اسرائیل سعودی تعلقات کی بلی اور تھیلا
سعودی عرب جو قالین ایک لاکھ میں فروخت کرنے پر ڈٹا ہوا ہے رفتہ رفتہ پچیس ہزار تک بیچنے پر آمادہ ہو جائے گا
دو ہزار بیس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں اسرائیل ، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان معاہدہِ براہیمی کے بعد مراکش نے اسرائیل کے ساتھ برسوں پرانے غیر رسمی تعلقات کو باقاعدہ شکل دے دی اور سوڈان نے خود پر عائد امریکی پابندیاں نرم کرنے کے عوض اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنا قبول کر لیا۔
بحرین اور امارات کو چھوڑ کے باقی چھ رکنی خلیج تعاون کونسل کو دیکھا جائے تو قطر کے اگرچہ باضابطہ تعلقات نہیں ہیں البتہ دوحہ میں اسرائیل کا ایک تجارتی مفاداتی دفتر ہے۔ گزشتہ برس قطر میں منعقد ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کی کوریج کے لیے اسرائیلی میڈیا کو بھی اجازت دی گئی۔جب کہ اومان کے اسرائیل سے غیر رسمی تعلقات ہیں اور دو اسرائیلی وزرائے اعظم بھی مسقط کا دورہ کر چکے ہیں۔
رہ گیا کویت تو اس کی اسرائیل کے بارے میں وہی روایتی پالیسی ہے کہ جب تک فلسطینیوں کے اطمینان کے مطابق مسئلے کا حل نہیں نکلتا، تب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ایران کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں کہ شاہ کے دور میں اسرائیل سے باقاعدہ سفارتی و سیاسی تعلقات تھے۔مگر اب کھلم کھلا دشمنی ہے۔جب کہ ترکی کے اسرائیل سے سفارتی و اسٹرٹیجک تعلقات کی داستان انیس سو انچاس سے شروع ہوتی ہے۔
وہ بھی کیا دن تھے جب انور سادات نے انیس سو اناسی میں اسرائیل کا اچانک دورہ کیا۔اس کی پارلیمنٹ سے خطاب کیا تو عرب لیگ نے مصر کا حقہ پانی بند کردیا اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم سے بھی نکال دیا گیا۔مگر امریکا نے اسرائیل سے تعلق قائم کرنے کے عوض نہ صرف مصر کو سیکیورٹی کی ضمانتیں دیں ، مقبوضہ جزیرہ نما سینا سے اسرائیل کا قبضہ چھڑایا بلکہ اربوں ڈالر سالانہ امداد بھی باندھ دی۔
انیس سو چورانوے میں اردن نے بھی اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کر لیا۔اسرائیل سے متصل شام اور لبنان آج بھی تکنیکی اعتبار سے اسرائیل کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں۔اور کوئی مہینہ ایسا نہیں جاتا جب دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے خلاف اسرائیلی فوجی کارروائی نہ ہوتی ہو۔
مگر اسرائیل کا سب سے بڑا خواب یہ ہے کہ خطے کا سب سے اہم ملک سعودی عرب کہ جس سے مسلمانوں کی اکثریت کی روحانی وابستگی ہے کسی طرح اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ یہ امریکا کے لیے بھی مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑی سفارتی ٹرافی ہو گی۔
سعودی عرب کو بھی اپنی جغرافیائی ، سیاسی و روحانی اہمیت کا بخوبی احساس ہے۔اسرائیلی اتاولے پن کو دیکھتے ہوئے دو ہزار دو میں شاہ فہد نے ایک منصوبہ پیش کیا کہ اگر اسرائیل انیس سو سڑسٹھ کی جنگ سے قبل کی حدود میں واپس چلا جائے ، مغربی کنارے ، غزہ اور شام کی گولان پہاڑیوں کا قبضہ چھوڑ دے تو سعودی عرب اسرائیل کو سفارتی درجہ دے سکتا ہے۔
آج فہد منصوبے کے بائیس برس بعد زمینی حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی خود مختاری کے بارے میں انیس سو بانوے میں ہونے والا کیمپ ڈیوڈ معاہدہ گہرا دفن ہو چکا ہے۔یہ معاہدہ کروانے والے بل کلنٹن تو زندہ ہیں مگر دو دستخط کنندہ ایتزاک رابین اور یاسر عرفات اس دنیا میں نہیں۔ معاہدے کے مطابق اگلے پانچ برس میں نہ صرف فلسطینی ریاست قائم ہونی تھی بلکہ غربِ اردن میں یہودی آباد کاری بھی منجمد ہو جانی چاہیے تھی۔
آج اکتیس برس بعد اسرائیلی آبادکار بستیوں کی تعداد دگنی ہو چکی ہے۔ان بستیوں اور بچے کھچے فلسطینی دیہاتوں کے درمیان ایک طویل دیوار کھینچی جا چکی ہے۔مشرقی بیت المقدس میں فلسطینی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے بے دخلی کا عمل زور و شور سے جاری ہے اور فلسطینی اتھارٹی کا اقتدارِ اعلیٰ اتنا ہی باقی ہے جتنا کہ کسی عام قصبے کی بلدیہ کے پاس ہے۔
اس بے اختیاری کے سبب عام فلسطینی بھی اپنی اپاہج اتھارٹی سے بیزار ہو چکا مگر اس کے پاس کوئی متبادل نہیں بچا۔جب کہ غزہ دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل ہے جس کے دس لاکھ سے زائد مکینوں کو آئے دن بہانے بہانے سے مار پڑتی ہے۔
ایسے ماحول میں جب مصر اور اردن کے بعد بحرین اور متحدہ عرب امارات نے بھی اسرائیل سے ہاتھ ملا لیا تو فلسطینی ناقابلِ بیان تنہائی کا شکار ہو گئے۔
اب ان کی سودے بازی کی پوزیشن اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ وہ اس پر بھی رضامند ہیں کہ سعودی عرب بے شک اسرائیل سے تعلقات استوار کر لے مگر کم ازکم غربِ اردن کا وہ علاقہ ( ایریا سی ) جو اسرائیل نے مکمل طور پر ہتھیا لیا ہے فلسطینی اتھارٹی کو واپس دلوا دے۔سعودی عرب نے تین برس سے جو دو سو ملین ڈالر سالانہ کی امداد معطل کر رکھی ہے اسے بحال کردے اور امریکا پر زور دے کہ وہ فلسطینی خود مختار ریاست کے بارے میں دو ہزار چودہ سے معطل مذاکراتی عمل دوبارہ شروع کرے۔
اسرائیل میں اس وقت نیتن یاہو کی قیادت میں انتہائی دائیں بازو کی مذہبی و سیاسی جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت قائم ہے۔اسے پچھتر برس میں سب سے زیادہ نسل پرست اور بے لچک حکومت سمجھا جا رہا ہے۔جس کا ہدف یہ ہے کہ حالاتِ زندگی اس قدر تنگ کر دیے جائیں کہ بیشتر فلسطینی آبادی قانونی شکنجوں کی غلامی قبول کر لے یا پھر علاقہ چھوڑ دے۔
سعودی عرب نے اگرچہ اپنی حدود اسرائیلی پروازوں کے لیے کھول کے تعلقات میں بہتری کی راہ گزشتہ برس ہموار کر دی تھی۔مگر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے سدباب کے لیے بھرپور امریکی حمایت کے ساتھ جی ٹوئنٹی کے حالیہ اجلاس میں بھارت سے لے کر براستہ خلیج و اسرائیل یورپ تک جو تجارتی شاہراہ قائم کرنے کا منصوبہ سامنے آیا ہے۔سعودی عرب کی اس منصوبے میں کلیدی اہمیت ہے اور اسرائیل و سعودی عرب کے تعلقات معمول پر آنے سے ہی ٹریلین ڈالر منصوبے کی کامیابی وابستہ ہے۔
اگلے برس امریکا میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں چنانچہ وہی جو بائیڈن جو دو ہزار اٹھارہ میں ترکی میں سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خشوگی کے قتل پر کھلم کھلا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر انگلی اٹھا رہے تھے اور پھر تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ روکنے کے لیے سعودی عرب پر پیداوار بڑھانے اور یوکرین کے معاملے پر روس کے خلاف قائم مغربی محاذ کے لیے سعودی حمایت چاہ رہے تھے مگر روس اور سعودی عرب کے تیل کی قیمتیں کم نہ کرنے کے ایکے پر سخت ناراض بھی تھے اور پھر چین کی حمایت سے ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات معمول پر لا نے کے عمل سے سخت پریشان تھے۔اب وہی بائڈن امریکا کے دورے پر آنے والے محمد بن سلمان کے لیے قالین بچھائے کھڑے ہیں اور ان کی فرمائش ہے کہ ایک بار وہ اپنی زندگی میں سعودی اسرائیل تعلقات کو نارمل ہوتا دیکھ لیں۔
چونکہ سعودی عرب کو اسرائیل اور امریکا کے لیے اپنی پہلے سے زیادہ اہمیت کا احساس ہے لہٰذا سعودی قیادت نے تعلقات کی بحالی کے لیے وہ شرائط رکھی ہیں جو اس سے پہلے کوئی سعودی حکمران تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
محمد بن سلمان کا مطالبہ ہے کہ اگر فلسطینیوں کے مستقبل کے بارے میں ٹھوس ضمانت دی جائے ، امریکا سعودی عرب سے ویسا ہی معاہدہ کرے جو اس نے جاپان اور جنوبی کوریا کے تحفظ کے لیے کر رکھا ہے۔امریکا سعودی عرب کے سویلین جوہری پروگرام کی نہ صرف حمایت کرے بلکہ اس کے لیے افزودہ یورنیم کی سپلائی کی ضمانت بھی دے تو اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارمل ہو سکتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر فرمائش پوری نہیں ہو سکتی۔کیونکہ اسرائیل سے امریکا کا بنیادی وعدہ ہے کہ علاقے کے کسی ملک کو اسرائیل پر عسکری برتری حاصل نہیں ہونے دی جائے گی۔
مگر آثار بتاتے ہیں کہ سعودی عرب جو قالین ایک لاکھ میں فروخت کرنے پر ڈٹا ہوا ہے رفتہ رفتہ پچیس ہزار تک بیچنے پر آمادہ ہو جائے گا۔فلسطینیوں کی اشک شوئی کے لیے کچھ نمائشی ضمانتیں بھی مل جائیں گی تاکہ اندرون ملک عام سعودی کے فلسطینی کاز سے جذباتی لگاؤ کی تسلی ہو سکے۔ہو سکتا ہے اسرائیل وقتی طور پر اپنے رویے میں لچک بھی لے آئے مگر سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد وہ ہرگز اپنے عہد کا پابند نہیں ہوگا۔
جیسا کہ کیمپ ڈیوڈ ، میڈرڈ اور اوسلو سمجھوتوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈالا گیا ہے۔ فلسطینی کاز کی قیمت پر علاقائی ممالک حسب ِ روائیت اپنے اپنے لیے رعایتیں حاصل کر کے آگے بڑھ جائیں گے۔لہٰذا ذہنی طور پر تیار رہیے کہ اگلے چھ ماہ میں اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات خاصی حد تک نارمل ہو جائیں گے۔
بین الاقوامی تعلقات میں دوستی دشمنی نہیں ہوتی صرف مفادات ہوتے ہیں۔ سفارت کاری کے سینے میں دل ہی نہیں ہوتا لہٰذا ٹوٹنے اور جڑنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
بحرین اور امارات کو چھوڑ کے باقی چھ رکنی خلیج تعاون کونسل کو دیکھا جائے تو قطر کے اگرچہ باضابطہ تعلقات نہیں ہیں البتہ دوحہ میں اسرائیل کا ایک تجارتی مفاداتی دفتر ہے۔ گزشتہ برس قطر میں منعقد ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کی کوریج کے لیے اسرائیلی میڈیا کو بھی اجازت دی گئی۔جب کہ اومان کے اسرائیل سے غیر رسمی تعلقات ہیں اور دو اسرائیلی وزرائے اعظم بھی مسقط کا دورہ کر چکے ہیں۔
رہ گیا کویت تو اس کی اسرائیل کے بارے میں وہی روایتی پالیسی ہے کہ جب تک فلسطینیوں کے اطمینان کے مطابق مسئلے کا حل نہیں نکلتا، تب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ایران کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں کہ شاہ کے دور میں اسرائیل سے باقاعدہ سفارتی و سیاسی تعلقات تھے۔مگر اب کھلم کھلا دشمنی ہے۔جب کہ ترکی کے اسرائیل سے سفارتی و اسٹرٹیجک تعلقات کی داستان انیس سو انچاس سے شروع ہوتی ہے۔
وہ بھی کیا دن تھے جب انور سادات نے انیس سو اناسی میں اسرائیل کا اچانک دورہ کیا۔اس کی پارلیمنٹ سے خطاب کیا تو عرب لیگ نے مصر کا حقہ پانی بند کردیا اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم سے بھی نکال دیا گیا۔مگر امریکا نے اسرائیل سے تعلق قائم کرنے کے عوض نہ صرف مصر کو سیکیورٹی کی ضمانتیں دیں ، مقبوضہ جزیرہ نما سینا سے اسرائیل کا قبضہ چھڑایا بلکہ اربوں ڈالر سالانہ امداد بھی باندھ دی۔
انیس سو چورانوے میں اردن نے بھی اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کر لیا۔اسرائیل سے متصل شام اور لبنان آج بھی تکنیکی اعتبار سے اسرائیل کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں۔اور کوئی مہینہ ایسا نہیں جاتا جب دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے خلاف اسرائیلی فوجی کارروائی نہ ہوتی ہو۔
مگر اسرائیل کا سب سے بڑا خواب یہ ہے کہ خطے کا سب سے اہم ملک سعودی عرب کہ جس سے مسلمانوں کی اکثریت کی روحانی وابستگی ہے کسی طرح اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ یہ امریکا کے لیے بھی مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑی سفارتی ٹرافی ہو گی۔
سعودی عرب کو بھی اپنی جغرافیائی ، سیاسی و روحانی اہمیت کا بخوبی احساس ہے۔اسرائیلی اتاولے پن کو دیکھتے ہوئے دو ہزار دو میں شاہ فہد نے ایک منصوبہ پیش کیا کہ اگر اسرائیل انیس سو سڑسٹھ کی جنگ سے قبل کی حدود میں واپس چلا جائے ، مغربی کنارے ، غزہ اور شام کی گولان پہاڑیوں کا قبضہ چھوڑ دے تو سعودی عرب اسرائیل کو سفارتی درجہ دے سکتا ہے۔
آج فہد منصوبے کے بائیس برس بعد زمینی حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی خود مختاری کے بارے میں انیس سو بانوے میں ہونے والا کیمپ ڈیوڈ معاہدہ گہرا دفن ہو چکا ہے۔یہ معاہدہ کروانے والے بل کلنٹن تو زندہ ہیں مگر دو دستخط کنندہ ایتزاک رابین اور یاسر عرفات اس دنیا میں نہیں۔ معاہدے کے مطابق اگلے پانچ برس میں نہ صرف فلسطینی ریاست قائم ہونی تھی بلکہ غربِ اردن میں یہودی آباد کاری بھی منجمد ہو جانی چاہیے تھی۔
آج اکتیس برس بعد اسرائیلی آبادکار بستیوں کی تعداد دگنی ہو چکی ہے۔ان بستیوں اور بچے کھچے فلسطینی دیہاتوں کے درمیان ایک طویل دیوار کھینچی جا چکی ہے۔مشرقی بیت المقدس میں فلسطینی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے بے دخلی کا عمل زور و شور سے جاری ہے اور فلسطینی اتھارٹی کا اقتدارِ اعلیٰ اتنا ہی باقی ہے جتنا کہ کسی عام قصبے کی بلدیہ کے پاس ہے۔
اس بے اختیاری کے سبب عام فلسطینی بھی اپنی اپاہج اتھارٹی سے بیزار ہو چکا مگر اس کے پاس کوئی متبادل نہیں بچا۔جب کہ غزہ دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل ہے جس کے دس لاکھ سے زائد مکینوں کو آئے دن بہانے بہانے سے مار پڑتی ہے۔
ایسے ماحول میں جب مصر اور اردن کے بعد بحرین اور متحدہ عرب امارات نے بھی اسرائیل سے ہاتھ ملا لیا تو فلسطینی ناقابلِ بیان تنہائی کا شکار ہو گئے۔
اب ان کی سودے بازی کی پوزیشن اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ وہ اس پر بھی رضامند ہیں کہ سعودی عرب بے شک اسرائیل سے تعلقات استوار کر لے مگر کم ازکم غربِ اردن کا وہ علاقہ ( ایریا سی ) جو اسرائیل نے مکمل طور پر ہتھیا لیا ہے فلسطینی اتھارٹی کو واپس دلوا دے۔سعودی عرب نے تین برس سے جو دو سو ملین ڈالر سالانہ کی امداد معطل کر رکھی ہے اسے بحال کردے اور امریکا پر زور دے کہ وہ فلسطینی خود مختار ریاست کے بارے میں دو ہزار چودہ سے معطل مذاکراتی عمل دوبارہ شروع کرے۔
اسرائیل میں اس وقت نیتن یاہو کی قیادت میں انتہائی دائیں بازو کی مذہبی و سیاسی جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت قائم ہے۔اسے پچھتر برس میں سب سے زیادہ نسل پرست اور بے لچک حکومت سمجھا جا رہا ہے۔جس کا ہدف یہ ہے کہ حالاتِ زندگی اس قدر تنگ کر دیے جائیں کہ بیشتر فلسطینی آبادی قانونی شکنجوں کی غلامی قبول کر لے یا پھر علاقہ چھوڑ دے۔
سعودی عرب نے اگرچہ اپنی حدود اسرائیلی پروازوں کے لیے کھول کے تعلقات میں بہتری کی راہ گزشتہ برس ہموار کر دی تھی۔مگر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے سدباب کے لیے بھرپور امریکی حمایت کے ساتھ جی ٹوئنٹی کے حالیہ اجلاس میں بھارت سے لے کر براستہ خلیج و اسرائیل یورپ تک جو تجارتی شاہراہ قائم کرنے کا منصوبہ سامنے آیا ہے۔سعودی عرب کی اس منصوبے میں کلیدی اہمیت ہے اور اسرائیل و سعودی عرب کے تعلقات معمول پر آنے سے ہی ٹریلین ڈالر منصوبے کی کامیابی وابستہ ہے۔
اگلے برس امریکا میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں چنانچہ وہی جو بائیڈن جو دو ہزار اٹھارہ میں ترکی میں سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خشوگی کے قتل پر کھلم کھلا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر انگلی اٹھا رہے تھے اور پھر تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ روکنے کے لیے سعودی عرب پر پیداوار بڑھانے اور یوکرین کے معاملے پر روس کے خلاف قائم مغربی محاذ کے لیے سعودی حمایت چاہ رہے تھے مگر روس اور سعودی عرب کے تیل کی قیمتیں کم نہ کرنے کے ایکے پر سخت ناراض بھی تھے اور پھر چین کی حمایت سے ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات معمول پر لا نے کے عمل سے سخت پریشان تھے۔اب وہی بائڈن امریکا کے دورے پر آنے والے محمد بن سلمان کے لیے قالین بچھائے کھڑے ہیں اور ان کی فرمائش ہے کہ ایک بار وہ اپنی زندگی میں سعودی اسرائیل تعلقات کو نارمل ہوتا دیکھ لیں۔
چونکہ سعودی عرب کو اسرائیل اور امریکا کے لیے اپنی پہلے سے زیادہ اہمیت کا احساس ہے لہٰذا سعودی قیادت نے تعلقات کی بحالی کے لیے وہ شرائط رکھی ہیں جو اس سے پہلے کوئی سعودی حکمران تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
محمد بن سلمان کا مطالبہ ہے کہ اگر فلسطینیوں کے مستقبل کے بارے میں ٹھوس ضمانت دی جائے ، امریکا سعودی عرب سے ویسا ہی معاہدہ کرے جو اس نے جاپان اور جنوبی کوریا کے تحفظ کے لیے کر رکھا ہے۔امریکا سعودی عرب کے سویلین جوہری پروگرام کی نہ صرف حمایت کرے بلکہ اس کے لیے افزودہ یورنیم کی سپلائی کی ضمانت بھی دے تو اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارمل ہو سکتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر فرمائش پوری نہیں ہو سکتی۔کیونکہ اسرائیل سے امریکا کا بنیادی وعدہ ہے کہ علاقے کے کسی ملک کو اسرائیل پر عسکری برتری حاصل نہیں ہونے دی جائے گی۔
مگر آثار بتاتے ہیں کہ سعودی عرب جو قالین ایک لاکھ میں فروخت کرنے پر ڈٹا ہوا ہے رفتہ رفتہ پچیس ہزار تک بیچنے پر آمادہ ہو جائے گا۔فلسطینیوں کی اشک شوئی کے لیے کچھ نمائشی ضمانتیں بھی مل جائیں گی تاکہ اندرون ملک عام سعودی کے فلسطینی کاز سے جذباتی لگاؤ کی تسلی ہو سکے۔ہو سکتا ہے اسرائیل وقتی طور پر اپنے رویے میں لچک بھی لے آئے مگر سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد وہ ہرگز اپنے عہد کا پابند نہیں ہوگا۔
جیسا کہ کیمپ ڈیوڈ ، میڈرڈ اور اوسلو سمجھوتوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈالا گیا ہے۔ فلسطینی کاز کی قیمت پر علاقائی ممالک حسب ِ روائیت اپنے اپنے لیے رعایتیں حاصل کر کے آگے بڑھ جائیں گے۔لہٰذا ذہنی طور پر تیار رہیے کہ اگلے چھ ماہ میں اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات خاصی حد تک نارمل ہو جائیں گے۔
بین الاقوامی تعلقات میں دوستی دشمنی نہیں ہوتی صرف مفادات ہوتے ہیں۔ سفارت کاری کے سینے میں دل ہی نہیں ہوتا لہٰذا ٹوٹنے اور جڑنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)