں اور صوبوں کے حقوق کی ضامن ہیں۔ بدقستمی سے مخصوص حالات کے باعث ان پر من وعن عمل کرنا دشوار بن جاتا ہے جس سے خصوصاً چھوٹے صوبے مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔
آئیے اس حوالے سے خیبر پختون خوا کو جن مسائل خصوصاً توانائی جیسے مسائل کا جو سامنا ہے، اس کو مذکورہ آئینی دفعات کے آئینے میں پرکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے توانائی سے متعلق امورکے ماہرخیبرپختون خواحکومت کے سابق مشیر حمایت اللہ خان نے روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ آرٹیکل 153 ون مشترکہ مفادات کونسل کے قیام سے متعلق ہے ، جس کے پاس خصوصی دائرہ کار اور اختیارات ہیں۔
مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی تشکیل کے بعد صوبائی خود مختاری کے اہم مسئلے اور ملک کے دولخت ہونے کے بعد وفاقی ڈھانچے کے اندر وفاقی اکائیوں کی حیثیت کو مناسب طریقے سے حل کیا گیا، سپریم کورٹ نے بھی تسلیم کیا کہ سی سی آئی ایک محض سفارشی ادارہ نہیں بلکہ ایک طاقتور ادارہ ہے جس نے ایسے معاملات کا موثر فیصلہ کرنا ہے جن کے خلاف صرف پارلیمنٹ میں اپیل کی جاسکتی ہے، بدقسمتی سے مشترکہ مفادات کونسل کو آزادی اور پختگی کی وہ سطح حاصل نہیں ہوئی جس کا تصورآئین میں متعین کیاگیا تھا۔
سابق صوبائی مشیر حمایت اللہ خان نے بتایا کہ آرٹیکل 161۔1 قومی اقتصادی کمیشن (این ایف سی) سے متعلق ہے جو وفاق اور صوبوں کے درمیان محصولات کی تقسیم سے متعلق سفارشات مرتب کرتا ہے، اس وقت قومی محصولات میں خیبرپختون خواکا حصہ جو1970میں 15.5 فیصد تھا، سے کم ہوکر 14.6فی صد رہ گیا ہے ، فاٹا کے انضمام کے بعد خیبرپختون خوا کے حصے پر موافق نظرثانی کے بغیر اضافی ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں۔
سابقہ فاٹا کے سماجی اور ترقیاتی اشاریوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، خیبرپختون خوا میں آبادی اورغربت کی شرح میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ فاٹا کے انضمام کے لیے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے فریم ورک کے اندر خیبرپختون خوا کے حصے پر فوری نظرثانی اور عبوری تصیفے کی ضرورت ہے۔ خیبرپختون خوا کوجن چیدہ چیدہ مسائل کا سامنا ہے یہاں ان کاتذکرہ کیا جا رہا ہے۔
غذائی تحفظ
نئے ضم ہونے والے اضلاع سمیت خیبر پختون خوا کی آبادی چارکروڑ سے زائد ہے، 50 لاکھ ٹن کی تخمینہ ضروریات کے مقابلے میں صوبہ اپنی گندم کی ضرورت کا تقریباً پچیس فی صد پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں 75 فی صد کمی واقع ہوتی ہے۔
اس کمی کو پورا کرنے کے لیے خیبرپختون خواکو پنجاب سے گندم خریدنا ہوتی ہے، خیبرپختون خواکو وقتاً فوقتاً گندم کی بین الصوبائی نقل وحرکت پر پابندیوں کے نتیجے میں غذائی قلت کا سامناکرنا پڑتا ہے، کسی بھی صوبائی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر عائد کی گئی بین الصوبائی تجارت اور سامان کی آزادانہ نقل وحرکت پر پابندیاں آئین کے آرٹیکل151کی روشنی میں غیر قانونی اورغیرآئینی ہیں۔
16 مارچ1991کو وفاقی اکائیوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے معاہدے پر دستخط کئے گئے تھے، صوبوں کو پانی کے اپنے مناسب حصے کو استعمال کرنے کے قابل بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں ہرصوبے کو ایک اسکیم فراہم کی، خیبرپختون خوا کے علاوہ ہرصوبے میں مطلوبہ بنیادی ڈھانچہ تعمیرکیاگیا ہے۔
بنیادی ڈھانچے کے نہ ہونے کی وجہ سے خیبرپختون خوا کو پانی کے اپنے مناسب حصے کے کم استعمال کی شکل میں نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے لہذا صوبے کو اس کے حصے کے غیر استعمال شدہ پانی جو دوسرے صوبوں نے استعمال کیا ہے، کا معاوضہ دیناچاہیے، چشمہ رائٹ بنک لفٹ کینال سمیت دیگر منصوبے گومل زام ڈیم ، ٹانک زام ڈیم اورکرم تنگی منصوبوں کی تعمیر کے ذریعے تقریباً آٹھ لاکھ ایکڑ رقبے کو سیراب کیاجاسکتا ہے جس سے صوبے کو خوراک کی شدید قلت پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
خالص آبی منافع
خالص آبی منافع، آئین کے آرٹیکل 161۔2 کے تحت صوبوں کو ادا کیا جاتا ہے۔ آرٹیکل161 کی وضاحت کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل کو این ایچ پی کا تعین کرنے کے لیے خصوصی کردار سونپاگیا ہے، سی سی آئی کے متعدد فیصلوں کے باوجود آئین کے مطابق صوبوں کو این ایچ پی کی ادائیگی نہیں کی گئی۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے این ایچ پی کا طریقہ کار تجویزکرنے کے لیے دوکمیٹیاں تشکیل دی تھیں، ڈپٹی چیرمئین پلاننگ کمیشن اے جی این قاضی کے تحت پہلی کمیٹی نے ایک قابل عمل فارمولے کی سفارش کی جسے عام طور پر قاضی کمیٹی میتھڈولوجی کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے1991میں سی سی آئی نے منظورکیا تھا۔
پھر ڈپٹی چیرمین پلاننگ کمیشن جہانزیب خان کی قیادت میں دوسری کمیٹی نے دسمبر2019 میں سی سی آئی کو رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ سال2017 کے سی ایم کی بنیاد پر حساب کی جانے والی رقم 52 ارب روپے اور 128ارب روپے بالترتیب پنجاب اورخیبرپختون کے این ایچ پی حصے ہیں اوروفاقی حکومت ضامن کے طورپر اب آئین کے آرٹیکل 161۔2 کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے دونوں صوبوں کو واجب الادارقم کی ادائیگی کو یقینی بنائے ۔
خیبر پختون خوا کااصولی موقف یہ ہے کہ این ایچ پی کا طریقہ کار اورحساب کی گئی رقم طے شدہ معاملات ہیں اور وفاقی حکومت کو اب صرف یہ کارروائی کرنی ہے کہ دونوں صوبوں کو اصل ادائیگیاں کی جائیں۔
بجلی کی وہیلنگ
صوبے کے غیر فائدہ مند محل وقوع جس میں بڑی منڈیوں اور بندرگاہوں سے دوری، سستی بجلی کی قلت اور ترقیاتی ڈھانچے کی کمی کی وجہ سے صوبے کے بہت سے صنعتی یونٹ خراب اور بند پڑے ہیں جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بے روزگاری پیدا ہوئی ہے ، اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے پختون خوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) نے صوبے میں صنعتی ترقی کو فروغ دینے کے لیے صنعتی شعبے کو مسابقتی نرخوں پر سستی اورقابل برداشت پن بجلی فراہم کرنے کے لیے بجلی وہیلنگ کا اختراعی اقدام شروع کیا۔
پیہورہائیڈرو پاوراسٹیشن سے اٹھارہ میگاواٹ کی بجلی کی وہیلنگ صوبے کے پانچ صنعتی یونٹوں کوکھلی مسابقتی بولی اور شفاف عمل کے ذریعے کی گئی، وہیلنگ کا دوسرا مرحلہ بھی شروع کرنے کی ضرورت ہے جس میں صوبے کی صنعتی شعبے کو اضافی 148 میگاواٹ بجلی فراہم کی جائے گی۔
خیبرپختون خوا ٹرانسمیشن اینڈ گرڈ کمپنی
خیبر پختون خوا کی پن بجلی کی صلاحیت بنیادی طور پر سوات اورچترال کی وادیوں میں دستیاب ہے ، خیبرپختون خوا کو درپیش ایک اہم مسئلہ ان منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی کی ترسیل ہے، پیڈوکو ان علاقوں سے بجلی نکالنے کے لیے وفاقی حکومت کی نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان منصوبوں کو چلانے میں غیرمعمولی تاخیر ہوتی ہے۔
ان مسائل پر قابو پانے، صوبے کو درپیش محل وقوع کے نقصانات کو دورکرنے اور پیڈو منصوبوں سے بجلی کی ترسیل اور تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے صوبے کے صنعتی شعبے کو قابل اعتماد اور سستی بجلی فراہم کرنے کے لیے کے پی ٹرانسمیشن اینڈ گرڈ کمپنی قائم کی گئی،کمپنی کوفوری طور پر فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے مقاصد کو پورا کرسکے۔
گیس کی وزنی اوسط لاگت
پاکستان کو گیس کی شدید قلت کاسامنا ہے جسے آر ایل این جی کی درآمد کے ذریعے پوراکیاجاتا ہے ، ای سی سی نے 2019 میں مہنگی ری گیسیفڈ مائع قدرتی گیس کو سستے مقامی گیس کی قیمت کی شرح پر فروخت کرکے گھریلو شعبے کی مانگ کو پورا کرنے کا فیصلہ کیاتھا۔
خیبرپختون خوا کی مقامی سطح پر پیدا ہونے والے گیس کی قیمت تقریباً چار امریکی ڈالرایم ایم بی ٹی یو ہے جس کے مقابلے میں درآمدی آرایل این جی کی قیمت تقریباً بائیس امریکی ڈالر ایم ایم بی ٹی یو ہے جس کی وجہ سے مالی سال19۔2018 اور21۔2020 میں117ارب روپے گردشی قرضہ کی صورت میں رہا، مقامی طور پر تیارکی جانے والی سستی گیس اور مہنگی آر ایل این جی کے نرخوں کو گیس کی اوسط لاگت ڈبلیو اے سی اوجی کے ذریعے ضم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
خیبر پختون خوا میں تقریباً 430 ایم ایم سی ایف ڈی گیس پیدا ہوتی ہے جب کہ اس کی ضرورت تقریباً 216 ایم ایم سی ایف ڈی ہے جس سے قومی نیٹ ورک میں تقریباً200 ایم ایم سی ایف ڈی سستی گیس شامل ہوتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 158 کے مطابق جس صوبے میں قدرتی گیس کا کنواں واقع ہے وہاں سے گیس کی ضروریات پوری کرنے کا پہلا حق اسی صوبے کو حاصل ہوگا۔
مقامی گیس میں آر ایل این جی کی قیمت شامل کرنے سے گیس سرپلس صوبہ ہونے کے باوجود صنعتی صارفین سمیت خیبرپختون خوا میں ہرقسم کے صارفین کے لیے گیس کی اوسط قیمت میں اضافہ ہوگا جس سے صوبے میں صنعتی ترقی اور سرمایہ کاری کے مواقع کی حوصلہ شکنی ہوگی اور مہنگے آر ایل این جی کے بوجھ کا ایک حصہ خیبرپختون خوا صارفین کو منتقل ہوگا جو آرٹیکل 158کی خلاف ورزی ہوگی۔
قدرتی گیس اور معدنی تیل پر ایکسائز ڈیوٹی
آئین کے آرٹیکل 161۔1میں کہاگیا ہے کہ قدرتی گیس اورتیل پر فیڈرل ایکسائزڈیوٹی اس صوبے کو اداکی جائے گی جہاں قدرتی گیس اورتیل کاکنواں واقع ہے، قدرتی گیس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی آخری بار وفاقی مالیتی ایکٹ2010 کے ذریعے دس روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقررکیاگیا تھا جو خیبر پختون خوا حکومت کے لیے سالانہ ایک عشاریہ تین ارب روپے بنتا ہے۔
اس کے بعد اس شرح میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے ، گزشتہ دس سال کے دوران افراط زر میں بڑھتے ہوئے رجحانات کے پیش نظر قدرتی گیس پر موجودہ ایف ای ڈی کو دس روپے سے بڑھا کر بائیس روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کرنے کی ضرورت ہے ، تیل پر ایف ای ڈی آخری بار 1982میں عائد کیاگیا تھا جسے 1990 میں بند کردیاگیا ، آئین کے آرٹیکل161۔1Bکی روشنی میں تیل پر ایف ای ڈی کی بحالی کی ضرورت ہے۔
چوں کہ معدنی تیل اور قدرتی گیس وفاقی قانون ساز فہرست کے حصہ دوئم میں آئی ہے لہذا آئین کے آرٹیکل 154 کی روشنی میں اس معاملہ پر فیصلہ کرنا سی سی آئی کے خصوصی دائرہ اختیار میں آتا ہے ۔ قدرتی گیس پر موجودہ ایف ای ڈی میں اضافے اور خام تیل پر ایف ای ڈی کے نفاذ کامعاملہ آرٹیکل161۔1B کی دفعات کے مطابق سی سی آئی کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے ۔
ونڈ فال لیوی
ونڈ فال لیوی کے تحت تیل اورگیس کمپنیاں ایک خاص رقم کی ادائیگی کی پابند ہیں، 2012ء کی پالیسی کے مطابق ونڈ فال لیوی کی رقم وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے درمیان یکساں طور پر شیئرکی جاتی ہے ، خیبر پختون خوا میں واقع تال اور ناشپا بلاکس کو 1997کی پیٹرولیم پالیسی کے تحت دیا گیا تھا، تل بلاک جے وی شراکت داروں نے گیس کی زیادہ قیمت حاصل کرنے کے لیے پٹیرولیم پالیسی2012 میں تبدیلی کے لیے درخواست دی۔
جے وی پارٹنرزگیس کی قیمتوں میں اضافہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تاہم تیل پر ونڈ فال لیوی کے نفاذ والی شق کو اس رعایتی معاہدے سے یکطرفہ طور پر خیبرپختون خوا کو اعتماد میں لئے بغیر نکال دیاگیا جس کی وجہ سے خیبرپختون خواکو2012 تا2021 کے دوران 45 ارب روپے کانقصان ہوا ، تیل پر ونڈفال لیوی کے نفاذ کا فیصلہ سی سی آئی نے ستائیس دسمبر2017 کو خیبرپختون خوا کے حق میں دیا تھا، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ سی سی آئی کے اس فیصلے پر من وعن عمل کیا جائے۔
ایل پی جی پر ادائیگی
پیٹرولیم پالیسی2012 کی شق ون کے مطابق رائیلٹی ادائیگی فیلڈ گیٹ پر ساڑھے بارہ فی صد کی شرح سے اداکی جائے گی۔ خیبرپختون خوا میں سالانہ چار سو تیس ایم ایم سی ایف ڈی قدرتی گیس آٹھ سو ٹن ایل پی جی اور چالیس ہزار بیرل تیل پیدا ہو رہا ہے۔
ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیاں ایل پی جی کی شرح سے رائیلٹی ادا نہیں کررہی ہیں بلکہ وہ اسے قدرتی گیس کی شرح سے اداکررہی ہیں چونکہ قدرتی گیس ایل پی جی سے تقریباً دس گنا سستی ہے اس لیے خیبر پختون کو ایل پی جی کے حساب سے رائیلٹی کی عدم ادائیگی کی وجہ سے تقریباً دوارب روپے سالانہ کا نقصان ہورہا ہے۔
پبلک اکاونٹس کمیٹی کی ماہرکمیٹی نے 2012ء میں پی اے سی کو پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایل پی جی پر رائیلٹی ''فروخت کی قیمت'' پر اداکی جاتی ہے ، پشاورہائی کورٹ نے 2013 کے اپنے فیصلے میں صوبائی حکومت کو ایل پی جی پر رائیلٹی کی فوری ادائیگی کی بھی ہدایت کی تھی۔
جی ایچ پی ایل کے ساتھ صوبائی ہولڈنگ کمپنیوں کاحصہ
آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے متعارف کرائے گئے آرٹیکل 172۔3 میں کہاگیا ہے کہ صوبے کے اندرمعدنی تیل اور قدرتی گیس مشترکہ اوریکساں طور پر اس صوبے اوروفاقی حکومت کی ملکیت ہوں گی، اس سے قبل صرف وفاقی حکومت کے پاس گورنمنٹ ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کے ذریعے تیل اورگیس کی خصوصی ملکیت تھی۔
تال اور ناشپا بلاکس میں جی ایچ پی ایل کے پاس موجود پچاس فی صد حصص گورنمنٹ آف خیبرپختون خوا یا اس کی صوبائی ہولڈنگ کمپنی کو منتقل کیے جانے چاہیئں۔ مختصراً یہ کہ وفاقی نظام کی کامیابی سے چلنے کے لیے صوبوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے اورریاست کی مضبوطی کے لیے 1973ء کے آئین کی متعلقہ تمام دفعات پر من وعن عمل وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے ۔