رونقِ شہر
جرم و مافیاز کی داستان تو ہر بڑے شہر کا حصہ ہے لیکن کیا وہ لوگ جو ان شہروں کی روشنیوں کے اسیر ہو کر یہاں آباد ۔۔۔
جب کبھی دنیا کے کسی ایسے شہر میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے جہاں چکا چوند روشنیوں سے رات بھی دن کا سماں کیے ہوتی ہے، دن بھر کے کام کاج کے بعد رقص و سرور میں گم بہت سے لوگ تھیٹروں، سینما گھروں، نائٹ کلبوں اور شراب خانوں کی چہل پہل۔ کئی شہر تو ایسے ہیں جہاں رات ہوتی ہی نہیں۔ ایسے لگتا ہے سورج غروب ہونے کے بعد ایک دوسرا دن نکل آیا ہو۔ ان شہروں کا دن بھی گہما گہمی اور چہل پہل سے بھر پور ہوتا ہے۔ صبح سویرے ہر قسم کے ذرایع آمد و رفت انسانوں سے کچھا کھچ بھر جاتے ہیں۔ زیر زمین ٹرینوں اور بسوں میں تِل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔
ٹوکیو کی ٹرینوں کا تو یہ عالم ہے کہ انسانوں کو باقاعدہ باہر سے ٹھونس کر آٹو میٹک دروازے بند کیے جائیں تو ٹرین اگلی منزل کی جانب روانہ ہو پاتی ہے۔ پیرس، لندن، نیویارک اور ایسے دیگر شہروں کی ٹرینوں کا بھی اسی قسم کا حال ہوتا ہے۔ بسیں، ٹیکسیاں، کاریں، سائیکل سب رزق کی تلاش میں نکلے لوگوں کو تیز رفتاری سے منزل کی جانب پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی میرے جیسا شخص چند دنوں کے لیے ایسے شہرو ں میں آ نکلے جہاں اسے نہ صبح نوکری یا مزدوری پر جانا ہو اور نہ ہی واپس آ کر گھر کے بکھیڑوں میں الجھنا ہو تو اس کے لیے پورے کا پورا شہر ایک دلچسپ اور خوبصورت فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھومتا نظر آتا ہے۔
بڑی بڑی بلند و بالا عمارتیں جن میں لگے ہوئے برقی زینے یا تیز رفتار لفٹیں، پلازہ اور شاپنگ مال جن میں دنیا بھر کا سامان تعیش، کافی ہائوس کے باہر رکھی بید کی کرسیاں اور ان پر بیٹھے گفتگو کرتے لوگ، ریسٹورنٹ اور فاسٹ فوڈ کے پر رونق اور دل موہ لینے والے مقامات۔ اگر وہ شہر کے بیچوں بیچ کسی بڑے سے پارک میں چلا جائے تو اسے ہر طرح کے لوگ مل جائیں گے، ایسے بوڑھے بھی جن کی اولاد اپنی دنیا میں مصروف ہیں اور اپنی تنہائی دور کرنے یہاں آتے ہیں، اور ایسے جوڑے بھی جنھیں دنیا بھر کی مصروفیت کی کوئی پرواہ نہیں بس وہ اپنی محبت کا ایک گوشہ آباد کیے ہوتے ہیں۔ ذرایع آمد و رفت کے بہائو کے لیے سڑکوں کا جال اور تیز رفتاری کے لیے کئی کئی منزلہ پل۔ سیاحوں کے لیے مخصوص مقامات تو رونق اور رنگ کی ایک دنیا لیے ہوتے ہیں۔
پیرس کا ایفل ٹاور ہو یا لندن کا بگ بین، نیویارک کا بیٹری پارک ہو یا واشنگٹن کا وہ مقام جہاں ابراہیم لنکن کا مجسمہ اور آزادی کا مینار ہے۔ سب جگہ دنیا کی ہر قوم کا فرد آپ کو مل جائے گا اور ہر کوئی اس چہل پہل، رونق اور ہنستی مسکراتی زندگی سے متاثر نظر آ رہا ہو گا۔ مغرب میں لاس اینجلس سے لے کر مشرق میں ٹوکیو تک جب کبھی بھی کسی شہر کی رونقوں اور چہل پہل کی نیرنگیوں میں کھوتا ہوں تو پتہ نہیں کیوں قرآن پاک کی یہ آیت کانوں میں گونجنے لگتی ہے۔
''دنیاکے شہروں میں اللہ کے نافرمان لوگوں کا خوشحالی سے چلنا پھر نا تمہیں ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے''۔ یہ تو تھوڑا سا لطف اور مزہ ہے جو یہ لوگ اڑا رہے ہیں پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بدترین جائے قرار ہے (آل عمران۔197) دنیا کے ان خوبصورت، دلکش اور دلفریب شہروں کو سیاح کی نظر سے دیکھنے والے میرے جیسے عام لوگ ایک ایسا خوش کن تاثر لے کر جب وطن لوٹتے ہیں تو انھیں اپنے شہر، گائوں، بستی اور ماحول سے الجھن سی ہونے لگتی ہے۔
ایک ایسا احساس محرومی جس کی کوکھ سے صرف اور صرف ایک ہی تصور جنم لیتا ہے کہ، دنیا کی ترقی اور رونق صرف اور صرف معاشی خوشحالی کے ساتھ وابستہ ہے، اور انسان کو سکون اور اطمینان کی دولت بھی سرمائے کی دولت ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ یوں تو سرمائے پر مکمل بھروسے کے اس فلسفے کی ریت بہت قدیم ہے۔ اتنی ہی قدیم جتنی انسانی تہذیب۔ لیکن شاید قرآن پاک کی یہ آیت آج کے اس سرمایہ دارانہ دور میں آباد ہونے والے خوشنما بڑے بڑے شہروں پر کسقدر صادق آتی ہے کہ یہ دکھاوا صرف میرے جیسے سیاح صفت لوگوں کے لیے ہے کوئی ان میں رہنے کی اذیت تو برداشت کرے۔
یہ بڑے بڑے شہر بھی تو انسان نے اب بنائے اور ان بڑے بڑے شہروں کی آفتیں اور مصیبتیں بھی اپنے سر لے لیں۔ چہل پہل اور رونق سے بھرے ان شہروں کی آفتوں پر دنیا بھر میں مخصوص علم وجود میں آئے ہیں۔ جرائم کی ایک دنیا ہے جو ان بڑے شہروں سے وابستہ ہے۔ سوشیالوجی اور جُرمیات (Criminology) کا ایک بہت بڑا حصہ ایسے بڑے شہروں کی روز افزوں بڑھوتری (Urbanization) سے متعلق ہے۔ جرائم کا ایک انوکھا سلسلہ ہے جو ان شہروں کے رنگ و رونق سے جڑا ہوا ہے۔ بڑے بڑے مافیاز ہیں جو یہاں پلتے ہیں، جوان ہوتے ہیں اور اپنے غیر قانونی کاروبار کو وسعت دیتے ہیں۔ ان غیر قانونی کاروباروں کا سلسلہ دنیا بھر کے شہروں تک پھیلا ہوتا ہے۔
منشیات ایک ملک سے دوسرے تک ایسے قافلوں میں لے جائی جاتی ہے جن کے تحفظ کے لیے جہاز پر فائر کرنے والی مشین گنیں لگی ہوتی ہیں۔ جہاں کہیں غربت ، جنگ یا خانہ جنگی ہو وہاں سے معصوم کمسن بچیوں کو کبھی لالچ، کبھی دھونس اور کبھی اغوا کے ذریعے ان بڑے شہروں کی چکا چوند میں لایا جاتا ہے اور پھر ان سے شہریوں کے تعیش اور سیاحوں کے لیے نائٹ لائف کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دنیا کے ہر بڑے شہر کے بارے میں چھپنے والے سیاحوں کے کتا بچے اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ان میں ایک حصہ ''نائٹ لائف'' کے لیے مختص ملے گا۔ جواء اور پھر اس سے وابستہ دیگر سرگرمیاں تو ایسی ہیں جو کہیں سر عام ہوتی ہیں اور کہیں مافیا کی زیر زمین پناہ گاہوں میں۔
یہ سب اتنی آسانی سے وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ اس کے لیے تربیت یافتہ گروہ بنائے جاتے ہیں جو قتل، اغوا تشدد اور لوٹ مار میں طاق ہوتے ہیں۔ یہ قتل و غارت وہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی کرتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سا تھ بھی۔ اس کاروبار کے راستے میں اگر ایک عام شہری بھی آ جائے وہ بھی موت کا سزاوار ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ چھوٹی بستیوں اور چھوٹے شہروں میں اس لیے نہیں ہو سکتا کہ وہاں آبادی ایک کپڑے میں لگی تاروں کی بُنت کی طرح آپس میں جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ اجنبی بھی پہچانا جاتا ہے اور جرم کرنے والا بھی۔ اسے معاشرتی زبان میں ''سوشل کنٹرول'' کہتے ہیں۔
جرم و مافیاز کی داستان تو ہر بڑے شہر کا حصہ ہے لیکن کیا وہ لوگ جو ان شہروں کی روشنیوں کے اسیر ہو کر یہاں آباد ہو جاتے ہیں ان کی زندگیاں بھی ایسی ہی روشن ہوتی ہیں، کونسا ایسا بڑا شہر ہے جہاں خاندان ٹوٹ کر، بکھر کر تباہ و برباد نہیں ہو چکا۔ خاندانی زندگی خواب ہو چکی۔ میں یہاں اعداد و شمار سے تحریر کو بوجھل نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن ان چکا چوند شہروں کے انسانی زندگی کو دیے گئے چند تحفوں میں سے بے تحاشہ طلاق، کنواری کم عمر مائوں کی کثرت، سیریل کلر زکا نہ رُکنے والا ایک سلسلہ، اولاد کے ہاتھوں دھتکارے ہوئے بوڑھے والدین کے لیے اولڈ ایج ہوم، جسم فروشی اور نشہ آور ادویات کے استعمال کی کثرت، خاندانی زندگی سے نفرت کے بعد جنسی بے راہ روی اور اس طرح کے ایسے ہزاروں المیے ہیں جن پر ان شہروں کی چکا چوند اور روشنی نظر ہی نہیں پڑنے دیتی۔
لیکن اس المیے کا نتیجہ معیارِ زندگی کی دوڑ میں صبح سے شام تک دوڑتے بھاگتے مرو اور عورتیں۔ ضروریات زندگی اور شہر کے معیار زندگی کے عذاب کو پورا کرنے کے لیے ایک سے زیادہ نوکریاں کرتے ہوئے، مشین بنے ہوئے انسان۔ دن بھر کے تھکے ہارے کسی شراب خانے میں تھکن اتارتے ہوئے یا ہفتے بھر کے کام سے پژ مردہ کسی ''نائٹ لائف'' کے پرکشش ٹھکانے پر سکون حاصل کرتے ہوئے۔ یہ ہے وہ چہل پہل جس کے بارے میں میرے اللہ نے کیسا سچ سچ فرمایا۔ ''دنیاکے شہروں میں اللہ کے نافرمان لوگوں کا خوشحالی سے چلنا پھرنا تمہیں ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے''۔
ٹوکیو کی ٹرینوں کا تو یہ عالم ہے کہ انسانوں کو باقاعدہ باہر سے ٹھونس کر آٹو میٹک دروازے بند کیے جائیں تو ٹرین اگلی منزل کی جانب روانہ ہو پاتی ہے۔ پیرس، لندن، نیویارک اور ایسے دیگر شہروں کی ٹرینوں کا بھی اسی قسم کا حال ہوتا ہے۔ بسیں، ٹیکسیاں، کاریں، سائیکل سب رزق کی تلاش میں نکلے لوگوں کو تیز رفتاری سے منزل کی جانب پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی میرے جیسا شخص چند دنوں کے لیے ایسے شہرو ں میں آ نکلے جہاں اسے نہ صبح نوکری یا مزدوری پر جانا ہو اور نہ ہی واپس آ کر گھر کے بکھیڑوں میں الجھنا ہو تو اس کے لیے پورے کا پورا شہر ایک دلچسپ اور خوبصورت فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھومتا نظر آتا ہے۔
بڑی بڑی بلند و بالا عمارتیں جن میں لگے ہوئے برقی زینے یا تیز رفتار لفٹیں، پلازہ اور شاپنگ مال جن میں دنیا بھر کا سامان تعیش، کافی ہائوس کے باہر رکھی بید کی کرسیاں اور ان پر بیٹھے گفتگو کرتے لوگ، ریسٹورنٹ اور فاسٹ فوڈ کے پر رونق اور دل موہ لینے والے مقامات۔ اگر وہ شہر کے بیچوں بیچ کسی بڑے سے پارک میں چلا جائے تو اسے ہر طرح کے لوگ مل جائیں گے، ایسے بوڑھے بھی جن کی اولاد اپنی دنیا میں مصروف ہیں اور اپنی تنہائی دور کرنے یہاں آتے ہیں، اور ایسے جوڑے بھی جنھیں دنیا بھر کی مصروفیت کی کوئی پرواہ نہیں بس وہ اپنی محبت کا ایک گوشہ آباد کیے ہوتے ہیں۔ ذرایع آمد و رفت کے بہائو کے لیے سڑکوں کا جال اور تیز رفتاری کے لیے کئی کئی منزلہ پل۔ سیاحوں کے لیے مخصوص مقامات تو رونق اور رنگ کی ایک دنیا لیے ہوتے ہیں۔
پیرس کا ایفل ٹاور ہو یا لندن کا بگ بین، نیویارک کا بیٹری پارک ہو یا واشنگٹن کا وہ مقام جہاں ابراہیم لنکن کا مجسمہ اور آزادی کا مینار ہے۔ سب جگہ دنیا کی ہر قوم کا فرد آپ کو مل جائے گا اور ہر کوئی اس چہل پہل، رونق اور ہنستی مسکراتی زندگی سے متاثر نظر آ رہا ہو گا۔ مغرب میں لاس اینجلس سے لے کر مشرق میں ٹوکیو تک جب کبھی بھی کسی شہر کی رونقوں اور چہل پہل کی نیرنگیوں میں کھوتا ہوں تو پتہ نہیں کیوں قرآن پاک کی یہ آیت کانوں میں گونجنے لگتی ہے۔
''دنیاکے شہروں میں اللہ کے نافرمان لوگوں کا خوشحالی سے چلنا پھر نا تمہیں ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے''۔ یہ تو تھوڑا سا لطف اور مزہ ہے جو یہ لوگ اڑا رہے ہیں پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بدترین جائے قرار ہے (آل عمران۔197) دنیا کے ان خوبصورت، دلکش اور دلفریب شہروں کو سیاح کی نظر سے دیکھنے والے میرے جیسے عام لوگ ایک ایسا خوش کن تاثر لے کر جب وطن لوٹتے ہیں تو انھیں اپنے شہر، گائوں، بستی اور ماحول سے الجھن سی ہونے لگتی ہے۔
ایک ایسا احساس محرومی جس کی کوکھ سے صرف اور صرف ایک ہی تصور جنم لیتا ہے کہ، دنیا کی ترقی اور رونق صرف اور صرف معاشی خوشحالی کے ساتھ وابستہ ہے، اور انسان کو سکون اور اطمینان کی دولت بھی سرمائے کی دولت ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ یوں تو سرمائے پر مکمل بھروسے کے اس فلسفے کی ریت بہت قدیم ہے۔ اتنی ہی قدیم جتنی انسانی تہذیب۔ لیکن شاید قرآن پاک کی یہ آیت آج کے اس سرمایہ دارانہ دور میں آباد ہونے والے خوشنما بڑے بڑے شہروں پر کسقدر صادق آتی ہے کہ یہ دکھاوا صرف میرے جیسے سیاح صفت لوگوں کے لیے ہے کوئی ان میں رہنے کی اذیت تو برداشت کرے۔
یہ بڑے بڑے شہر بھی تو انسان نے اب بنائے اور ان بڑے بڑے شہروں کی آفتیں اور مصیبتیں بھی اپنے سر لے لیں۔ چہل پہل اور رونق سے بھرے ان شہروں کی آفتوں پر دنیا بھر میں مخصوص علم وجود میں آئے ہیں۔ جرائم کی ایک دنیا ہے جو ان بڑے شہروں سے وابستہ ہے۔ سوشیالوجی اور جُرمیات (Criminology) کا ایک بہت بڑا حصہ ایسے بڑے شہروں کی روز افزوں بڑھوتری (Urbanization) سے متعلق ہے۔ جرائم کا ایک انوکھا سلسلہ ہے جو ان شہروں کے رنگ و رونق سے جڑا ہوا ہے۔ بڑے بڑے مافیاز ہیں جو یہاں پلتے ہیں، جوان ہوتے ہیں اور اپنے غیر قانونی کاروبار کو وسعت دیتے ہیں۔ ان غیر قانونی کاروباروں کا سلسلہ دنیا بھر کے شہروں تک پھیلا ہوتا ہے۔
منشیات ایک ملک سے دوسرے تک ایسے قافلوں میں لے جائی جاتی ہے جن کے تحفظ کے لیے جہاز پر فائر کرنے والی مشین گنیں لگی ہوتی ہیں۔ جہاں کہیں غربت ، جنگ یا خانہ جنگی ہو وہاں سے معصوم کمسن بچیوں کو کبھی لالچ، کبھی دھونس اور کبھی اغوا کے ذریعے ان بڑے شہروں کی چکا چوند میں لایا جاتا ہے اور پھر ان سے شہریوں کے تعیش اور سیاحوں کے لیے نائٹ لائف کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دنیا کے ہر بڑے شہر کے بارے میں چھپنے والے سیاحوں کے کتا بچے اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو ان میں ایک حصہ ''نائٹ لائف'' کے لیے مختص ملے گا۔ جواء اور پھر اس سے وابستہ دیگر سرگرمیاں تو ایسی ہیں جو کہیں سر عام ہوتی ہیں اور کہیں مافیا کی زیر زمین پناہ گاہوں میں۔
یہ سب اتنی آسانی سے وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ اس کے لیے تربیت یافتہ گروہ بنائے جاتے ہیں جو قتل، اغوا تشدد اور لوٹ مار میں طاق ہوتے ہیں۔ یہ قتل و غارت وہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی کرتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سا تھ بھی۔ اس کاروبار کے راستے میں اگر ایک عام شہری بھی آ جائے وہ بھی موت کا سزاوار ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ چھوٹی بستیوں اور چھوٹے شہروں میں اس لیے نہیں ہو سکتا کہ وہاں آبادی ایک کپڑے میں لگی تاروں کی بُنت کی طرح آپس میں جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ اجنبی بھی پہچانا جاتا ہے اور جرم کرنے والا بھی۔ اسے معاشرتی زبان میں ''سوشل کنٹرول'' کہتے ہیں۔
جرم و مافیاز کی داستان تو ہر بڑے شہر کا حصہ ہے لیکن کیا وہ لوگ جو ان شہروں کی روشنیوں کے اسیر ہو کر یہاں آباد ہو جاتے ہیں ان کی زندگیاں بھی ایسی ہی روشن ہوتی ہیں، کونسا ایسا بڑا شہر ہے جہاں خاندان ٹوٹ کر، بکھر کر تباہ و برباد نہیں ہو چکا۔ خاندانی زندگی خواب ہو چکی۔ میں یہاں اعداد و شمار سے تحریر کو بوجھل نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن ان چکا چوند شہروں کے انسانی زندگی کو دیے گئے چند تحفوں میں سے بے تحاشہ طلاق، کنواری کم عمر مائوں کی کثرت، سیریل کلر زکا نہ رُکنے والا ایک سلسلہ، اولاد کے ہاتھوں دھتکارے ہوئے بوڑھے والدین کے لیے اولڈ ایج ہوم، جسم فروشی اور نشہ آور ادویات کے استعمال کی کثرت، خاندانی زندگی سے نفرت کے بعد جنسی بے راہ روی اور اس طرح کے ایسے ہزاروں المیے ہیں جن پر ان شہروں کی چکا چوند اور روشنی نظر ہی نہیں پڑنے دیتی۔
لیکن اس المیے کا نتیجہ معیارِ زندگی کی دوڑ میں صبح سے شام تک دوڑتے بھاگتے مرو اور عورتیں۔ ضروریات زندگی اور شہر کے معیار زندگی کے عذاب کو پورا کرنے کے لیے ایک سے زیادہ نوکریاں کرتے ہوئے، مشین بنے ہوئے انسان۔ دن بھر کے تھکے ہارے کسی شراب خانے میں تھکن اتارتے ہوئے یا ہفتے بھر کے کام سے پژ مردہ کسی ''نائٹ لائف'' کے پرکشش ٹھکانے پر سکون حاصل کرتے ہوئے۔ یہ ہے وہ چہل پہل جس کے بارے میں میرے اللہ نے کیسا سچ سچ فرمایا۔ ''دنیاکے شہروں میں اللہ کے نافرمان لوگوں کا خوشحالی سے چلنا پھرنا تمہیں ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے''۔