کیا خودکشی قابلِ علاج ہے

زیادہ تر لوگ کسی کمزور لمحے میں آناً فاناً فیصلہ کر کے اپنی جان لے لیتے ہیں۔ اس کے لیے عمر کی بھی کوئی قید نہیں

وہ جو کہتے ہیں کہ خودکشی کرنے والا تو مکتی پا جاتا ہے مگر ساتھ کے کئی لوگ معاشی و سماجی طور پر زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔خود کشی سوچ سمجھ کے بھی کی جاتی ہے۔البتہ زیادہ تر لوگ کسی کمزور لمحے میں آناً فاناً فیصلہ کر کے اپنی جان لے لیتے ہیں۔ اس کے لیے عمر کی بھی کوئی قید نہیں۔

مثلاً دو ہزار آٹھ میں امریکی ریاست اوریگون کے قصبے میک مینول کی چھ سالہ سمانتھا نکول اسکول سے واپس آئی۔اس کی اپنی والدہ سے ضد بحث ہو گئی۔ماں نے اسے سزا دینے کے لیے کمرے میں بند کر دیا۔

سمانتھا چیختی رہی کہ باہر نکالو ورنہ میں خود کو مار ڈالوں گی۔کسی نے چھ سال کی بچی کی دھمکی کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔کچھ دیر بعد کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ماں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ سمانتھا نے اونچائی پر رکھے پالنے کی چوبی پٹی سے باپ کی بیلٹ باندھی اور بیلٹ کا دوسرا سرا گلے میں باندھ کے جھول گئی اور دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئی۔

فروری دو ہزار اٹھارہ میں امریکی شہر ہوسٹن کی بیاسی سالہ خاتون مروری ارل جونز کی عمر بھر کی پونجی نوسر بازوں نے دھوکا دہی سے لوٹ لی۔ مروری اتنی دلبرداشتہ ہوئی کہ اس نے زہریلی دوا پی لی۔بعد از مرگ مروری کے بینک اکاؤنٹ میں محض انہتر ڈالر پائے گئے۔

خودکشی کے لیے غربت اور محرومی بھی کوئی شرط نہیں۔ جرمنی کے پانچویں امیر ترین صنعت کار ایڈولف مرکل نے دو ہزار آٹھ میں شئیر مارکیٹ میں چار سو ملین یورو گنوانے کے بعد خود کو آتی ٹرین کے آگے ڈال دیا۔ان کی ذاتی دولت کا اندازہ دس ارب ڈالر کے لگ بھگ تھا اور مرکل خاندان دیگر بیسیوں کاروباروں کے ساتھ ساتھ جرمنی کی سب سے بڑی فارماسوٹیکل کمپنی فینکس فارما ہینڈل کا مالک بھی ہے۔

عالمی ادارہِ صحت کا اندازہ ہے کہ سالانہ سات لاکھ سے زائد انسان اپنی جان لے لیتے ہیں۔البتہ کئی برس کے جائزوں سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں خود کشی کا رجحان نصف سے بھی کم ہے۔حالانکہ عام مغالطہ یہ ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ جذباتی فیصلے کرتی ہیں۔

اگر ٹاپ ٹین عالمی چارٹ بنایا جائے تو دو ہزار انیس کے جائزوں کے مطابق جنوبی افریقہ سے چاروں طرف سے گھری ریاست لیسوتھو میں خود کشی کا تناسب فی لاکھ آبادی میں تہتر ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔وجوہات کم و بیش وہی ہیں جو دیگر ترقی پذیر ممالک میں ہیں۔غربت، بے روزگاری، منشیات کا استعمال، صحت کی ناکافی سہولتیں۔مگر لیسوتھو ہی آخر کیوں خودکشی کی عالمی رینکنگ میں اول ہے ؟ ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ باقی ممالک کی نسبت لیسوتھو میں خودکشی کرنے والوں کی زیادہ تعداد خواتین پر مشتمل ہے۔

سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ لیسوتھو کی آبادی اگرچہ پچیس لاکھ ہے مگر وہاں ایڈز سے متاثرہ افراد کی تعداد کا تناسب غیرمعمولی ہے۔یہ مرض نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی قوتِ مدافعت کو بھی کمزور کرتا ہے۔ایڈز سے مرنے والوں کی خانگی زندگی بھی گھمبیر معاشی مسائل میں گھر جاتی ہے۔اس کے علاوہ اسی فیصد خواتین زندگی میں اوسطاً کم ازکم تین بار گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔

لیسوتھو کے بعد آبادی کے اعتبار سے خودکشی کے چارٹ میں علی الترتیب جنوبی امریکا کا ملک گیانا ، جنوبی افریقہ کے اندر واقع ایک اور خود مختار ریاست ایسواتینی ( سابق سوازی لینڈ ) اور چوتھے نمبر پر جنوبی کوریا ہے۔حالانکہ جنوبی کوریا صفِ اول کے خوشحال صنعتی ممالک میں شمار ہوتا ہے۔

عالمی ادارہِ صحت کے لیے کیے جانے والے ایک تحقیقاتی مطالعے کے مطابق جنوبی کوریا میں ریٹائرڈ اور معمر افراد میں خود کشی کا رجحان زیادہ ہے۔اس کی وجہ سماجی تنہائی اور خاندان پے مالی بوجھ بننے سے ہچکچاہٹ ہے۔جب کہ طلبا میں خود کشی کا تناسب اس لیے زیادہ ہے کہ ان پر اچھے تعلیمی نتائج کے لیے خاصا دباؤ ہوتا ہے۔


ناکامی کی صورت میں وہ ذہنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں ، منشیات کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جنوبی کوریا میں خود کشی کے لیے کمرہ بند کر کے کاربن مونو اکسائیڈ پیدا کر کے مرنا ترجیحی طریقہ ہے۔جب کہ دارالحکومت سول میں دریا کے اوپر بنے ماپو برج سے چھلانگ لگانے کے واقعات اتنے زیادہ ہیں کہ اس پل کا نام ہی موت کا پل پڑ گیا ہے۔

جنوبی کوریا کے بعد علی الترتیب بحرالکاہل کا جزیرہ کیراباتی اور مائیکرونیشیا، یورپی ملک لتھوینیا ، جنوبی امریکی ملک سورینام ، روس جنوبی افریقہ اور یوکرین ہیں۔جن دس ممالک میں خودکشی کے سب سے کم واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں ان میں کیریبن کے جزائر اینٹی گوا، باربادوس، گریناڈا، سینٹ ونسنٹ، ساؤتومپ، اردن ، شام ، وینزویلا، ہنڈوراس اور فلپینز شامل ہیں۔

یورپ میں بلجئیم اور سویڈن میں خودکشی کا رجحان سب سے زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔دونوں کا شمار انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔امریکا ایک سو اٹھہترممالک کی فہرست میں تئیسویں نمبر پر ہے۔ وہاں اوسطاً پچاس ہزار لوگ سالانہ اپنی جان لے لیتے ہیں۔اس تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکا میں چونکہ اسلحہ رکھنے پر پابندی بہت نرم ہے لہٰذا زیادہ تر لوگ اپنی یا دوسروں کی جان لینے کے لیے ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔

ایک زمانے میں جاپان کا شمار خود کشی کے چارٹ میں صفِ اول کے ممالک میں ہوتا تھا مگر اب اس چارٹ میں جاپان پچیسویں نمبر پر ہے۔

جنوبی ایشیا کے ممالک کو دیکھا جائے تو خودکشی کے عالمی چارٹ میں سری لنکا چونتیس ، بھارت سینتیس، نیپال انہتر ، بھوٹان ایک سو چونتیس، افغانستان ایک سو اکتالیس ، بنگلہ دیش ایک سو سینتالیس اور پاکستان ابتر معاشی حالات اور غربت کے باوجود ایک سو اکیاون نمبر پر ہے۔پاکستان میں خود کشی کرنے والوں کا تناسب فی لاکھ نو ہے۔

عراق بھی معاشی مسائل اور امن و امان کی ابتری کے باوجود چارٹ میں ایک سو پچاسویں نمبر پر ہے۔ لبنان گزشتہ برس سے معاشی دیوالیہ پن میں جکڑا ہوا ہے۔اس کے باوجود وہاں خود کشی کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے اور عالمی چارٹ میں اس کا رینک ایک سو اکسٹھ ہے۔

مجموعی طور پر مسلمان اکثریتی ممالک میں اپنی جان لینے کا رجحان کم ہے اور ان ممالک کا شمار رینکنگ کے نچلے درجے میں ہوتا ہے۔مگر عالمی چارٹ کو دیکھ کے اس سوال کا جواب حاصل کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ انسان آخر خودکشی کیوں کرتا ہے ؟ جو اقدار مشترک پائی گئی ہیں ان میں شدید ڈیپریشن اور تنہائی کے علاوہ باقی کوئی قدر مشترک نہیں۔ وجوہات الگ الگ سماجوں میں الگ الگ ہو سکتی ہیں۔

خانہ جنگی سے ڈسے ہوئے شام ، لیبیا ، یمن ، عراق، افغانستان اور کانگو جیسے ممالک جہاں زندگی خاصی غیر محفوظ ہے اور ونیزویلا جیسا ملک جس کی معیشت بالکل تبا ہ حال ہے۔ان تمام ممالک میں خود کشی کا تناسب پرامن اور خوشحال ممالک کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔

ہر سال دس ستمبر کو اقوامِ متحدہ کے تحت خود کشی کے مسئلے سے آگہی کا دن منایا جاتا ہے۔زیادہ تر لوگ خود کشی کرنے سے پہلے توجہ حاصل کرنے کے لیے اشارے دیتے ہیں۔کوئی ان کی بات سن لے کوئی انھیں بٹھا کر زندگی کی اونچ نیچ پر بحث کرے اور یہ ثابت کرے کہ زندگی صرف منفی نہیں ہوتی۔اس میں بہت کچھ مثبت بھی ہے۔انھیں نرم اور ہمدردانہ لہجے میں احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ خودکشی بہادری نہیں بلکہ انتہا درجے کی بزدلانہ خود غرضی اور تم پر اندھا بھروسہ اور پیار کرنے والوں کے ساتھ دھوکا دہی کی واردات ہے۔

اگر ہر کوئی ایسے لوگوں پر نظر رکھے اور ہمدردی سے ان کو سنے تو قوی امکان ہے کہ نصف لوگ ایسی بے وقوفی کا قدم اٹھانے سے پہلے پیچھے ہٹ جائیں اور زندگی کی کٹھنائیوں کا بہادری سے مقابلہ کرنا سیکھ لیں۔ایک بار ایسے لوگوں کو تحمل سے سننے میں آخر کیا حرج ہے؟ ایک شخص بھی آپ کی توجہ سے بچ گیا تو کتنی بڑی بات ہو گی؟

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
Load Next Story