عمر عطا بندیال کی مدت ملازمت ختم ہونے پر 16 ستمبر کو یوم نجات منائیں گے عطا تارڑ

چیف جسٹس پاکستان کے عہد کے دوران بنچز کی تشکیل سب کے سامنے ہے، عطا تارڑ کا وکلا فورم سے خطاب

فوٹو فائل

مسلم لیگ ن کے رہنما عطا تارڑ نے کہا ہے کہ عمر عطا بندیال کی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد 16 ستمبر کو یوم نجات کے طور پر منایا جائے گا۔

اسلام آباد میں قانون کی حکمرانی اور غیر جانبدار عدلیہ لازم و ملزوم کے عنوان سے مسلم لیگ ن کے وکلا فورم سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے لیگی رہنما عطا تارڑ نے چیف جسٹس پاکستان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا سولہ ستمبر کو یوم نجات کے طور پر منایا جائیگا۔ عطا تارڑ نے سیمینار کے آغاز پر رانا مقبول کے انتقال پر اُن کی مغفرت کیلئے فاتحہ خوانی بھی کی ۔

تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاناما فیصلے کے زریعے قانون کی حکمرانی کو پامال کیا گیا،جس طرح چھ ستمبر کو یوم دفاع منایا جاتا ہے،اس طرح سولہ ستمبر یوم نجات کے طور پر منایا جائے گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ دکھ کی بات ہے، میں کچھ اعداد و شمار آپکے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، کس طرح بنچز کی تشکیل کی جاتی رہی،چیف جسٹس پاکستان کے عہد کے دوران بنچز کی تشکیل سب کے سامنے ہے، امریکا، برازیل سمیت دیگر ممالک میں سب ججز بیٹھ کر بنچز طے کرسکتے ہیں، سب سے زیادہ جسٹس اعجاز الاحسن کی بنچز میں شمولیت رہی،سیاسی اور غیر سیاسی مقدمات سننے میں چیف جسٹس پاکستان کا دوسرا نمبر ہے، سب سے زیادہ سیاسی کیسز سنے والے تیسرے جج جسٹس منیب اختر ہیں۔


انہوں نے کہا کہ نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا، مرضی کے بنچز بنا کر 'گڈ ٹو سی یو' کہہ کر قانون کی حکمرانی کو پامال کیا گیا، بحث چل رہی ہے جانے والے چیف جسٹس پاکستان کو فل کورٹ ریفرنس دیا جائے گا یا نہیں، میرے بزرگ چیف جسٹس پاکستان سے ریٹائرڈ ہوئے تو انھوں نے فل کورٹ ریفرنس لینے سے انکار کیا، میرے بزرگ نے کہا سینیارٹی کے اصول کو پامال کیا گیا اس لیے فل کورٹ ریفرنس نہیں لونگا،

اُن کا کہنا تھا کہ یہ کہا جاتا رہا چھ ججز ایک طرف ہیں، سات ججز ایک طرف ہیں، پاناما فیصلے میں قابل وصول تنخواہ کو اثاثہ بنا دیا گیا ،یہ بلیک ڈکشنری کا معاملہ نہیں تھا بلکہ بلیک شیپ کا معاملہ تھا،اگر سپریم کورٹ مانیٹرنگ کرے تو ٹرائل کورٹ کیسے منصفانہ فیصلہ دے سکتی ہے، ثاقب نثار جو کرتے تھے کھل کر کرتے تھے،ایک محاورہ ہے بھیڑوں کے گروہ میں بھیڑیا،آپ سب جانتے ہیں میں کس کی بات کر رہا ہوں،آپ نے خود ہی اپنی سربراہی میں بنچ بنا کر اپنی ساس کے کیس کا فیصلہ کر دیا۔

عطا تارڑ نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے کیس میں کہا آڈیو کیوں ریکارڈ کرتا ہے، سپریم کورٹ دیکھے، جواب دیا گیا قاضی صاحب چھوڑیں آگے چلیں،چیف جسٹس پاکستان چاہتے تو کیس منیجمنٹ سسٹم ٹھیک کر جاتے، سیاسی کیس شام کو نمبر لگتا ہے صبح سماعت شروع ہو جاتی ہے،غریب آدمی کا کیس سالوں سال سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوتا جبکہ کسی بوٹے کا کیس فوری سماعت کیلئے مقرر نہیں ہوتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایک تحقیقاتی ادارے کی تحویل میں جسمانی ریمانڈ پر رکھے گئے ملزم کو رہا کرکے 'گڈ ٹو سی یو' کہا گیا جبکہ احد چیمہ کی ضمانت عظمت سعید نے تین سال سماعت کیلئے مقرر ہی نہیں کی، ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کیس زیر سماعت تھا، سپریم کورٹ نے میرٹس کی دھجیاں اڑا دیں،جسٹس مظاہر نقوی نے وکیل صفائی کو کہا تھا صفحہ نمبر بتیس کھولیں،جج کا احتساب نہیں لیکن سیاست دان کو سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے،جونیئر ججز کو اپنی دھڑے بازی کیلئے کس طرح تعینات کیا جاتا ہے۔

عطا تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بننے سے پہلے ہی روک دیا اور نہ خود کام کیا اور نہ ہی پارلیمںٹ کو کام کرنے دیا۔چیف جسٹس پاکستان نے کسی غریب پر ازخود نوٹس نہیں لیا،آپ بجلی کے بلوں پر ازخود نوٹس لیتے، چند وکلا شام کو جاتے صبح کیس سماعت کیلئے مقرر ہو جاتا،یہاں ججز کو بلاسود قرض دیے گئے۔
Load Next Story