کراچی اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے۔۔۔۔۔
کراچی کی سڑکوں کی خستہ حالی سے جگہ جگہ ٹریفک جام اور شہری حادثات کا شکار ہو رہے ہیں۔
کراچی میں پانی کی غیرقانونی طریقے سے فروخت کا کاروبار عروج پر ہے۔
موسم گرما میں شہریوں کے پینے اور استعمال کے لیے پانی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے اور متعلقہ محکمے کے افسران اور عملے کی ملی بھگت سے ٹینکر مافیا اور نام نہاد منرل واٹر کا کاروبار کرنے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں سخت گرمیوں میں پمپنگ اسٹیشنوں سے پانی کی فراہمی میں تعطل سے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس جاتے ہیں۔
اس پر شہریوں کی جانب سے احتجاج اور بعض اوقات ہنگامہ آرائی کے بعد بھی کراچی واٹر بورڈ کی انتظامیہ اور دوسرے متعلقہ اداروں کی طرف سے ٹھوس عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔ پچھلے دنوں شہر کے غربی حصّے میں یومیہ 80 لاکھ روپے کا پانی غیرقانونی طور پر فروخت کرنے کے خلاف ایک شہری نے عدالت کو درخواست دی، جس پر سندھ ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے ایم ڈی واٹر بورڈ، بلدیہ کے ایڈمنسٹریٹر اور وزیر کو نوٹس جاری کر دیا۔ درخواست گزار کا موقف ہے کہ 117 غیرقانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی اور شہریوں سے ان کا حق چھینا جارہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ حکومت، عوامی نمائندے، متعلقہ اداروں کے افسران شہریوں کو واٹر مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنے مفادات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ شہر میں پانی کی قلت اور اس کے ساتھ غیرقانونی طریقے سے پانی کی فروخت کا کاروبار نیا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں بھی یہ کاروبار سیاسی اور بااثر افراد کی پشت پناہی سے جاری ہے اور شدید عوامی دباؤ کی صورت میں بھی ان عناصر کے خلاف کارروائی محض دکھاوے کی ہوتی ہے۔
پچھلے دنوں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کراچی میں پانی کے بحران پر قابو پانے اور پانی چوری کو روکنے کے لیے فوری طور پر غیر قانونی ہائیڈرنٹس بند کرنے اور متعلقہ محکمے کی اجازت کے بغیر پانی کے کنکشنز کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے۔ یہ احکامات وزیراعلیٰ ہاؤس میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی کارکردگی کے جائزے سے متعلق اجلاس میں دیے گئے۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے انتظامیہ کو ہدایت دی کہ پانی کی چوری میں ملوث مختلف فیکٹریوں اور غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس کی فہرست بھی پیش کی جائے اور ایڈیشنل آئی جی اور ڈی جی رینجرز کو ہدایت کی کہ وہ غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس کے مسمار کیے جانے اور فیکٹریوں سے غیر قانونی پانی کے کنکشن کے خاتمے کے دوران متعلقہ عملے کو مکمل تحفظ فراہم کریں اور ان سے تعاون کریں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے واٹر بورڈ کی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ پانی کی تقسیم کے عمل اور اس سارے نظام میں بہتری لائیں اور بجلی کی فراہمی کے ادارے کے الیکٹرک سے تعاون بڑھاتے ہوئے آپس میں روابط کو بہتر بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ کراچی کے لیے چار واٹر پروجیکٹ شروع کرنے کے لیے وفاقی حکومت سے درخواست کرے گی اور امید ہے کہ آیندہ مالی سال میں اس منصوبے پر کام شروع ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کراچی کے لیے کینجھر جھیل سے زیادہ پانی حاصل کرنے کے منصوبے پر بھی غور کر رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کی بہتری کے لیے اسکیم کی منظوری دی ہے۔ اس اسکیم کے مکمل ہونے سے کراچی کے لیے100 ملین گیلن پانی اضافی فراہمی ممکن ہوگی۔ صوبائی وزیر بلدیات شرجیل انعام میمن نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کراچی کو اضافی پانی کی ضرورت ہے۔ واٹر بورڈ سے شہر میں تقسیم کیے جانے والا پانی چوری ہو رہا ہے۔ غیر قانونی ہائیڈرنٹس اور کنکشنز کے خلاف کارروائی شروع کی ہے، مگر ابھی مکمل کام یابی نہیں ملی ہے۔
گذشتہ دنوں کورنگی کے صنعتی علاقوں میں پانی چوری کرنے والوں کے خلاف آپریشن کے تیسرے مرحلے میں واٹر بورڈ نے 5 غیر قانونی کنکشنز کاٹ دیے، بھاری مشینری کے ذریعے زیر زمین خفیہ لائنوں کو اکھاڑ کر پھینک دیا۔ آپریشن میں سپرنٹنڈنٹ انجینئر سعید شیخ، ایگزیکیٹو انجینئر کورنگی صابر علی، ذوالفقار بروہی ڈائریکٹر ٹیکسزریونیو (لانڈھی کورنگی) اور ان کے عملے نے حصہ لیا۔ ایم ڈی واٹر بورڈ قطب الدین شیخ نے ہدایت کی ہے کہ چیئرمین واٹر بورڈ کی ہدایت پر سختی سے عمل کیا جائے، آپریشن پانی چوری کرنے والوں کے خلاف کارروائی مکمل ہونے تک جاری رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کورنگی کے بعد دوسرے صنعتی علاقوں میں بھی آپریشن کے لیے تیاریاں مکمل کرلی جائیں۔
سندھ کے سابق صوبائی وزیر بلدیات اویس مظفر نے اپنے دور میں کراچی میں پانی کی فراہمی کا نظام بہتر بنانے کی کوششں کی تھی۔ شہریوں کو واٹر بورڈ کی لائنوں کے ذریعے پینے کا پانی گھر گھر پہنچانے کی اس کوشش کے دوران شہر کے مختلف علاقوں سے غیرقانونی ہائیڈرنٹس کا خاتمہ کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ درجنوں غیر قانونی ہائیڈرنٹس مسمار کیے گئے۔ لیکن پھر کیا ہوا، اچانک اویس مظفر نے استعفیٰ دے دیا۔ اس لیے شہریوں کی امیدیں ہی دم توڑ گئی ہیں اب وہ تبدیلی کا دعوی کرتے ہوئے وزراء اور حکومتی اقدامات پر بھروسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
کراچی کی سڑکوں کی خستہ حالی سے جگہ جگہ ٹریفک جام اور شہری حادثات کا شکار ہو رہے ہیں۔ ملیر ہالٹ اور ملیر پندرہ پر فلائی اوورز کی تعمیر کے دوران متبادل راستوں پر توجہ نہ دینے کے باعث ہزاروں شہری روزانہ گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہتے ہیں۔ ملیر ہالٹ کی سڑک پر جگہ جگہ گڑھے ہیں، غیر ہموار اور پختہ نہ ہونے کے باعث یہاں سڑک پر ٹریفک جام ہونے لگا ہے۔ ایک ہفتے قبل ایئرپورٹ سے قائدآباد جانے والے ٹریک پر سیوریج کا پانی جمع ہونے سے صورت حال مزید خراب ہو گئی اور عوام اذیت کا شکار رہے۔ کے ایم سی کے اعلیٰ حکام اور محکمہ ٹیکنیکل سروسز مذکورہ مقامات پر تاحال متبادل راستوں کا مسئلہ حل نہیں کر سکا۔
بلدیاتی ملازمین نے ڈی ایم سی نظام کے مکمل نفاذ کے لیے احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا ہے۔ پہلے مرحلے میں بلدیاتی ملازمین نے کے ایم سی ورکشاپ سے صدر زون، بلدیہ جنوبی تک کچرا گاڑیوں کے ساتھ احتجاج کیا گیا۔ اس موقع پر مظاہرین نے نعرے بھی لگائے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے میونسپل ورکرز ٹریڈ یونینز الائنس و سجن یونین (سی بی اے) کے ایم سی کے مرکزی صدر سید ذوالفقار شاہ، جمشید زون کے صدر ملک محمد نواز، لیاری زون کے اشرف اعوان، صدر زون کے جنرل سیکریٹری حبیب الرحمن نے کہا کہ حکومت سندھ کی جانب سے اس فیصلے تک کہ آیا ڈی ایم سی رائج ہے یا ٹاؤنز موجود ہے احتجاجی تحریک جاری رہے گی تاکہ ایک ہی ڈسٹرکٹ میں کام کرنے والے ملازمین کو ایک جیسی سہولتیں حاصل ہوں۔ ایک ہی شہر کا حصہ ہونے کے باوجود مختلف ٹاؤنز میں مختلف سہولتیں دی جارہی ہیں، جس سے ناانصافیوں اور زیادتیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس موقع پر ریاض جدون، رضا شاہ، نثار احمد، محمد نذیر، محمد زمان، جان محمد بلوچ، سید غضنفر علی شاہ، ریاست گلزار اور دیگر بھی موجود تھے۔ بعدازاں مظاہرین پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔
شہر قائد میں روزانہ کوئی نہ کوئی مہم اور کسی معاملے پر احتجاج ہوتا ہی رہتا ہے۔ شہر کا نظام بدلنے اور شہر کی حالت سدھارنے کے لیے کبھی غیرقانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف، کبھی ٹریفک کے قوانین پر عمل درامد کے لیے، کبھی بجلی چوری کی روک تھام کی، کبھی تجاوزات کے خاتمے کے لیے آپریشن کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان ساری مہمات اور کاوشوں کا نتیجہ صفر ہے۔ شہریوں کی زندگی عذاب تھی اور ہے۔ حکام دعوے کرتے ہیں، اور میڈیا کے ذریعے میں اپنی 'کارکردگی' کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں، لیکن حقیقی معنوں میں شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا۔
اس وقت شہری بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کا مسئلہ بھی جھیل رہے ہیں۔ اگر کبھی بھولے سے پانی آرہا ہو تو بجلی غائب ہوجاتی ہے اور بجلی ہو تو پانی نہیں ملتا۔ پانی، بجلی کی آنکھ مچولی نے شہریوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ جب لبریز ہوجاتا ہے تو مظاہرے شروع ہوتے ہیں اور ان مظاہروں میں چند شرپسند توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور اس کا بھی نقصان عوام ہی کو پہنچتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار زبانی جمع خرچ کی بجائے عوامی مسائل کا دیرپا حل تلاش کریں۔
موسم گرما میں شہریوں کے پینے اور استعمال کے لیے پانی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے اور متعلقہ محکمے کے افسران اور عملے کی ملی بھگت سے ٹینکر مافیا اور نام نہاد منرل واٹر کا کاروبار کرنے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں سخت گرمیوں میں پمپنگ اسٹیشنوں سے پانی کی فراہمی میں تعطل سے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس جاتے ہیں۔
اس پر شہریوں کی جانب سے احتجاج اور بعض اوقات ہنگامہ آرائی کے بعد بھی کراچی واٹر بورڈ کی انتظامیہ اور دوسرے متعلقہ اداروں کی طرف سے ٹھوس عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔ پچھلے دنوں شہر کے غربی حصّے میں یومیہ 80 لاکھ روپے کا پانی غیرقانونی طور پر فروخت کرنے کے خلاف ایک شہری نے عدالت کو درخواست دی، جس پر سندھ ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے ایم ڈی واٹر بورڈ، بلدیہ کے ایڈمنسٹریٹر اور وزیر کو نوٹس جاری کر دیا۔ درخواست گزار کا موقف ہے کہ 117 غیرقانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی اور شہریوں سے ان کا حق چھینا جارہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ حکومت، عوامی نمائندے، متعلقہ اداروں کے افسران شہریوں کو واٹر مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنے مفادات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ شہر میں پانی کی قلت اور اس کے ساتھ غیرقانونی طریقے سے پانی کی فروخت کا کاروبار نیا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں بھی یہ کاروبار سیاسی اور بااثر افراد کی پشت پناہی سے جاری ہے اور شدید عوامی دباؤ کی صورت میں بھی ان عناصر کے خلاف کارروائی محض دکھاوے کی ہوتی ہے۔
پچھلے دنوں وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کراچی میں پانی کے بحران پر قابو پانے اور پانی چوری کو روکنے کے لیے فوری طور پر غیر قانونی ہائیڈرنٹس بند کرنے اور متعلقہ محکمے کی اجازت کے بغیر پانی کے کنکشنز کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے۔ یہ احکامات وزیراعلیٰ ہاؤس میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی کارکردگی کے جائزے سے متعلق اجلاس میں دیے گئے۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے انتظامیہ کو ہدایت دی کہ پانی کی چوری میں ملوث مختلف فیکٹریوں اور غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس کی فہرست بھی پیش کی جائے اور ایڈیشنل آئی جی اور ڈی جی رینجرز کو ہدایت کی کہ وہ غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس کے مسمار کیے جانے اور فیکٹریوں سے غیر قانونی پانی کے کنکشن کے خاتمے کے دوران متعلقہ عملے کو مکمل تحفظ فراہم کریں اور ان سے تعاون کریں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے واٹر بورڈ کی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ پانی کی تقسیم کے عمل اور اس سارے نظام میں بہتری لائیں اور بجلی کی فراہمی کے ادارے کے الیکٹرک سے تعاون بڑھاتے ہوئے آپس میں روابط کو بہتر بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ کراچی کے لیے چار واٹر پروجیکٹ شروع کرنے کے لیے وفاقی حکومت سے درخواست کرے گی اور امید ہے کہ آیندہ مالی سال میں اس منصوبے پر کام شروع ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کراچی کے لیے کینجھر جھیل سے زیادہ پانی حاصل کرنے کے منصوبے پر بھی غور کر رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کی بہتری کے لیے اسکیم کی منظوری دی ہے۔ اس اسکیم کے مکمل ہونے سے کراچی کے لیے100 ملین گیلن پانی اضافی فراہمی ممکن ہوگی۔ صوبائی وزیر بلدیات شرجیل انعام میمن نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کراچی کو اضافی پانی کی ضرورت ہے۔ واٹر بورڈ سے شہر میں تقسیم کیے جانے والا پانی چوری ہو رہا ہے۔ غیر قانونی ہائیڈرنٹس اور کنکشنز کے خلاف کارروائی شروع کی ہے، مگر ابھی مکمل کام یابی نہیں ملی ہے۔
گذشتہ دنوں کورنگی کے صنعتی علاقوں میں پانی چوری کرنے والوں کے خلاف آپریشن کے تیسرے مرحلے میں واٹر بورڈ نے 5 غیر قانونی کنکشنز کاٹ دیے، بھاری مشینری کے ذریعے زیر زمین خفیہ لائنوں کو اکھاڑ کر پھینک دیا۔ آپریشن میں سپرنٹنڈنٹ انجینئر سعید شیخ، ایگزیکیٹو انجینئر کورنگی صابر علی، ذوالفقار بروہی ڈائریکٹر ٹیکسزریونیو (لانڈھی کورنگی) اور ان کے عملے نے حصہ لیا۔ ایم ڈی واٹر بورڈ قطب الدین شیخ نے ہدایت کی ہے کہ چیئرمین واٹر بورڈ کی ہدایت پر سختی سے عمل کیا جائے، آپریشن پانی چوری کرنے والوں کے خلاف کارروائی مکمل ہونے تک جاری رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کورنگی کے بعد دوسرے صنعتی علاقوں میں بھی آپریشن کے لیے تیاریاں مکمل کرلی جائیں۔
سندھ کے سابق صوبائی وزیر بلدیات اویس مظفر نے اپنے دور میں کراچی میں پانی کی فراہمی کا نظام بہتر بنانے کی کوششں کی تھی۔ شہریوں کو واٹر بورڈ کی لائنوں کے ذریعے پینے کا پانی گھر گھر پہنچانے کی اس کوشش کے دوران شہر کے مختلف علاقوں سے غیرقانونی ہائیڈرنٹس کا خاتمہ کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ درجنوں غیر قانونی ہائیڈرنٹس مسمار کیے گئے۔ لیکن پھر کیا ہوا، اچانک اویس مظفر نے استعفیٰ دے دیا۔ اس لیے شہریوں کی امیدیں ہی دم توڑ گئی ہیں اب وہ تبدیلی کا دعوی کرتے ہوئے وزراء اور حکومتی اقدامات پر بھروسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
کراچی کی سڑکوں کی خستہ حالی سے جگہ جگہ ٹریفک جام اور شہری حادثات کا شکار ہو رہے ہیں۔ ملیر ہالٹ اور ملیر پندرہ پر فلائی اوورز کی تعمیر کے دوران متبادل راستوں پر توجہ نہ دینے کے باعث ہزاروں شہری روزانہ گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہتے ہیں۔ ملیر ہالٹ کی سڑک پر جگہ جگہ گڑھے ہیں، غیر ہموار اور پختہ نہ ہونے کے باعث یہاں سڑک پر ٹریفک جام ہونے لگا ہے۔ ایک ہفتے قبل ایئرپورٹ سے قائدآباد جانے والے ٹریک پر سیوریج کا پانی جمع ہونے سے صورت حال مزید خراب ہو گئی اور عوام اذیت کا شکار رہے۔ کے ایم سی کے اعلیٰ حکام اور محکمہ ٹیکنیکل سروسز مذکورہ مقامات پر تاحال متبادل راستوں کا مسئلہ حل نہیں کر سکا۔
بلدیاتی ملازمین نے ڈی ایم سی نظام کے مکمل نفاذ کے لیے احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا ہے۔ پہلے مرحلے میں بلدیاتی ملازمین نے کے ایم سی ورکشاپ سے صدر زون، بلدیہ جنوبی تک کچرا گاڑیوں کے ساتھ احتجاج کیا گیا۔ اس موقع پر مظاہرین نے نعرے بھی لگائے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے میونسپل ورکرز ٹریڈ یونینز الائنس و سجن یونین (سی بی اے) کے ایم سی کے مرکزی صدر سید ذوالفقار شاہ، جمشید زون کے صدر ملک محمد نواز، لیاری زون کے اشرف اعوان، صدر زون کے جنرل سیکریٹری حبیب الرحمن نے کہا کہ حکومت سندھ کی جانب سے اس فیصلے تک کہ آیا ڈی ایم سی رائج ہے یا ٹاؤنز موجود ہے احتجاجی تحریک جاری رہے گی تاکہ ایک ہی ڈسٹرکٹ میں کام کرنے والے ملازمین کو ایک جیسی سہولتیں حاصل ہوں۔ ایک ہی شہر کا حصہ ہونے کے باوجود مختلف ٹاؤنز میں مختلف سہولتیں دی جارہی ہیں، جس سے ناانصافیوں اور زیادتیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس موقع پر ریاض جدون، رضا شاہ، نثار احمد، محمد نذیر، محمد زمان، جان محمد بلوچ، سید غضنفر علی شاہ، ریاست گلزار اور دیگر بھی موجود تھے۔ بعدازاں مظاہرین پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔
شہر قائد میں روزانہ کوئی نہ کوئی مہم اور کسی معاملے پر احتجاج ہوتا ہی رہتا ہے۔ شہر کا نظام بدلنے اور شہر کی حالت سدھارنے کے لیے کبھی غیرقانونی ہائیڈرنٹس کے خلاف، کبھی ٹریفک کے قوانین پر عمل درامد کے لیے، کبھی بجلی چوری کی روک تھام کی، کبھی تجاوزات کے خاتمے کے لیے آپریشن کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان ساری مہمات اور کاوشوں کا نتیجہ صفر ہے۔ شہریوں کی زندگی عذاب تھی اور ہے۔ حکام دعوے کرتے ہیں، اور میڈیا کے ذریعے میں اپنی 'کارکردگی' کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں، لیکن حقیقی معنوں میں شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا۔
اس وقت شہری بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کا مسئلہ بھی جھیل رہے ہیں۔ اگر کبھی بھولے سے پانی آرہا ہو تو بجلی غائب ہوجاتی ہے اور بجلی ہو تو پانی نہیں ملتا۔ پانی، بجلی کی آنکھ مچولی نے شہریوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ عوام کے صبر کا پیمانہ جب لبریز ہوجاتا ہے تو مظاہرے شروع ہوتے ہیں اور ان مظاہروں میں چند شرپسند توڑ پھوڑ کرتے ہیں اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور اس کا بھی نقصان عوام ہی کو پہنچتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار زبانی جمع خرچ کی بجائے عوامی مسائل کا دیرپا حل تلاش کریں۔