بُک شیلف
بُک شیلف
تبلیغ
مصنف: صوفی شوکت رضا سرکار
قیمت: 200 روپے، صفحات: 78
ناشر: ادبستان، پاک ٹاور، کبیر سٹریٹ، اردو بازار ، لاہور
رابطہ نمبر: (03004140207)
کسی پیغام کو دوسرے تک پہنچانا تبلیغ ہے مگر عام طور پر یہ اصطلاح دین یا مذہب کی بات دوسرے تک پہنچانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔
مسلمانوں میں دین کی تبلیغ کے لئے باقاعدہ مختلف جماعتیں کام کر رہی ہیں ، انھوں نے اپنا شب و روز اس کام کے لیے وقف کر رکھا ہے، وہ دین اسلام سکھانے کے لئے ہر شعبہ زندگی سے رابطے میں رہتے ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں فرقہ واریت کا زہر جس طریقے سے نفوذ کر چکا ہے اس کی وجہ سے انھیں اپنی مساعی میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملتی ۔ صوفی شوکت رضا سرکار روحانیت پر متعدد کتابیں تصنیف فرما چکے ہیں ، ان کی تحریروں میں نقطہ آفرینی عروج پر ہوتی ہے جسے پڑھ کر قاری مبہوت رہ جاتا ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب کے ٹائٹل پر ان کا ایک قول درج ہے جو قاری کو چونکا دیتا ہے، فرماتے ہیں '' اللہ تعالیٰ جس سے محبت کرتا ہے علم دے کر اسے نور کی طرف بلا لیتا ہے ۔ جسے اللہ علم سے نور کی طرف بلا لے اس کی تبلیغ ہی اللہ کی تبلیغ ہے ۔ علم تو شیطان کے پاس بھی ہے مگر وہ کبھی نور کی طرف نہیں آتا ، نور سے بھاگتا ہے ۔
علم سے نہیں بھاگتا ۔ '' اس سے پتہ چلتا ہے کہ تبلیغ کی اتنی اہمیت ہے کہ جو بھی اس طرف آتا ہے وہ گویا اللہ کے راستے کی طرف چل پڑتا ہے اور یہی راستہ ہے جس پر انبیائؑ چلے ۔ اسی طرح تبلیغ کے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں '' تبلیغ مومن کو امیر بنا دیتی ہے دل کا بھی اور خیالوں کا بھی ، علم کا بھی اور شعور کا بھی، وفا کا بھی اور پاسداری اور عزت کا بھی ، صبر و تحمل کا بھی اور ذکر و فکر کا بھی ۔'' یوں لگتا ہے کہ ان کے قلم سے الفاظ قرطاس پر منتقل نہیں ہو رہے بلکہ موتیوں کی ایک لڑی پروئی جا رہی ہے۔
کتاب کو دو ابواب تبلیغ اور مبلغ میں تقسیم کیا گیا ہے جن کے تحت متعدد ذیلی عنوانات کے تحت تشریح کی گئی ہے۔ تبلیغ کے حوالے سے بہت اہم کتاب ہے جس کا روحانی پہلو بھی ہے ، ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔
گلوبل سائبر وار
مصنف : ڈاکٹر اختر احمد
قیمت: 800 روپے، صفحات:400
ناشر: شہباز پرنٹرز، لاہور
رابطہ نمبر: (03335242146)
ڈاکٹر اختر احمد متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ، ان کا زاویہ نگاہ دوسروں سے اس حوالے سے مختلف ہے کہ وہ اپنی اکثر تحریروں میں ایک خاص پیغام دینا چاہتے ہیں وہ بھی خاص طور پر نوجوان نسل کو ۔ ان کی تصانیف غلبہ اسلام ، قرآن کا آفاقی اور انقلابی پیغام ، دنیا سے غربت اور جہالت کے خاتمے کا عالمگیر منصوبہ ، اسلام کا بہت جلد دنیا پر عروج ، اللہ کا پیغام اس کے بندوں کے نام ، دنیا پر کونسا دین غالب آئے گا ، اسلام دین فطرت ، سنہری دور اور عالمگیر انقلاب یہ سب مسلم امہ کے لئے مشعل راہ ہیں ۔
اس کے علاوہ کچھ تصانیف روحانیت اور طب کے حوالے سے بھی ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب انتہائی اہم ہے کیونکہ اس پر عمل سے ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہے ۔
والدین کے لئے انتہائی اہم کتاب تا کہ وہ جان سکیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کی ذہنی ، جسمانی اور اخلاقی صلاحیتوں کو کیسے تباہ کیا جا رہا ہے ۔ ملحدین کس طرح نوجوانوں کو دین سے دور کر رہے ہیںاور اس سب سے آگاہی کے بعد وہ اپنے بچوں کی کیسی تربیت کریں۔
ملحدین کے سو سوالوں کے شافی جواب بھی دیئے گئے ہیں ۔ دنیا کو پیش آنے والی مشکلات اور مصیبتوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے آسان لائحہ عمل بھی بتایا گیا ہے ۔ طاغوتی قوتیں کس طرح ایجنڈا 2030ء کے ذریعے دنیا کے انسانوں کو اپنا غلام بنانا چاہتی ہیں ، اس کے مقابلے پر اللہ والوں کا ایجنڈا کیا ہے وہ بھی بیان کیا گیا ہے ۔
ایک ایسا لائحہ عمل دیا گیا ہے جس پر عمل کر کے دنیا سے غربت اور جہالت ختم ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح طاغوتی طاقتوں کے منصوبوں کو اللہ کی مدد سے خاک میں ملانے کا لائحہ عمل بھی دیا گیا ہے ۔ خاص طور پر جدید ٹیکنالوجی اور جدید طریقہ جنگ کے حوالے سے بڑی تفصیل سے لکھا گیا ہے تاکہ ان کے برے اثرات سے بچا جا سکے ۔
یہ کتاب ملک کے اندرونی اور بیرونی محاذوں پر سرگرم اداروں کے لیے بھی بہت اہم ہے کیونکہ وہ اپنی پالیسیز کے حوالے سے اس سے مدد لے سکتے ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے مصنف اپنی تمام تر بصیرت مسلم امہ کی بہتری کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔ ان کی یہ کاوش انتہائی شاندار ہے ، ہر شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
French short stories
ایڈیٹنگ : ناصر اعوان
قیمت:1400 روپے، صفحات:192
ملنے کا پتہ: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور
رابطہ نمبر: (03014208780)
مختصر کہانی ہوتی تو چند صفحات کی ہے مگر ان چند صفحات میں ہی بہت کچھ کہہ جاتی ہے ۔ اس کے مقبول عام ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ قاری کم وقت میں کہانی پڑھ کر لطف اندوز ہو سکتا ہے ، کیونکہ موجودہ دور میں وقت ہی سب سے قیمتی شمار کیا جاتا ہے اسی لیے وہ مختصر کہانی کی طرف جلد متوجہ ہوتا ہے۔
آج کے دور میں زیر مشاہدہ آیا ہے کہ بہت سے قاری کسی بھی کتاب کی ضخامت دیکھ کر بھی خریدنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب میں شامل مختصر کہانیاں فرانسیسی سے انگریزی میں ترجمہ کی گئی ہیں ۔
ان کہانیوں کو لکھنے والوں میں موپاساں، الفانسے ،الفرڈ ڈی مسٹ، جیولز کلیرٹی ، آرمنڈ سلویسٹر ، مارسل پری ووسٹ ، فرانکوئس ، پائول ریناڈین اور رینے بازین شامل ہیں جو ناصرف فرانسیسی ادب میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں بلکہ عالمی ادب میں بھی انھیں اونچا مقام حاصل ہے ۔
کتاب میں 17 کہانیاں شامل کی گئی ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے قاری تحریر کے بہائو میں بہتا چلا جاتا ہے اور جب تک کہانی ختم نہیں کر لیتا نشست سے اٹھنے کو جی نہیں چاہتا اور یہی کسی بھی کہانی کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے کہ وہ قاری کو مقناطیس کی طرح اپنے ساتھ چمٹا لیتی ہے۔ کہانی میں زندگی کے جس بھی پہلو کو پیش کیا گیا ہے اس کا ایک ایک نقش ابھر کر سامنے آجاتا ہے ۔ دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شاندار طباعت کی گئی ہے۔ کہانیوں سے دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔
٭٭٭
فقیر بستی میں تھا
(مولانا محمد حسین آزاد کی کہانی ، میری زبانی)
مصنف: علی اکبر ناطق، قیمت: 999 روپے
ناشر: بک کارنر ، جہلم ۔ رابطہ:03215440882
مولانا محمد حسین آزاد اردو کے ممتاز ادیب اور شاعر تھے ۔ انھیں شمس العلما قرار دیا گیا ۔ انھوں نے نہ صرف اردو نثر کو ایک نیا انداز دیا بلکہ اردو نظم کو بھی نئی شکل و صورت عطا کی ۔ انھوں نے اردو دنیا کو بہت سی گراں قدر تصانیف دیں ۔
سب سے زیادہ شہرہ 'آب حیات' کا ہے ۔
جناب علی اکبر ناطق کی کتاب دیکھی تو طبیعت پھڑکی کہ اس پر تبصرہ کی غرض سے کچھ لکھا تو ایسے لکھوں گا ، ویسے لکھوں گا ۔ تاہم جب یہ پڑھا کہ یہ کتاب کیسے اور کیوں لکھی گئی تو یہ مجھے محبت کی ایک عجب داستان محسوس ہوئی ، دل چاہا کہ یہ کہانی قارئین کی خدمت میں بھی پیش کروں ۔ علی اکبر ناطق لکھتے ہیں :
' میں دسویں جماعت میں تھا ، اپنے گاؤں میں رہتا تھا ۔ گھر کے سامنے ایک پانی کا نالہ بہتا تھا اور نالے پر ٹاہلیوں کے بے شمار چھاؤں بھرے درخت تھے ۔ ان کے نیچے بان کی چارپائی بچھا کر اکثر کتابیں پڑھتا تھا ۔ ایک دن میرے ہاتھ ڈاکٹر سید عبداللہ کی کتاب 'مباحث' آ گئی ۔ مختلف مضامین کی دلچسپ کتاب تھی ۔ اسی میں ایک مضمون 'میں اور میر ' بھی تھا ۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے مولوی محمد حسین آزاد پر جرح کی تھی کہ اس نے 'آب حیات ' میں میر صاحب کے کردار کو متنازع بنا ڈالا ، میر کو مبالغہ کی حد تک خود پسند ثابت کیا۔ مجھے اس مضمون میں دیے گئے دلائل بہت عجیب اور متضاد لگے ۔
مضمون پڑھ کر الٹا میں آزاد کے لیے تڑپ اٹھا ۔ جلد مولوی آزاد کی کتاب ' آب حیات' کو ڈھونڈنے نکلا ۔ اوکاڑہ شہر میں کسی دکان پر 'آب حیات ' نہیں تھی ۔ اسی دن ریلوے اسٹیشن پر آیا ، ایک بجے کی ریل پر بیٹھا اور لاہور پہنچ گیا ۔ اردو بازار لاہور سے 'آب حیات ' خریدی اور شام کی ٹرین سے اپنے شہر نکل لیا ۔ راستے میں کتاب کا بے صبری سے مطالعہ شروع کر دیا ۔ پھر بہت عرصہ یہ کتاب میری حرز جان رہی اور میں مولانا کا عاشق ہو گیا ۔
پھر جہاں سے جو کچھ بھی آزاد کے حوالے سے ملا ، پڑھ ڈال ا۔ لاہور میں آزاد کے ٹھکانوں کو تلاش کیا ۔ جب دہلی گیا تو وہاں بھی آزاد کے پرانے گھر اور کھجور والی مسجد کو ڈھونڈا ۔ آزاد کے رشتے داروں کو ڈھونڈا ۔ ان میں ایک آغا سلمان باقر ملے ، انھوں نے مجھے آزاد کے متعلق بہت مالامال کر دیا، خدا انھیں سلامت رکھے حتیٰ کہ آزاد کے بارے میں میری معلومات دہلی ، لکھنو ٔ، لاہور اور دیگر مقامات کے حوالے سے انتہائی اہم ہو گئیں ۔ بعض معلومات اتنی دلچسپ ، بالکل نئی اور ہمہ رنگ تھیں کہ پہلے تحریر میں نہیں آئی تھیں اور مجھے محسوس ہوا کہ یہ سب دست غیبی ہے ۔ قدرت چاہتی ہے کہ یہ ان قارئین تک پہنچایا جائے جو اردو ادب اور مولانا محمد حسین آزاد سے محبت کرتے ہیں ۔ چنانچہ ایک وقت ایسا آیا کہ میں نے آزاد پر قلم اٹھایا اور یہ کتاب ' فقیر بستی میں تھا ' وجود میں آئی' ۔
اب تک کی تحریر سے پڑھنے والوں کو بخوبی اندازہ ہو چکا ہو گا کہ یہ کتاب ہے کیا ؟ اور اس کتاب میں ہے کیا؟ اب ذرا مختصر تعارف علی اکبر ناطق کا ۔
ممتاز پاکستانی ناول نگار ، افسانہ نگار اور شاعر ہیں ۔ دو ناول جبکہ شاعری اور افسانوں کے متعدد مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ پنجاب کے علاقے اوکاڑہ سے تعلق ہے ۔ وہ راج مستری کے طور پر مزدوری کیا کرتے تھے ، پندرہ برس یونہی گزرے ۔ ساتھ پرائیویٹ طور پر ماسٹر کے امتحانات بھی پاس کیے ، اس کے ساتھ اردو نثر ، شاعری ، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی کرتے رہے ۔ یوں وہ علی اکبر ناطق بنے جو آج کل ہمارے سامنے ہیں ۔ ان کی دو کتب نے ایوارڈز جیتے ہیں جبکہ متعدد کتب کا انگریزی اور جرمن ترجمہ ہو چکا ہے ۔
' فقیر بستی میں تھا ' کی خوبصورتی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب مولانا محمد حسین آزاد کی دہلی میں گزری زندگی کا تذکرہ کیا تو اسے اسی دور کی مروجہ روزمرہ کی دہلوی زبان و بیان میں لکھا اور جو دور مولانا آزاد نے غدر کے بعد آوارہ وطنی اور اس کے بعد لاہور میں تا وفات بسر کیا ، اسے لاہوری اردو میں لکھا ۔ ایک اہم بات یہ بھی کہ علی اکبر ناطق نے مولانا آزاد کی پوری زندگی کو ایک ناول اور کہانی کے سے انداز میں لکھا ہے ۔ انتہائی شاندار کتاب ہے ، مولانا کی شخصیت ادب میں جو مقام رکھتی ہے اس کا تقاضا ہے کہ ادب سے دلچسپی رکھنے والے ضرور مطالعہ کریں۔
اسلام پر40 اعتراضات کے مدلل جواب
مصنف : ڈاکٹر ذاکر نائیک، صفحات : 238، قیمت : 550 روپے
ناشر : دارالسلام انٹر نیشنل نزد لوئر مال، سیکرٹریٹ سٹاپ ، لاہور ( 042-37324034)
ڈاکٹر عبدالکریم ذاکر نائیک کانام محتاج ِ تعارف نہیں، وہ بین الاقوامی شہرت یافتہ اور تقابل ادیان کے ماہر ہیں ۔ پوری دنیا میں ان کی شہرت کا ڈنکا بج رہا ہے۔ وہ شیخ احمد دیدات مرحوم کے شاگرد خاص ہیں ۔ شیخ احمد دیدات نے مئی 2000ء میں ڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائیک کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا ''بیٹے! دعوت ِ دین اور مطالعہ تقابل ادیان کا جو کام آپ نے چار برسوں میں کیا ہے اس کی تکمیل میں مجھے چالیس برس لگے ہیں'' بلاشبہ اس وقت تک ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ہاتھ پر سینکڑوں لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی انھی دینی کاوشوں کی وجہ سے کچھ اہل علم انھیں رواں صدی کا مجدد قرار دیتے ہیں ۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ، قرآن مجید کی آیات، یہودی ونصارٰی کی بائبل اور ہندئوں کی گیتاکے حوالے، ابواب اور فقروں کے نمبروں سمیت انھیں ازبر ہیں ۔ پیش نظر کتاب '' اسلام پر40 اعتراضات کے مدلل جواب '' ڈاکٹر ذاکر نائیک کی فکری علمی کاوش ہے جسے دینی کتابوں کی اشاعت کے عالمی ادارہ '' دارالسلام'' نے پورے تزک واحتشام اور احتیاط کے ساتھ شائع کیا ہے۔
یہ کتاب دراصل ڈاکٹر صاحب کے دعوتی خطبات ''Spreading the truth of Islam'' سے ماخوذ سوالات اور ان کے جوابات ہیں جو کہ متلاشیان حق اور دین اسلام کی صداقت کو سمجھنے کا جذبہ رکھنے والوں کے لئے قیمتی تحفہ ہیں ۔
کتاب میں غیر مسلموں کے اسلام پر ایسے بہت سے اعتراضات کے مدلل عقلی ونقلی جوابات دیے گئے ہیں جن کے بارے میں غیر مسلم اشکالات پیدا کر کے مسلمانوں کو اسلام سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کتاب میں جن سوالات کو زیر بحث لایا گیا ہے ان میں سے چند ایک کی جھلکیاں یہ ہیں ۔۔۔ صرف اسلام ہی کی پیروی کیوں؟ کیا اسلام بزور شمشیر پھیلا ، کیا مسلمان بنیاد پرست اور دہشت گرد ہیں؟ موت کے بعد کی زندگی کیوں؟ اسلام میں ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کس لئے ہے؟ بیوی کے لئے ایک سے زیادہ شوہروں کی ممانعت میں کیا حکمت ہے؟ کیا حجاب عورت کا استحصال ہے؟
عورت اور مرد کی گواہی مساوی کیوں نہیں؟ کیااسلام کا نظام وراثت غیر منصفانہ ہے؟ شراب کی ممانعت میں کیاحکمت ہے؟ سور کاگوشت حرام کیوں ہے؟ اسلام میں گوشت خوری کی اجازت کیوں؟ کیا اسلام میں جانور ذبح کرنے کا طریقہ ظالمانہ ہے؟ کیا گوشت مسلمانوں کو متشدد بناتا ہے؟ کیا موجودہ قرآن اصلی ہے؟ کیا قرآن بائبل کی نقل ہے؟ کیا قرآن مجید میں تضادات ہیں؟ کیا حروف مقطعات بے فائدہ ہیں؟ مسلمان فرقوں میں کیوں بٹے ہوئے ہیں؟ غیر مسلموں کو مکہ جانے کی اجازت کیوں نہیں؟ کیا مسلمان کعبہ کو پوجتے ہیں؟
کیا تنسیخ آیات غلطی کی اصلاح ہے؟ کیا زمین چپٹی اور ہموار ہے؟ کیا الٹرا سونوگرافی قرآنی آیات کی نفی کرتی ہیں ؟کیا افلاک و ارض کی تخلیق چھ روز میں ہوئی یاآٹھ روز میں؟ کیا قرآنی احکام وراثت میں ریاضی کی غلطی ہے؟ فہم وادراک کا مرکز دل ہے یا دماغ ہے؟ ان جیسے دیگر اہم سوالات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دور فہم وادراک اور علم و استدلال کا دور ہے۔ اگر ایک طرف اسلام پر فکری و نظریاتی یلغار ہے تو دوسری طرف آج کا انسان حقیقت کی تلاش میں ہے۔
ان حالات میں پیش نظر کتاب ''اسلام پر 40 اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب'' کا مطالعہ دعوت تبلیغ سے وابستہ اصحاب کے لیے اشد ضروری ہے۔ اسی طرح جب غیر مسلم سچائی کے متلاشی بن کر اس کتاب کا مطالعہ کریں گے تو یقینا انھیں روشنی ملے گی۔ اہل خیر حضرات غیر مسلم آبادیوں میں یہ کتاب تقسیم کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں بالیقین اجر کے مستحق ٹھریں گے۔!
مصنف: صوفی شوکت رضا سرکار
قیمت: 200 روپے، صفحات: 78
ناشر: ادبستان، پاک ٹاور، کبیر سٹریٹ، اردو بازار ، لاہور
رابطہ نمبر: (03004140207)
کسی پیغام کو دوسرے تک پہنچانا تبلیغ ہے مگر عام طور پر یہ اصطلاح دین یا مذہب کی بات دوسرے تک پہنچانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔
مسلمانوں میں دین کی تبلیغ کے لئے باقاعدہ مختلف جماعتیں کام کر رہی ہیں ، انھوں نے اپنا شب و روز اس کام کے لیے وقف کر رکھا ہے، وہ دین اسلام سکھانے کے لئے ہر شعبہ زندگی سے رابطے میں رہتے ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں فرقہ واریت کا زہر جس طریقے سے نفوذ کر چکا ہے اس کی وجہ سے انھیں اپنی مساعی میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملتی ۔ صوفی شوکت رضا سرکار روحانیت پر متعدد کتابیں تصنیف فرما چکے ہیں ، ان کی تحریروں میں نقطہ آفرینی عروج پر ہوتی ہے جسے پڑھ کر قاری مبہوت رہ جاتا ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب کے ٹائٹل پر ان کا ایک قول درج ہے جو قاری کو چونکا دیتا ہے، فرماتے ہیں '' اللہ تعالیٰ جس سے محبت کرتا ہے علم دے کر اسے نور کی طرف بلا لیتا ہے ۔ جسے اللہ علم سے نور کی طرف بلا لے اس کی تبلیغ ہی اللہ کی تبلیغ ہے ۔ علم تو شیطان کے پاس بھی ہے مگر وہ کبھی نور کی طرف نہیں آتا ، نور سے بھاگتا ہے ۔
علم سے نہیں بھاگتا ۔ '' اس سے پتہ چلتا ہے کہ تبلیغ کی اتنی اہمیت ہے کہ جو بھی اس طرف آتا ہے وہ گویا اللہ کے راستے کی طرف چل پڑتا ہے اور یہی راستہ ہے جس پر انبیائؑ چلے ۔ اسی طرح تبلیغ کے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں '' تبلیغ مومن کو امیر بنا دیتی ہے دل کا بھی اور خیالوں کا بھی ، علم کا بھی اور شعور کا بھی، وفا کا بھی اور پاسداری اور عزت کا بھی ، صبر و تحمل کا بھی اور ذکر و فکر کا بھی ۔'' یوں لگتا ہے کہ ان کے قلم سے الفاظ قرطاس پر منتقل نہیں ہو رہے بلکہ موتیوں کی ایک لڑی پروئی جا رہی ہے۔
کتاب کو دو ابواب تبلیغ اور مبلغ میں تقسیم کیا گیا ہے جن کے تحت متعدد ذیلی عنوانات کے تحت تشریح کی گئی ہے۔ تبلیغ کے حوالے سے بہت اہم کتاب ہے جس کا روحانی پہلو بھی ہے ، ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔
گلوبل سائبر وار
مصنف : ڈاکٹر اختر احمد
قیمت: 800 روپے، صفحات:400
ناشر: شہباز پرنٹرز، لاہور
رابطہ نمبر: (03335242146)
ڈاکٹر اختر احمد متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ، ان کا زاویہ نگاہ دوسروں سے اس حوالے سے مختلف ہے کہ وہ اپنی اکثر تحریروں میں ایک خاص پیغام دینا چاہتے ہیں وہ بھی خاص طور پر نوجوان نسل کو ۔ ان کی تصانیف غلبہ اسلام ، قرآن کا آفاقی اور انقلابی پیغام ، دنیا سے غربت اور جہالت کے خاتمے کا عالمگیر منصوبہ ، اسلام کا بہت جلد دنیا پر عروج ، اللہ کا پیغام اس کے بندوں کے نام ، دنیا پر کونسا دین غالب آئے گا ، اسلام دین فطرت ، سنہری دور اور عالمگیر انقلاب یہ سب مسلم امہ کے لئے مشعل راہ ہیں ۔
اس کے علاوہ کچھ تصانیف روحانیت اور طب کے حوالے سے بھی ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب انتہائی اہم ہے کیونکہ اس پر عمل سے ایک انقلاب برپا ہو سکتا ہے ۔
والدین کے لئے انتہائی اہم کتاب تا کہ وہ جان سکیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کی ذہنی ، جسمانی اور اخلاقی صلاحیتوں کو کیسے تباہ کیا جا رہا ہے ۔ ملحدین کس طرح نوجوانوں کو دین سے دور کر رہے ہیںاور اس سب سے آگاہی کے بعد وہ اپنے بچوں کی کیسی تربیت کریں۔
ملحدین کے سو سوالوں کے شافی جواب بھی دیئے گئے ہیں ۔ دنیا کو پیش آنے والی مشکلات اور مصیبتوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے آسان لائحہ عمل بھی بتایا گیا ہے ۔ طاغوتی قوتیں کس طرح ایجنڈا 2030ء کے ذریعے دنیا کے انسانوں کو اپنا غلام بنانا چاہتی ہیں ، اس کے مقابلے پر اللہ والوں کا ایجنڈا کیا ہے وہ بھی بیان کیا گیا ہے ۔
ایک ایسا لائحہ عمل دیا گیا ہے جس پر عمل کر کے دنیا سے غربت اور جہالت ختم ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح طاغوتی طاقتوں کے منصوبوں کو اللہ کی مدد سے خاک میں ملانے کا لائحہ عمل بھی دیا گیا ہے ۔ خاص طور پر جدید ٹیکنالوجی اور جدید طریقہ جنگ کے حوالے سے بڑی تفصیل سے لکھا گیا ہے تاکہ ان کے برے اثرات سے بچا جا سکے ۔
یہ کتاب ملک کے اندرونی اور بیرونی محاذوں پر سرگرم اداروں کے لیے بھی بہت اہم ہے کیونکہ وہ اپنی پالیسیز کے حوالے سے اس سے مدد لے سکتے ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے مصنف اپنی تمام تر بصیرت مسلم امہ کی بہتری کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔ ان کی یہ کاوش انتہائی شاندار ہے ، ہر شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
French short stories
ایڈیٹنگ : ناصر اعوان
قیمت:1400 روپے، صفحات:192
ملنے کا پتہ: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور
رابطہ نمبر: (03014208780)
مختصر کہانی ہوتی تو چند صفحات کی ہے مگر ان چند صفحات میں ہی بہت کچھ کہہ جاتی ہے ۔ اس کے مقبول عام ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ قاری کم وقت میں کہانی پڑھ کر لطف اندوز ہو سکتا ہے ، کیونکہ موجودہ دور میں وقت ہی سب سے قیمتی شمار کیا جاتا ہے اسی لیے وہ مختصر کہانی کی طرف جلد متوجہ ہوتا ہے۔
آج کے دور میں زیر مشاہدہ آیا ہے کہ بہت سے قاری کسی بھی کتاب کی ضخامت دیکھ کر بھی خریدنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب میں شامل مختصر کہانیاں فرانسیسی سے انگریزی میں ترجمہ کی گئی ہیں ۔
ان کہانیوں کو لکھنے والوں میں موپاساں، الفانسے ،الفرڈ ڈی مسٹ، جیولز کلیرٹی ، آرمنڈ سلویسٹر ، مارسل پری ووسٹ ، فرانکوئس ، پائول ریناڈین اور رینے بازین شامل ہیں جو ناصرف فرانسیسی ادب میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں بلکہ عالمی ادب میں بھی انھیں اونچا مقام حاصل ہے ۔
کتاب میں 17 کہانیاں شامل کی گئی ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے قاری تحریر کے بہائو میں بہتا چلا جاتا ہے اور جب تک کہانی ختم نہیں کر لیتا نشست سے اٹھنے کو جی نہیں چاہتا اور یہی کسی بھی کہانی کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے کہ وہ قاری کو مقناطیس کی طرح اپنے ساتھ چمٹا لیتی ہے۔ کہانی میں زندگی کے جس بھی پہلو کو پیش کیا گیا ہے اس کا ایک ایک نقش ابھر کر سامنے آجاتا ہے ۔ دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شاندار طباعت کی گئی ہے۔ کہانیوں سے دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔
٭٭٭
فقیر بستی میں تھا
(مولانا محمد حسین آزاد کی کہانی ، میری زبانی)
مصنف: علی اکبر ناطق، قیمت: 999 روپے
ناشر: بک کارنر ، جہلم ۔ رابطہ:03215440882
مولانا محمد حسین آزاد اردو کے ممتاز ادیب اور شاعر تھے ۔ انھیں شمس العلما قرار دیا گیا ۔ انھوں نے نہ صرف اردو نثر کو ایک نیا انداز دیا بلکہ اردو نظم کو بھی نئی شکل و صورت عطا کی ۔ انھوں نے اردو دنیا کو بہت سی گراں قدر تصانیف دیں ۔
سب سے زیادہ شہرہ 'آب حیات' کا ہے ۔
جناب علی اکبر ناطق کی کتاب دیکھی تو طبیعت پھڑکی کہ اس پر تبصرہ کی غرض سے کچھ لکھا تو ایسے لکھوں گا ، ویسے لکھوں گا ۔ تاہم جب یہ پڑھا کہ یہ کتاب کیسے اور کیوں لکھی گئی تو یہ مجھے محبت کی ایک عجب داستان محسوس ہوئی ، دل چاہا کہ یہ کہانی قارئین کی خدمت میں بھی پیش کروں ۔ علی اکبر ناطق لکھتے ہیں :
' میں دسویں جماعت میں تھا ، اپنے گاؤں میں رہتا تھا ۔ گھر کے سامنے ایک پانی کا نالہ بہتا تھا اور نالے پر ٹاہلیوں کے بے شمار چھاؤں بھرے درخت تھے ۔ ان کے نیچے بان کی چارپائی بچھا کر اکثر کتابیں پڑھتا تھا ۔ ایک دن میرے ہاتھ ڈاکٹر سید عبداللہ کی کتاب 'مباحث' آ گئی ۔ مختلف مضامین کی دلچسپ کتاب تھی ۔ اسی میں ایک مضمون 'میں اور میر ' بھی تھا ۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے مولوی محمد حسین آزاد پر جرح کی تھی کہ اس نے 'آب حیات ' میں میر صاحب کے کردار کو متنازع بنا ڈالا ، میر کو مبالغہ کی حد تک خود پسند ثابت کیا۔ مجھے اس مضمون میں دیے گئے دلائل بہت عجیب اور متضاد لگے ۔
مضمون پڑھ کر الٹا میں آزاد کے لیے تڑپ اٹھا ۔ جلد مولوی آزاد کی کتاب ' آب حیات' کو ڈھونڈنے نکلا ۔ اوکاڑہ شہر میں کسی دکان پر 'آب حیات ' نہیں تھی ۔ اسی دن ریلوے اسٹیشن پر آیا ، ایک بجے کی ریل پر بیٹھا اور لاہور پہنچ گیا ۔ اردو بازار لاہور سے 'آب حیات ' خریدی اور شام کی ٹرین سے اپنے شہر نکل لیا ۔ راستے میں کتاب کا بے صبری سے مطالعہ شروع کر دیا ۔ پھر بہت عرصہ یہ کتاب میری حرز جان رہی اور میں مولانا کا عاشق ہو گیا ۔
پھر جہاں سے جو کچھ بھی آزاد کے حوالے سے ملا ، پڑھ ڈال ا۔ لاہور میں آزاد کے ٹھکانوں کو تلاش کیا ۔ جب دہلی گیا تو وہاں بھی آزاد کے پرانے گھر اور کھجور والی مسجد کو ڈھونڈا ۔ آزاد کے رشتے داروں کو ڈھونڈا ۔ ان میں ایک آغا سلمان باقر ملے ، انھوں نے مجھے آزاد کے متعلق بہت مالامال کر دیا، خدا انھیں سلامت رکھے حتیٰ کہ آزاد کے بارے میں میری معلومات دہلی ، لکھنو ٔ، لاہور اور دیگر مقامات کے حوالے سے انتہائی اہم ہو گئیں ۔ بعض معلومات اتنی دلچسپ ، بالکل نئی اور ہمہ رنگ تھیں کہ پہلے تحریر میں نہیں آئی تھیں اور مجھے محسوس ہوا کہ یہ سب دست غیبی ہے ۔ قدرت چاہتی ہے کہ یہ ان قارئین تک پہنچایا جائے جو اردو ادب اور مولانا محمد حسین آزاد سے محبت کرتے ہیں ۔ چنانچہ ایک وقت ایسا آیا کہ میں نے آزاد پر قلم اٹھایا اور یہ کتاب ' فقیر بستی میں تھا ' وجود میں آئی' ۔
اب تک کی تحریر سے پڑھنے والوں کو بخوبی اندازہ ہو چکا ہو گا کہ یہ کتاب ہے کیا ؟ اور اس کتاب میں ہے کیا؟ اب ذرا مختصر تعارف علی اکبر ناطق کا ۔
ممتاز پاکستانی ناول نگار ، افسانہ نگار اور شاعر ہیں ۔ دو ناول جبکہ شاعری اور افسانوں کے متعدد مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ پنجاب کے علاقے اوکاڑہ سے تعلق ہے ۔ وہ راج مستری کے طور پر مزدوری کیا کرتے تھے ، پندرہ برس یونہی گزرے ۔ ساتھ پرائیویٹ طور پر ماسٹر کے امتحانات بھی پاس کیے ، اس کے ساتھ اردو نثر ، شاعری ، تاریخ اور سماج کا مطالعہ بھی کرتے رہے ۔ یوں وہ علی اکبر ناطق بنے جو آج کل ہمارے سامنے ہیں ۔ ان کی دو کتب نے ایوارڈز جیتے ہیں جبکہ متعدد کتب کا انگریزی اور جرمن ترجمہ ہو چکا ہے ۔
' فقیر بستی میں تھا ' کی خوبصورتی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب مولانا محمد حسین آزاد کی دہلی میں گزری زندگی کا تذکرہ کیا تو اسے اسی دور کی مروجہ روزمرہ کی دہلوی زبان و بیان میں لکھا اور جو دور مولانا آزاد نے غدر کے بعد آوارہ وطنی اور اس کے بعد لاہور میں تا وفات بسر کیا ، اسے لاہوری اردو میں لکھا ۔ ایک اہم بات یہ بھی کہ علی اکبر ناطق نے مولانا آزاد کی پوری زندگی کو ایک ناول اور کہانی کے سے انداز میں لکھا ہے ۔ انتہائی شاندار کتاب ہے ، مولانا کی شخصیت ادب میں جو مقام رکھتی ہے اس کا تقاضا ہے کہ ادب سے دلچسپی رکھنے والے ضرور مطالعہ کریں۔
اسلام پر40 اعتراضات کے مدلل جواب
مصنف : ڈاکٹر ذاکر نائیک، صفحات : 238، قیمت : 550 روپے
ناشر : دارالسلام انٹر نیشنل نزد لوئر مال، سیکرٹریٹ سٹاپ ، لاہور ( 042-37324034)
ڈاکٹر عبدالکریم ذاکر نائیک کانام محتاج ِ تعارف نہیں، وہ بین الاقوامی شہرت یافتہ اور تقابل ادیان کے ماہر ہیں ۔ پوری دنیا میں ان کی شہرت کا ڈنکا بج رہا ہے۔ وہ شیخ احمد دیدات مرحوم کے شاگرد خاص ہیں ۔ شیخ احمد دیدات نے مئی 2000ء میں ڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائیک کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا ''بیٹے! دعوت ِ دین اور مطالعہ تقابل ادیان کا جو کام آپ نے چار برسوں میں کیا ہے اس کی تکمیل میں مجھے چالیس برس لگے ہیں'' بلاشبہ اس وقت تک ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ہاتھ پر سینکڑوں لوگ اسلام قبول کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی انھی دینی کاوشوں کی وجہ سے کچھ اہل علم انھیں رواں صدی کا مجدد قرار دیتے ہیں ۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ، قرآن مجید کی آیات، یہودی ونصارٰی کی بائبل اور ہندئوں کی گیتاکے حوالے، ابواب اور فقروں کے نمبروں سمیت انھیں ازبر ہیں ۔ پیش نظر کتاب '' اسلام پر40 اعتراضات کے مدلل جواب '' ڈاکٹر ذاکر نائیک کی فکری علمی کاوش ہے جسے دینی کتابوں کی اشاعت کے عالمی ادارہ '' دارالسلام'' نے پورے تزک واحتشام اور احتیاط کے ساتھ شائع کیا ہے۔
یہ کتاب دراصل ڈاکٹر صاحب کے دعوتی خطبات ''Spreading the truth of Islam'' سے ماخوذ سوالات اور ان کے جوابات ہیں جو کہ متلاشیان حق اور دین اسلام کی صداقت کو سمجھنے کا جذبہ رکھنے والوں کے لئے قیمتی تحفہ ہیں ۔
کتاب میں غیر مسلموں کے اسلام پر ایسے بہت سے اعتراضات کے مدلل عقلی ونقلی جوابات دیے گئے ہیں جن کے بارے میں غیر مسلم اشکالات پیدا کر کے مسلمانوں کو اسلام سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کتاب میں جن سوالات کو زیر بحث لایا گیا ہے ان میں سے چند ایک کی جھلکیاں یہ ہیں ۔۔۔ صرف اسلام ہی کی پیروی کیوں؟ کیا اسلام بزور شمشیر پھیلا ، کیا مسلمان بنیاد پرست اور دہشت گرد ہیں؟ موت کے بعد کی زندگی کیوں؟ اسلام میں ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کس لئے ہے؟ بیوی کے لئے ایک سے زیادہ شوہروں کی ممانعت میں کیا حکمت ہے؟ کیا حجاب عورت کا استحصال ہے؟
عورت اور مرد کی گواہی مساوی کیوں نہیں؟ کیااسلام کا نظام وراثت غیر منصفانہ ہے؟ شراب کی ممانعت میں کیاحکمت ہے؟ سور کاگوشت حرام کیوں ہے؟ اسلام میں گوشت خوری کی اجازت کیوں؟ کیا اسلام میں جانور ذبح کرنے کا طریقہ ظالمانہ ہے؟ کیا گوشت مسلمانوں کو متشدد بناتا ہے؟ کیا موجودہ قرآن اصلی ہے؟ کیا قرآن بائبل کی نقل ہے؟ کیا قرآن مجید میں تضادات ہیں؟ کیا حروف مقطعات بے فائدہ ہیں؟ مسلمان فرقوں میں کیوں بٹے ہوئے ہیں؟ غیر مسلموں کو مکہ جانے کی اجازت کیوں نہیں؟ کیا مسلمان کعبہ کو پوجتے ہیں؟
کیا تنسیخ آیات غلطی کی اصلاح ہے؟ کیا زمین چپٹی اور ہموار ہے؟ کیا الٹرا سونوگرافی قرآنی آیات کی نفی کرتی ہیں ؟کیا افلاک و ارض کی تخلیق چھ روز میں ہوئی یاآٹھ روز میں؟ کیا قرآنی احکام وراثت میں ریاضی کی غلطی ہے؟ فہم وادراک کا مرکز دل ہے یا دماغ ہے؟ ان جیسے دیگر اہم سوالات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دور فہم وادراک اور علم و استدلال کا دور ہے۔ اگر ایک طرف اسلام پر فکری و نظریاتی یلغار ہے تو دوسری طرف آج کا انسان حقیقت کی تلاش میں ہے۔
ان حالات میں پیش نظر کتاب ''اسلام پر 40 اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب'' کا مطالعہ دعوت تبلیغ سے وابستہ اصحاب کے لیے اشد ضروری ہے۔ اسی طرح جب غیر مسلم سچائی کے متلاشی بن کر اس کتاب کا مطالعہ کریں گے تو یقینا انھیں روشنی ملے گی۔ اہل خیر حضرات غیر مسلم آبادیوں میں یہ کتاب تقسیم کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں بالیقین اجر کے مستحق ٹھریں گے۔!