بلڈپیراسائٹ جو کئی نایاب جانوروں کی موت کا سبب بن چکی ہے
لاہور چڑیا گھر کے متعدد شیر،ٹائیگر، اڑیال اورمفلن شیپ میں بلڈ پیراسائٹ موجود ہے
رواں برس مارچ میں کراچی کے چڑیا گھر میں مرنے والی ہتھنی نورجہاں کی موت کی ایک وجہ بلڈ پیراسائٹ قراردی گئی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے پیراسائٹس یعنی خون کے جرثومے ہرجاندارمیں موجود ہوتے ہیں، ان کی کمی یا زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے۔
لاہور چڑیا گھرمیں مارچ 2018 میں تین شیر بلڈ پیرا سائٹس سے ہلاک ہوئے تھے اوراب بھی لاہورچڑیا گھر کے شیر،ٹائیگرسمیت مختلف اقسام کے ہرنوں میں بلڈ پیراسائٹس موجود پائے گئے ہیں۔
لاہورچڑیاگھر کے لیے 2018 میں مارچ کا مہینہ کافی مشکلات لے کرآیا تھا۔ چڑیا گھر کے تین بنگال ٹائیگر بلڈپیراسائٹس کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے لیکن اس کے بعد چڑیا گھر کے ویٹرنری ماہرین نے اس پرقابولیا تھا۔ تاہم اب کراچی چڑیا گھر کی ہتھنی نورجہاں کی بلڈپیراسائٹ کی وجہ سے موت نے ویٹرنری ماہرین کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔
ایکسپریس ٹربیون کی تحقیقات کے مطابق لاہور چڑیا گھر کے متعدد شیر،ٹائیگر، اڑیال اورمفلن شیپ میں بلڈپیراسائٹ موجود ہے۔
سینئر ویٹرنری ماہر ڈاکٹر رضوان خان نے '' ایکسپریس ٹربیون '' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پیراسائٹ یعنی جرثومے دوطرح کے ہوتے ہیں، ایک خون میں شامل ہوتے ہیں جبکہ دوسرے جسم کے مختلف حصوں یعنی جگر، پھپھیڑے اور معدے میں ہوتے ہیں۔
جس بھی جگہ پران کی کثرت ہوتی ہے یہ اس حصے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ بلڈ پیراسائٹ خون کے خلیوں کو متاثرکرتے ہیں جس کی وجہ سے خون کی نالیاں بند اور خون کی روانی متاثر اور جسم کے ٹشوز مردہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹررضوان خان کہتے ہیں متاثرہ جانور کو بخارہونے لگتا ہے اور کمزوری سستی اوراداسی کے علاوہ جانورکھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔
2018 میں جب لاہورچڑیا گھرکے تین ٹائیگر اورممکنہ طورپر چند ہرنوں کی بلڈپیراسائٹس سے اموات ہوئیں تو پھراس پرقابو کیسے پایاگیا تھا؟ اس سوال کاجواب دیتے ہوئے لاہورچڑیا گھر کی ڈپٹی ڈائریکٹر کرن سلیم کا کہنا تھا یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈاینمل سائنسزکے ماہرین کی ہدایات پر ہم نے جانوروں کی میڈی کیشن کا شیڈول بنایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جانوروں کے خون سمیت مختلف ٹیسٹ پہلے بھی کیے جارہے تھے۔ ماہرین کی ہدایت پر متاثرہ جانوروں کو طاقتور اینٹی پیراسائٹک اوراینٹی بایوٹک ادویات دی گئیں جس کی وجہ سے اموات کا سلسلہ رک گیا تھا لیکن چڑیا گھر کے کئی جانوروں میں اب بھی بلڈپیراسائٹ موجود ہے جن میں سب سے اہم ٹرپموسوما ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خون کے ان جراثیم کی کئی دیگر اقسام بھی ہیں۔
پنجاب لائیواسٹاک کے شعبہ ریسرچ کے ڈائریکٹرجنرل ڈاکٹر سجاد حسین نے بتایا کہ بلڈپیراسائٹ 5 سے 6 اقسام کے ہوتے ہیں اور یہ ٹکس / ویکٹرکے ذریعے جاندارمیں منتقل ہوتے ہیں۔
جب کسی جانور کے خون میں جرثومے شامل ہوجاتے ہیں تو پانچ سے چھ دن میں اس کی علامات سامنے آنا شروع ہوجاتی ہیں تاہم اگربروقت تشخیص ہوجائے توعلاج ممکن ہے۔
اس کے انجیکشن بھی موجود ہیں اور ادویات بھی میسرہیں جن کے ذریعے بلڈ پیراسائٹ کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے لیکن اگر علاج نہ کیا جائے تو متاثرہ جانور کی موت واقع ہوسکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے عام مویشیوں کی نسبت جنگلی جانوروں میں اس کی تشخیص مشکل سے ہوتی ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جنگلی جانوروں کو پکڑنا اوران کے ٹیسٹ کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ خاص طورپرشیر،ٹائیگر وغیرہ۔اس لیے جب تک ان میں علامات ظاہرنہیں ہوتیں اس وقت تک ٹیسٹ بھی نہیں کروائے جاتے۔
ماہرین کے مطابق بعض جانور بلڈپیراسائٹ کے کیریئرہوتے ہیں جبکہ ایک مخصوص قسم کی مکھی اسے ایک سے دوسرے جانور اور انسان میں منتقل کرتی ہے۔
ماہرین کے مطابق سی سی فلائی نامی یہ مکھی افریقہ میں پائی جاتی ہے، ابھی تک پاکستان میں بلڈپیراسائٹ جانوروں سے کسی انسان میں منتقل ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔
لاہور چڑیا گھرمیں مارچ 2018 میں تین شیر بلڈ پیرا سائٹس سے ہلاک ہوئے تھے اوراب بھی لاہورچڑیا گھر کے شیر،ٹائیگرسمیت مختلف اقسام کے ہرنوں میں بلڈ پیراسائٹس موجود پائے گئے ہیں۔
لاہورچڑیاگھر کے لیے 2018 میں مارچ کا مہینہ کافی مشکلات لے کرآیا تھا۔ چڑیا گھر کے تین بنگال ٹائیگر بلڈپیراسائٹس کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے لیکن اس کے بعد چڑیا گھر کے ویٹرنری ماہرین نے اس پرقابولیا تھا۔ تاہم اب کراچی چڑیا گھر کی ہتھنی نورجہاں کی بلڈپیراسائٹ کی وجہ سے موت نے ویٹرنری ماہرین کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔
ایکسپریس ٹربیون کی تحقیقات کے مطابق لاہور چڑیا گھر کے متعدد شیر،ٹائیگر، اڑیال اورمفلن شیپ میں بلڈپیراسائٹ موجود ہے۔
سینئر ویٹرنری ماہر ڈاکٹر رضوان خان نے '' ایکسپریس ٹربیون '' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پیراسائٹ یعنی جرثومے دوطرح کے ہوتے ہیں، ایک خون میں شامل ہوتے ہیں جبکہ دوسرے جسم کے مختلف حصوں یعنی جگر، پھپھیڑے اور معدے میں ہوتے ہیں۔
جس بھی جگہ پران کی کثرت ہوتی ہے یہ اس حصے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ بلڈ پیراسائٹ خون کے خلیوں کو متاثرکرتے ہیں جس کی وجہ سے خون کی نالیاں بند اور خون کی روانی متاثر اور جسم کے ٹشوز مردہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
ڈاکٹررضوان خان کہتے ہیں متاثرہ جانور کو بخارہونے لگتا ہے اور کمزوری سستی اوراداسی کے علاوہ جانورکھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔
2018 میں جب لاہورچڑیا گھرکے تین ٹائیگر اورممکنہ طورپر چند ہرنوں کی بلڈپیراسائٹس سے اموات ہوئیں تو پھراس پرقابو کیسے پایاگیا تھا؟ اس سوال کاجواب دیتے ہوئے لاہورچڑیا گھر کی ڈپٹی ڈائریکٹر کرن سلیم کا کہنا تھا یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈاینمل سائنسزکے ماہرین کی ہدایات پر ہم نے جانوروں کی میڈی کیشن کا شیڈول بنایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جانوروں کے خون سمیت مختلف ٹیسٹ پہلے بھی کیے جارہے تھے۔ ماہرین کی ہدایت پر متاثرہ جانوروں کو طاقتور اینٹی پیراسائٹک اوراینٹی بایوٹک ادویات دی گئیں جس کی وجہ سے اموات کا سلسلہ رک گیا تھا لیکن چڑیا گھر کے کئی جانوروں میں اب بھی بلڈپیراسائٹ موجود ہے جن میں سب سے اہم ٹرپموسوما ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خون کے ان جراثیم کی کئی دیگر اقسام بھی ہیں۔
پنجاب لائیواسٹاک کے شعبہ ریسرچ کے ڈائریکٹرجنرل ڈاکٹر سجاد حسین نے بتایا کہ بلڈپیراسائٹ 5 سے 6 اقسام کے ہوتے ہیں اور یہ ٹکس / ویکٹرکے ذریعے جاندارمیں منتقل ہوتے ہیں۔
جب کسی جانور کے خون میں جرثومے شامل ہوجاتے ہیں تو پانچ سے چھ دن میں اس کی علامات سامنے آنا شروع ہوجاتی ہیں تاہم اگربروقت تشخیص ہوجائے توعلاج ممکن ہے۔
اس کے انجیکشن بھی موجود ہیں اور ادویات بھی میسرہیں جن کے ذریعے بلڈ پیراسائٹ کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے لیکن اگر علاج نہ کیا جائے تو متاثرہ جانور کی موت واقع ہوسکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے عام مویشیوں کی نسبت جنگلی جانوروں میں اس کی تشخیص مشکل سے ہوتی ہے جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جنگلی جانوروں کو پکڑنا اوران کے ٹیسٹ کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ خاص طورپرشیر،ٹائیگر وغیرہ۔اس لیے جب تک ان میں علامات ظاہرنہیں ہوتیں اس وقت تک ٹیسٹ بھی نہیں کروائے جاتے۔
ماہرین کے مطابق بعض جانور بلڈپیراسائٹ کے کیریئرہوتے ہیں جبکہ ایک مخصوص قسم کی مکھی اسے ایک سے دوسرے جانور اور انسان میں منتقل کرتی ہے۔
ماہرین کے مطابق سی سی فلائی نامی یہ مکھی افریقہ میں پائی جاتی ہے، ابھی تک پاکستان میں بلڈپیراسائٹ جانوروں سے کسی انسان میں منتقل ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔