ہوشربا مہنگائی
انسانوں کی خوراک سے لے کر جانوروں کی خوراک تک مصنوعات کی مقدار کو کم اور قیمتوں کو زیادہ کیا جا رہا ہے
نگراں حکومت نے ایک بار پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ کردیا ہے، جس کی وجہ سے ملک بھر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں راتوں رات اضافہ ہوگیا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ اورریلوے کے کرایوں میں کئی گنا فوری اضافہ کردیا گیا ہے۔
دوسری جانب انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالرکی گراوٹ کا سلسلہ نئے شروع ہونے والے کاروباری ہفتے میں بھی جاری ہے، جس کے نتیجے میں روپیہ مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر مزید کم ہوئی، اور ڈالرکم ہوکر295 روپے 85 پیسے کا ہوگیا۔
ڈیڑھ سال سے اوپر ہونے کو آیا ہے، معیشت کی بحالی، مہنگائی میں کمی اور روزگار کی فراہمی کا دور دور تک نشان نظر نہیں آرہا۔ بجلی،گیس اور پٹرولیم کی مصنوعات کی مقامی و عالمی قیمتوں میں تفاوت ہے جب کہ بجلی و گیس مہنگی تر ہونے کے باوجود اس کا سرکلر ڈیٹ ختم ہونے کو نہیں آرہا، حالانکہ ٹیکس بڑھائے گئے ہیں اور اُن کا زیادہ تر بوجھ غریب عوام اور متوسط طبقے پر ڈالا گیا ہے۔
پھر بھی یہ آئی ایم ایف کے دیے گئے ٹارگٹ سے کم ہے، شرط اگر نہیں ہے تو وہ مہنگائی اور بیروزگاری کو کم کرنے کی نہیں ہے، کیونکہ مہنگائی اور بیروزگاری کا بڑھنا اس پروگرام کا جزوِ لاینفک ہے۔ قرض ایسے نہیں اُتارے جاتے بلکہ قومی پیداواری استعداد بڑھانے سے اُتارے جاتے ہیں اور اپنے ذرایع میں رہتے ہوئے اخراجات کو قابو میں رکھا جاتا ہے۔
ابھی حالت یہ ہے کہ قرض ادا کرنے اور دفاعی خرچے پورے کرنے کے بعد وفاقی محاصل کسی بھی کام کے لیے نہیں بچتے تو ملک کیا خاک ترقی کرے گا۔ ابھی آئی ایم ایف سے بات اس پر اٹکی ہوئی ہے کہ اگلے چھ ماہ میں عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالا جائے۔
ایک غریب خاندان کی آمدن محدود اور فکس ہوتی ہے، جیسے ہی کسی کھانے پینے کی چیز کے اچانک نرخ بڑھتے ہیں تو عام آدمی اسے خرید نہیں پاتا اور نوبت فاقوں تک آ جاتی ہے ناجائز منافع خوروں، اسمگلروں اور ذخیرہ اندزوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ان کے اس غیر انسانی عمل سے لوگ بھوکے رہنے پر مجبور ہو رہے ہیں حتیٰ کہ خودکشی کا رحجان فروغ پا رہا ہے۔ کوئی چیز بھی خریدنا آسان نہیں رہا ہر کوئی اسی کا کا رونا رو رہا ہے۔
ہم مہنگائی کی وجہ تلاش کرتے ہیں تو اس کی ایک وجہ ناجائز منافع خوری بھی ہے چیزوں کی قیمت کچھ ہوتی ہے اور بیچی کچھ اور قیمت پر جاتی ہیں زیادہ تر تو سرکاری ریٹ لسٹ پر عمل ہی نہیں کیا جاتا اور عمل اس وجہ سے نہیں کیا جاتا، ان کو پتہ ہوتا ہے کہ کوئی نہیں پوچھنے والا۔ سوچا یہ ہی جاتا ہے جتنا ناجائز منافع کما لو اتنا ہی بہتر ہے، حالانکہ صدر مملکت عارف علوی ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری روک تھام بل کی منظوری دے چکے ہیں۔
یہ بل قومی اسمبلی سے7 اگست کو منظور کیا گیا تھا۔ پرائس کنٹرول ایکٹ 1977ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کا قانون ہے۔ قانون ضروری اشیا کی قیمتیں، ان پر منافع کا تعین کا اختیار کنٹرولر جنرل پرائس کو دیتا ہے۔ اس قانون میں سیکشن 6 اے کے تحت پروڈیوسر ڈیلر اور امپورٹر کو اپیل کا حق دیا گیا ہے۔ بل منظور ہونے کے بعد اس پر عملدرآمد کے پاکستانی عوام تاحال منتظر ہیں۔
قیام پاکستان سے پہلے لاہور کے انارکلی بازار میں مسلمانوں کی صرف ایک ہی دکان تھی جب کہ باقی دکانیں سکھ اور ہندوؤں کی تھیں۔ کراچی کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا، اس زمانے کے دکاندار ایک روپے کی اشیائے صرف فروخت کرنے پر صرف ایک آدھا پیسہ منافع لیتے تھے۔ ان کی کوشش یہ ہی ہوتی تھی کہ فروخت زیادہ سے زیادہ ہو اور ان کے گاہک بھی زیادہ سے زیادہ بنیں وقت بدلہ تو کاروبارکی بنیاد ہی بدل کے رہ گئیں۔
اب دکاندار کی سوچ ہی یہ ہوتی ہے کہ ایک ہی گاہک سے دن بھر کی کمائی کر لی جائے۔ دراصل ضلعی پرائس کنٹرول کمیٹیاں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام کے لیے موثر اقدامات نہیں کرتیں۔ اشیائے ضروریہ کی ریٹ لسٹ کے مطابق فروخت یقینی نہیں بنائی جاتی۔ پرائس کنٹرول میکانزم پر عملدرآمد میں غفلت برتی جاتی ہے جس کا فائدہ پھر منافع خور اٹھاتے ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی بڑھے گی۔ ملکی معیشت پہلے ہی تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔کئی سالوں سے خوراک پر مشتمل مصنوعات بنانے والی کمپنیاں اپنی اشیا کی مقدار کو مسلسل کم کر رہی ہیں، تاہم ان کی قیمتیں کم نہیں ہو رہی ہیں، الٹا بعض اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چپس، جیم، آئس کریم، چاکلیٹ، مکھن، چیز وغیرہ بنانے والی کمپنیوں کی مصنوعات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کس طرح انھوں نے کچھ سالوں سے مسلسل اپنی مصنوعات کی پیکنگ میں اس طرح کی تبدیلیاں کی ہیں کہ ان کا بظاہر حجم برقرار رکھ کر ان میں پیک ہونے والی مصنوعات کی مقدار کو کم کر دیا جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چپس کے بیگ میں ہوا کا بھرنا ہو، جیم یا مکھن کے جار کے نچلے حصے میں ایک ڈمپل کا اضافہ کرنا ہو، یا پھر چاکلیٹ کے ڈیزائن میں تبدیلی کے ذریعے اس کی مقدار کم کرنا ہو، یہ تبدیلیاں اتنی باریک اور معمولی نوعیت کی ہوتی ہیں کہ عام صارف کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ تاہم مختلف مصنوعات کے جائزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مقدار میں بتدریج 30 فیصد تک کی کمی کر دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ کارپوریٹ پریکٹس رواں سال اور زیادہ عام ہو گئی ہے۔ کمپنیاں مہنگائی کے بہانے کو قیمتوں میں اضافے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
انسانوں کی خوراک سے لے کر جانوروں کی خوراک تک مصنوعات کی مقدار کو کم اور قیمتوں کو زیادہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ہمارے معاشی نظام کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔ سرمایہ داری کے تحت کمپنیوں کو ہر چیز کی قیمت پر منافع کمانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ان کو ماحول، حکومت یا صارفین سے کوئی غرض نہیں ہے۔
ان کا مقصد صرف ان سے پیسے حاصل کرنا اور زیادہ سے زیادہ اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرنا ہے۔ کوئی بھی اضافی مالی سرمایہ کاری ان کے منافع کے مارجن میں کمی لائے گی۔ نجی کمپنیاں اپنے بورڈ رومز میں بند دروازوں کے پیچھے مصنوعات کے سائز اور قیمتوں کا فیصلہ کرتی ہیں، وہ صرف اپنے شیئر ہولڈرز کو جواب دیتی ہیں۔
سبھی حکمراں جماعتیں بار بار آئی ایم ایف کے مالیاتی نسخوں کو استعمال کرتی رہی ہیں۔ بحران سے درمیانی مدت کی نجات کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کو کانٹ چھانٹ کر اس کے خرچے کم کیے جائیں، قرضوں سے نجات کا قابلِ عمل منصوبہ بنایا جائے اور ان سے اجتناب کیا جائے۔
پیداواری صنعتی استعداد بڑھائی جائے۔ صنعت کاروں اور زمینداروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے، ترقی کا عوامی ماڈل اختیار کیا جائے۔ کم از کم اجرت مہنگائی کے تناسب اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی کفالت کے تقاضوں کے مطابق متعین کی جائے جو آج کے حالات میں پچاس ہزار روپے سے کم نہیں ہو سکتی۔ کم سے کم اجرت کی شرح میں بھی مہنگائی کی شرح کے حساب سے اضافہ کیا جاتا ہے۔
ان کے نظام کی بدولت غریب اور امیر کے رہن سہن،کھانے پینے اور روز مرہ کے دیگر معاملات و سہولیات زندگی میں نمایاں فرق محسوس نہیں ہوتا۔اس کے برعکس ہمارے ملک میں غریب دن بدن غریب تر جب کہ امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ غریب اور امیر کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ غریب غربت کی چکی میں پستا چلا جا رہا ہے۔
تمام وسائل اشرافیہ اور خواص کے ہاتھوں میں ہیں۔عوام سے حاصل کیا گیا ٹیکس عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے خواص کی کرپشن، شاہ خرچیوں اور عیاشیوں کی نذر ہوجاتا ہے۔
میرٹ کی پامالی عروج پر ہے اور غریب بیچارے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ مہنگائی اور اجناس کی قیمتوں میں تواتر سے بلا جواز اضافہ کر دیا جاتا ہے جس سے غریب براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ غریب کے لیے صحت، تعلیم،روزگار، پانی اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کا شدید فقدان ہے۔
کوئی حکومت آئے یا جائے غریب کی حالت زار پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حقیقی معنوں میں غریبوں اورمزدوروں کے لیے انشورنس،پنشن، تعلیم اور علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کے برابرہیں۔ ہمارے ہاں اجرت کا کوئی فعال نظام رائج نہیں ۔عوام سے سیلز ٹیکس کے نام پر اربوں روپے اکٹھے کیے جاتے ہیں۔
ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں ٹیکس سے حاصل کی گئی رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتی ہے جب کہ ہماری یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں امیر زیادہ ٹیکس دیتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں زیادہ ٹیکس مڈل کلاس اور غریب طبقے سے حاصل کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالرکی گراوٹ کا سلسلہ نئے شروع ہونے والے کاروباری ہفتے میں بھی جاری ہے، جس کے نتیجے میں روپیہ مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر مزید کم ہوئی، اور ڈالرکم ہوکر295 روپے 85 پیسے کا ہوگیا۔
ڈیڑھ سال سے اوپر ہونے کو آیا ہے، معیشت کی بحالی، مہنگائی میں کمی اور روزگار کی فراہمی کا دور دور تک نشان نظر نہیں آرہا۔ بجلی،گیس اور پٹرولیم کی مصنوعات کی مقامی و عالمی قیمتوں میں تفاوت ہے جب کہ بجلی و گیس مہنگی تر ہونے کے باوجود اس کا سرکلر ڈیٹ ختم ہونے کو نہیں آرہا، حالانکہ ٹیکس بڑھائے گئے ہیں اور اُن کا زیادہ تر بوجھ غریب عوام اور متوسط طبقے پر ڈالا گیا ہے۔
پھر بھی یہ آئی ایم ایف کے دیے گئے ٹارگٹ سے کم ہے، شرط اگر نہیں ہے تو وہ مہنگائی اور بیروزگاری کو کم کرنے کی نہیں ہے، کیونکہ مہنگائی اور بیروزگاری کا بڑھنا اس پروگرام کا جزوِ لاینفک ہے۔ قرض ایسے نہیں اُتارے جاتے بلکہ قومی پیداواری استعداد بڑھانے سے اُتارے جاتے ہیں اور اپنے ذرایع میں رہتے ہوئے اخراجات کو قابو میں رکھا جاتا ہے۔
ابھی حالت یہ ہے کہ قرض ادا کرنے اور دفاعی خرچے پورے کرنے کے بعد وفاقی محاصل کسی بھی کام کے لیے نہیں بچتے تو ملک کیا خاک ترقی کرے گا۔ ابھی آئی ایم ایف سے بات اس پر اٹکی ہوئی ہے کہ اگلے چھ ماہ میں عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالا جائے۔
ایک غریب خاندان کی آمدن محدود اور فکس ہوتی ہے، جیسے ہی کسی کھانے پینے کی چیز کے اچانک نرخ بڑھتے ہیں تو عام آدمی اسے خرید نہیں پاتا اور نوبت فاقوں تک آ جاتی ہے ناجائز منافع خوروں، اسمگلروں اور ذخیرہ اندزوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ان کے اس غیر انسانی عمل سے لوگ بھوکے رہنے پر مجبور ہو رہے ہیں حتیٰ کہ خودکشی کا رحجان فروغ پا رہا ہے۔ کوئی چیز بھی خریدنا آسان نہیں رہا ہر کوئی اسی کا کا رونا رو رہا ہے۔
ہم مہنگائی کی وجہ تلاش کرتے ہیں تو اس کی ایک وجہ ناجائز منافع خوری بھی ہے چیزوں کی قیمت کچھ ہوتی ہے اور بیچی کچھ اور قیمت پر جاتی ہیں زیادہ تر تو سرکاری ریٹ لسٹ پر عمل ہی نہیں کیا جاتا اور عمل اس وجہ سے نہیں کیا جاتا، ان کو پتہ ہوتا ہے کہ کوئی نہیں پوچھنے والا۔ سوچا یہ ہی جاتا ہے جتنا ناجائز منافع کما لو اتنا ہی بہتر ہے، حالانکہ صدر مملکت عارف علوی ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری روک تھام بل کی منظوری دے چکے ہیں۔
یہ بل قومی اسمبلی سے7 اگست کو منظور کیا گیا تھا۔ پرائس کنٹرول ایکٹ 1977ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کا قانون ہے۔ قانون ضروری اشیا کی قیمتیں، ان پر منافع کا تعین کا اختیار کنٹرولر جنرل پرائس کو دیتا ہے۔ اس قانون میں سیکشن 6 اے کے تحت پروڈیوسر ڈیلر اور امپورٹر کو اپیل کا حق دیا گیا ہے۔ بل منظور ہونے کے بعد اس پر عملدرآمد کے پاکستانی عوام تاحال منتظر ہیں۔
قیام پاکستان سے پہلے لاہور کے انارکلی بازار میں مسلمانوں کی صرف ایک ہی دکان تھی جب کہ باقی دکانیں سکھ اور ہندوؤں کی تھیں۔ کراچی کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا، اس زمانے کے دکاندار ایک روپے کی اشیائے صرف فروخت کرنے پر صرف ایک آدھا پیسہ منافع لیتے تھے۔ ان کی کوشش یہ ہی ہوتی تھی کہ فروخت زیادہ سے زیادہ ہو اور ان کے گاہک بھی زیادہ سے زیادہ بنیں وقت بدلہ تو کاروبارکی بنیاد ہی بدل کے رہ گئیں۔
اب دکاندار کی سوچ ہی یہ ہوتی ہے کہ ایک ہی گاہک سے دن بھر کی کمائی کر لی جائے۔ دراصل ضلعی پرائس کنٹرول کمیٹیاں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام کے لیے موثر اقدامات نہیں کرتیں۔ اشیائے ضروریہ کی ریٹ لسٹ کے مطابق فروخت یقینی نہیں بنائی جاتی۔ پرائس کنٹرول میکانزم پر عملدرآمد میں غفلت برتی جاتی ہے جس کا فائدہ پھر منافع خور اٹھاتے ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی بڑھے گی۔ ملکی معیشت پہلے ہی تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔کئی سالوں سے خوراک پر مشتمل مصنوعات بنانے والی کمپنیاں اپنی اشیا کی مقدار کو مسلسل کم کر رہی ہیں، تاہم ان کی قیمتیں کم نہیں ہو رہی ہیں، الٹا بعض اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چپس، جیم، آئس کریم، چاکلیٹ، مکھن، چیز وغیرہ بنانے والی کمپنیوں کی مصنوعات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ کس طرح انھوں نے کچھ سالوں سے مسلسل اپنی مصنوعات کی پیکنگ میں اس طرح کی تبدیلیاں کی ہیں کہ ان کا بظاہر حجم برقرار رکھ کر ان میں پیک ہونے والی مصنوعات کی مقدار کو کم کر دیا جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چپس کے بیگ میں ہوا کا بھرنا ہو، جیم یا مکھن کے جار کے نچلے حصے میں ایک ڈمپل کا اضافہ کرنا ہو، یا پھر چاکلیٹ کے ڈیزائن میں تبدیلی کے ذریعے اس کی مقدار کم کرنا ہو، یہ تبدیلیاں اتنی باریک اور معمولی نوعیت کی ہوتی ہیں کہ عام صارف کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ تاہم مختلف مصنوعات کے جائزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مقدار میں بتدریج 30 فیصد تک کی کمی کر دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ کارپوریٹ پریکٹس رواں سال اور زیادہ عام ہو گئی ہے۔ کمپنیاں مہنگائی کے بہانے کو قیمتوں میں اضافے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
انسانوں کی خوراک سے لے کر جانوروں کی خوراک تک مصنوعات کی مقدار کو کم اور قیمتوں کو زیادہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ہمارے معاشی نظام کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔ سرمایہ داری کے تحت کمپنیوں کو ہر چیز کی قیمت پر منافع کمانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ان کو ماحول، حکومت یا صارفین سے کوئی غرض نہیں ہے۔
ان کا مقصد صرف ان سے پیسے حاصل کرنا اور زیادہ سے زیادہ اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرنا ہے۔ کوئی بھی اضافی مالی سرمایہ کاری ان کے منافع کے مارجن میں کمی لائے گی۔ نجی کمپنیاں اپنے بورڈ رومز میں بند دروازوں کے پیچھے مصنوعات کے سائز اور قیمتوں کا فیصلہ کرتی ہیں، وہ صرف اپنے شیئر ہولڈرز کو جواب دیتی ہیں۔
سبھی حکمراں جماعتیں بار بار آئی ایم ایف کے مالیاتی نسخوں کو استعمال کرتی رہی ہیں۔ بحران سے درمیانی مدت کی نجات کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کو کانٹ چھانٹ کر اس کے خرچے کم کیے جائیں، قرضوں سے نجات کا قابلِ عمل منصوبہ بنایا جائے اور ان سے اجتناب کیا جائے۔
پیداواری صنعتی استعداد بڑھائی جائے۔ صنعت کاروں اور زمینداروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے، ترقی کا عوامی ماڈل اختیار کیا جائے۔ کم از کم اجرت مہنگائی کے تناسب اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی کفالت کے تقاضوں کے مطابق متعین کی جائے جو آج کے حالات میں پچاس ہزار روپے سے کم نہیں ہو سکتی۔ کم سے کم اجرت کی شرح میں بھی مہنگائی کی شرح کے حساب سے اضافہ کیا جاتا ہے۔
ان کے نظام کی بدولت غریب اور امیر کے رہن سہن،کھانے پینے اور روز مرہ کے دیگر معاملات و سہولیات زندگی میں نمایاں فرق محسوس نہیں ہوتا۔اس کے برعکس ہمارے ملک میں غریب دن بدن غریب تر جب کہ امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ غریب اور امیر کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ غریب غربت کی چکی میں پستا چلا جا رہا ہے۔
تمام وسائل اشرافیہ اور خواص کے ہاتھوں میں ہیں۔عوام سے حاصل کیا گیا ٹیکس عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے خواص کی کرپشن، شاہ خرچیوں اور عیاشیوں کی نذر ہوجاتا ہے۔
میرٹ کی پامالی عروج پر ہے اور غریب بیچارے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ مہنگائی اور اجناس کی قیمتوں میں تواتر سے بلا جواز اضافہ کر دیا جاتا ہے جس سے غریب براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ غریب کے لیے صحت، تعلیم،روزگار، پانی اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کا شدید فقدان ہے۔
کوئی حکومت آئے یا جائے غریب کی حالت زار پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حقیقی معنوں میں غریبوں اورمزدوروں کے لیے انشورنس،پنشن، تعلیم اور علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کے برابرہیں۔ ہمارے ہاں اجرت کا کوئی فعال نظام رائج نہیں ۔عوام سے سیلز ٹیکس کے نام پر اربوں روپے اکٹھے کیے جاتے ہیں۔
ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں ٹیکس سے حاصل کی گئی رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتی ہے جب کہ ہماری یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں امیر زیادہ ٹیکس دیتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں زیادہ ٹیکس مڈل کلاس اور غریب طبقے سے حاصل کیا جاتا ہے۔