ایک عالم جو بیمار دلوں کا مسیحا تھا
حضرت مولانا ڈاکٹرمحمد امجد علی سابق وزیر اعظم پاکستان چوہدری محمد علی مرحوم کے بیٹے تھے
موت ایک حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ جو دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن جانا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے۔ جب سے دنیا بنی ہے اس وقت سے اربوں کھربوں انسان دنیا میں آئے اور چلے گئے۔ یہ سلسلہ قیامت کی صبح تک ایسے ہی جاری و ساری رہے گا۔
کوئی ہمیشہ کے لیے دنیا میں نہیں آیا، انبیاء و رسول بھی آئے اور چلے گئے۔ پھر ہماری کیا حیثیت ہے؟ سوال یہ ہے کہ کون دنیا میں کیسے زندگی گزار کر گیا۔
جو بداعمالیوں میں پڑے رہے، اللہ کی بغاوت میں لتھڑے رہے، وہ بے چین روحیں ہونگی، آخرت میں بھی انھیں چین نہیں ملے گا۔ اور جو دنیا میں اچھی زندگی اور مثالی زندگی گزار کر گئے، اللہ کے فرمانبردار رہے وہ دنیا میں بھی سرخرو رہے اور آخرت میں بھی کامیاب ہوں گے۔ انھیں نفس مطمئنہ کہا گیا ہے۔
ایسی روحوں کے بارے میں سورۃ فجر کی آخری آیات میں یوں ذکر فرمایا گیا ہے کہ "(ارشاد ہوگا) اے اطمینان والی روح، اپنے رب کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی، پس میرے بندوں میں شامل ہو، اور میری جنت میں داخل ہو۔" سبحان اللہ سبحان اللہ۔
آج کے کالم میں ایک ایسے ہی نفس مطمئنہ کا ذکر کریں گے، وہ ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جن کا شمار اہل اللہ میں سے تھا۔ جی ہاں! میری مراد کراچی سے تعلق رکھنے والے نامور عالم دین، مبلغ اسلام، مہتمم جامعہ عبداللہ ابن عباس حضرت مولانا ڈاکٹرمحمد امجد علی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا ذکر خیر میں نے پہلی بار اپنے مرشد و مربی والد محترم شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا حمداللہ جان ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ سے سنا۔ حضرت شیخ رحمہ اللہ ان کے تقویٰ، منکسر مزاج اور تدریسی خدمات کے معترف تھے۔ بابا جانؒ کی رحلت کے بعد ان کے اداروں کے نظام تعلیم اور نیٹ ورک کے بارے مزید معلومات حاصل ہوئیں اور میں ان کا گرویدہ ہوا، مگر افسوس کہ ان کی زندگی میں ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔
حضرت مولانا ڈاکٹرمحمد امجد علی سابق وزیر اعظم پاکستان چوہدری محمد علی مرحوم کے بیٹے تھے۔ ڈاکٹر محمد علی پیشے کے اعتبار سے طب کے شعبہ سے وابستہ تھے، کراچی کے لیاقت نیشنل اسپتال میں بطور ماہر امراض قلب ہزاروں مریضوں کی مسیحائی کی۔
1956 میں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد اسپیشلائزیشن کے لیے وہ برطانیہ گئے وہاں ان کی ملاقات تبلیغی جماعت کے رفقاء سے ہوئی اور پھر ان کا دین سے ایسا تعلق جڑا کہ آخری دم تک ان کی شناخت بنا رہا۔ برطانیہ سے واپسی پر ڈاکٹر امجد علی اعلیٰ ڈگریوں کے ساتھ ساتھ دین اور تبلیغ کی نعمت بھی اپنے ہمراہ لائے تھے۔
تین سال بعد جب ایم آر سی پی مکمل ہوگیا تو وہاں سے انھوں نے اپنے والد چوہدری محمد علی کو کال کی جو اس وقت وزیر اعظم کے منصب پر فائز تھے۔ انھوں نے اپنے والد کو تعلیم مکمل ہونے کا بتایا اور اطلاع دی کہ وہ پاکستان واپس آرہے ہیں۔ والد بہت خوش ہوئے اور کہا کہ میں تمہاری والدہ (جو اس وقت خاتون اول تھیں) کے ساتھ ایئرپورٹ لینے آؤں گا۔
جب بیٹا ایئرپورٹ واپس لوٹا تو والدین اپنے بیٹے کی شکل دیکھنے کو بے چین تھے، دونوں کی نگاہیں اپنے بیٹے کی بے صبری سے متلاشی تھیں، لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ بیٹا صرف میڈیکل سائنس کی تعلیم ہی مکمل کرکے نہیں آرہا بلکہ اب جب وہ تین سال بعد لوٹ رہا ہے تو اس کے دل میں علوم نبوت کی روشنائی بھی چمک دمک رہی ہے۔
علوم نبوت کے نور نے بیٹے کے باطن کو ہی نہیں بدلا بلکہ ظاہر کو بھی بدل کر رکھ دیا تھا۔ ڈاکٹر محمد علی ایک باریش نوجوان بن چکا تھا، اس کے حلیے میں اسلام کی تعلیمات جھلک رہی تھیں۔ اسی لیے باپ کے نظریں بیٹے کو پہچاننے سے قاصر تھیں۔ بیٹا خود چل کر باپ کے سامنے آیا اور انتہائی ادب سے سلام کیا اور باپ کے گلے لگنے لگا لیکن باپ بیٹے کی وضع قطع دیکھ کر غصے میں آگئے اور بیٹے کو گلے لگانے کے بجائے اسے کوسنے دینے لگے کہ میں نے تمہیں برطانیہ ڈاکٹر بننے کے لیے بھیجا تھا تم مولوی بن کر آگئے۔
بیٹے نے باپ کو بتایا کہ میں بہترین نمبروں کے ساتھ نمایاں پوزیشن سے کامیاب ہوا ہوں اور یونیورسٹی میں چھٹیوں کے دوران کچھ وقت تبلیغ میں لگایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک فرمانبردار اور نیک بیٹے تھے انھوں نے باپ کی جلی کٹی باتوں کا برا نہیں منایا، ماں باپ کا احترام دل میں رہا، ان کی مستقل انتہائی تابع داری و خدمت کرتے رہے۔
واپس آکر ڈاکٹر محمد علی نے شروع سے ہی دعوت و تبلیغ کا مبارک راستہ اختیار کیا، تبلیغ میں وقت لگانے کے بعد دین کے احیاء کے لیے جوانی میں ہی اپنی زندگی وقف کر دی تھی اور موت تک اسی کام میں یعنی دین پھیلانے کو مقصد بنائے رکھا۔ انھوں نے میڈیکل سائنس کو بطور پیشہ اپنایا، وہ ماہر امراض قلب تھے اس شعبے میں ان کا بڑا نام تھا۔ ڈاکٹر امجد علی لیاقت نیشنل اسپتال میں مریضوں کے دل کا علاج کرنے کے ساتھ ساتھ مسجد میں ان کے قلوب میں لگا باطنی زنگ بھی صاف کرتے اور انھیں دین کی دعوت دیتے۔
انسانیت کی خدمت کے ساتھ ساتھ دین کا مبارک علم حاصل کیا، نام، شہرت، دولت ہونے کے باوجود چٹائی پر بیٹھ کر درس نظامی کی تعلیم حاصل کی اور دورۂ حدیث مکمل کیا۔
انھیں قرآن وحدیث اور عربی زبان سے بے حد لگاؤ و دلچسپی تھی۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی دین کی خدمت میں بسر کی اور وہ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ دین کے بہترین مبلغ اور داعی تھے اور متوازن انسان تھے۔
لوگوں کے ساتھ انتہائی محبت، شفقت کے ساتھ پیش آتے اور لوگوں کو آخرت کی فکر کرنے اور ربّ سے تعلق کو مضبوط بنانے پر زور دیتے تھے۔ وہ ملک کے جید عالم بنے اور جید علماء کے ہم عصر تھے، مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی رفیع عثمانی نور اللہ مرقدہ کے بھی ہم عصر تھے۔
یہ کیسے ممکن تھا کہ ڈاکٹر محمد علی سارے زمانے کو دعوت و تبلیغ کے ذریعے اسلام کی روشنائی سے منور کریں اور ان کے گھر میں اندھیرا ہو۔ جو والدین ڈاکٹر محمد علی کے مولوی بننے پر خفا ہوگئے تھے، ڈاکٹر محمد علی کی دعوت و تبلیغ سے ان کے دل بھی اللہ نے اپنی دو بے مثال انگلیوں سے پھیر دیے تھے ان کے دل میں بھی اللہ کے دین کی محبت پیدا ہوچکی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ والدہ صاحبہ کی نصیحت کے مطابق ان کی چھوڑی ہوئی جائیداد کے ذریعے جامعہ عبد اللہ ابن عباس جیسی عظیم الشان دینی درس گاہ قائم کی اور اپنا علمی لوہا منوایا۔ جامعہ ابن عباس کی ایک شاخ اورنگی ٹاؤن میں اور ایک شاخ اسلام آباد بہارہ کہو میں ہے جب کہ مرکزی شاخ گلستان جوہر میں ہے۔ ڈاکٹر امجد علی عالم باعمل تھے، فہم وتقویٰ کے پیکر، اخلاص وللہیت اور عاجزی وانکساری کے حقیقی مصداق تھے۔
عربی زبان کی آبیاری کے لیے علماء عرب سے انھوں نے خصوصی رابطہ کیا اور عربی کے فروغ کے لیے ان کی خدمات حاصل کی۔ مولانا امجد علی کو خود بھی عربی پر عبور حاصل تھا اور اکثر وہ جامعہ کے پروگرامات میں عربی میں تقاریر کیا کرتے تھے انھوں نے عربی کے فروغ کے لیے ملک بھر میں نیٹ ورک قائم کردیا تھا۔ مدرسہ ابن عباس اور عائشہ البنات کا شمار پاکستان کے معروف دینی مدارس میں ہوتا ہے۔
دونوں مدارس کو صرف عربی زبان میں بول چال اور تعلیم کو میڈیم کے طور پر رائج کیا۔ آج جس کی کئی شاخیں ملک کے طول و ارض میں موجود ہیں۔ ذاتِ باری تعالیٰ کے فضل و احسان سے دین عالی شان کی نشر و اشاعت کے لیے ڈاکٹر صاحب نے مکتبہ بشریٰ قائم کیا۔ جس میں دینی کتابوں کی طباعت، تراجم اور اشاعت کا کام جاری و ساری ہے۔
ڈاکٹر امجد علی امت مسلمہ کا قیمتی اثاثہ تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے شاگرد اور ان کے علمی ودینی ادارے ان کے لیے صدقہ جاریہ کا کام کریں گے۔ ڈاکٹر امجد علی اپنی حسنات لیے اپنے ربّ کے حضور پیش ہوگئے ہیں اور ہم سب کو وہ ایک پیغام بھی دے گئے ہیں کہ آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی کی تیاری کی جائے۔ انسان کی زندگی برف کی طرح پگل رہی ہے۔ دنیا کی ٹھاٹ باٹ اور چمک دمک عارضی ہے۔
ڈاکٹر امجد علی اپنی حیات پوری کر کے راہی سفر آخرت ہوگئے اور اپنے ربّ کے حضور پیش ہوگئے۔ ان کی نماز جنازہ میں عوام کا سمندر اْمڈ آیا اور خلق خدا کا جم غفیر نمازِ جنازہ میں موجود تھا اور ہر شخص اشکبار آنکھوں سے درویش صفت عظیم بزرگ عالم دین کو رخصت کر رہا تھا اور اللہ کے محبوب بندوں سے خلق خدا کی محبت اور تعلق کا اظہار ہورہا تھا۔
بلاشبہ ان کی رحلت سے علمی حلقوں کا بھاری نقصان ہوا ہے اللہ تعالی اس خلا کو جلد پُر فرمائے اور ان کا فیض جاری و ساری رکھے۔ ( آمین)
کوئی ہمیشہ کے لیے دنیا میں نہیں آیا، انبیاء و رسول بھی آئے اور چلے گئے۔ پھر ہماری کیا حیثیت ہے؟ سوال یہ ہے کہ کون دنیا میں کیسے زندگی گزار کر گیا۔
جو بداعمالیوں میں پڑے رہے، اللہ کی بغاوت میں لتھڑے رہے، وہ بے چین روحیں ہونگی، آخرت میں بھی انھیں چین نہیں ملے گا۔ اور جو دنیا میں اچھی زندگی اور مثالی زندگی گزار کر گئے، اللہ کے فرمانبردار رہے وہ دنیا میں بھی سرخرو رہے اور آخرت میں بھی کامیاب ہوں گے۔ انھیں نفس مطمئنہ کہا گیا ہے۔
ایسی روحوں کے بارے میں سورۃ فجر کی آخری آیات میں یوں ذکر فرمایا گیا ہے کہ "(ارشاد ہوگا) اے اطمینان والی روح، اپنے رب کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی، پس میرے بندوں میں شامل ہو، اور میری جنت میں داخل ہو۔" سبحان اللہ سبحان اللہ۔
آج کے کالم میں ایک ایسے ہی نفس مطمئنہ کا ذکر کریں گے، وہ ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے جن کا شمار اہل اللہ میں سے تھا۔ جی ہاں! میری مراد کراچی سے تعلق رکھنے والے نامور عالم دین، مبلغ اسلام، مہتمم جامعہ عبداللہ ابن عباس حضرت مولانا ڈاکٹرمحمد امجد علی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا ذکر خیر میں نے پہلی بار اپنے مرشد و مربی والد محترم شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا حمداللہ جان ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ سے سنا۔ حضرت شیخ رحمہ اللہ ان کے تقویٰ، منکسر مزاج اور تدریسی خدمات کے معترف تھے۔ بابا جانؒ کی رحلت کے بعد ان کے اداروں کے نظام تعلیم اور نیٹ ورک کے بارے مزید معلومات حاصل ہوئیں اور میں ان کا گرویدہ ہوا، مگر افسوس کہ ان کی زندگی میں ان سے ملاقات نہ ہوسکی۔
حضرت مولانا ڈاکٹرمحمد امجد علی سابق وزیر اعظم پاکستان چوہدری محمد علی مرحوم کے بیٹے تھے۔ ڈاکٹر محمد علی پیشے کے اعتبار سے طب کے شعبہ سے وابستہ تھے، کراچی کے لیاقت نیشنل اسپتال میں بطور ماہر امراض قلب ہزاروں مریضوں کی مسیحائی کی۔
1956 میں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد اسپیشلائزیشن کے لیے وہ برطانیہ گئے وہاں ان کی ملاقات تبلیغی جماعت کے رفقاء سے ہوئی اور پھر ان کا دین سے ایسا تعلق جڑا کہ آخری دم تک ان کی شناخت بنا رہا۔ برطانیہ سے واپسی پر ڈاکٹر امجد علی اعلیٰ ڈگریوں کے ساتھ ساتھ دین اور تبلیغ کی نعمت بھی اپنے ہمراہ لائے تھے۔
تین سال بعد جب ایم آر سی پی مکمل ہوگیا تو وہاں سے انھوں نے اپنے والد چوہدری محمد علی کو کال کی جو اس وقت وزیر اعظم کے منصب پر فائز تھے۔ انھوں نے اپنے والد کو تعلیم مکمل ہونے کا بتایا اور اطلاع دی کہ وہ پاکستان واپس آرہے ہیں۔ والد بہت خوش ہوئے اور کہا کہ میں تمہاری والدہ (جو اس وقت خاتون اول تھیں) کے ساتھ ایئرپورٹ لینے آؤں گا۔
جب بیٹا ایئرپورٹ واپس لوٹا تو والدین اپنے بیٹے کی شکل دیکھنے کو بے چین تھے، دونوں کی نگاہیں اپنے بیٹے کی بے صبری سے متلاشی تھیں، لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ بیٹا صرف میڈیکل سائنس کی تعلیم ہی مکمل کرکے نہیں آرہا بلکہ اب جب وہ تین سال بعد لوٹ رہا ہے تو اس کے دل میں علوم نبوت کی روشنائی بھی چمک دمک رہی ہے۔
علوم نبوت کے نور نے بیٹے کے باطن کو ہی نہیں بدلا بلکہ ظاہر کو بھی بدل کر رکھ دیا تھا۔ ڈاکٹر محمد علی ایک باریش نوجوان بن چکا تھا، اس کے حلیے میں اسلام کی تعلیمات جھلک رہی تھیں۔ اسی لیے باپ کے نظریں بیٹے کو پہچاننے سے قاصر تھیں۔ بیٹا خود چل کر باپ کے سامنے آیا اور انتہائی ادب سے سلام کیا اور باپ کے گلے لگنے لگا لیکن باپ بیٹے کی وضع قطع دیکھ کر غصے میں آگئے اور بیٹے کو گلے لگانے کے بجائے اسے کوسنے دینے لگے کہ میں نے تمہیں برطانیہ ڈاکٹر بننے کے لیے بھیجا تھا تم مولوی بن کر آگئے۔
بیٹے نے باپ کو بتایا کہ میں بہترین نمبروں کے ساتھ نمایاں پوزیشن سے کامیاب ہوا ہوں اور یونیورسٹی میں چھٹیوں کے دوران کچھ وقت تبلیغ میں لگایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک فرمانبردار اور نیک بیٹے تھے انھوں نے باپ کی جلی کٹی باتوں کا برا نہیں منایا، ماں باپ کا احترام دل میں رہا، ان کی مستقل انتہائی تابع داری و خدمت کرتے رہے۔
واپس آکر ڈاکٹر محمد علی نے شروع سے ہی دعوت و تبلیغ کا مبارک راستہ اختیار کیا، تبلیغ میں وقت لگانے کے بعد دین کے احیاء کے لیے جوانی میں ہی اپنی زندگی وقف کر دی تھی اور موت تک اسی کام میں یعنی دین پھیلانے کو مقصد بنائے رکھا۔ انھوں نے میڈیکل سائنس کو بطور پیشہ اپنایا، وہ ماہر امراض قلب تھے اس شعبے میں ان کا بڑا نام تھا۔ ڈاکٹر امجد علی لیاقت نیشنل اسپتال میں مریضوں کے دل کا علاج کرنے کے ساتھ ساتھ مسجد میں ان کے قلوب میں لگا باطنی زنگ بھی صاف کرتے اور انھیں دین کی دعوت دیتے۔
انسانیت کی خدمت کے ساتھ ساتھ دین کا مبارک علم حاصل کیا، نام، شہرت، دولت ہونے کے باوجود چٹائی پر بیٹھ کر درس نظامی کی تعلیم حاصل کی اور دورۂ حدیث مکمل کیا۔
انھیں قرآن وحدیث اور عربی زبان سے بے حد لگاؤ و دلچسپی تھی۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی دین کی خدمت میں بسر کی اور وہ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ دین کے بہترین مبلغ اور داعی تھے اور متوازن انسان تھے۔
لوگوں کے ساتھ انتہائی محبت، شفقت کے ساتھ پیش آتے اور لوگوں کو آخرت کی فکر کرنے اور ربّ سے تعلق کو مضبوط بنانے پر زور دیتے تھے۔ وہ ملک کے جید عالم بنے اور جید علماء کے ہم عصر تھے، مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی رفیع عثمانی نور اللہ مرقدہ کے بھی ہم عصر تھے۔
یہ کیسے ممکن تھا کہ ڈاکٹر محمد علی سارے زمانے کو دعوت و تبلیغ کے ذریعے اسلام کی روشنائی سے منور کریں اور ان کے گھر میں اندھیرا ہو۔ جو والدین ڈاکٹر محمد علی کے مولوی بننے پر خفا ہوگئے تھے، ڈاکٹر محمد علی کی دعوت و تبلیغ سے ان کے دل بھی اللہ نے اپنی دو بے مثال انگلیوں سے پھیر دیے تھے ان کے دل میں بھی اللہ کے دین کی محبت پیدا ہوچکی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ والدہ صاحبہ کی نصیحت کے مطابق ان کی چھوڑی ہوئی جائیداد کے ذریعے جامعہ عبد اللہ ابن عباس جیسی عظیم الشان دینی درس گاہ قائم کی اور اپنا علمی لوہا منوایا۔ جامعہ ابن عباس کی ایک شاخ اورنگی ٹاؤن میں اور ایک شاخ اسلام آباد بہارہ کہو میں ہے جب کہ مرکزی شاخ گلستان جوہر میں ہے۔ ڈاکٹر امجد علی عالم باعمل تھے، فہم وتقویٰ کے پیکر، اخلاص وللہیت اور عاجزی وانکساری کے حقیقی مصداق تھے۔
عربی زبان کی آبیاری کے لیے علماء عرب سے انھوں نے خصوصی رابطہ کیا اور عربی کے فروغ کے لیے ان کی خدمات حاصل کی۔ مولانا امجد علی کو خود بھی عربی پر عبور حاصل تھا اور اکثر وہ جامعہ کے پروگرامات میں عربی میں تقاریر کیا کرتے تھے انھوں نے عربی کے فروغ کے لیے ملک بھر میں نیٹ ورک قائم کردیا تھا۔ مدرسہ ابن عباس اور عائشہ البنات کا شمار پاکستان کے معروف دینی مدارس میں ہوتا ہے۔
دونوں مدارس کو صرف عربی زبان میں بول چال اور تعلیم کو میڈیم کے طور پر رائج کیا۔ آج جس کی کئی شاخیں ملک کے طول و ارض میں موجود ہیں۔ ذاتِ باری تعالیٰ کے فضل و احسان سے دین عالی شان کی نشر و اشاعت کے لیے ڈاکٹر صاحب نے مکتبہ بشریٰ قائم کیا۔ جس میں دینی کتابوں کی طباعت، تراجم اور اشاعت کا کام جاری و ساری ہے۔
ڈاکٹر امجد علی امت مسلمہ کا قیمتی اثاثہ تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان کے شاگرد اور ان کے علمی ودینی ادارے ان کے لیے صدقہ جاریہ کا کام کریں گے۔ ڈاکٹر امجد علی اپنی حسنات لیے اپنے ربّ کے حضور پیش ہوگئے ہیں اور ہم سب کو وہ ایک پیغام بھی دے گئے ہیں کہ آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی کی تیاری کی جائے۔ انسان کی زندگی برف کی طرح پگل رہی ہے۔ دنیا کی ٹھاٹ باٹ اور چمک دمک عارضی ہے۔
ڈاکٹر امجد علی اپنی حیات پوری کر کے راہی سفر آخرت ہوگئے اور اپنے ربّ کے حضور پیش ہوگئے۔ ان کی نماز جنازہ میں عوام کا سمندر اْمڈ آیا اور خلق خدا کا جم غفیر نمازِ جنازہ میں موجود تھا اور ہر شخص اشکبار آنکھوں سے درویش صفت عظیم بزرگ عالم دین کو رخصت کر رہا تھا اور اللہ کے محبوب بندوں سے خلق خدا کی محبت اور تعلق کا اظہار ہورہا تھا۔
بلاشبہ ان کی رحلت سے علمی حلقوں کا بھاری نقصان ہوا ہے اللہ تعالی اس خلا کو جلد پُر فرمائے اور ان کا فیض جاری و ساری رکھے۔ ( آمین)