نئے چیف جسٹس کے چیلنجز

لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ اعلی عدلیہ انصاف کے عمل میں ان کے ساتھ کھڑی ہوگی، لوگوں کی یہ امیدقائم رہنی چاہیے

salmanabidpk@gmail.com

بنیادی نوعیت کا سوال یہ ہی ہے کہ نئے چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسی کا دور نظام انصاف میں نئی اور مثبت تبدیلیوں کا سبب بنے گا یا ہمارا نظام انصاف روایتی انداز میں جاری رہے گا۔نئے چیف جسٹس نے ایک ایسے وقت میں عہدہ سنبھالا ہے جب ہمارے نظام انصاف کی ساکھ پر کئی طرح کے سوالات موجود ہیں۔

ہماری عدالتی تاریخ '' نظریہ ضرورت یا سیاسی و قانونی سمجھوتوں '' کا شکار نظر آتی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری عدالتی رینکنگ یا انصاف کے نظام کی درجہ بندی کافی پیچھے کھڑی ہے ۔آئین اور قانون کی پاسداری کے بجائے ہماری عدالتی ترجیحات میں کچھ اور غالب نظر آتا ہے ۔

ہم بنیادی طور پر عدالتی خود مختاری اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی جنگ لڑرہے ہیں ۔ بحث کا نقطہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے مقابلے میں عدالتی نظام کی سیاسی معاملات میں مداخلت سیاسی او رجمہوری نظام کو کمزور کرنے کاسبب بن رہی ہے ۔ حالانکہ بحث کا نقطہ یہ ہونا چاہیے کہ دونوں اداروںکی اپنی اپنی بالادستی ہے جو آئین میں درج ہے۔

ہمارا مسئلہ فوری طور پر جذباتیت پر مبنی ہوتا ہے اور اسی بنیاد پر ہم ہر آنے والے کا نہ صرف بڑی پرجوشیت کے ساتھ خیر مقدم کرتے ہیں بلکہ ان کی پزیرائی کرکے بہت زیادہ انقلابی توقعات بھی وابستہ کرلیتے ہیں ۔ حالانکہ سیاسی اور جمہوری نظام میں انقلاب کم اور اصلاحات کا عمل زیادہ گہرا ہوتا ہے۔

اصلاحات کا عمل جادوئی عمل سے نہیں بلکہ بدتدریج اور سلو عمل سے آگے بڑھتا ہے۔ جب کہ ہم ہر کسی سے فوری نتائج کے حامی ہوتے ہیں او رنتائج نہ ملنے کی صورت میں فوری طور پر پزیرائی سے تنقید کی طرف چلے جاتے ہیں۔

اسی طرح عدالتی خود مختاری کا براہ راست تعلق سیاست ، جمہوریت، پارلیمنٹ، آئین و قانون کی خود مختاری سے جڑا ہوتا ہے۔ جمہوری عمل کی کامیابی تنہائی میں ممکن نہیں۔ اس لیے جب ہم باقی تمام اداروں کو چھوڑ کر کسی ایک ادارے سے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں تو ہمیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

نئے چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک ایسے موقع پر اپنا منصب سنبھالا ہے جب عدالتی میدان میں داخلی اور خارجی سطح کے بہت بڑے چیلنجز ہیں۔ اول جوڈیشل اصلاحات جن میں سپریم جوڈیشل کونسل سمیت تمام داخلی معاملات جن میں جہاں خرابیوں یا خامیاں ہیں ان کو قبول کرکے ان میں جدیدیت کی بنیاد پر اصلاحات کو ترجیحی ایجنڈا بنایا جائے ۔دنیا میں جہاں بھی عدالتی اصلاحات ہورہی ہیں ان سے ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔

ججوں کی تقرری کا شفاف طریقہ کار کا طے ہونا ،دوئم کافی عرصہ سے ہم عدالتی محاذ پر یا بار اور بنچ کی سطح پر جو بداعتمادی یا گروپ بندی یا سیاسی تقسیم ہے اس کا ہر صورت خاتمہ،کیونکہ یہ کسی بھی طور پر نہ تو ریاستی مفاد میں ہے او ر نہ ہی نظام انصاف کے مفاد میں ہے ۔

اس طرح کی تقسیم سے عدالتی فیصلے بھی تقسیم ہوںگے اور ان معاملات پر سیاسی قوتیں اپنے اپنے مفادات کی بنیاد پر سیاست کریں گے۔سوئم کچھ عرصہ سے ہم عدالتی فیصلوں کی بے توقیری دیکھ رہے ہیں اور جو بھی عدالتی فیصلے ہورہے ہیں۔


اس پر عملدرآمد نہ ہونا بھی مسائل ہیں، اس پر عدالت کو اپنی رٹ قائم کرنا ہوگی۔چہارم انتخابات کا معاملہ بھی کافی اہم ہوگیا ہے، اگر آئینی مدت میں الیکشن نہ ہوسکے تو معاملات اعلی عدالت میں آسکتے ہیں، پنجم انسانی حقوق کے حوالے سے بھی کئی اہم ایشو موجود ہیں۔

ششم عدلیہ کو سیاسی معاملات سے الگ رکھنا بھی، سیاسی قوتوں کو واضح پیغام جانا چاہیے کہ وہ اپنے سیاسی جھگڑے عدالتوں میں لانے کی بجائے سیاسی فورم پر طے کریں ۔ ہفتم ،عدالتی فیصلوں میں شفافیت نظر آنا چاہیے اور غیرضروری '' جوڈیشل ایکٹو ازم '' سے دور رہنا چاہیے ۔

نئے چیف جسٹس کا بنیادی بیانیہ یہ ہی ہے کہ وہ فرد واحد کے بجائے مشاورت کی بنیاد پر آگے بڑھیںگے اور ان کے سامنے آئین و قانون کو ہی بنیادی ترجیح حاصل ہوگی ، جو اچھی بات ہے ۔

لیکن یہ کام اسی صورت میں ممکن ہوگا جب بار او ربنچ کے درمیان اعتماد سازی ہوگی او رتمام فریقین مل کر مشاورت کو آگے بڑھنے کی کنجی بنائیں گے ۔نئے چیف جسٹس کے پاس اگر عدالتی اصلاحات اور فیصلوں میں اپنی ساکھ قائم کرنا ہے تو زیادہ لمبا عرصہ نہیں او رنہ ہی ملک کے ریاستی نظام کو آج کے حالات اور طرز عمل کی بنیاد پر چلایا جاسکتا ہے۔

اس لیے ان کے پاس اپنی مدت میں ہی کوئی ایسا روڈ میپ ہونا چاہیے جو تمام لوگوں کی مشاورت سے کچھ بنیادی نوعیت کی عدالتی تبدیلیوں کے عمل کو یقینی بناسکے۔اس پر ہمیں جذباتیت اورجذباتیت پر مبنی نعروں یا میڈیا کی سطح پزیرائی کا کھیل حالات میں کوئی بہتری پیدا نہیں کرسکے گا۔

مضبوط اور خود مختار یا آئین و قانون کو بنیاد بنا کر چلنے والی عدلیہ ہی سیاسی اور جمہوری نظام میں موجود خرابیوں کو دور کرنے کے لیے اپنا مثبت کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے ۔

اگرچہ عوامی مفاد سے جڑے معاملات جن میں مہنگائی، بجلی، گیس کے بلوں میں بڑھتے ہوئے ٹیکس اور جبری بنیادوں پر ٹیکس حاصل کرنے کا جو رجحان موجود ہے یا جو بھی کام عوامی مفاد کے برعکس ہواس میں کلیدی کردار حکومت کا ہی بنتا ہے ۔

لیکن عوامی مفاد سے جڑے معاملات پر عدلیہ کو بھی خاموش نہیں رہنا چاہیے، راگر کچھ شکایات عدالت میں آتی ہیں تو ان کا پوسٹ مارٹم بھی کیا جانا چاہیے کہ حکمرانی کے نام پر کیسے لوٹ مار کی جارہی ہے ۔یہ تصور ٹوٹنا ہوگا کہ اس ملک میںجو جتنا طاقت ور ہے وہ اتنا ہی قانون کی گرفت سے آزاد ہے۔ قانون طاقت ور کے مقابلے میں کمزور کو قانونی گرفت میں لاتا ہے جو اس نظام کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے ۔

عمومی طور پر یہاں عدالتی نظام کو ایک طبقاتی نظام کے ساتھ بھی جوڑ کر پیش کیا جاتا ہے کہ یہاں کمزور کے مقابلے میں طاقت ور کو زیادہ بالادستی او رانصاف ملتا ہے۔

اعلی عدلیہ عام لوگوں کے لیے انصاف کی آخری امید ہوتی ہے اور لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ اعلی عدلیہ انصاف کے عمل میں ان کے ساتھ کھڑی ہوگی ، لوگوں کی یہ امیدقائم رہنی چاہیے۔ کیونکہ اسی میں ہمارے سیاسی و جمہوری اور ریاستی نظام کی کامیابی کی کنجی ہے ، یہ ہی قومی مفاد میں بھی ہے ۔
Load Next Story