مافیاز کے نرغے میں گھرے عوام
بجلی کے بلوں سے خودکشیاں ہورہی ہیں، لوگ اپنے زیورات اورقیمتی سامان اونے پونے فروخت کرکے بجلی کے بل اداکرنے پرمجبور ہیں
نگراں حکومت کے قیام کو ایک ماہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ منافع خوروں کے مافیا نے عوام کو مہنگائی کے عذاب میں مبتلا کر دیا، ملک میں چینی کی قیمت سوا دو سو روپے تک پہنچا دی گئی۔
ڈالر تین سو تیس سے بھی بڑھ گیا جس سے مہنگائی بڑھنے کی رفتار میں تیزی آگئی، مہنگائی بڑھانے میں نگراں حکومت نے بھی اپنا پورا حصہ ڈالا اورپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرکے عوام کی کمر بالکل توڑ دی جو بجلی کے بڑھتے نرخوں کے باعث پہلے ہی جھکی ہوئی تھی۔
نگراں حکومت میں چینی، ڈالر، کھاد اور دیگر اشیا پہلے ہی غائب تھی۔کسی سابق سیاسی حکومت میں وہ کچھ نہیں ہوا جو نگراں حکومت میں ستمبر کے اوائل سے شروع ہوا جس میں نگراں حکومتوں کا نہیں کسی اور ہی کا کمال تھا جنھوں نے ڈنڈا اٹھایا تو ملک میں ڈالر اور سونے کی قیمتیں کم ہونا شروع ہوئیں اور چینی بھی ایک سو ساٹھ روپے کلو گرام پر آگئی۔
مافیاز کے خلاف ڈنڈے نے کام شروع کیا، ڈالر کی خرید و فروخت متاثر ہوئی، چینی، گندم اور کھاد کے گوداموں میں چھپائی گئی بوریوں کی برآمدگی شروع ہوئی اور مہنگائی کو لگام ڈالی گئی تو 0.25 فیصد کمی واقع ہوگئی۔
ملک بھر میں چینی، یوریا اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا تو ذخیرہ کی گئی کروڑوں بوریاں برآمد ہوگئیں جس پر مہنگائی بڑھانے کی ذمے دار مافیاز گھبرا گئیں اور دکانوں، گوداموں پر چھاپوں، جرمانوں اور سیل کیے جانے کے خلاف تاجروں نے مارکیٹیں بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے جو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ ملک پر تاجروں کو ناراض نہ کرنے والی مسلم لیگ (ن) کی ہی حکومت ہے جو ان کے دباؤ میں آ کر چھاپے روک دے گی۔
ملک میں مہنگائی بڑھانے، مصنوعی قلت پیدا کرکے نرخ بڑھانے والے ذخیرہ اندوزوں ہی کے خلاف کریک ڈاؤن نہیں ہوا بلکہ گھروں میں ڈالر اور غیر ملکی کرنسی چھپانے والوں پر بھی چھاپے لگے جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور لوگ اب سوال کر رہے ہیں کہ جو اب ہو رہا ہے پہلے کیوں نہیں ہوا تھا۔
کاروباری مافیاز ہی نہیں ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری مافیاز بھی مہنگائی بڑھانے میں سرگرم ہے اور حکومت تو پٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمتوں کو جواز بنا کر ہر دفعہ 15 روز بعد نرخ بڑھایا کرتی تھی مگر جب عالمی سطح پر نرخ کم ہوتے ہیں تو فوری طور پر قیمت کم نہیں کی جاتی۔ نگراں حکومت کے عقب سے چلائے جانے والے ڈنڈے کے باعث بجلی چوروں، بجلی کے بل ادا نہ کرنے والوں اور بجلی و گیس چوری کرکے فیکٹریاں اور کارخانے چلانے والوں پر بھی چھاپے لگے تو اب روزانہ ہی گرفتاریاں اور ملوث اہلکاروں کی معطلیاں شروع ہوگئی ہیں جو خود بجلی چوری کرایا کرتے تھے۔
بجلی چور مافیاز سے اب تک اربوں روپے کے واجبات وصول کیے جا چکے ہیں۔ واپڈا اہلکاروں کے ملک گیر تبادلے ہو رہے ہیں۔ ڈنڈے نے چوروں، مہنگائی مافیاز اور ذخیرہ اندوزوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔
بجلی کی قیمتیں بڑھا بڑھا کر عوام سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ بجلی کے بلوں سے خودکشیاں ہو رہی ہیں، لوگ اپنے زیورات اور قیمتی سامان اونے پونے فروخت کرکے بجلی کے بل ادا کرنے پر مجبور ہیں جس کی ذمے دار موجودہ اور سابقہ حکومتیں ہیں جو ان صارفین سے بھی رقم وصول کر رہی ہے اور انھیں بجلی کے بھاری بھرکم بل بھیج رہی ہے جو بجلی چوری نہیں کرتے مگر بجلی چوری کرنے والوں کی چوری کی رقم وہ ادا کرنے پر مجبور ہیں مگر حکومت کو کوئی فکر نہیں ہے۔ ملک مختلف مافیاز کے چنگل میں پھنسا ہے ۔ بجلی و گیس کی عدم فراہمی پر مختلف شہروں میں روزانہ ہی احتجاج ہو رہے ہیں۔
مہنگائی بڑھانے، مصنوعی قلت پیدا کرنے اور اسمگلنگ میں ملوث مافیاز کے خلاف موجودہ کارروائی ماضی کی کسی سیاسی، فوجی اور نگراں حکومتوں میں نہیں ہوئی صرف 1958 کے مارشل لا میں مہنگائی بڑھانے، ذخیرہ اندوزوں، اسمگلروں اور ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف ضرور کارروائی ہوئی تھی اور دکاندار ملاوٹی اشیا تلف کرنے، صفائی رکھنے اور دکانوں پر رنگ کرانے پر مجبور ہوئے تھے اور ویسی ہی کارروائی اب ہو رہی ہے۔
(ن) لیگ پر الزام ہے کہ وہ تاجروں کو ناجائز سپورٹ کرتی رہی ہے اور اب تک کوئی بھی حکومت بجلی بحران میں دکانداروں سے جلد دکانیں بند کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی، یہ کام بھی اب ڈنڈا پیروں کو ہی کرنا پڑے گا جو غیر سیاسی مگر اپنے فیصلوں پر عمل کرانا بھی جانتے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ مافیاز کے نرغے میں گھرے عوام کو ان کے شکنجے سے نجات دلائی جائے اور دکانوں کے اوقات کار مقرر کرکے دن کی روشنی میں کاروبار کو فروغ دلا کر بجلی کی بچت بھی کرائی جائے کیونکہ موجودہ کاروباری اوقات غیر منطقی ہیں جس سے کاروباری برکت بھی ختم ہو چکی ہے۔ ڈنڈا پیر ہی ان مافیاز کو راہ راست پر لا سکتے ہیں جس سے عوام کو بھی مہنگائی سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔
ڈالر تین سو تیس سے بھی بڑھ گیا جس سے مہنگائی بڑھنے کی رفتار میں تیزی آگئی، مہنگائی بڑھانے میں نگراں حکومت نے بھی اپنا پورا حصہ ڈالا اورپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرکے عوام کی کمر بالکل توڑ دی جو بجلی کے بڑھتے نرخوں کے باعث پہلے ہی جھکی ہوئی تھی۔
نگراں حکومت میں چینی، ڈالر، کھاد اور دیگر اشیا پہلے ہی غائب تھی۔کسی سابق سیاسی حکومت میں وہ کچھ نہیں ہوا جو نگراں حکومت میں ستمبر کے اوائل سے شروع ہوا جس میں نگراں حکومتوں کا نہیں کسی اور ہی کا کمال تھا جنھوں نے ڈنڈا اٹھایا تو ملک میں ڈالر اور سونے کی قیمتیں کم ہونا شروع ہوئیں اور چینی بھی ایک سو ساٹھ روپے کلو گرام پر آگئی۔
مافیاز کے خلاف ڈنڈے نے کام شروع کیا، ڈالر کی خرید و فروخت متاثر ہوئی، چینی، گندم اور کھاد کے گوداموں میں چھپائی گئی بوریوں کی برآمدگی شروع ہوئی اور مہنگائی کو لگام ڈالی گئی تو 0.25 فیصد کمی واقع ہوگئی۔
ملک بھر میں چینی، یوریا اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا تو ذخیرہ کی گئی کروڑوں بوریاں برآمد ہوگئیں جس پر مہنگائی بڑھانے کی ذمے دار مافیاز گھبرا گئیں اور دکانوں، گوداموں پر چھاپوں، جرمانوں اور سیل کیے جانے کے خلاف تاجروں نے مارکیٹیں بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے جو یہ سمجھے ہوئے تھے کہ ملک پر تاجروں کو ناراض نہ کرنے والی مسلم لیگ (ن) کی ہی حکومت ہے جو ان کے دباؤ میں آ کر چھاپے روک دے گی۔
ملک میں مہنگائی بڑھانے، مصنوعی قلت پیدا کرکے نرخ بڑھانے والے ذخیرہ اندوزوں ہی کے خلاف کریک ڈاؤن نہیں ہوا بلکہ گھروں میں ڈالر اور غیر ملکی کرنسی چھپانے والوں پر بھی چھاپے لگے جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور لوگ اب سوال کر رہے ہیں کہ جو اب ہو رہا ہے پہلے کیوں نہیں ہوا تھا۔
کاروباری مافیاز ہی نہیں ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری مافیاز بھی مہنگائی بڑھانے میں سرگرم ہے اور حکومت تو پٹرولیم مصنوعات کی عالمی قیمتوں کو جواز بنا کر ہر دفعہ 15 روز بعد نرخ بڑھایا کرتی تھی مگر جب عالمی سطح پر نرخ کم ہوتے ہیں تو فوری طور پر قیمت کم نہیں کی جاتی۔ نگراں حکومت کے عقب سے چلائے جانے والے ڈنڈے کے باعث بجلی چوروں، بجلی کے بل ادا نہ کرنے والوں اور بجلی و گیس چوری کرکے فیکٹریاں اور کارخانے چلانے والوں پر بھی چھاپے لگے تو اب روزانہ ہی گرفتاریاں اور ملوث اہلکاروں کی معطلیاں شروع ہوگئی ہیں جو خود بجلی چوری کرایا کرتے تھے۔
بجلی چور مافیاز سے اب تک اربوں روپے کے واجبات وصول کیے جا چکے ہیں۔ واپڈا اہلکاروں کے ملک گیر تبادلے ہو رہے ہیں۔ ڈنڈے نے چوروں، مہنگائی مافیاز اور ذخیرہ اندوزوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔
بجلی کی قیمتیں بڑھا بڑھا کر عوام سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ بجلی کے بلوں سے خودکشیاں ہو رہی ہیں، لوگ اپنے زیورات اور قیمتی سامان اونے پونے فروخت کرکے بجلی کے بل ادا کرنے پر مجبور ہیں جس کی ذمے دار موجودہ اور سابقہ حکومتیں ہیں جو ان صارفین سے بھی رقم وصول کر رہی ہے اور انھیں بجلی کے بھاری بھرکم بل بھیج رہی ہے جو بجلی چوری نہیں کرتے مگر بجلی چوری کرنے والوں کی چوری کی رقم وہ ادا کرنے پر مجبور ہیں مگر حکومت کو کوئی فکر نہیں ہے۔ ملک مختلف مافیاز کے چنگل میں پھنسا ہے ۔ بجلی و گیس کی عدم فراہمی پر مختلف شہروں میں روزانہ ہی احتجاج ہو رہے ہیں۔
مہنگائی بڑھانے، مصنوعی قلت پیدا کرنے اور اسمگلنگ میں ملوث مافیاز کے خلاف موجودہ کارروائی ماضی کی کسی سیاسی، فوجی اور نگراں حکومتوں میں نہیں ہوئی صرف 1958 کے مارشل لا میں مہنگائی بڑھانے، ذخیرہ اندوزوں، اسمگلروں اور ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف ضرور کارروائی ہوئی تھی اور دکاندار ملاوٹی اشیا تلف کرنے، صفائی رکھنے اور دکانوں پر رنگ کرانے پر مجبور ہوئے تھے اور ویسی ہی کارروائی اب ہو رہی ہے۔
(ن) لیگ پر الزام ہے کہ وہ تاجروں کو ناجائز سپورٹ کرتی رہی ہے اور اب تک کوئی بھی حکومت بجلی بحران میں دکانداروں سے جلد دکانیں بند کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی، یہ کام بھی اب ڈنڈا پیروں کو ہی کرنا پڑے گا جو غیر سیاسی مگر اپنے فیصلوں پر عمل کرانا بھی جانتے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ مافیاز کے نرغے میں گھرے عوام کو ان کے شکنجے سے نجات دلائی جائے اور دکانوں کے اوقات کار مقرر کرکے دن کی روشنی میں کاروبار کو فروغ دلا کر بجلی کی بچت بھی کرائی جائے کیونکہ موجودہ کاروباری اوقات غیر منطقی ہیں جس سے کاروباری برکت بھی ختم ہو چکی ہے۔ ڈنڈا پیر ہی ان مافیاز کو راہ راست پر لا سکتے ہیں جس سے عوام کو بھی مہنگائی سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔