نیویارک میں ٹی 20 ورلڈ کپ کرانے کا خواب
سپر پاور امریکا کے سب سے بڑے شہر میں کیا کرکٹ کے عالمی مقابلے منعقد ہوں سکیں گے؟خصوصی رپورٹ
آنکھیں بند کر کے تصّور کیجیے کہ دنیا کے عظیم شہروں میں سے ایک ، نیویارک میں پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیمیں ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں۔
شائقین کرکٹ کا جوش وخروش عروج پر ہے۔اسٹیڈیم مردوزن سے بھرا ہوا ہے اور وہاں میلے کا سماں ہے۔ہر شاٹ پہ تالیاں پیٹی اور نعرے لگائے جا رہے ہیں۔مگر صاحب، نیویارک میں کہاں سے کرکٹ اسٹیڈیم آ گیا؟اور وہاں پاک بھارت میچ کیسے ہو سکتا ہے؟مذاق تو نہ کیجیے اور خواب دیکھنا بند کریں۔
یہ خواب مگر اگلے سال حقیقت میں ڈھل سکتا ہے۔تب یہ ممکن ہو جائے گا کہ امریکا کے سب سے بڑے شہر میں پاکستانی اور بھارتی کرکٹ ٹیمیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور یوں امریکی باشندوں کو بھی اس کھیل سے وابستہ سنسنی ، برق رفتاری، دلچسپی اور لطف سے روشناس کرا دیں۔
دنیا کی اکلوتی سپرپاور، امریکا میں کرکٹ کھیلنے کا آغاز بیسویں صدی میں کئیربین جزائر (گیانا، جمیکا، ٹیرینڈاینڈ ٹوباگو) سے آنے والے مہاجرین نے کیا۔وہ کرکٹ کھیل کر اپنے بچپن اور آبائی وطن کی یادیں تازہ رکھنا چاہتے تھے۔
جب دوسری جنگ عظیم کے بعد جنوبی ایشیا(بھارت و پاکستان)، برطانیہ ، آسٹریلیا وغیرہ سے بھی مہاجرین امریکا آنے لگے تو ان کی اکثریت نے بھی فارغ اوقات میں کرکٹ کھیلنا معمول بنا لیا۔
آغاز میں باغات کے کنارے عارضی پچیں بنا کر میچ کھیلے گئے۔والدین مع بچوں کے چھٹی والے دن خوش باش وہاں پہنچ جاتے۔ساتھ میں کھانے پینے کی چیزیں ہوتیں۔یوں وہ مل جل کر خوب تفریح اٹھاتے اور ہلا گلا کرتے۔اس طرح مہاجرین کے لیے کرکٹ آبائی وطن سے تعلق برقرار رکھنے اور وہاں کی سہانی یادیں تازہ کرنے کا عمدہ وسیلہ بن گیا۔
امریکا کے شہروں میں جب کرکٹ کھیلنے والوں کی تعداد اچھی خاصی بڑھ گئی تو انھوں نے مقامی انتظامیہ کو درخواستیں دے کر بڑے باغات میں قطعہ زمین اپنے کھیل کے لیے مخصوص کرا لیا۔اس جگہ رفتہ رفتہ پختہ پچیں تعمیر ہو گئیں۔پھر کرکٹ کلب قائم ہوئے اور ان کی لیگیں بھی وجود میں آ گئیں۔اب باہمی مقابلوں کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں سرزمین امریکا میں کرکٹ کے پودے نے جڑ پکڑ لی۔
اکیسویںصدی کے اوائل سے نیوزی لینڈ کے کرکٹر، مارٹن کرو کی ایجاد کردہ ٹی 20 کرکٹ دنیا بھر میں مقبول ہونے لگی۔یہ قسم کرکٹ سے انجان امریکیوں کو بھی پسند آئی۔وہ دو تین گھنٹے میں ختم ہو جانے والے کھیل دلچسپی سے دیکھتے تھے۔انھیں تعجب ہوتا کہ دو ٹیمیں پانچ دن تک ، صبح تا شام مقابلہ کر رہی ہیں۔وہ جلد بور ہو جاتے۔مگر ٹی 20 کی تیزی اور سنسنی نے انھیں خاصا متاثر کیا اور وہ کرکٹ کی اس قسم میں دلچسپی لینے لگے۔
امریکا بہ لحاظ دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔پھر دولت اور اثرورسوخ کے لحاظ سے بھی اس کا کوئی ثانی نہیں۔اسی باعث کرکٹ کے معاملات دیکھنے والے عالمی ادارے ، آئی سی سی کی بھرپور سعی ہے کہ امریکا میں اس کھیل کو مقبول بنایا جائے۔اس سوچ کے زیراثر آئی سی سی نے فیصلہ کیا کہ اگلے سال ٹی 20 ورلڈ کپ کے میچ ویسٹ انڈیز کے علاوہ امریکا میں بھی کھیلے جائیں۔
اس مقصد کے لیے امریکا میں چار جہگوں...نیویارک، ڈیلاس، موریسویل اور فورٹ لوڈرڈیل کا انتخاب عمل میں آیا۔نیویارک کے علاوہ بقیہ تینوں امریکی شہروں میں کرکٹ اسٹیڈیم واقع ہیں۔نیویارک میں کوئی باقاعدہ اسٹیڈیم موجود نہیں، تاہم بڑے باغات میں قطعات زمین کرکٹ مقابلوں کے لیے مختص ہیں۔وہاں پختہ پچیں بھی بنی ہوئی ہیں۔
نیویارک میں کئی کرکٹ کلب متحرک ہیں جن میں بھارتی و پاکستانی نژاد کرکٹر بھی کھیلتے ہیں۔درحقیقت یہ دونوں اقوام ہی امریکا میں کرکٹ کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں۔ ٹی 20 کی آمد نے کرکٹ کو بامنافع بھی بنا دیا۔ لہذا مختلف کمپنیاں بھی ٹی 20 کے مقابلوں پر پیسا لگا رہی ہیں۔
مثال کے طور پر رواں سال ماہ جولائی میں مکیش امبانی اور دیگر بھارتی صنعت کاروں و سرمایہ کاروں کے تعاون سے امریکا میں ''میجر کرکٹ لیگ''کی بنیاد رکھی گئی۔اس لیگ کے پہلے سیزن میں چھ ٹیموں نے حصہ لیا اور انیس میچ کھیلے۔ٹیموں میں پاکستانی کھلاڑی، عماد وسیم، حماد اعظم، احسان عادل، سعد علی وغیرہ بھی شامل تھے۔ان مقابلوں کو دیکھنے ہزارہا لوگ آئے جن میں مقامی امریکی بھی شامل تھے۔
انہی مقابلوں کے دوران آئی سی سی نے نیویارک کے مئیر، ایرک آدمز کو ایک پیشکش کر دی۔وہ یہ کہ ٹی 20 ورلڈ کپ کے میچ کھیلنے کے لیے نیویارک میں ایک عارضی کرکٹ اسٹیڈیم بنایا جائے جس میں کم ازکم 35 ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہو۔ اس عارضی اسٹیڈیم کی تعمیر پہ دو کروڑ ڈالر خرچ ہونے تھے۔آئی سی سی نے مئیر نیویارک سے وعدہ کیا کہ وہ اسٹیڈیم کی تعمیر کا سارا خرچ برداشت کرے گی۔
ایرک آدمز میجر کرکٹ لیگ کے میچوں میں لوگوں کی دلچسپی دیکھ چکا تھا۔پھر اسے یہ بھی معلوم تھا کہ نیویارک میں جنوبی ایشیا اور کئیربین جزائز سے تعلق رکھنے والے دس بارہ لاکھ لوگ آباد ہیں۔
اگر ٹی 20 ورلڈ کپ کے مقابلے شہر میں منعقد ہوتے تو یوں انھیں بہترین تفریح مل جاتی۔نیز نیویارک میں کاروباری سرگرمیاں بھی فروغ پاتیں۔پھرجنوبی ایشیا میں آباد اربوں انسانوں کی توجہ اس کے شہر پہ مرکوز ہو جاتی۔غرض آئی سی سی کی پیشکش سے کئی فوائد وابستہ تھے، اسی لیے ایرک آدمز نے اسے منظور کر لیا۔
نیویارک میں کامن ویلتھ لیگ کرکٹ کی سب سے بڑی تنظیم تھی۔ اس کا صدر، اجیت بھاٹیہ مئیر کا دوست تھا۔ اس لیگ کی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز وان کورٹلینڈت پارک (Van Cortlandt Park)ہے۔شہر کا یہ تیسرا بڑا پارک 1146 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
پارک کا ایک حصہ کرکٹ کے لیے مخصوص ہے جہاں دس پچیں بنائی گئی ہیں۔ایرک آدمز نے اجیت بھاٹیہ کو تجویز دی کہ آئی سی سی کا مجوزہ عارضی اسٹیڈیم وان کورٹلینڈت پارک میں تعمیر کیا جائے ۔ اجیت نے یہ تجویز قبول کر لی۔
اس موقع پر مئیر کے ترجمان ، بریڈ ویکس نے یہ بیان جاری کیا:''نیویارک متنوع تہذیبوں اور ثقافتوں کا ''میلٹنگ پوٹ''ہے۔
یہ شہر ٹی 20 ورلڈ کپ کے مقابلے ایسی شان وشوکت سے منعقد کرائے گا کہ کوئی شہر اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔'' غرض یہ امکان پختہ ہو گیا کہ امریکا کے سب سے بڑے شہر میں پہلی مرتبہ کرکٹ کے بین الاقوامی مقابلے ہوں گے اور یہ سپر پاور بھی دنیائے کرکٹ میں نمایاں ہو جائے گی۔ایرک اور اجیت نے صورت حال کو ''تاریخ ساز'' قرار دیا۔
رکاوٹوں کا جنم
مگر جلد ہی منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں در آئیں۔سب سے پہلے وان کورٹلینڈت پارک میں کھیلتے کئی کرکٹ کلبوں نے وہاں عارضی اسٹیڈیم کی تعمیر پہ اعتراض کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی 20 ورلڈ کپ سرمایہ داروں کے لیے پیسا کمانے کی مشین بن چکا، جبکہ وہ کرکٹ تفریح اور لطف پانے کے لیے کھیلتے ہیں۔ یہ کھیل پیسا کمانے کی خاطر نہیں کھیلا جاتا۔ چناں چہ انھوں نے ایسے ورلڈ کپ سے تعلق جوڑنے سے انکار کر دیا جس سے مادی فوائد وابستہ تھے۔
دوسرا اعتراض علاقے کے باشندوں کی جانب سے آیا۔ وان کورٹلینڈت پارک نیویارک کے علاقے، برونکس میں واقع ہے۔ان باشندوں کا کہنا ہے کہ اگر پبلک پارک کو عارضی طور پہ ورلڈ کپ کے میچوں کی خاطر استعمال کیا گیا تو یہ بدعت ہو گی۔
اس سے دوسروں کو بھی یہ منفی پیغام جائے گا کہ وہ جب چاہے ، پبلک پارک کو اپنی نجی یا تنظیمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔اگر آئی سی سی امریکا میں کرکٹ کا فروغ چاہتی ہے تو اسے مناسب جگہ باقاعدہ اسٹیڈیم تعمیر کرنا چاہیے۔
مسئلہ مگر یہ ہے کہ نیویارک میں باقاعدہ کرکٹ اسٹیڈیم بنانے پر بہت زیادہ خرچہ آئے گا۔ شہر میں ایسا اسٹیڈیم بنانے پر کم از کم 78 کروڑ ڈالر خرچ ہوں گے جبکہ اس کی تعمیر 2027 ء ہی میں مکمل ہو سکے گی۔جبکہ ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے عارضی اسٹیڈیم دو کروڑ ڈالر میں چند ماہ میں بن جائے گا۔غرض آئی سی سی کے لیے یہ ایک سستا سودا ہے۔
وان کورٹلینڈت پارک میں بہرحال عارضی کرکٹ اسٹیڈیم بنانے کے سلسلے میں دو گرہوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی ہے۔
یہ اسٹیڈیم بنانے کے حامی کہتے ہیں کہ نیویارک میں ٹی 20 ورلڈ کپ کے میچ منعقد ہونے سے ''ڈیرھ کروڑ ڈالر ''کی معاشی سرگرمیاں جنم لیں گی۔نیز ہزارہا نئی ملازمتیں تخلیق ہوں گی۔یوں شہر کے بیروزگاروں کو روزگار میّسر آئے گا۔مذید براں آئی سی سی نے مئیر سے وعدہ کیا ہے کہ وہ شہر کی تمام پچوں کو اپ گریڈ بھی کر دے گی تاکہ نئی امریکی نسل زیادہ بہتر انداز میں کرکٹ کھیل سکے۔
اسٹیڈیم بنانے کے مخالفین کا استدلال ہے کہ یہ محض پیسا کمانے کا منصوبہ ہے۔جب مقاصد پورے ہو جائیں گے تو آئی سی سی یہ جا ، وہ جا، ادارہ پھر نیویارک میں کرکٹ کو درپیش مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ
اگر وان کورٹلینڈت پارک میںعارضیاسٹیڈیم بن گیا تو وہاں کرکٹ کھیلنے والے کلب کہاں اپنے میچ منعقد کریں گے؟
اجیت بھاٹیہ کہتا ہے:''شہر کے بوڑھے اور فرسودہ سوچ رکھنے والے لوگ اس اسٹیڈیم کی تعمیر کی مخالفت کر رہے ہیں۔ وہ شہر میں کرکٹ کا فروغ نہیں چاہتے۔ذرا سوچیے کہ نیویارک میں پاکستان اور بھارت کا میچ ہو تو یہ شہر عالمی توجہ حاصل کر لے گا۔ بھارت میں ایسا مقابلہ دیکھنے کو ایک لاکھ سے زائد لوگ آتے ہیں۔ نیویارک میں بھی ایسا زبردست میلا لگ سکتا ہے۔''
شائقین کرکٹ کا جوش وخروش عروج پر ہے۔اسٹیڈیم مردوزن سے بھرا ہوا ہے اور وہاں میلے کا سماں ہے۔ہر شاٹ پہ تالیاں پیٹی اور نعرے لگائے جا رہے ہیں۔مگر صاحب، نیویارک میں کہاں سے کرکٹ اسٹیڈیم آ گیا؟اور وہاں پاک بھارت میچ کیسے ہو سکتا ہے؟مذاق تو نہ کیجیے اور خواب دیکھنا بند کریں۔
یہ خواب مگر اگلے سال حقیقت میں ڈھل سکتا ہے۔تب یہ ممکن ہو جائے گا کہ امریکا کے سب سے بڑے شہر میں پاکستانی اور بھارتی کرکٹ ٹیمیں ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور یوں امریکی باشندوں کو بھی اس کھیل سے وابستہ سنسنی ، برق رفتاری، دلچسپی اور لطف سے روشناس کرا دیں۔
دنیا کی اکلوتی سپرپاور، امریکا میں کرکٹ کھیلنے کا آغاز بیسویں صدی میں کئیربین جزائر (گیانا، جمیکا، ٹیرینڈاینڈ ٹوباگو) سے آنے والے مہاجرین نے کیا۔وہ کرکٹ کھیل کر اپنے بچپن اور آبائی وطن کی یادیں تازہ رکھنا چاہتے تھے۔
جب دوسری جنگ عظیم کے بعد جنوبی ایشیا(بھارت و پاکستان)، برطانیہ ، آسٹریلیا وغیرہ سے بھی مہاجرین امریکا آنے لگے تو ان کی اکثریت نے بھی فارغ اوقات میں کرکٹ کھیلنا معمول بنا لیا۔
آغاز میں باغات کے کنارے عارضی پچیں بنا کر میچ کھیلے گئے۔والدین مع بچوں کے چھٹی والے دن خوش باش وہاں پہنچ جاتے۔ساتھ میں کھانے پینے کی چیزیں ہوتیں۔یوں وہ مل جل کر خوب تفریح اٹھاتے اور ہلا گلا کرتے۔اس طرح مہاجرین کے لیے کرکٹ آبائی وطن سے تعلق برقرار رکھنے اور وہاں کی سہانی یادیں تازہ کرنے کا عمدہ وسیلہ بن گیا۔
امریکا کے شہروں میں جب کرکٹ کھیلنے والوں کی تعداد اچھی خاصی بڑھ گئی تو انھوں نے مقامی انتظامیہ کو درخواستیں دے کر بڑے باغات میں قطعہ زمین اپنے کھیل کے لیے مخصوص کرا لیا۔اس جگہ رفتہ رفتہ پختہ پچیں تعمیر ہو گئیں۔پھر کرکٹ کلب قائم ہوئے اور ان کی لیگیں بھی وجود میں آ گئیں۔اب باہمی مقابلوں کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں سرزمین امریکا میں کرکٹ کے پودے نے جڑ پکڑ لی۔
اکیسویںصدی کے اوائل سے نیوزی لینڈ کے کرکٹر، مارٹن کرو کی ایجاد کردہ ٹی 20 کرکٹ دنیا بھر میں مقبول ہونے لگی۔یہ قسم کرکٹ سے انجان امریکیوں کو بھی پسند آئی۔وہ دو تین گھنٹے میں ختم ہو جانے والے کھیل دلچسپی سے دیکھتے تھے۔انھیں تعجب ہوتا کہ دو ٹیمیں پانچ دن تک ، صبح تا شام مقابلہ کر رہی ہیں۔وہ جلد بور ہو جاتے۔مگر ٹی 20 کی تیزی اور سنسنی نے انھیں خاصا متاثر کیا اور وہ کرکٹ کی اس قسم میں دلچسپی لینے لگے۔
امریکا بہ لحاظ دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔پھر دولت اور اثرورسوخ کے لحاظ سے بھی اس کا کوئی ثانی نہیں۔اسی باعث کرکٹ کے معاملات دیکھنے والے عالمی ادارے ، آئی سی سی کی بھرپور سعی ہے کہ امریکا میں اس کھیل کو مقبول بنایا جائے۔اس سوچ کے زیراثر آئی سی سی نے فیصلہ کیا کہ اگلے سال ٹی 20 ورلڈ کپ کے میچ ویسٹ انڈیز کے علاوہ امریکا میں بھی کھیلے جائیں۔
اس مقصد کے لیے امریکا میں چار جہگوں...نیویارک، ڈیلاس، موریسویل اور فورٹ لوڈرڈیل کا انتخاب عمل میں آیا۔نیویارک کے علاوہ بقیہ تینوں امریکی شہروں میں کرکٹ اسٹیڈیم واقع ہیں۔نیویارک میں کوئی باقاعدہ اسٹیڈیم موجود نہیں، تاہم بڑے باغات میں قطعات زمین کرکٹ مقابلوں کے لیے مختص ہیں۔وہاں پختہ پچیں بھی بنی ہوئی ہیں۔
نیویارک میں کئی کرکٹ کلب متحرک ہیں جن میں بھارتی و پاکستانی نژاد کرکٹر بھی کھیلتے ہیں۔درحقیقت یہ دونوں اقوام ہی امریکا میں کرکٹ کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں۔ ٹی 20 کی آمد نے کرکٹ کو بامنافع بھی بنا دیا۔ لہذا مختلف کمپنیاں بھی ٹی 20 کے مقابلوں پر پیسا لگا رہی ہیں۔
مثال کے طور پر رواں سال ماہ جولائی میں مکیش امبانی اور دیگر بھارتی صنعت کاروں و سرمایہ کاروں کے تعاون سے امریکا میں ''میجر کرکٹ لیگ''کی بنیاد رکھی گئی۔اس لیگ کے پہلے سیزن میں چھ ٹیموں نے حصہ لیا اور انیس میچ کھیلے۔ٹیموں میں پاکستانی کھلاڑی، عماد وسیم، حماد اعظم، احسان عادل، سعد علی وغیرہ بھی شامل تھے۔ان مقابلوں کو دیکھنے ہزارہا لوگ آئے جن میں مقامی امریکی بھی شامل تھے۔
انہی مقابلوں کے دوران آئی سی سی نے نیویارک کے مئیر، ایرک آدمز کو ایک پیشکش کر دی۔وہ یہ کہ ٹی 20 ورلڈ کپ کے میچ کھیلنے کے لیے نیویارک میں ایک عارضی کرکٹ اسٹیڈیم بنایا جائے جس میں کم ازکم 35 ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہو۔ اس عارضی اسٹیڈیم کی تعمیر پہ دو کروڑ ڈالر خرچ ہونے تھے۔آئی سی سی نے مئیر نیویارک سے وعدہ کیا کہ وہ اسٹیڈیم کی تعمیر کا سارا خرچ برداشت کرے گی۔
ایرک آدمز میجر کرکٹ لیگ کے میچوں میں لوگوں کی دلچسپی دیکھ چکا تھا۔پھر اسے یہ بھی معلوم تھا کہ نیویارک میں جنوبی ایشیا اور کئیربین جزائز سے تعلق رکھنے والے دس بارہ لاکھ لوگ آباد ہیں۔
اگر ٹی 20 ورلڈ کپ کے مقابلے شہر میں منعقد ہوتے تو یوں انھیں بہترین تفریح مل جاتی۔نیز نیویارک میں کاروباری سرگرمیاں بھی فروغ پاتیں۔پھرجنوبی ایشیا میں آباد اربوں انسانوں کی توجہ اس کے شہر پہ مرکوز ہو جاتی۔غرض آئی سی سی کی پیشکش سے کئی فوائد وابستہ تھے، اسی لیے ایرک آدمز نے اسے منظور کر لیا۔
نیویارک میں کامن ویلتھ لیگ کرکٹ کی سب سے بڑی تنظیم تھی۔ اس کا صدر، اجیت بھاٹیہ مئیر کا دوست تھا۔ اس لیگ کی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز وان کورٹلینڈت پارک (Van Cortlandt Park)ہے۔شہر کا یہ تیسرا بڑا پارک 1146 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
پارک کا ایک حصہ کرکٹ کے لیے مخصوص ہے جہاں دس پچیں بنائی گئی ہیں۔ایرک آدمز نے اجیت بھاٹیہ کو تجویز دی کہ آئی سی سی کا مجوزہ عارضی اسٹیڈیم وان کورٹلینڈت پارک میں تعمیر کیا جائے ۔ اجیت نے یہ تجویز قبول کر لی۔
اس موقع پر مئیر کے ترجمان ، بریڈ ویکس نے یہ بیان جاری کیا:''نیویارک متنوع تہذیبوں اور ثقافتوں کا ''میلٹنگ پوٹ''ہے۔
یہ شہر ٹی 20 ورلڈ کپ کے مقابلے ایسی شان وشوکت سے منعقد کرائے گا کہ کوئی شہر اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔'' غرض یہ امکان پختہ ہو گیا کہ امریکا کے سب سے بڑے شہر میں پہلی مرتبہ کرکٹ کے بین الاقوامی مقابلے ہوں گے اور یہ سپر پاور بھی دنیائے کرکٹ میں نمایاں ہو جائے گی۔ایرک اور اجیت نے صورت حال کو ''تاریخ ساز'' قرار دیا۔
رکاوٹوں کا جنم
مگر جلد ہی منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں در آئیں۔سب سے پہلے وان کورٹلینڈت پارک میں کھیلتے کئی کرکٹ کلبوں نے وہاں عارضی اسٹیڈیم کی تعمیر پہ اعتراض کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی 20 ورلڈ کپ سرمایہ داروں کے لیے پیسا کمانے کی مشین بن چکا، جبکہ وہ کرکٹ تفریح اور لطف پانے کے لیے کھیلتے ہیں۔ یہ کھیل پیسا کمانے کی خاطر نہیں کھیلا جاتا۔ چناں چہ انھوں نے ایسے ورلڈ کپ سے تعلق جوڑنے سے انکار کر دیا جس سے مادی فوائد وابستہ تھے۔
دوسرا اعتراض علاقے کے باشندوں کی جانب سے آیا۔ وان کورٹلینڈت پارک نیویارک کے علاقے، برونکس میں واقع ہے۔ان باشندوں کا کہنا ہے کہ اگر پبلک پارک کو عارضی طور پہ ورلڈ کپ کے میچوں کی خاطر استعمال کیا گیا تو یہ بدعت ہو گی۔
اس سے دوسروں کو بھی یہ منفی پیغام جائے گا کہ وہ جب چاہے ، پبلک پارک کو اپنی نجی یا تنظیمی سرگرمیوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔اگر آئی سی سی امریکا میں کرکٹ کا فروغ چاہتی ہے تو اسے مناسب جگہ باقاعدہ اسٹیڈیم تعمیر کرنا چاہیے۔
مسئلہ مگر یہ ہے کہ نیویارک میں باقاعدہ کرکٹ اسٹیڈیم بنانے پر بہت زیادہ خرچہ آئے گا۔ شہر میں ایسا اسٹیڈیم بنانے پر کم از کم 78 کروڑ ڈالر خرچ ہوں گے جبکہ اس کی تعمیر 2027 ء ہی میں مکمل ہو سکے گی۔جبکہ ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیے عارضی اسٹیڈیم دو کروڑ ڈالر میں چند ماہ میں بن جائے گا۔غرض آئی سی سی کے لیے یہ ایک سستا سودا ہے۔
وان کورٹلینڈت پارک میں بہرحال عارضی کرکٹ اسٹیڈیم بنانے کے سلسلے میں دو گرہوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی ہے۔
یہ اسٹیڈیم بنانے کے حامی کہتے ہیں کہ نیویارک میں ٹی 20 ورلڈ کپ کے میچ منعقد ہونے سے ''ڈیرھ کروڑ ڈالر ''کی معاشی سرگرمیاں جنم لیں گی۔نیز ہزارہا نئی ملازمتیں تخلیق ہوں گی۔یوں شہر کے بیروزگاروں کو روزگار میّسر آئے گا۔مذید براں آئی سی سی نے مئیر سے وعدہ کیا ہے کہ وہ شہر کی تمام پچوں کو اپ گریڈ بھی کر دے گی تاکہ نئی امریکی نسل زیادہ بہتر انداز میں کرکٹ کھیل سکے۔
اسٹیڈیم بنانے کے مخالفین کا استدلال ہے کہ یہ محض پیسا کمانے کا منصوبہ ہے۔جب مقاصد پورے ہو جائیں گے تو آئی سی سی یہ جا ، وہ جا، ادارہ پھر نیویارک میں کرکٹ کو درپیش مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ
اگر وان کورٹلینڈت پارک میںعارضیاسٹیڈیم بن گیا تو وہاں کرکٹ کھیلنے والے کلب کہاں اپنے میچ منعقد کریں گے؟
اجیت بھاٹیہ کہتا ہے:''شہر کے بوڑھے اور فرسودہ سوچ رکھنے والے لوگ اس اسٹیڈیم کی تعمیر کی مخالفت کر رہے ہیں۔ وہ شہر میں کرکٹ کا فروغ نہیں چاہتے۔ذرا سوچیے کہ نیویارک میں پاکستان اور بھارت کا میچ ہو تو یہ شہر عالمی توجہ حاصل کر لے گا۔ بھارت میں ایسا مقابلہ دیکھنے کو ایک لاکھ سے زائد لوگ آتے ہیں۔ نیویارک میں بھی ایسا زبردست میلا لگ سکتا ہے۔''