عجیب ملک
نوے روز میں الیکشن ممکن نہ ہوں کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں حکمران پارٹیوں کو شکست کا سامنا ہوگا
پاکستان کا متفقہ آئین 1973 کی پارلیمنٹ نے دیا تھا جسے 50 سال ہوچکے ہیں ۔ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کو اپنے ہی بنائے گئے آئین کی تشریح کا اختیار دیا تھا جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے سامنے پارلیمنٹ کے قوانین تشریح کے لیے پیش ہوتے رہے اور اس کے منظور کردہ آئین کی تشریح بھی کی جاتی رہی۔
ایسا بھی ہوا کہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد صدر مملکت نے قانون سازی پر آئین کے مطابق دستخط ابھی کیے نہیں مگر عمل روکنے کے لیے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی پہلے جاری ہو جاتا تھا اور مہینوں برقرار بھی رکھا جاتا تھا۔ عوام مہنگی چینی ریکارڈ قیمت پر خریدتے ہیں جس پر فوری عدالتی حکم جاری ہونا چاہیے مگر عدالتی فیصلوں میں تاخیر ہو جاتی ہے۔
ملک میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ پنجاب اور کے پی کی نگراں حکومتیں جو تین ماہ کے لیے آئی تھیں وہ طول پکڑ جاتی ہیں جنھیں 6 ماہ بعد معروف قانون دان حامد خان غیر قانونی قرار دیتے ہیں مگر ملک کے آئین میں یہ درج نہیں کہ اگر انتخابات وقت پر نہ ہوں تو نگراں حکومتیں قانونی ہوں گی یا غیر قانونی اور نگراں حکومتیں اگر تین ماہ سے زیادہ کی ہو جائیں تو اسمبلیوں کی غیر موجودگی میں اگر نگراں وزیر اعلیٰ فوت ہوجائیں یا کسی وجہ سے مستعفی ہو جائیں تو ان کی جگہ نگراں کا تقرر کون کرے گا کیونکہ آئین یہ اختیار وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈرکو دیتا ہے جب کہ پنجاب و کے پی اسمبلیوں کے اسپیکر موجود ہیں مگر منتخب وزرائے اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر موجود نہیں ہیں۔
1973 کا آئین بناتے وقت یہ نہیں سوچا گیا تھا کہ ملک پر ایسا وقت بھی آئے گا جب ایک برطرف وزیر اعظم قبل از وقت پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں وزراء اعلیٰ سے تڑوا دے گا جب کہ دونوں وزیر اعلیٰ اور ارکان اسمبلی راضی نہ ہوں مگر ان کی پارٹی کا چیئرمین کسی جواز کے بغیر انھیں اسمبلیاں توڑنے کا حکم دے گا۔
14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا عدالتی حکم بھی آیا مگر الیکشن کمیشن نے اس پر عملدرآمد نہیں کیا ۔ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ اپنی مدت مکمل ہونے کے بعد بھی نئے صدر مملکت کا الیکشن نہیں ہوا کیوں کہ ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیاں موجود نہیں، مگر آئین کے مطابق موجودہ صدر نئے صدر کے انتخاب تک کام کرتا رہے گا۔ آئین بنانے والوں کو توقع نہیں تھی کہ 50 سال بعد ایسی ہی صورت حال پیدا ہوگی اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مدت پوری ہو جانے کے باعث وہ قبل از وقت نیا صدر منتخب کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گی۔
ملک میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ نوے روز میں بھی الیکشن نہیں ہو رہے کیونکہ نئی مردم شماری کی تاخیر سے منظوری کے باعث نئی حلقہ بندیاں ضروری ہیں ،یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ منظوری جان بوجھ کر سیاسی حکومت نے دی تاکہ نیا مسئلہ پیدا ہو۔
نوے روز میں الیکشن ممکن نہ ہوں کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں حکمران پارٹیوں کو شکست کا سامنا ہوگا۔ اس سلسلے میں دونوں فریق آئین کی مرضی کی تشریح کر رہے ہیں اور واضح نہیں کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار عبوری صدر کو ہے یا الیکشن کمیشن کو۔ متفقہ آئین میں متعدد معاملات واضح نہیں کیونکہ آئین میں ابہام ہے جس کی تشریح سپریم کورٹ نے کرنی ہے جس کے دوران نگراں حکومتیں ہی تین ماہ سے زیادہ عرصہ قائم رہیں گی۔
سپریم کورٹ آئین کی تشریح کر سکتی ہے مگر اس ملک میں ماضی میں فوجی صدر کو آئین میں ترمیم کا غیر آئینی اختیار مل چکا ہے۔ آئین میں کوئی قدغن نہیں کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ من پسند بینچ نہ بنائے۔ یہ عجیب ملک ہے جہاں پارلیمنٹ مہینوں سوئی رہے اور مدت ختم ہونے پر ارکان کو اعتماد میں لیے بغیر جلدبازی میں سیکڑوں قانون اسمبلی کورم پورا نہ ہونے پر بھی منظور کرا لے اور صرف 15 ممبران یہ فیصلہ کرلیں۔
یہ عجیب ملک ہے جہاں کورم کے بغیر غیر قانونی طور پر پارلیمنٹ من مانی کرے کہ وہ سپریم ہے۔یہ عجیب ملک ہے جس کی پارلیمنٹ عوام کے مفادات کے خلاف فیصلے کرتی ہو اور حکومتیں غیر ملکوں سے قرضے لے کر آنے والی نسلوں کو بھی مقروض کر جائیں اور آئین، عدلیہ یا عوام ان سے یہ بھی نہ پوچھ سکیں کہ اربوں ڈالر کے قرضے کہاں خرچ ہوئے۔
آئین میںجو سقوم ہیں پارلیمنٹ کو انھیں دور کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ سیاسی طور پر کسی قسم کا ابہام یا بے یقینی پیدا نہ ہو۔
ایسا بھی ہوا کہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد صدر مملکت نے قانون سازی پر آئین کے مطابق دستخط ابھی کیے نہیں مگر عمل روکنے کے لیے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی پہلے جاری ہو جاتا تھا اور مہینوں برقرار بھی رکھا جاتا تھا۔ عوام مہنگی چینی ریکارڈ قیمت پر خریدتے ہیں جس پر فوری عدالتی حکم جاری ہونا چاہیے مگر عدالتی فیصلوں میں تاخیر ہو جاتی ہے۔
ملک میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ پنجاب اور کے پی کی نگراں حکومتیں جو تین ماہ کے لیے آئی تھیں وہ طول پکڑ جاتی ہیں جنھیں 6 ماہ بعد معروف قانون دان حامد خان غیر قانونی قرار دیتے ہیں مگر ملک کے آئین میں یہ درج نہیں کہ اگر انتخابات وقت پر نہ ہوں تو نگراں حکومتیں قانونی ہوں گی یا غیر قانونی اور نگراں حکومتیں اگر تین ماہ سے زیادہ کی ہو جائیں تو اسمبلیوں کی غیر موجودگی میں اگر نگراں وزیر اعلیٰ فوت ہوجائیں یا کسی وجہ سے مستعفی ہو جائیں تو ان کی جگہ نگراں کا تقرر کون کرے گا کیونکہ آئین یہ اختیار وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈرکو دیتا ہے جب کہ پنجاب و کے پی اسمبلیوں کے اسپیکر موجود ہیں مگر منتخب وزرائے اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر موجود نہیں ہیں۔
1973 کا آئین بناتے وقت یہ نہیں سوچا گیا تھا کہ ملک پر ایسا وقت بھی آئے گا جب ایک برطرف وزیر اعظم قبل از وقت پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں وزراء اعلیٰ سے تڑوا دے گا جب کہ دونوں وزیر اعلیٰ اور ارکان اسمبلی راضی نہ ہوں مگر ان کی پارٹی کا چیئرمین کسی جواز کے بغیر انھیں اسمبلیاں توڑنے کا حکم دے گا۔
14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا عدالتی حکم بھی آیا مگر الیکشن کمیشن نے اس پر عملدرآمد نہیں کیا ۔ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے کہ اپنی مدت مکمل ہونے کے بعد بھی نئے صدر مملکت کا الیکشن نہیں ہوا کیوں کہ ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیاں موجود نہیں، مگر آئین کے مطابق موجودہ صدر نئے صدر کے انتخاب تک کام کرتا رہے گا۔ آئین بنانے والوں کو توقع نہیں تھی کہ 50 سال بعد ایسی ہی صورت حال پیدا ہوگی اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مدت پوری ہو جانے کے باعث وہ قبل از وقت نیا صدر منتخب کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گی۔
ملک میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ نوے روز میں بھی الیکشن نہیں ہو رہے کیونکہ نئی مردم شماری کی تاخیر سے منظوری کے باعث نئی حلقہ بندیاں ضروری ہیں ،یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ منظوری جان بوجھ کر سیاسی حکومت نے دی تاکہ نیا مسئلہ پیدا ہو۔
نوے روز میں الیکشن ممکن نہ ہوں کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں حکمران پارٹیوں کو شکست کا سامنا ہوگا۔ اس سلسلے میں دونوں فریق آئین کی مرضی کی تشریح کر رہے ہیں اور واضح نہیں کہ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار عبوری صدر کو ہے یا الیکشن کمیشن کو۔ متفقہ آئین میں متعدد معاملات واضح نہیں کیونکہ آئین میں ابہام ہے جس کی تشریح سپریم کورٹ نے کرنی ہے جس کے دوران نگراں حکومتیں ہی تین ماہ سے زیادہ عرصہ قائم رہیں گی۔
سپریم کورٹ آئین کی تشریح کر سکتی ہے مگر اس ملک میں ماضی میں فوجی صدر کو آئین میں ترمیم کا غیر آئینی اختیار مل چکا ہے۔ آئین میں کوئی قدغن نہیں کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ من پسند بینچ نہ بنائے۔ یہ عجیب ملک ہے جہاں پارلیمنٹ مہینوں سوئی رہے اور مدت ختم ہونے پر ارکان کو اعتماد میں لیے بغیر جلدبازی میں سیکڑوں قانون اسمبلی کورم پورا نہ ہونے پر بھی منظور کرا لے اور صرف 15 ممبران یہ فیصلہ کرلیں۔
یہ عجیب ملک ہے جہاں کورم کے بغیر غیر قانونی طور پر پارلیمنٹ من مانی کرے کہ وہ سپریم ہے۔یہ عجیب ملک ہے جس کی پارلیمنٹ عوام کے مفادات کے خلاف فیصلے کرتی ہو اور حکومتیں غیر ملکوں سے قرضے لے کر آنے والی نسلوں کو بھی مقروض کر جائیں اور آئین، عدلیہ یا عوام ان سے یہ بھی نہ پوچھ سکیں کہ اربوں ڈالر کے قرضے کہاں خرچ ہوئے۔
آئین میںجو سقوم ہیں پارلیمنٹ کو انھیں دور کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ سیاسی طور پر کسی قسم کا ابہام یا بے یقینی پیدا نہ ہو۔