نمودِ سحر
ہمیں اور پوری قوم کو اطمینان ہوگیا ہے کہ ملک میں اِنشاء اللہ استحکام آئے گا اور برسوں کی بد حالی کا خاتمہ ہوگا
وطنِ عزیز کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب عسکری قیادت کا سہرا ایک ایسے شخص کے سر بندھا ہے، جس کے سینے میں قرآنِ حکیم محفوظ ہے۔ اِس لیے ہمارا دل یہ گواہی دیتا ہے کہ ہمارا حال اور مستقبل اللہ کے فضل و کرم سے محفوظ ہے۔
ہمیں اور پوری قوم کو اطمینان ہوگیا ہے کہ ملک میں اِنشاء اللہ استحکام آئے گا اور برسوں کی بد حالی کا خاتمہ ہوگا اور اس کی جگہ خوشحالی کے ایک نئے دورکا آغاز ہوگا۔ اِس موقع پر ہمیں بزرگوں کی کہی ہوئی یہ بات یاد آرہی ہے کہ ' نیت نیک منزل آسان۔'
ابھی چند روز قبل چیف آف دی آرمی اسٹاف نے ملک کے تاجروں اور سرمایہ کاروں کے ساتھ ایک اہم ملاقات کی جس کے مثبت نتائج جلد ہی قوم کے سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ پاکستان کے عوام جو مدتِ دراز سے غربت کی چَکی میں پِس رہے تھے اور اللہ تعالٰی کے حضور یہ دعائیں کر رہے تھے کہ کوئی ابنِ مریم آئے اور اُن کے دکھوں کا مداوا کرے بہت خوش ہیں کہ باری تعالٰی نے اُن کی دعا قبول کر لی ہے۔
یہ پاک وطن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہی معرضِ وجود میں آیا ہے اور وہی اس کا محافظ بھی ہے۔ رہی بات اس کی زبوں حالی کی تو اس میں سارا قصور ہماری قیادت کا ہے جو نہ تو مطلوبہ اہلیت کی حامل تھی اور نہ ہی ملک و قوم کے ساتھ مخلص تھی۔
اِس حقیقت کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہماری دھرتی سونا اگلنے والی ہے اور اس کی تہہ میں بیشمار اور لامحدود معدنی خزانے دفن ہیں۔
خیرِ مستور یہ ہے کہ یہ خزانے غلط حکمرانوں کی دسترس سے باہر رہے ہیں ورنہ تو ان کا بھی وہی حشر ہوتا جو دیگر وسائل کا ہوا ہے۔ جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے جب یہ خزانے محفوظ ہاتھوں میں ہوں گے اور ان کے نکالے جانے سے ملک میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوگا اور ملک و قوم کی تقدیر بدل جائے گی ۔
سِوِل اور عسکری قیادت کے نیک ملاپ اور اشتراک سے قوم اس منزلِ مراد کی جانب تیزی سے گامزن ہوگی جس کی جانب قومی ترانہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ وہی صورتحال ہے جس کی جانب شاعرِ ملت نے بھی واضح اشارہ کیا ہے۔
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
آپ کو یاد ہوگا کہ ہم اپنے کالموں میں یہ بات بار بار دہراتے رہے ہیں کہ مایوسی کفر ہے۔ طلوعِ سحر کے آثار نمودار ہو رہے ہیں اور جلد ہی مایوسی کے بادل پوری طرح چھٹ جائیں گے۔ دریں اثناء عام انتخابات کے چرچے مسلسل جاری ہیں لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ کسی کی بھی طرف سے کوئی ایجنڈا یا منشور ابھی تک عوام کے سامنے نہیں آیا ہے اور نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ برسرِ اقتدار آنے والی جماعت کیا کرے گی اورکیا نہیں کرے گی۔
سوال یہ ہے کہ عوام کس طرح سے یہ طے کریں کہ انھیں اپنا ووٹ کس کو دینا چاہیے جب کہ جمہوریت کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ عوام کو بہت پہلے سے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کس سیاسی جماعت کا آیندہ پروگرام کیا ہے؟
ہمیں بادلِ نخواستہ یہ اعتراف کرنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک میں آیندہ سال جو عام انتخابات ہونے والے ہیں اُن میں حصہ لینے والی ہر پارٹی نے اپنے منشور کا واضح اعلان چناؤ سے بہت پہلے کردیا ہے تاکہ چناؤ میں حصہ لینے والے عوام کو اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے پورا وقت مل سکے کہ وہ باآسانی یہ فیصلہ کرسکیں کہ انھیں اپنا قیمتی ووٹ کس کو دینا چاہیے اورکیوں دینا چاہیے؟سچ پوچھیے تو اصلی جمہوریت کا بنیادی تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہرچیز بالکل واضح اور غیر مبہم ہو تاکہ ووٹ کا بالکل درست ہونا یقینی ہوسکے۔
نہایت دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے یہاں کی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ہمیں یہ بات بھی کُڑھتے ہوئے دل سے دہرانا پڑ رہی ہے کہ ہمارا الیکشن کمیشن بھی پڑوسی ملک کے الیکشن کمیشن کے معیار پر پورا نہیں اُترتا۔ یہ وہ تمام وجوہات ہیں جو اُس ملک کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت تسلیم کرانے پر مجبور کرتی ہیں۔ ہمارے دل میں یہ حسرت کروٹیں لے رہی ہے کہ کاش! ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہوتا یا ہوجائے۔ہم ایک بار پھر اپنے وطنِ عزیزکی جانب آتے ہیں جو مدتِ دراز سے ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔
اس کی معیشت ڈوب رہی ہے اور یہ دیوالیہ ہوتے ہوتے بچا ہے۔ یہاں پیدا ہونے والا ہر معصوم بچہ قرض کے بوجھ سے دبا ہوا ہوتا ہے۔ قرض کے بوجھ سے نڈھال پوری قوم سسکیاں لے رہی ہے اور لوٹ مار کر کے خزانے کو خالی کرنے والے حکمراں بیرونی ممالک میں اپنی جائیدادیں اور محلات تعمیر کرچکے ہیں اور غیر ملکی بینکوں میں اپنی لوٹی ہوئی دولت جمع کراکے موجیں اُڑا رہے ہیں۔
ہمیں اور پوری قوم کو اطمینان ہوگیا ہے کہ ملک میں اِنشاء اللہ استحکام آئے گا اور برسوں کی بد حالی کا خاتمہ ہوگا اور اس کی جگہ خوشحالی کے ایک نئے دورکا آغاز ہوگا۔ اِس موقع پر ہمیں بزرگوں کی کہی ہوئی یہ بات یاد آرہی ہے کہ ' نیت نیک منزل آسان۔'
ابھی چند روز قبل چیف آف دی آرمی اسٹاف نے ملک کے تاجروں اور سرمایہ کاروں کے ساتھ ایک اہم ملاقات کی جس کے مثبت نتائج جلد ہی قوم کے سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ پاکستان کے عوام جو مدتِ دراز سے غربت کی چَکی میں پِس رہے تھے اور اللہ تعالٰی کے حضور یہ دعائیں کر رہے تھے کہ کوئی ابنِ مریم آئے اور اُن کے دکھوں کا مداوا کرے بہت خوش ہیں کہ باری تعالٰی نے اُن کی دعا قبول کر لی ہے۔
یہ پاک وطن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہی معرضِ وجود میں آیا ہے اور وہی اس کا محافظ بھی ہے۔ رہی بات اس کی زبوں حالی کی تو اس میں سارا قصور ہماری قیادت کا ہے جو نہ تو مطلوبہ اہلیت کی حامل تھی اور نہ ہی ملک و قوم کے ساتھ مخلص تھی۔
اِس حقیقت کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہماری دھرتی سونا اگلنے والی ہے اور اس کی تہہ میں بیشمار اور لامحدود معدنی خزانے دفن ہیں۔
خیرِ مستور یہ ہے کہ یہ خزانے غلط حکمرانوں کی دسترس سے باہر رہے ہیں ورنہ تو ان کا بھی وہی حشر ہوتا جو دیگر وسائل کا ہوا ہے۔ جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے جب یہ خزانے محفوظ ہاتھوں میں ہوں گے اور ان کے نکالے جانے سے ملک میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوگا اور ملک و قوم کی تقدیر بدل جائے گی ۔
سِوِل اور عسکری قیادت کے نیک ملاپ اور اشتراک سے قوم اس منزلِ مراد کی جانب تیزی سے گامزن ہوگی جس کی جانب قومی ترانہ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ وہی صورتحال ہے جس کی جانب شاعرِ ملت نے بھی واضح اشارہ کیا ہے۔
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
آپ کو یاد ہوگا کہ ہم اپنے کالموں میں یہ بات بار بار دہراتے رہے ہیں کہ مایوسی کفر ہے۔ طلوعِ سحر کے آثار نمودار ہو رہے ہیں اور جلد ہی مایوسی کے بادل پوری طرح چھٹ جائیں گے۔ دریں اثناء عام انتخابات کے چرچے مسلسل جاری ہیں لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ کسی کی بھی طرف سے کوئی ایجنڈا یا منشور ابھی تک عوام کے سامنے نہیں آیا ہے اور نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ برسرِ اقتدار آنے والی جماعت کیا کرے گی اورکیا نہیں کرے گی۔
سوال یہ ہے کہ عوام کس طرح سے یہ طے کریں کہ انھیں اپنا ووٹ کس کو دینا چاہیے جب کہ جمہوریت کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ عوام کو بہت پہلے سے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کس سیاسی جماعت کا آیندہ پروگرام کیا ہے؟
ہمیں بادلِ نخواستہ یہ اعتراف کرنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک میں آیندہ سال جو عام انتخابات ہونے والے ہیں اُن میں حصہ لینے والی ہر پارٹی نے اپنے منشور کا واضح اعلان چناؤ سے بہت پہلے کردیا ہے تاکہ چناؤ میں حصہ لینے والے عوام کو اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے پورا وقت مل سکے کہ وہ باآسانی یہ فیصلہ کرسکیں کہ انھیں اپنا قیمتی ووٹ کس کو دینا چاہیے اورکیوں دینا چاہیے؟سچ پوچھیے تو اصلی جمہوریت کا بنیادی تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہرچیز بالکل واضح اور غیر مبہم ہو تاکہ ووٹ کا بالکل درست ہونا یقینی ہوسکے۔
نہایت دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے یہاں کی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ہمیں یہ بات بھی کُڑھتے ہوئے دل سے دہرانا پڑ رہی ہے کہ ہمارا الیکشن کمیشن بھی پڑوسی ملک کے الیکشن کمیشن کے معیار پر پورا نہیں اُترتا۔ یہ وہ تمام وجوہات ہیں جو اُس ملک کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت تسلیم کرانے پر مجبور کرتی ہیں۔ ہمارے دل میں یہ حسرت کروٹیں لے رہی ہے کہ کاش! ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہوتا یا ہوجائے۔ہم ایک بار پھر اپنے وطنِ عزیزکی جانب آتے ہیں جو مدتِ دراز سے ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔
اس کی معیشت ڈوب رہی ہے اور یہ دیوالیہ ہوتے ہوتے بچا ہے۔ یہاں پیدا ہونے والا ہر معصوم بچہ قرض کے بوجھ سے دبا ہوا ہوتا ہے۔ قرض کے بوجھ سے نڈھال پوری قوم سسکیاں لے رہی ہے اور لوٹ مار کر کے خزانے کو خالی کرنے والے حکمراں بیرونی ممالک میں اپنی جائیدادیں اور محلات تعمیر کرچکے ہیں اور غیر ملکی بینکوں میں اپنی لوٹی ہوئی دولت جمع کراکے موجیں اُڑا رہے ہیں۔