غیرحقیقی ریاستی بیانیہ نہیں چل سکتا

ظاہری بات ہے کہ میاں صاحب بھی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کچھ باتوں کی یقین دہانیوں کے بعد ہی پاکستان واپس آرہے ہیں

Jvqazi@gmail.com

پاکستان کے سیاسی نقشے پر بہت کچھ تبدیل ہواہے، بہت کچھ بکھرا ہوا بھی ہے۔جیسا کہ میں نے کہا تھا، یہ ہفتہ پاکستان کے لیے سیاسی طور پر بہت اہم ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال چلے گئے اور ان کے ساتھ چند اور کا سقو ط بھی ہوگیا۔ جنرل باجوہ اور ان کے لوگوں کے تمام کام یہیں سے سیدھے ہوتے تھے۔

پنجاب حکومت حمزہ شہباز سے لے کر چوہدری پرویز الٰہی کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کی گئی، آئین کی تشریح کے بہانے نیا آئین لکھ دیا گیا، وہ کام جو پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت نے کرنا تھا، وہ سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ نے کردیا۔ملک میں اس درجے کی افراتفری مچائی گئی کہ بلاخر نو مئی کا واقعہ رونما ہوا۔عمران خان جیسے کوئی ریمبو تھے یا پھر کسی ایڈونچر فلم کا منظر تھا۔

ماضی قریب میں سپریم کورٹ نے توہین عدالت پر وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کو فارغ کردیا،اس وقت چیف جسٹس افتخار چوہدری تھے اور اقامہ کا کام ثاقب نثار سے لیا گیا۔نو مئی کا بدترین واقعہ رونما ہونے کے بعد خان صاحب کو مرسیڈیز گاڑی میں،سپریم کورٹ میں حاضر ہونے کے لیے کس نے مدعو کیا تھا؟

ڈیڑھ سال تک شہباز شریف کی حکومت کو اسی تنگ گلی سے گزرنا تھا، جہاںآٹا مہنگا، چینی مہنگی، بجلی مہنگی ،ڈالر بے لگام، مہنگائی بے قابو اور افراطِ زر۔ میں اسحاق ڈار کی کوئی تعریف نہیں کر رہا مگر حالات اتنے خراب تھے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے نہیں پارہا تھا۔

ملک دیوالیہ ہو رہا تھا، عمران خان کو ایک پالیسی کے تحت ہٹایا گیا۔وہ پالیسی بھی اسٹبلشمنٹ نے ترتیب دی ،کیونکہ وہ نتائج کو بھانپ چکے تھے کہ اب اس ملک کو سنگین خطرات لا حق ہیں۔مگر اسی پالیسی کو چند پوشیدہ لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کر رہے تھے۔کچھ الجھنیں تھیں ،سمجھ نہیں آرہا تھا کہ خان صاحب اتنے طاقتور کیوں ہیں؟اور یہ وہ زمانہ تھا جب سپہ سالار کو تبدیل ہونا تھا۔

میاں صاحب نے اس دفعہ اجتناب برتا، سپہ سالار کے انتخاب میں کیونکہ ماضی میں ان سے دو بار یہ غلطی ہوئی تھی کہ انھوں نے سپہ سالار کا انتخاب سنیارٹی کے اصول پر نہیں کیا تھا ۔ اب فیصلہ میرٹ پر ہوا، اس میرٹ کے فیصلے کو چند پس پردہ قوتوں نے روکنے کی بھرپور کوششیں بھی کیں مگر یہ کامیاب نہ ہو سکیں۔

خان صاحب کے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں جس طرح یہ ملک برباد ہوا ہے، پاکستان کو افغانستان کی طالبان حکومت کے مفادات کے تابع کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی، اس لیے شہباز شریف کا ڈیڑھ سالہ دورِ حکومت بڑا مشکل گزرا تھا، بے بہا سرنگیں بچھائی گئیں۔ وہ بنیادی سوچ جس کی بناء پر افغان پالیسی بنی، اربوں روپے بنائے گئے، بیانیہ بنایا گیا، امراء اورشرفاء کی نسل کا تسلسل بنایا گیا ، دائیں بازو کی سوچ کو منظم کیا گیا اور پھیلایا گیا، اس پالیسی کا نتیجہ دیکھ لیجیے کہ اب پاکستان ، ہندوستان کے مقابلے میں کہاں کھڑا ہے؟

اور کیا مقابلے میں کھڑا ہے بھی یا نہیں!اس دفعہ اسٹیبلشمنٹ، عمران اور ان کی پشت پناہ اور سہولت کار قوتوں کی افغان پالیسی پاکستان اور پاکستانی مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کو بڑی مہنگی پڑی جب کہ اس پالیسی سے مستفید ہونے والوں کی دولت اور قوت میں بے پناہ اضافہ ہوا، سسلین مافیا بھی اسی انداز میں کام کیا کرتا ہے۔

رواں ہفتے میں یہ اعلان بھی ہو گیا کہ میاں نواز شریف اکیس اکتوبر کو پاکستان آ رہے ہیں۔ شہباز شریف صاحب نے یہ اعلان لندن سے کیا ، میاں نواز شریف بھی ان کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ میاں صاحب پاکستان آئیں گے یا نہیں، اب اس حوالے سے جو قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں، وہ بھی ختم ہوئیں۔

ظاہری بات ہے کہ میاں صاحب بھی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کچھ باتوں کی یقین دہانیوں کے بعد ہی پاکستان واپس آرہے ہیں۔انتخابات نومبر2023 میں نہ سہی مارچ 2024 میں سہی۔ لیکن اگر انتخابات اس سے زیادہ عرصے کے لیے ملتوی ہوئے تو پھر بہت بڑا نقصان ہوگا اور یہ کام عدلیہ ہونے بھی نہیں دے گی،یہ ملک بین ا لاقوامی اعتبار سے تنہا رہ جائے گا۔

تبدیلی کا یہ اثر ہے کہ صدرِ پاکستان عارف علوی جو اب قائم مقام صدر ہیں، وہ الیکشن کمیشن کو صرف ایک خط ہی لکھ سکے، وہ بھی درخواست کے طور پر کہ انتخابات نومبر میں منعقد کرائے جائیں۔ درخواست تو پھر درخواست ہی ہوتی ہے حکم نامہ نہیں۔

چلیں یہ بات تو صدرصاحب نے مان ہی لی کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا استحقاق الیکشن کمشنر کا ہے نا کہ صدر صاحب کا ۔ اگر ایسا ہے تو پھر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا کیا ہوا جو اس نے دو صوبوں میں انتخابات کرانے کے حق میں دیا تھا۔ اس فیصلے میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی خود سپریم کورٹ نے کردیا،مگر انتخابات نہ ہو پائے۔


پاکستان کے اوپر نحوست کا سایہ لگتا ہے کہ اب ختم ہونے کو ہے۔ن م راشد کی ان سطروں کی طرح:

شہر کی فصیلوں پر

دیو کا جو سایہ تھا پاک ہوگیا آخر

رات کا لبادہ بھی

چاک ہو گیا آخر خاک ہو گیا آخر

اژدہام انساں سے فرد کی نوا آئی

ذات کی صدا آئی

لیکن یہ وہ گھڑی ہے جب تاریخ سے سبق سیکھا جائے اور اگر اس گھڑی میں ہم نے سبق نہ سیکھا تو سب کچھ بکھر جائے گا۔RTS سسٹم کو فیل کرنے کا پروجیکٹ ہو یا اقامہ پر نااہلی کا پروجیکٹ، ایسے کام اب نہیں چلیں گے۔اس ملک کا بحران حد درجہ سنگین ہے۔

ایوب خان آمریت نے جو ریاستی بیانیہ تشکیل دیا اور تاریخ کو مسخ کرنے کا آغاز کیا، وہ ضیاالحق کے دور میں عروج پر پہنچ گیا لیکن یہ پالیسی پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔اب یہ ملک وہاں کھڑا ہے، جہاں جناح صاحب اجنبی لگتے ہیں، ان کے افکار اجنبی لگتے ہیں۔ المیہ دیکھیں جن کو ہیرو بنایا گیا، وہ بھی اجنبی لگتے ہیں۔

اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اس ملک کی اشرافیہ ہے، جس میں سرمایہ دار،جاگیردار،قبائلی سردار، سیاسی گدی نشین، سرمایہ دار، امیر کاروباری، پروفیشنل فرمز، کارپوریٹ سیکٹر،سول، جیوڈیشل اور ملٹری بیوروکریسی شامل ہے، اس اشرافیہ کی بھاری اکثریت خان صاحب کے پیچھے کھڑی تھی۔

سندھ پیپلز پارٹی میں وڈیروں کا تسلط ہے ۔دیہی سندھ ایسا نہیں جیسا کراچی تک نظر آتا ہے۔جہاں سب مڈل کلاس سے وابستہ ہیں،جب کہ دیہی سندھ میں ایک دہقان ہے اور ایک وڈیرہ یا پیر ۔ یہ اشرافیہ میرٹ پر پروان چڑھی تھی اور نہ ہی میرٹ پر کام کرتی ہے۔گندم، چینی، گھی اور ڈالر افغانستان اسمگل ہو جا تے ہیں۔جس کا مقصد صرف یہی ہے کہ پاکستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیلا جائے۔

یہ صرف کہہ دینا کہ اسٹبلشمنٹ کو ملکی سیاست سے الگ کردیا جائے، یقینا اصولی طور پر یہ بات ٹھیک ہے مگرہے غیر فطری۔وہ اس لیے کہ ملک اس نہج تک پہنچانے والے بھی یہی لوگ ہیں اور اب کم از کم ایک دفعہ جمہوریت پسند اور لبرل سیاسی قیادت کے ساتھ کھڑے ہوکر اس ملک کو انتہاپسندی،رجعت پسندی اور دہشت گردی سے نجات دلا دیں۔
Load Next Story