سانحہ کراچی عدالتی ٹریبونل نے تحقیقات شروع کر دی فکٹری مالکان کے اکاؤنٹس منجمد
متاثرہ فیکٹری سمیت متعدد فیکٹریاں20سال سے رجسٹرڈ نہیں،انسپکٹرز کو اتھارٹی لیٹر کے ساتھ جانے کا پابند کیا گیا،ٹریبونل
سندھ ہائیکورٹ کے سابق جسٹس زاہد قربان علوی پر مشتمل تحقیقاتی ٹریبونل نے پیر سے سانحہ بلدیہ ٹائون کی باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کردیا۔
پہلے روز محکمہ محنت کے ڈائریکٹر اعجاز بلوچ،سیکریٹری ورکرز ویلفیئر بورڈ مظفر بھٹو ، کمشنر سیسی دانش سعید کے بیانات قلمبند کیے گئے جبکہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر بلدیہ ٹاون مظہر اقبال اور ایڈووکیٹ شہزاد پیش ہوئے اور جواب داخل کرنے کیلیے مہلت طلب کی،ٹریبونل کی کارروائی کے پہلے روز کمرے میں میڈیا کے نمائندگان کے لیے گنجائش نہیں تھی ۔
میڈیا کے استفسار پر بتایاگیا کہ تحقیقات بند کمرے میں نہیںہورہی ، آئندہ میڈیا کے لیے گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی، ٹریبونل کے روبرو بیان قلمبند کرانے کے بعد ڈائریکٹر لیبر ڈپارٹمنٹ اعجاز بلوچ نے بتایا کہ بلدیہ ٹائون میں آتشزدگی کا شکار ہونے والی فیکٹری علی انٹر پرائززسمیت متعدد فیکٹریاں گزشتہ 20سال سے ہمارے محکمے میں رجسٹرڈ نہیں اس لیے محکمہ ان کا معائنہ نہیں کرسکتا۔
ماضی میں محکمے کے ایک انسپکٹر نے کسی فیکٹری میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی تاہم اسے مار مار کر زخمی کردیا گیا۔ذرائع کے مطابق انھوں نے ٹریبونل کو بتایاکہ اس وقت سائٹ ایسوسی ایشن کی شکایت پر اپریل 2011میں وزیر اعلی سندھ نے اچانک معائنے پر پابندی عائد کردی تھی جبکہ ٹریبونل نے آبزرو کیا کہ اچانک دوروں پر پابندی نہیں ہے بلکہ انسپکٹرز کو اتھارٹی لیٹر کے ساتھ جانے کا پابند کیا گیا ہے۔
سرکاری افسران کے بیانات قلمبند کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹریبونل کے سربراہ جسٹس (ر) زاہد قربان علوی نے بتایاکہ وہ ماحولیاتی ماہرین سمیت مختلف طبقات سے اس معاملے میں معاونت لیں گے تاہم فارنسک ماہرین کی رائے اور جائے وقوعہ کے معائنے سے کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد مل سکتی ہے۔
فیکٹری کی رجسٹریشن سے متعلق سوال پر انھوں نے کہا کہ لیبر ڈپارٹمنٹ میں رجسٹریشن ضروری نہیں اس سلسلے میں کم ازکم15قوانین ہیں تاہم اطلاع دینا ضروری ہے کہ ہم اس مقام پر کام کررہے ہیں ،اس سلسلے میں میرے سامنے کوئی مواد نہیں ، اس لیے لیبرڈپارٹمنٹ کے نمائندوںکو اگلے روز پھر طلب کیاہے اور تمام مواد پیش کرنے کا حکم دیاہے، منگل کو چیف فائر آفیسر کے ایم سی ، الیکٹریکل انسپکٹر اور سیکریٹری الیکٹریکل انرجی ڈپارٹمنٹ کو طلب کیا گیا ہے۔
دریں اثناء جوڈیشل مجسٹریٹ غربی سہیل احمد نے سانحہ بلدیہ کے تحقیقاتی افسر کی جانب سے دائر درخواست پر فیکٹری مالکان کے بینک اکائونٹ منجمد کرنے کا حکم دیا ہے اور سانحے کے چشم دید گواہوں کو بھی آج عدالت میں طلب کرلیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پیر کو سانحہ بلدیہ کے تفتیشی افسر انسپکٹر چوہدری ظفراقبال نے فاضل عدالت میں تحریری درخواست دائر کی اور موقف اختیار کیا کہ فیکٹری مالکان عبدالعزیز بھائیلا ، شاہد اور ارشد بھائیلا نے عدالت عالیہ سے اپنی حفاظتی ضمانت منظور کرالی ہے اور ان کے مقامی دو بینکوں میں4اکائونٹ ہیں جس میں تقریباً 51کروڑ سے زائد رقم موجود ہے اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ مالکان رقم خفیہ اکائونٹ یا بیرون ملک منتقل نہ کردیں اور تمام اکائونٹ منجمد کرنے کی استدعا کی تھی۔
فاضل عدالت نے اسٹیٹ بینک کو ملزمان کے بینک اکائونٹ منجمد کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ علاوہ ازیں تفتیشی افسر نے فاضل عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ سانحہ بلدیہ کے مقدمے میں محمد عامر ، محمد اسلم اور خرم اقبال چشم دید گواہ ہیں اور تفتیش مکمل کرنے کے لیے ان کا ضابطہ فوجداری کی ایکٹ 164کے تحت بیان قلمبند کرنے کی استدعا کی ہے۔
فاضل عدالت نے تفتیشی افسر کی درخواست منظور اور نوٹس جاری کرتے ہوئے وکیل سرکار ، گواہوں اور ملزمان کو آج( منگل) کو عدالت میں طلب کرلیا ہے۔دریں اثناء اسٹیٹ بینک نے عدالتی حکم پر عمل کرتے ہوئے فیکٹری مالکان کے تمام بینک اکائونٹ منجمد کردیے ہیں۔ دریں اثناء فیکٹری مالکان نے عدالتی حکم پر سندھ ہائی کورٹ میں اپنے پاسپورٹ جمع کرادیے ہیں۔
پہلے روز محکمہ محنت کے ڈائریکٹر اعجاز بلوچ،سیکریٹری ورکرز ویلفیئر بورڈ مظفر بھٹو ، کمشنر سیسی دانش سعید کے بیانات قلمبند کیے گئے جبکہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر بلدیہ ٹاون مظہر اقبال اور ایڈووکیٹ شہزاد پیش ہوئے اور جواب داخل کرنے کیلیے مہلت طلب کی،ٹریبونل کی کارروائی کے پہلے روز کمرے میں میڈیا کے نمائندگان کے لیے گنجائش نہیں تھی ۔
میڈیا کے استفسار پر بتایاگیا کہ تحقیقات بند کمرے میں نہیںہورہی ، آئندہ میڈیا کے لیے گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی، ٹریبونل کے روبرو بیان قلمبند کرانے کے بعد ڈائریکٹر لیبر ڈپارٹمنٹ اعجاز بلوچ نے بتایا کہ بلدیہ ٹائون میں آتشزدگی کا شکار ہونے والی فیکٹری علی انٹر پرائززسمیت متعدد فیکٹریاں گزشتہ 20سال سے ہمارے محکمے میں رجسٹرڈ نہیں اس لیے محکمہ ان کا معائنہ نہیں کرسکتا۔
ماضی میں محکمے کے ایک انسپکٹر نے کسی فیکٹری میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی تاہم اسے مار مار کر زخمی کردیا گیا۔ذرائع کے مطابق انھوں نے ٹریبونل کو بتایاکہ اس وقت سائٹ ایسوسی ایشن کی شکایت پر اپریل 2011میں وزیر اعلی سندھ نے اچانک معائنے پر پابندی عائد کردی تھی جبکہ ٹریبونل نے آبزرو کیا کہ اچانک دوروں پر پابندی نہیں ہے بلکہ انسپکٹرز کو اتھارٹی لیٹر کے ساتھ جانے کا پابند کیا گیا ہے۔
سرکاری افسران کے بیانات قلمبند کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹریبونل کے سربراہ جسٹس (ر) زاہد قربان علوی نے بتایاکہ وہ ماحولیاتی ماہرین سمیت مختلف طبقات سے اس معاملے میں معاونت لیں گے تاہم فارنسک ماہرین کی رائے اور جائے وقوعہ کے معائنے سے کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد مل سکتی ہے۔
فیکٹری کی رجسٹریشن سے متعلق سوال پر انھوں نے کہا کہ لیبر ڈپارٹمنٹ میں رجسٹریشن ضروری نہیں اس سلسلے میں کم ازکم15قوانین ہیں تاہم اطلاع دینا ضروری ہے کہ ہم اس مقام پر کام کررہے ہیں ،اس سلسلے میں میرے سامنے کوئی مواد نہیں ، اس لیے لیبرڈپارٹمنٹ کے نمائندوںکو اگلے روز پھر طلب کیاہے اور تمام مواد پیش کرنے کا حکم دیاہے، منگل کو چیف فائر آفیسر کے ایم سی ، الیکٹریکل انسپکٹر اور سیکریٹری الیکٹریکل انرجی ڈپارٹمنٹ کو طلب کیا گیا ہے۔
دریں اثناء جوڈیشل مجسٹریٹ غربی سہیل احمد نے سانحہ بلدیہ کے تحقیقاتی افسر کی جانب سے دائر درخواست پر فیکٹری مالکان کے بینک اکائونٹ منجمد کرنے کا حکم دیا ہے اور سانحے کے چشم دید گواہوں کو بھی آج عدالت میں طلب کرلیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پیر کو سانحہ بلدیہ کے تفتیشی افسر انسپکٹر چوہدری ظفراقبال نے فاضل عدالت میں تحریری درخواست دائر کی اور موقف اختیار کیا کہ فیکٹری مالکان عبدالعزیز بھائیلا ، شاہد اور ارشد بھائیلا نے عدالت عالیہ سے اپنی حفاظتی ضمانت منظور کرالی ہے اور ان کے مقامی دو بینکوں میں4اکائونٹ ہیں جس میں تقریباً 51کروڑ سے زائد رقم موجود ہے اور خدشہ ظاہر کیا تھا کہ مالکان رقم خفیہ اکائونٹ یا بیرون ملک منتقل نہ کردیں اور تمام اکائونٹ منجمد کرنے کی استدعا کی تھی۔
فاضل عدالت نے اسٹیٹ بینک کو ملزمان کے بینک اکائونٹ منجمد کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ علاوہ ازیں تفتیشی افسر نے فاضل عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ سانحہ بلدیہ کے مقدمے میں محمد عامر ، محمد اسلم اور خرم اقبال چشم دید گواہ ہیں اور تفتیش مکمل کرنے کے لیے ان کا ضابطہ فوجداری کی ایکٹ 164کے تحت بیان قلمبند کرنے کی استدعا کی ہے۔
فاضل عدالت نے تفتیشی افسر کی درخواست منظور اور نوٹس جاری کرتے ہوئے وکیل سرکار ، گواہوں اور ملزمان کو آج( منگل) کو عدالت میں طلب کرلیا ہے۔دریں اثناء اسٹیٹ بینک نے عدالتی حکم پر عمل کرتے ہوئے فیکٹری مالکان کے تمام بینک اکائونٹ منجمد کردیے ہیں۔ دریں اثناء فیکٹری مالکان نے عدالتی حکم پر سندھ ہائی کورٹ میں اپنے پاسپورٹ جمع کرادیے ہیں۔