مجروح سلطان پوری فن و شخصیت کا سرسری جائزہ
فن و شخصیت کا سرسری جائزہ
دُنیا بھر میں جہاں بھی اُردو زبان بولی جاتی ہے وہاں احبابِ ذوق کے دِلوں میں قادرالکلام شاعر مجروح سلطان پوری کا راج آج بھی بالکل اُسی طرح ہے جس طرح اُنہوں نے اپنی زندگی میں اپنی مقبولِ عام و زبان زدعام شاعری بالخصوص فلمی گیتوں کے ذریعے لوگوں کے دِلوں پر راج کیا اور اُنہیں اپنے سُخن کے سحر میں جکڑے رکھا۔
مجروح سلطان پوری جیسی قد آور ادبی شخصیت کے بارے میں محض دو چار صفحوں کا مضمون لکھ دینا اس ہمہ جہت شخصیت کے ساتھ نا انصافی ہو گی۔ دو چار صفحوں میں ان کے فن اور شخصیت کے کسی ایک پہلو کا بھی احاطہ کرنا میں سمجھتا ہوں ممکن نہیں۔ تاہم اُن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اِس نام ور ادبی شخصیت سے متعلق چند چیدہ و نمایاں پہلوؤں کا سرسری تذکرہ حسبِ ذیل ہے۔
سلطان پور، اتر پردیش، بھارت کے مسلمان راجپوت خاندان میں یکم اکتوبر 1919ء کو جنم لینے والے اسرار الحسن خان جنھیں دنیائے شعر و سُخن مجروح سلطان پوری کے نام سے جانتی ہے، ایک نام ور شاعر اور ہندوستانی فلمی دُنیا میں ایک مہان نغمہ نگار کی حیثیت سے جانے و مانے جاتے ہیں۔
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم سلطان پور میں ہی ایک مدرسے سے حاصل کی جہاں آپ نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پڑھی۔ مدرسے کا ماحول سخت تھا جس کی وجہ سے مجروح کو مدرسہ چھوڑنا پڑا اور 1933ء میں انھوں نے لکھنؤ کے طبّیہ کالج میں داخلہ لے لیا اور تکمیلِ تعلیم کے بعد حکیم کی سند حاصل کی۔
حکمت کی تعلیم سے فارغ ہوکر مجروح نے فیض آباد کے قصبہ ٹانڈہ میں مطب قائم کیا، لیکن ان کی حکمت کام یاب نہیں ہوئی۔ طبیہ کالج میں تعلیم کے زمانے میں انھیں موسیقی سے بھی دل چسپی پیدا ہوئی تھی اور انھوں نے میوزک کالج میں داخلہ بھی لے لیا تھا لیکن جب یہ بات ان کے والد کو معلوم ہوئی تو وہ ہ ناراض ہوئے اور مجروح کو میوزک سیکھنے سے منع کردیا۔ اس طرح ان کا یہ شوق پورا نہیں ہو سکا۔
مجروح نے 1935 ء میں شاعری شروع کی۔ آپ نے کئی غزلیں اور نظمیں لکھیں۔ مجروح سلطان پوری نے شعر و ادب کی کوئی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی۔ تاہم، وہ اپنے وقت کے کئی شاعروں اور ادیبوں سے متاثر تھے، جن میں فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، اور کیفی اعظمی شامل ہیں۔ یہ ادیب ترقی پسند مصنفین کی تحریک سے وابستہ تھے جس کا مقصد ادب کے ذریعے سماجی اور سیاسی بیداری کو فروغ دینا تھا۔ مجروح سلطان پوری کی اپنے وقت کے دیگر ممتاز شاعروں اور ادیبوں جیسے علی سردار جعفری اور جان نثار اختر سے بھی دوستی تھی۔
آپ کے زبان زد عام اشعار میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
میرے ہی سنگ و خِشت سے تعمیرِ بام و در
میرے ہی گھر کو شہر میں شامل کہا نہ جائے
......
جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صِفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
......
شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اِک چراغ جلا دیا کبھی اِک چراغ بجھا دیا
......
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
......
رہتے تھے کبھی جن کے دل میں ہم جان سے بھی پیاروں کی طرح
بیٹھے ہیں انہیں کے کوچے میں ہم آج گنہ گاروں کی طرح
......
کوئی ہم دم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا
......
مجروحؔ قافلے کی مرے داستاں یہ ہے
رہبر نے مل کے لوٹ لیا راہزن کے ساتھ
......
غم حیات نے آوارہ کر دیا ورنہ
تھی آرزو کہ ترے در پہ صبح و شام کریں
......
مجروح نے اپنی پہلی غزل سلطان پور کے اک مشاعرہ میں پڑھی۔ آپ کا ترنم غضب کا تھا۔ آپ کی ذہنی تربیت میں جگر مرادآبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی کا بڑا ہاتھ رہا۔ فارسی اور اردو کی کلاسیکی شاعری کے مطالعے کا مشورہ رشید احمد صدیقی نے ہی آپ کو دیا۔
جہاں ایک طرف رشید صدیقی آپ کو دُنیائے سُخن میں تیزی سے اپنی منازل طے کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے وہیں جگر صاحب بھی ابھرتے ہوئے خوش گلو شاعروں کو ہر طرح سے پروموٹ کرتے تھے۔
خمار بارہ بنکوی، راز مرادابادی اور شمیم جے پوری سب ان کے ہی حاشیہ برداروں میں تھے۔ جگر صاحب مجروح کو بھی اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جانے لگے۔ تاہم وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ آپ کو ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے کم اور فلمی گیت و نغمہ نگار کی حیثیت سے زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی۔
مجروح نے اپنے سُخنوری کے ابتدائی زمانے سے ہی روایتی غزل نگاری میں سیاسی رمزیت پیدا کرکے یہ ثابت کیا کہ غزل کے تغزل کو قربان کیے بغیر ہی غزل میں ہر طرح کے مضامین، جذبات، احساسات اور تصورات کا موثر اور دل نشیں طریقے سے اظہار کیا جا سکتا ہے۔
مجروح نے کلاسیکی غزل کی علامتوں اور استعاروں میں خفیف تبدیلیاں کرتے ہوئے اک نئی معنوی اور لفظیاتی دنیا بسائی اور سیاسی رمزیت میں ڈوبی ہوئی، جدید غزل کو عصری صداقتوں کا پیکر بنا دیا۔
مجروح کی غزلوں میں صوفیانہ شاعری کے بے شمار استعارے ملتے ہیں جو ان کی فن کاری کی بدولت قارئین کے لیے زندہ علامتوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ روایتی لسانیاتی نظام سے نئے عہد کی حقیقتوں کے انشراح کا کام کچھ اس طرح لیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری کی صورت میں جو کچھ ظہور پذیر ہوا ہے اس نے کلاسیکی شاعری کے ترقی پسند ادب میں حیاتِ نو کا کام کیا ہے۔
انھوں نے ترقی پسند مصنفین کی تحریک کے عروج کے دور میں، جب نظم کے مقابلے میں غزل کو کمتر درجہ کی چیز سمجھا جاتا تھا بلکہ اس کے خلاف باقاعدہ مہم بھی چل رہی تھی، غزل کی آبرو کو سلامت رکھا۔ انھوں نے غزل کو اس کی تمام نزاکت، حسن اور بانکپن کے ساتھ زندہ رکھا اور اپنے مجموعہ کلام کو بھی ''غزل'' کا نام دیا۔ ان کی غزلیں اپنی مثال آپ ہیں جن میں زبان و بیان کی عمدگی کے ساتھ اپنے عہد اور اس کے درد کو بیان کیا گیا ہے۔
ان کا پیرایہ بیان اس قدر موثر ہے کہ دل میں گھر کئے بغیر نہیں رہتا۔ گو کہ مجروح ترقی پسند مصنفین کی تحریک سے وابستہ تھے اور فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی کی تخلیقات سے متاثر تھے۔ تاہم ترقی پسندوں نے ان کی غزل گوئی کی ہر طرح حوصلہ سے شکنی کی اور ان کو محض اخلاقاً اپنے ساتھ لگائے رہے اور خود انھیں بھی ترقی پسندوں میں خود کو شامل رکھنے کے لئے ایسے شعر بھی کہنے پڑے جن کے لیے وہ بعد میں نادم رہے۔
مجروح کو اس بات کا غم رہا کہ ان کے ایسے ہی چند اشعار کو اچھال کر کچھ لوگ ان کی تمام شاعری کی خوبیوں کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی نظریاتی وابستگی کی بناء پر انھیں جیل بھی جانا پڑا۔ انھوں نے بہت کم کہا لیکن جو کچھ کہا وہ لاجواب ہے۔
مجروح سلطان پوری کی غزلیں اپنی سادگی اور جذبات کی گہرائی کے لیے مشہور تھیں۔ ان کا لکھنے کا ایک انوکھا انداز تھا جس نے روایتی اردو شاعری کو جدید ہندی زبان کے ساتھ ہم آمیز کیا۔ آپ کے گانے اکثر رومانوی اور فلسفیانہ ہیں اور یہ نسل در نسل آج بھی روزِاول کی طرح مقبولِ عام ہیں۔
آپ نے 1946 میں فلم ''شاہجہاں'' کے لیے اپنا پہلا فلمی گانا لکھا۔ آپ نے ''پیاسا''؛ ''چودھویں کا چاند''؛ ''دل اپنا اور پریت پرائی'' اور ''تیسری منزل'' جیسی کئی کام یاب فلموں کے بول لکھے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ فلمی گیت نگاری کی طرف آپ قصداً نہیں گئے بلکہ آپ کو بصد اصرار اس جانب لایا گیا۔ مجروح سلطان پوری کا اپنی زندگی کے اس ڈگر کی جانب قدم بڑھانے کے پیچھے جو واقعہ ہے وہ کچھ یُوں ہے۔
1945ء میں مجروح صاحب بمبئی میں ایک مشاعرے میں شریک تھے۔ مجروح ایک قادرالکلام شاعر تو تھے ہی مشاعرہ گاہ میں انہیں خوب سراہا گیا تھا۔ سامعین میں اس وقت کے مشہور فلم ڈائریکٹر اے۔آر کاردار بھی تھے۔ وہ مجروح کی شاعری سے بہت متاثر ہوئے اور آپ کو فلموں کے لئے گیت لکھنے کی پیشکش کی۔ مجروح نے فلمی گیت نگاری کی طرف رجحان نہ ہونے کے سبب اس پیش رفت کو یکسر مسترد کردیا۔
تاہم بعد ازآں جگر صاحب کے اصرار اور اس بات کا احساس دلانے پر کہ یہ مجروح کے مالی حالات بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہوگا، مجروح نے اس پیشکش کو قبول کرلیا۔ چناںچہ آپ کو نوشاد سے ملوایا گیا۔ نوشاد نے مجروح کو ایک دھن سنائی اور اس پر ایک نغمہ لکھنے کو کہا۔ مجروح نے اس دھن پر یوں لکھا:
جب اس نے گیسو بکھرائے
نوشاد کو یہ گیت پسند آیا اور انہوں نے مجروح کے ساتھ فلم شاہ جہاں کے گیت لکھنے کا معاہدہ کرلیا۔ اس فلم کے گیت بے حد مقبول ہوئے۔ فلم شاہ جہاں کا سب سے مشہور گیت ''جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے'' رہا۔ یُوں اس کے بعد آپ کو انتہائی پرکشش تنخواہ پر اُنہوں نے اپنی فلموں کے گیت لکھنے کے لیے مستقل طور پر ملازمت پر رکھ لیا۔
اس وقت وہ فلم ''شاہجہاں'' بنا رہے تھے جس کے میوزک ڈائریکٹر نوشاد اور ہیرو کے ایل سہگل تھے جو فلموں میں اپنی آواز میں گایا کرتے تھے۔
اس فلم کا مجروح کا لکھا ہوا اور سہگل کا گیا ہوا گانا ''جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے'' امر ہوگیا۔ سہگل کی وصیت تھی کہ ان کے مرنے پر یہ گانا ان کی ارتھی کے ساتھ بجایا جائے۔ کسی نام ور فلمی ہیرو اور گایک کی طرف سے مجروح کے لکھے ہوئے گیت کی بابت اس طرح کی خواہش کا اظہار کرنا بذاتِ خود شاعر کے قادرالکلام اور بامِ عروج پر ہونے کے دلیل ہے۔
آپ نے کم و بیش چھے دہائیوں تک بطورشاعر اور ہندوستانی فلمی صنعت پر ایک نغمہ نگار کی حیثیت سے راج کیا۔ 350 سے زائد فلموں کے لیے آپ نے گیت لکھے اور گیت بھی ایسے جو آج بھی سُننے والوں کے دلوں کے تار ویسے ہی چھیڑتے ہیں جیسا کہ اُس وقت سامعین کے دلوں میں تلاطم برپا کرتے تھے جب کہ یہ لکھے گئے اور فلمی گانوں کی صورت میں منظرِعام پر آئے۔
ایک طرف ''شاہ جہاں''؛ ''مہندی''؛''ڈولی''؛''انداز'' اور ''آرزو'' وہ فلمیں تھیں جن کے ذریعے مجروح بطور گیت نگار اپنی شہرت کے جھنڈے گاڑ رہے تھے تو دوسری طرف بائیں بازو کی سوچ رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کی طرف جھکاؤ نے آپ کو مشکل میں ڈال دیا۔ حکومت آپ کی اسٹیبلشمنٹ مخالف نظموں سے خوش نہیں ہوئی اور آپ کو 1949 میں بلراج ساہنی جیسے بائیں بازو کے لوگوں کے ساتھ جیل بھیج دیا گیا۔
مجروح کی گرفتاری 1948 میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی دوسری کانگریس کے بعد کمیونسٹوں کی ملک گیر گرفتاری کے دوران ہوئی، جس میں کمیونسٹوں نے حکومت ہند کے خلاف انقلاب برپا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مجروح سے معافی مانگنے کو کہا گیا لیکن آپ نے انکار کردیا اور آپ کو دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔
مجروح سلطان پوری کو ہندوستانی سنیما میں ان کی خدمات پر متعدد ایوارڈز ملے۔ آپ کو ''چاہوں گا میں تجھے''؛ ''کبھی کبھی میرے دل میں'' اور ''تیرے بنا زندگی سے'' جیسے مقبولِ عام فلمی گیتوں پر تین بار بہترین گیت نگار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔
ادب اور فنون میں آپ کی خدمات کے لیے 1993 ء میں پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ 1993ء میں ہی ان کو فلمی دنیا کے سب سے بڑے ''دادا صاحب پھالکے ایوارڈ'' سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ آپ کی ادبی خدما ت کا اعتراف ''غالب انعام'' اور ''اقبال سمّان'' سے بھی کیا گیا۔
مجروح سلطان پوری ایک لیجنڈری گیت نگار تھے جنہوں نے ہندوستانی سنیما پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ ان کے گیت آج بھی مقبول ہیں اور ادب اور فنون میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یوں تو آپ کے فلمی گیتوں کی فہرست بہت طویل ہے تاہم ان میں سے چند نمایاں گیت حسبِ ذیل ہیں:
1۔ تیرے بنا زندگی سے 2۔ چاہوں گا میں تجھے
3۔ کبھی کبھی میرے دل میں 4۔ تم جو مل گئے ہو
5۔ یہ دنیا یہ محفل 6۔ چودھویں کا چاند ہو
7۔ چلتے چلتے یونہی کوئی مل گیا تھا 8۔ آج پھر جینے کی تمنا ہے
9۔ اے میری زہرہ جبیں 10۔ دل اپنا اور پریت پرائی
وارث کرمانی نے مجروح کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے کہ:
اگر بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے تمام شاعروں کے کلام سے سَو بہترین غزلیں منتخب کی جائیں تو اس میں مجروح کی کئی غزلیں آجائیں گی۔ اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر ایسے اشعار کو یک جا کیا جو اس وقت باذوق لوگوں کی زبان پر چڑھے ہوئے ہیں تو ان میں مجروح کے شعروں کی تعداد اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ ہوگی۔
آخیر عمر میں آپ پھیپھڑے کی بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے۔ 24 مئی 2000ء کو بمبئی کے لیلا وتی اسپتال میں آپ کا انتقال ہوگیا۔
جگن ناتھ آزاد کے الفاظ میں مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا ایک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔
اس میں پیکرتراشی کے نقوش جا بجا اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ مشفق خواجہ کا کہنا ہے کہ جدید اردو غزل کی تاریخ میں مجروح سلطان پوری کی حیثیت ایک رجحان ساز غزل گو کی ہے۔ انھوں نے غزل کے کلاسیکی مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے اسے جس طرح اپنے عہد کے مسائل کا آئینہ دار بنایا وہ کچھ انھیں کا حصہ ہے۔ پرانی اور نئی غزل کے درمیان امتیاز کرنے کے لیے اگر کسی ایک مجموعہ غزل کی نشان دہی کی جائے تو وہ مجروح سلطان پوری کا مجموعہ کلام ''غزل'' ہوگا۔
ہندوستان کے محکمۂ ڈاک نے 2013 ء میں انڈین سینما کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا جس پر مجروح سلطان پوری کی تصویر ہے۔ بحیثیتِ تحقیق و تنقید نگار میرے نزدیک یہ اس بات کا اعتراف کے مترادف ہے کہ بیسویں صدی میں بھارتی سنیما کو مجروح سے بہتر کوئی فلمی گیت نگار میسر نہیں آسکا۔
مجروح سلطان پوری کے فن او ر شخصیت کے مطالعہ میں دل چسپی رکھنے والے قارئین کے لیے عرض ہے کہ ''مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو'' نے سال 2019ء میں ''مجروح فہمی'' کے نام سے ضخیم کتاب شائع کی، جس کے مصنف و مولف جناب آصف اعظمی ہیں۔ اِس میں مجروح کے بیشتر احباب اور رفقاء نے مجروح صاحب کے فن و شخصیت کے بارے میں اپنے خیالات و مشاہدات اپنے مضامین کی صورت میں قلم بند کئے ہیں۔ قارئین اس موضوع پر تفصیلی معلومات کے لیے اس کتاب سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں۔
مجروح سلطان پوری جیسی قد آور ادبی شخصیت کے بارے میں محض دو چار صفحوں کا مضمون لکھ دینا اس ہمہ جہت شخصیت کے ساتھ نا انصافی ہو گی۔ دو چار صفحوں میں ان کے فن اور شخصیت کے کسی ایک پہلو کا بھی احاطہ کرنا میں سمجھتا ہوں ممکن نہیں۔ تاہم اُن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے اِس نام ور ادبی شخصیت سے متعلق چند چیدہ و نمایاں پہلوؤں کا سرسری تذکرہ حسبِ ذیل ہے۔
سلطان پور، اتر پردیش، بھارت کے مسلمان راجپوت خاندان میں یکم اکتوبر 1919ء کو جنم لینے والے اسرار الحسن خان جنھیں دنیائے شعر و سُخن مجروح سلطان پوری کے نام سے جانتی ہے، ایک نام ور شاعر اور ہندوستانی فلمی دُنیا میں ایک مہان نغمہ نگار کی حیثیت سے جانے و مانے جاتے ہیں۔
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم سلطان پور میں ہی ایک مدرسے سے حاصل کی جہاں آپ نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پڑھی۔ مدرسے کا ماحول سخت تھا جس کی وجہ سے مجروح کو مدرسہ چھوڑنا پڑا اور 1933ء میں انھوں نے لکھنؤ کے طبّیہ کالج میں داخلہ لے لیا اور تکمیلِ تعلیم کے بعد حکیم کی سند حاصل کی۔
حکمت کی تعلیم سے فارغ ہوکر مجروح نے فیض آباد کے قصبہ ٹانڈہ میں مطب قائم کیا، لیکن ان کی حکمت کام یاب نہیں ہوئی۔ طبیہ کالج میں تعلیم کے زمانے میں انھیں موسیقی سے بھی دل چسپی پیدا ہوئی تھی اور انھوں نے میوزک کالج میں داخلہ بھی لے لیا تھا لیکن جب یہ بات ان کے والد کو معلوم ہوئی تو وہ ہ ناراض ہوئے اور مجروح کو میوزک سیکھنے سے منع کردیا۔ اس طرح ان کا یہ شوق پورا نہیں ہو سکا۔
مجروح نے 1935 ء میں شاعری شروع کی۔ آپ نے کئی غزلیں اور نظمیں لکھیں۔ مجروح سلطان پوری نے شعر و ادب کی کوئی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی۔ تاہم، وہ اپنے وقت کے کئی شاعروں اور ادیبوں سے متاثر تھے، جن میں فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، اور کیفی اعظمی شامل ہیں۔ یہ ادیب ترقی پسند مصنفین کی تحریک سے وابستہ تھے جس کا مقصد ادب کے ذریعے سماجی اور سیاسی بیداری کو فروغ دینا تھا۔ مجروح سلطان پوری کی اپنے وقت کے دیگر ممتاز شاعروں اور ادیبوں جیسے علی سردار جعفری اور جان نثار اختر سے بھی دوستی تھی۔
آپ کے زبان زد عام اشعار میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
میرے ہی سنگ و خِشت سے تعمیرِ بام و در
میرے ہی گھر کو شہر میں شامل کہا نہ جائے
......
جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صِفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
......
شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اِک چراغ جلا دیا کبھی اِک چراغ بجھا دیا
......
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
......
رہتے تھے کبھی جن کے دل میں ہم جان سے بھی پیاروں کی طرح
بیٹھے ہیں انہیں کے کوچے میں ہم آج گنہ گاروں کی طرح
......
کوئی ہم دم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا
......
مجروحؔ قافلے کی مرے داستاں یہ ہے
رہبر نے مل کے لوٹ لیا راہزن کے ساتھ
......
غم حیات نے آوارہ کر دیا ورنہ
تھی آرزو کہ ترے در پہ صبح و شام کریں
......
مجروح نے اپنی پہلی غزل سلطان پور کے اک مشاعرہ میں پڑھی۔ آپ کا ترنم غضب کا تھا۔ آپ کی ذہنی تربیت میں جگر مرادآبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی کا بڑا ہاتھ رہا۔ فارسی اور اردو کی کلاسیکی شاعری کے مطالعے کا مشورہ رشید احمد صدیقی نے ہی آپ کو دیا۔
جہاں ایک طرف رشید صدیقی آپ کو دُنیائے سُخن میں تیزی سے اپنی منازل طے کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے وہیں جگر صاحب بھی ابھرتے ہوئے خوش گلو شاعروں کو ہر طرح سے پروموٹ کرتے تھے۔
خمار بارہ بنکوی، راز مرادابادی اور شمیم جے پوری سب ان کے ہی حاشیہ برداروں میں تھے۔ جگر صاحب مجروح کو بھی اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جانے لگے۔ تاہم وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ آپ کو ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے کم اور فلمی گیت و نغمہ نگار کی حیثیت سے زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی۔
مجروح نے اپنے سُخنوری کے ابتدائی زمانے سے ہی روایتی غزل نگاری میں سیاسی رمزیت پیدا کرکے یہ ثابت کیا کہ غزل کے تغزل کو قربان کیے بغیر ہی غزل میں ہر طرح کے مضامین، جذبات، احساسات اور تصورات کا موثر اور دل نشیں طریقے سے اظہار کیا جا سکتا ہے۔
مجروح نے کلاسیکی غزل کی علامتوں اور استعاروں میں خفیف تبدیلیاں کرتے ہوئے اک نئی معنوی اور لفظیاتی دنیا بسائی اور سیاسی رمزیت میں ڈوبی ہوئی، جدید غزل کو عصری صداقتوں کا پیکر بنا دیا۔
مجروح کی غزلوں میں صوفیانہ شاعری کے بے شمار استعارے ملتے ہیں جو ان کی فن کاری کی بدولت قارئین کے لیے زندہ علامتوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ روایتی لسانیاتی نظام سے نئے عہد کی حقیقتوں کے انشراح کا کام کچھ اس طرح لیتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعری کی صورت میں جو کچھ ظہور پذیر ہوا ہے اس نے کلاسیکی شاعری کے ترقی پسند ادب میں حیاتِ نو کا کام کیا ہے۔
انھوں نے ترقی پسند مصنفین کی تحریک کے عروج کے دور میں، جب نظم کے مقابلے میں غزل کو کمتر درجہ کی چیز سمجھا جاتا تھا بلکہ اس کے خلاف باقاعدہ مہم بھی چل رہی تھی، غزل کی آبرو کو سلامت رکھا۔ انھوں نے غزل کو اس کی تمام نزاکت، حسن اور بانکپن کے ساتھ زندہ رکھا اور اپنے مجموعہ کلام کو بھی ''غزل'' کا نام دیا۔ ان کی غزلیں اپنی مثال آپ ہیں جن میں زبان و بیان کی عمدگی کے ساتھ اپنے عہد اور اس کے درد کو بیان کیا گیا ہے۔
ان کا پیرایہ بیان اس قدر موثر ہے کہ دل میں گھر کئے بغیر نہیں رہتا۔ گو کہ مجروح ترقی پسند مصنفین کی تحریک سے وابستہ تھے اور فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی کی تخلیقات سے متاثر تھے۔ تاہم ترقی پسندوں نے ان کی غزل گوئی کی ہر طرح حوصلہ سے شکنی کی اور ان کو محض اخلاقاً اپنے ساتھ لگائے رہے اور خود انھیں بھی ترقی پسندوں میں خود کو شامل رکھنے کے لئے ایسے شعر بھی کہنے پڑے جن کے لیے وہ بعد میں نادم رہے۔
مجروح کو اس بات کا غم رہا کہ ان کے ایسے ہی چند اشعار کو اچھال کر کچھ لوگ ان کی تمام شاعری کی خوبیوں کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی نظریاتی وابستگی کی بناء پر انھیں جیل بھی جانا پڑا۔ انھوں نے بہت کم کہا لیکن جو کچھ کہا وہ لاجواب ہے۔
مجروح سلطان پوری کی غزلیں اپنی سادگی اور جذبات کی گہرائی کے لیے مشہور تھیں۔ ان کا لکھنے کا ایک انوکھا انداز تھا جس نے روایتی اردو شاعری کو جدید ہندی زبان کے ساتھ ہم آمیز کیا۔ آپ کے گانے اکثر رومانوی اور فلسفیانہ ہیں اور یہ نسل در نسل آج بھی روزِاول کی طرح مقبولِ عام ہیں۔
آپ نے 1946 میں فلم ''شاہجہاں'' کے لیے اپنا پہلا فلمی گانا لکھا۔ آپ نے ''پیاسا''؛ ''چودھویں کا چاند''؛ ''دل اپنا اور پریت پرائی'' اور ''تیسری منزل'' جیسی کئی کام یاب فلموں کے بول لکھے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ فلمی گیت نگاری کی طرف آپ قصداً نہیں گئے بلکہ آپ کو بصد اصرار اس جانب لایا گیا۔ مجروح سلطان پوری کا اپنی زندگی کے اس ڈگر کی جانب قدم بڑھانے کے پیچھے جو واقعہ ہے وہ کچھ یُوں ہے۔
1945ء میں مجروح صاحب بمبئی میں ایک مشاعرے میں شریک تھے۔ مجروح ایک قادرالکلام شاعر تو تھے ہی مشاعرہ گاہ میں انہیں خوب سراہا گیا تھا۔ سامعین میں اس وقت کے مشہور فلم ڈائریکٹر اے۔آر کاردار بھی تھے۔ وہ مجروح کی شاعری سے بہت متاثر ہوئے اور آپ کو فلموں کے لئے گیت لکھنے کی پیشکش کی۔ مجروح نے فلمی گیت نگاری کی طرف رجحان نہ ہونے کے سبب اس پیش رفت کو یکسر مسترد کردیا۔
تاہم بعد ازآں جگر صاحب کے اصرار اور اس بات کا احساس دلانے پر کہ یہ مجروح کے مالی حالات بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہوگا، مجروح نے اس پیشکش کو قبول کرلیا۔ چناںچہ آپ کو نوشاد سے ملوایا گیا۔ نوشاد نے مجروح کو ایک دھن سنائی اور اس پر ایک نغمہ لکھنے کو کہا۔ مجروح نے اس دھن پر یوں لکھا:
جب اس نے گیسو بکھرائے
نوشاد کو یہ گیت پسند آیا اور انہوں نے مجروح کے ساتھ فلم شاہ جہاں کے گیت لکھنے کا معاہدہ کرلیا۔ اس فلم کے گیت بے حد مقبول ہوئے۔ فلم شاہ جہاں کا سب سے مشہور گیت ''جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے'' رہا۔ یُوں اس کے بعد آپ کو انتہائی پرکشش تنخواہ پر اُنہوں نے اپنی فلموں کے گیت لکھنے کے لیے مستقل طور پر ملازمت پر رکھ لیا۔
اس وقت وہ فلم ''شاہجہاں'' بنا رہے تھے جس کے میوزک ڈائریکٹر نوشاد اور ہیرو کے ایل سہگل تھے جو فلموں میں اپنی آواز میں گایا کرتے تھے۔
اس فلم کا مجروح کا لکھا ہوا اور سہگل کا گیا ہوا گانا ''جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے'' امر ہوگیا۔ سہگل کی وصیت تھی کہ ان کے مرنے پر یہ گانا ان کی ارتھی کے ساتھ بجایا جائے۔ کسی نام ور فلمی ہیرو اور گایک کی طرف سے مجروح کے لکھے ہوئے گیت کی بابت اس طرح کی خواہش کا اظہار کرنا بذاتِ خود شاعر کے قادرالکلام اور بامِ عروج پر ہونے کے دلیل ہے۔
آپ نے کم و بیش چھے دہائیوں تک بطورشاعر اور ہندوستانی فلمی صنعت پر ایک نغمہ نگار کی حیثیت سے راج کیا۔ 350 سے زائد فلموں کے لیے آپ نے گیت لکھے اور گیت بھی ایسے جو آج بھی سُننے والوں کے دلوں کے تار ویسے ہی چھیڑتے ہیں جیسا کہ اُس وقت سامعین کے دلوں میں تلاطم برپا کرتے تھے جب کہ یہ لکھے گئے اور فلمی گانوں کی صورت میں منظرِعام پر آئے۔
ایک طرف ''شاہ جہاں''؛ ''مہندی''؛''ڈولی''؛''انداز'' اور ''آرزو'' وہ فلمیں تھیں جن کے ذریعے مجروح بطور گیت نگار اپنی شہرت کے جھنڈے گاڑ رہے تھے تو دوسری طرف بائیں بازو کی سوچ رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کی طرف جھکاؤ نے آپ کو مشکل میں ڈال دیا۔ حکومت آپ کی اسٹیبلشمنٹ مخالف نظموں سے خوش نہیں ہوئی اور آپ کو 1949 میں بلراج ساہنی جیسے بائیں بازو کے لوگوں کے ساتھ جیل بھیج دیا گیا۔
مجروح کی گرفتاری 1948 میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی دوسری کانگریس کے بعد کمیونسٹوں کی ملک گیر گرفتاری کے دوران ہوئی، جس میں کمیونسٹوں نے حکومت ہند کے خلاف انقلاب برپا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مجروح سے معافی مانگنے کو کہا گیا لیکن آپ نے انکار کردیا اور آپ کو دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔
مجروح سلطان پوری کو ہندوستانی سنیما میں ان کی خدمات پر متعدد ایوارڈز ملے۔ آپ کو ''چاہوں گا میں تجھے''؛ ''کبھی کبھی میرے دل میں'' اور ''تیرے بنا زندگی سے'' جیسے مقبولِ عام فلمی گیتوں پر تین بار بہترین گیت نگار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔
ادب اور فنون میں آپ کی خدمات کے لیے 1993 ء میں پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ 1993ء میں ہی ان کو فلمی دنیا کے سب سے بڑے ''دادا صاحب پھالکے ایوارڈ'' سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ آپ کی ادبی خدما ت کا اعتراف ''غالب انعام'' اور ''اقبال سمّان'' سے بھی کیا گیا۔
مجروح سلطان پوری ایک لیجنڈری گیت نگار تھے جنہوں نے ہندوستانی سنیما پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ ان کے گیت آج بھی مقبول ہیں اور ادب اور فنون میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یوں تو آپ کے فلمی گیتوں کی فہرست بہت طویل ہے تاہم ان میں سے چند نمایاں گیت حسبِ ذیل ہیں:
1۔ تیرے بنا زندگی سے 2۔ چاہوں گا میں تجھے
3۔ کبھی کبھی میرے دل میں 4۔ تم جو مل گئے ہو
5۔ یہ دنیا یہ محفل 6۔ چودھویں کا چاند ہو
7۔ چلتے چلتے یونہی کوئی مل گیا تھا 8۔ آج پھر جینے کی تمنا ہے
9۔ اے میری زہرہ جبیں 10۔ دل اپنا اور پریت پرائی
وارث کرمانی نے مجروح کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے کہ:
اگر بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے تمام شاعروں کے کلام سے سَو بہترین غزلیں منتخب کی جائیں تو اس میں مجروح کی کئی غزلیں آجائیں گی۔ اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر ایسے اشعار کو یک جا کیا جو اس وقت باذوق لوگوں کی زبان پر چڑھے ہوئے ہیں تو ان میں مجروح کے شعروں کی تعداد اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ ہوگی۔
آخیر عمر میں آپ پھیپھڑے کی بیماری میں مبتلا ہوگئے تھے۔ 24 مئی 2000ء کو بمبئی کے لیلا وتی اسپتال میں آپ کا انتقال ہوگیا۔
جگن ناتھ آزاد کے الفاظ میں مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا ایک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔
اس میں پیکرتراشی کے نقوش جا بجا اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ مشفق خواجہ کا کہنا ہے کہ جدید اردو غزل کی تاریخ میں مجروح سلطان پوری کی حیثیت ایک رجحان ساز غزل گو کی ہے۔ انھوں نے غزل کے کلاسیکی مزاج کو برقرار رکھتے ہوئے اسے جس طرح اپنے عہد کے مسائل کا آئینہ دار بنایا وہ کچھ انھیں کا حصہ ہے۔ پرانی اور نئی غزل کے درمیان امتیاز کرنے کے لیے اگر کسی ایک مجموعہ غزل کی نشان دہی کی جائے تو وہ مجروح سلطان پوری کا مجموعہ کلام ''غزل'' ہوگا۔
ہندوستان کے محکمۂ ڈاک نے 2013 ء میں انڈین سینما کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا جس پر مجروح سلطان پوری کی تصویر ہے۔ بحیثیتِ تحقیق و تنقید نگار میرے نزدیک یہ اس بات کا اعتراف کے مترادف ہے کہ بیسویں صدی میں بھارتی سنیما کو مجروح سے بہتر کوئی فلمی گیت نگار میسر نہیں آسکا۔
مجروح سلطان پوری کے فن او ر شخصیت کے مطالعہ میں دل چسپی رکھنے والے قارئین کے لیے عرض ہے کہ ''مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو'' نے سال 2019ء میں ''مجروح فہمی'' کے نام سے ضخیم کتاب شائع کی، جس کے مصنف و مولف جناب آصف اعظمی ہیں۔ اِس میں مجروح کے بیشتر احباب اور رفقاء نے مجروح صاحب کے فن و شخصیت کے بارے میں اپنے خیالات و مشاہدات اپنے مضامین کی صورت میں قلم بند کئے ہیں۔ قارئین اس موضوع پر تفصیلی معلومات کے لیے اس کتاب سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں۔