عوام کو ریلیف کون دے گا

یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ کاشتکار ہی مسائل اور استحصال کا شکار کیوں ہے؟

یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ کاشتکار ہی مسائل اور استحصال کا شکار کیوں ہے؟ فوٹو: فائل

میڈیا کی خبر میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ و وزارت توانائی کے درمیان بجلی بلز پر ریلیف کے معاملے میں پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔

آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ جو صنعتیں اپنی بجلی خود پیدا کررہی ہیں، ان کی مراعات یا سبسڈی واپس لے لی جائے ۔

بجلی بنانے والی صنعتوں کے لیے گیس نرخوں میں بھی اضافہ کیا جائے ۔ آئی ایم ایف نے مشورہ دیا ہے کہ صارفین کو ریلیف دینے کے لیے پاورسیکٹرکا نظام درست کیا جائے ۔

پاکستان میں بڑے مینوفیکچررز اور صنعتکار اپنے کارخانوں کے لیے سرکار سے سبسڈی یا اس سے ملتی جلتی رعایت کے متمنی رہتے ہیں،کئی صنعتوں کو سبسڈی دی بھی جاتی ہے ۔ بجلی خود پیدا کرنے کے باوجود سبسڈی لیتے ہیں۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جو انرجی کی ایک قسم بنانے کے لیے انرجی کی دوسری اقسام استعمال کررہا ہے۔

مثال کے طور پر بجلی بنانے کے لیے تیل ،گیس اور کوئلہ استعمال کیا جارہا ہے حالانکہ یہ تینوں توانائی ذرائع ہیں۔ عام آدمی گیس کی لوڈ شیڈنگ سے پریشان ہے، کوئلہ بھی مہنگا ہے جب کہ بجلی بھی مہنگی اور لوڈ شیڈنگ الگ ہے ۔

ہماری انرجی پالیسی کی ترجیحات کیا ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں۔ پاکستانی عوام کے مفادات کا خیال نہیں رکھا جارہا ہے ، ایسی صنعتیں یا کاروبار جنھیں منافع بخش بنانے کے لیے ٹیکس پیئرز کے پیسوں میں سے سبسڈیز دینا، عوام یا صارفین کے مفاد میں نہیں ہے ۔ اب آئی ایم ایف نے بھی ایک سیدھا فارمولا پکڑا ہے کہ عالمی منڈی کے ریٹس کے مطابق تیل کی قیمتیں رکھو اور سبسڈی کا خاتمہ کرو۔

ہماری حکومتیں اپنے اخراجات کم کرنے پر تیار نہیں ، سرکاری افسروں کی تنخواہیں الگ رہیں، انھیں دی جانے والی سہولیات و مراعات اور پنشن کا مالی حجم اربوں روپے سالانہ ہے اور اس میں ہر گزرتے سال میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

اشیاء ضروریہ کی مہنگائی نے غریبوں اور مڈل کلاس کو دیوالیہ کر دیا ہے جب کہ سرکار کے مال پر پلنے والے اپنے اللے تللے برابر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ غور کیا جائے تو حکومت کی بدانتظامی مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

پاکستانی معیشت اجارہ داری کے نظام میں جکڑی ہوئی ہے۔ پاکستان میں جس قسم کا کیپٹلزم پایا جاتا ہے، اس میں مارکیٹ اکانومی کے اصول پوری طرح لاگو نہیں ہیں۔ ریاست کا کردار تماشائی سے زیادہ نہیں ہے۔ منافع خوروں ہرطرف سے فائدے اٹھاتے ہیں اور ٹیکس سب سے کم دیتے ہیں، شوگر انڈسٹری کو ہی لے لیں، چینی کی پیداوار اور اس کی فروخت پر اس کی مکمل اجارہ داری ہے ، اس کے باوجود حکومتی سبسڈی بھی وصول کی جارہی ہے۔

گنے کے کاشت کاروں کو لمبے عرصے تک ادائیگی نہیںکی جاتی۔ شوگر ملز کو ان کے اسٹاک پر بھی بینک قرضہ مل جاتا ہے ، ایسی خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ بعض اوقات اسٹاک صرف فائلز میں موجود ہیں، عملاًبک چکا ہوتا ہے۔ شوگر کارٹل کئی مہینے پہلے ہی چینی کی قیمت فکس کر دیتے ہیں، جسے اسپیکیولیٹیو ٹرانزیکشن کہتے ہیں۔

مثلاً آج کا اسپاٹ ریٹ آج کا ہے لیکن آج سے تین ماہ بعد کا ریٹ یہ پہلے ہی فکس کر دیں گے جسے اسپیکیولیٹیو ریٹ کہتے ہیں اور اسی کی ذریعے مستقبل کے اسٹاک بیچ کر یہ اسپیکیولیٹیو ٹرانزیکشن کروا لیتے ہیں، یہی سٹہ کہلاتا ہے۔

شوگر ملز نے عالمی مارکیٹ میں چینی پاکستان کے مقابلے میں سستی ہونے کا جواز پیش کر کے سبسڈی لی، اگر دنیا میں چینی اتنی سستی ہے تو وہیں سے لا کر پاکستان میں کیوں نہ سستے داموں عام آدمی کو فراہم کی جائے، پاکستان میں شوگر انڈسٹری کی ضرورت ہی کیا ہے۔

کسانوں کو گڑ اور چینی بنانے کی اجازت دے دی جائے تو نہ ذخیرہ اندوزی ہوگی نہ نرخ بڑھیں گے جب کہ کسانوں کو بھی فوری اور نقد منافع مل جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کسانوں کو گڑ اور چینی بنانے اور فروخت کرنے کی اجازت آخر کیوں نہیں دی جاتی؟ اس پر پاکستان کے پالیسی سازوں کو ضرور غور کرنا چاہیے۔


زرعی پیداوار اور زراعت سے منسلک اشیاء کی صنعتیں ملک معیشت کے پہیے کو رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔ کپاس ہماری زراعت کی کلیدی پیداوار اور ملک کی شان ہے، کپاس کو ''وائٹ گولڈ'' یا ''سفید سونا'' کہا جاتا ہے اور کپاس پیدا کرنے والی زمین کو دنیا میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

اب اصولی طور پر تو کپاس پیدا کرنے والا کاشتکار بھی قدردانی کا حقدار ہے کہ وہ ملک کو زرمبادلہ کما کر دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کاشتکار غذائی اجناس بھی کاشت کر رہا ہے جس میں سب سے اہم گندم کی فصل ہے کہ جس کی بدولت ہم روزانہ روٹی کھاتے ہیں۔ ملکی معیشت کا پہیہ چلانے میں اہم ترین کردار ادا کرنے والا چھوٹا اور درمیانہ کاشتکار جن مسائل کا شکار ہے۔

اس کا اندازہ نہ تو شہروں میں بیٹھ کر پر آسائش زندگی گزارنے والے افراد کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایوانوں میں بیٹھے ہوئے سربراہان اور سیاست دان۔ حالانکہ کاشتکاروں کے مسائل کسی ایک سیاسی پارٹی سے جڑے ہوئے نہیں ہیں بلکہ یہ اقتدار کی سیاسی پارٹیوں اور اپوزیشن پارٹیوں تمام کے مشترک مسائل ہیں اور تمام تر سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کسی نہ کسی طور کاشتکاری سے منسلک ہیں۔

یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ کاشتکار ہی مسائل اور استحصال کا شکار کیوں ہے؟ ایسی کیا مجبوری بن پڑتی ہے کہ کاشتکار اپنی مصروفیات ترک کر کے احتجاج کے لیے مجبور ہو جاتا ہے اور وہ احتجاج کرتے کرتے لاہور اور اسلام آباد تک جانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔

کیا کاشتکار کی زندگی اور اس کا کام اتنا اہم بھی نہیں سمجھا جا رہا کہ اسے یہ استحقاق حاصل ہو کہ اس کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے اور وہ احتجاج پر مجبور نہ ہو، ایوان اقتدار میں بیٹھنے والے اکثر جاگیردار، سردار، وڈیرے ہی ہوتے ہیں اور وہ انھی کاشتکاروں سے ووٹ حاصل کر کے ہی اقتدار کی منزل تک پہنچتے ہیں۔

مختلف سرکاری اور نیم سرکاری محکموں میں بطور دیہاڑی دار، محنت مزدوری کرنیوالے بعض سادہ لوح احباب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بڑے '' صاحبوں '' کو مراعات کے زمرے میں بجلی اور گیس جب مفت ملتی ہے تو انھیں بجلی گیس کی مفت سہولتیں کیوں دستیاب نہیں، مگر اپنے ان محنت کشوں کو یہ کیسے یقین دلایا جائے کہ مفت بجلی، مفت سفر، مفت گیس اور مفت ٹیلی فون ہر سرکاری محکمے سے ملنے والی مراعات کا حصہ ہیں جوگریڈ ایک سے 22 تک کا ہر اہلکار اور افسر حاصل کرنے کا مجاز ہے۔

بجلی چوری یا خرچ کیے گئے یونٹس سے زائد بل بھی کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ اس مسئلے کا آغاز بجلی کمپنیوں کی افسرشاہی اور ملازمین سے ہوتا اور اختتام ریونیو آفیسرز کے گرد گھومتی پھرتی سائلین کی وہ فائلیں ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے اصل مقام پر نہیں پہنچ پائیں۔

نگران وزیر خزانہ نے بھاری بجلی بلوں پر عوام کے احتجاج اور ملک میں روزافزوں بڑھتی ہوشربا مہنگائی کو محسوس کرنے کے باوجود اگلے روز بغیر لگی لپٹی یہ وضاحت کی ہے کہ 76 سالہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو چلانے کے لیے 80 ارب ڈالر کی فوری ضرورت ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا بجلی، گیس، پٹرول اور ڈیزل کے لیے دہائیاں دیتی قوم کو وہ یہ بھی آگاہ کر دیتیں کہ متوقع انتخابات سے قبل 80 ارب ڈالر کا حصول کیسے ممکن ہوگا؟

بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں کا حل یہ تو نہیں کہ بلوں کی قسطیں کر دی جائیں، یا اِن بلوں پر کوئی سبسڈی دے دی جائے۔ اِس کا حل بہت آسان ہے مگر اسے نافذ کرنا ناممکن ہے۔

لیسکو کی بجلی چوری کی جو لاگت ہے وہ 1464 ارب روپے ہے، اُسے عام صارف کی طرف منتقل کرنا بند کر دیا جائے۔ بہت سارے ایسے گھریلو صارفین اور طبقات ایسے ہیں جو بِل سِرے سے دیتے ہی نہیں۔ اُن کے بلوں کا بوجھ عام صارف کو شفٹ کرنا بند کردیں۔ بہت سے ایسے طبقات، ادارے اور لوگ ہیں جو بِل ہی ادا نہیں کرتے۔ اُن سے بھی بِل لے لیں۔

مقدس لوگوں کو کہیں کہ وہ بجلی کا بِل ادا کریں۔ اس سے دھوپ میں جلتے عام آدمی اور بے اختیار مڈل کلاس کو احساس ہوگا کہ ہم اکیلے نہیں، مگر جب دُکھ جھیلیں 95 فیصد اور انڈے کھائیں 5فیصد تو، اس طرح ہی ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ اس وقت ملک کی حالت یہ ہے کہ کوئی وزیر یا مشیر موجودہ بد ترین معاشی حالات کی اصل وجوہات اور ذمے داروں کے بارے میں سچ بولنے کو تیار نہیں۔

گندم، آٹا اور چینی سمیت بنیادی اشیائے ضرورت سے عوام کو محروم کرنیوالے کارٹلز کا نام تک لینے کو تیار نہیں۔ چند روز قبل نگراں وزیرِ خزانہ کا ایک جملہ حیران کرگیا۔ '' ہم یہاں اس لیے نہیں لائے گئے کہ متاثرینِ بجلی بل کو ریلیف دیں۔

ہمارا کام توIMFکے ساتھ معاہدے پر عمل درآمد کروانا ہے۔'' کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں؟
Load Next Story