فسوں ساز کیلاش
دل کش نظارے، خوب صورت لوگ، انوکھی رسمیں اور روایات
ہم سب مسافر جو سفر پر نکلتے ہیں، اپنے بیوی بچوں کو خدا کے حوالے کرتے ہیں اور انتہائی بھاری قدموں کے ساتھ اپنے بچوں کو خدا حافظ کہہ کر گلے لگاتے ہیں۔
میرا نہیں خیال کہ کوئی باپ خوشی خوشی اپنے بچوں خدا حافظ کہتا ہو گا اور بچے بھی اگر تھوڑے سیانے ہوں تو ایک دکھی اور کم زور مسکراہٹ کے ساتھ اپنے آوارہ باپ کو الواداع کہتے ہیں۔
کم از کم میرے لیے تو ہمیشہ ہی اپنا پہلا قدم گھر کے دروازے سے باہر رکھنا آسان نہیں رہا۔ آگے ہماری آوارگی ہوتی ہے، ہمارا شوق ہوتا ہے جس کے بنا ہم گزارا نہیں ہوتا اور پیچھے ہمارا پورا خاندان ہوتا ہے، ہمارے بیوی بچے، ہمارا خون، ہمارے ماں باپ۔
ایسے میں اگر کبھی کوئی حادثہ پیش آجائے تو ہماری سب کی تیاریاں صفر ہوجاتی ہیں۔ ہم مکمل طور پر ایک ڈرائیور کے سر پر ہوتے ہیں۔ خدا وہ سفر کسی مسافر کو نہ دکھائے کہ جس میں وہ کسی حادثے کا شکار ہو اور اس کے پیچھے والے ہمیشہ کے لیے روتے رہے کیوںکہ تاریخ گواہ ہے کہ بچے صرف اور صرف باپ کے ہی ہوتے ہیں۔
باپ کے علاوہ بلاوجہ کے نخرے کون اٹھاتا ہے۔ سب کے سر کے تاج سلامت رہیں۔ سب کے بچے اپنے باپ کی چھاؤں میں رہیں۔ تمام مسافر خیروعافیت سے اپنے اپنے گھروں میں، اپنے ماں باپ کے پاس واپس پہنچیں۔ سب مسافروں کی خیر ہو۔
ہر انسان کی الگ فطرت ہے۔ میری فطرت میں ڈر شامل ہے۔ میں ہمیشہ ہی ڈرتا رہا ہوں کوئی بھی نیا کام کرنے سے یا پھر الگ کوئی کام روٹین سے ہٹ کر ہوجائے تو میرے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ ابھی کرومبر کو نکلنے لگے تو موسم کے شدید خراب ہونے کی اطلاعات تھیں۔
میرے اپنے سیالکوٹ میں ایک دن پہلے بہت بارش ہوئی مگر جانا تو تھا ہی۔ لاہور سے دیر کے لیے سیٹ ایک دن پہلے ہی کنفرم کروا لی تھی۔ گاڑی تو اپنے وقت پر چل پڑی مگر اسے بابو صابو انٹرچینج پر آتے ہوئے ایک گھنٹے سے زیادہ لگ گیا۔
شام تک تو موسم خوش گوار رہا مگر رات تیز بارش شروع ہوگئی۔ الحمدللہ سفر میں ویسے بھی مجھے سونے کی اچھی عادت ہے۔ میں کافی دیر سوتا رہا۔ رات تین بجے کے قریب آنکھ کھلی تو گاڑی کھڑی تھی۔ محسوس ہوا کہ شاید رش ہے مگر جب کچھ آگے گئے تو پانی کی آواز میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہ دیر سے کافی پہلے کی بات ہے۔ علاقے کا پتا نہیں تھا۔ اوپر سے پانی بہت زور سے آ رہا تھا۔ کچھ دیر پہلے ہی لینڈ سلائیڈنگ ہوئی تھی۔
سڑک پر بڑے بڑے پتھر پڑے تھے۔ سڑک کا ایک حصہ ٹوٹ کر دریا میں گر چکا تھا۔ ہمارے بالکل ساتھ ہی دریا بہہ رہا تھا۔ ہماری گاڑی چوںکہ بڑی تھی، اس لیے گزر نہیں پا رہی تھی۔ سڑک چوڑی تو تھی مگر بڑے بڑے پتھر گرنے کی وجہ سے جگہ کم ہوگئی تھی۔ مجبوراً گاڑی والے نے جو کہ ایک پٹھان ہی تھا، گاڑی بند کر کے ایک طرف لگا دی۔ آگے جانا اس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک پتھروں کو ہٹا نہ دیا جائے۔ ڈر اس وقت بڑھا جب میرے سامنے ایک چھوٹے ٹرک نے گزرنے کی کوشش کی اور وہ دائیں جانب پانی میں گرگیا۔
جانی نقصان تو کوئی نہ ہوا مگر ٹرک الٹنے کی وجہ سے جگہ مزید کم ہوگئی۔ میرا جی چاہا کہ اس وقت یہاں سے واپس بھاگ جاؤں اور اپنے بچوں سے لپٹ جاؤ۔ کچھ دیر کے بعد مقامی لوگ ایک بڑا سا راڈ لائے جسے لیور کے طور پر استعمال کیا گیا اور پتھر کو ہٹا کر راستہ کھلا کیا گیا۔ ایسے میں ہماری گاڑی وہاں سے نکل سکی۔ اس سارے منظرنامے میں بارش بھی ہلکی ہلکی ہوتی رہی۔ یہاں بارش ہلکی تھی مگر اوپر کہیں پہاڑوں پر بارش زیادہ ہوئی تھی جس کا پانی ابھی تک پہاڑ سے گر رہا تھا بلکہ اپنے ساتھ پتھر بھی لا رہا تھا۔
مجھے حیرت اور خوشی اس بات کی ہوئی کہ رات کے تین بجے مقامی افراد بارش میں کھڑے گاڑیوں کو سیلابی پانی سے نکال رہے تھے۔ وہاں کوئی بھی سرکاری بندہ نہ تھا۔ سب مقامی تھے جو لوگوں کی مدد کر رہے تھے یہاں تک کہ سڑک سے پتھر ہٹانے کے واسطے لیور بھی لوگ خود لائے ورنہ ہم ساری رات وہی سڑک پر گزار دیتے اور سرکاری کوئی گاڑی روڈ کلیر کروانے صبح دن چڑھے آتی۔
پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک چین، بھارت، ایران اور افغانستان ہیں۔ ایک پانچویں ماضی کا روس اور موجودہ تاجکستان بھی ہوتا مگر روس اور برطانیہ نے جان بوجھ کر یہ نہ ہونے دیا۔ کیوں؟ اس پر ذرا آگے جا کر بات کریں گے۔ پاکستان کا بھارت اور افغانستان کے ساتھ شروع دن سے ہی تنازع چلتا رہا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی اگر ایک ملک کا دوسرے سے کوئی تنازع ہے تو وہ زمین یا وسائل کی وجہ سے ہی ہے۔
پاکستان اور بھارت میں تنازعے کی سب سے بڑی وجہ کشمیر ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان بھی زمین کو لے کر تنازع شروع ہوا مگر پاکستان نے شرافت سے زمین کا وہ متنازعہ حصہ چین کے حوالے کردیا۔ اس طرح پاکستان چین کی گڈ بک میں آ گیا اور دونوں ممالک میں پیار کی پینگیں بڑھنے لگیں۔ ماضی میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان کوئی سرحد نہ تھی۔ افغانستان سے لشکر یہاں آتے، لوٹ مار کرتے اور چلے جاتے۔ افغانستان کے اوپر روس تھا جب کہ دوسری طرف برصغیر میں برطانیہ آ کر بیٹھ گیا۔
اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو روس اور افغانستان کی جنگیں ماضی میں ہوتی رہی ہیں۔ اوپر سے روس نیچے آنے کی کوشش میں تھا جب کہ برطانیہ برصغیر سے افغانستان پر قابض ہونے کی کوشش کرتا رہا۔ چمن قندھار ریلوے لائن برطانیہ نے لوگوں کی سہولت کے لیے نہیں بنائی تھی بلکہ اس کا اصل مقصد فوجی نقل و حرکت ہی تھا۔ دنیا میں ایسے بہت سے بڑے بڑے پراجیکٹ ہیں جو صرف فوجی مقاصد کے لیے شروع کئے گئے تھے جو بعد میں عوام کے فائدے کے لیے بھی استعمال ہوئے جن میں سر فہرست آپ کا انٹرنیٹ بھی ہے۔
بھلا ہو امریکا بہادر کا جس نے جاپان کے ساتھ دوسری جنگ عظیم کا آغاز کیا۔ صرف ایٹم بم کی بنا پر امریکا جنگ تو جیت گیا مگر برطانیہ ایسا پسا کہ اس کے لیے برصغیر میں مزید رہنا ممکن نہیں رہا۔ پہلے برطانیہ یہاں سے نکلا اور پھر سری لنکا کو بھی آزادی ملی۔ ہمارے ہاں ایسے معصوم لوگوں کی کمی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ تحریکِ آزادی نے برطانیہ کو یہاں سے نکلنے پر مجبور کیا۔
1893 میں پہلی بار افغانستان اور برصغیر کی سرحدوں کا تعین ہوا تو معاشی طور پر کم زور افغانستان سے اپنی من مرضی کے مطابق فیصلہ کروایا گیا۔ افغانستان جو کہ دریائے اٹک تک کے تمام علاقوں کو اپنا مانتا رہا تھا اور اس پر حاکم بھی رہا تھا، ان تمام باتوں سے دست بردار ہوگیا۔
ایسے میں ایک چھوٹی سی واخان کی پٹی کو جان بوجھ کر افغانستان کا حصہ ہی رہنے دیا گیا کیوںکہ یہی وہ چھوٹی سی پٹی تھی جو برصغیر کو پرانے روس سے جدا کرتی تھی۔ اگر یہ پٹی بھی برصغیر کو مل جاتی تو برصغیر براہ راست روس سے جڑ جاتا۔ اس پٹی کے بارے برطانیہ اور روس دونوں نے مشترکہ فیصلہ کیا کہ یہ انتہائی مختصر سا علاقہ بفر زون ہو گا۔ جس میں نہ تو برطانیہ داخل ہو سکے گا اور نہ روس۔ اس طرح زمینی طور پر برطانیہ اور روس دونوں الگ الگ رہیں گے۔
دیر، بونیر، چترال سمیت بہت سے علاقوں پر افغانستان دعوے دار تھا مگر شیر اور ریچھ (برطانیہ اور روس) سے بچنے کے لیے افغانستان نے اپنی سرحد بندی مکمل کی اور نا چاہتے ہوئے بھی سب قبول کیا۔
وادی چترال لواری پاس کے ذریعے دیر سے ملتی ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ کچھ سال پہلے تک گرمیوں میں ہی چترال سے پاکستان کا زمینی راستہ کھلا ہوتا تھا۔ سردیوں میں چترال پورے ملک سے کٹ جاتا تھا۔ ماضی میں سردیوں میں آمد و رفت کا یہ طریقہ تھا کہ لوگ چترال سے افغانستان جاتے اور پھر وہاں سے برصغیر میں داخل ہوتے۔ آپ کو شاید یہ جان کر خوش گوار حیرت ہو گی کہ دریائے چترال کا قدرتی طور پر بہاؤ بھی افغانستان کی طرف ہے۔
دریائے چترال افغانستان میں داخل ہو کر دریائے کابل سے ملتا ہے جب کہ یہی دریائے کابل بعد میں پاکستان میں داخل ہو کر اٹک کے مقام پر دریائے سندھ سے جا ملتا ہے۔ مہتر عبدالملک نے بھی انگریزوں کو تجویز دی تھی کہ ایک سرنگ کی تعمیر کی جائے تاکہ سردیوں میں چترال کا برصغیر کے باقی علاقوں سے زمینی رابطہ بحال رہے۔
اس وقت سروے بھی ہوا مگر پھر انگریز یہاں سے چلا گیا۔ بھٹو صاحب کے وقت بھی شاید اس پر کچھ کام ہوا مگر بات زیادہ نہ بنی۔ مشرف صاحب نے اس پر باقاعدہ کام شروع کروایا اور کافی حد تک یہ مکمل بھی ہوا مگر اسے عملی طور پر نواز حکومت میں عام ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔ لواری ٹنل پاکستان کی سب سے لمبی ٹنل ہے جس کی کل لمبائی 10.5 کلومیٹر ہے۔ یہ ٹنل دو حصوں پر مشتمل ہے۔ آدھی ٹنل وادی چترال میں ہے جب کہ تقریباً 5.5 کلو میٹر ضلع دیر میں ہے یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ لواری ٹنل وادی چترال اور ضلع دیر کی سرحد پر ہے۔
صبح سویرے چترال پہنچے تو فوراً ہی کیلاش کے لیے نکل پڑے۔ وادی کیلاش جسے کالاش بھی لکھا جاتا ہے، کی تین وادیاں ہیں، بریر، رمبور اور بمبوریت۔ اہم اور خوب صورت وادی بمبوریت ہی ہے۔ عام طور پر سیاح جب بھی کیلاش آتے ہیں تو وہ بمبوریت کا ہی رخ کرتے ہیں۔ بمبوریت میں کالاش لوگوں کے چار گاؤں ہیں۔ کراکرل، باترک، برن اور انیش۔ ہر گاؤں میں اپنا اپنا قبرستان اور عبادت گاہ ہے جب کہ سب سے قدیم قبرستان کراکال گاؤں میں ہے۔
کالاش لوگ سکندراعظم کے وقت سے ہیں۔ پہلے جب آبادی کم تھی تو قبرستان بھی آبادی سے دور تھا۔ کالاشا لوگ اپنے مردے کو دفناتے نہیں تھے بلکہ اسے لکڑی کے ایک تابوت میں بند کرتے اور کھلی فضا میں رکھ دیتے۔ جسم پرندے کھا جاتے اور ہڈیاں وہی پڑی رہتیں۔ علاقے میں بدبو یقیناً پھیل جاتی ہوگی مگر مردہ رکھنے کے بعد یہ لوگ واپس نہ آتے تھے۔ مردے کی پسندیدہ چیزوں کو بھی اس تابوت کے اندر یا پاس رکھا جاتا تھا۔
تابوت پر ان کے کچھ مذہبی نشانات بھی کندہ کیے جاتے تھے۔ پھر جب کچھ آبادی اور شعور بڑھا اور حکومت کی مداخلت پر کالاش لوگوں کو اس بات پر مائل کیا گیا کہ وہ اپنے مردے دفنایا کریں۔ اگر مردوں کی اشیاء چوری ہونے کے واقعات نہ بڑھتے تو شاید یہ لوگ اپنے طریقے نہ بدلتے۔ اب کالاش لوگ اپنے مردے دفناتے ہیں۔ تازہ قبر پر چارپائی الٹی کرکے رکھی جاتی ہے، نشانی کے طور پر لال جھنڈا بھی لگایا جاتا ہے جب کہ کچھ استعمال کی چیزیں بھی ساتھ دفنائی جاتی ہیں۔
کالاشا لوگ اپنے قبرستان کو مڈوجاودور کہتے ہیں۔ یہاں کسی کا فوت ہوجانا سوگ کی علامت نہیں ہے بلکہ مرنے پر ایک الگ قسم کا جشن منایا جاتا ہے، کیوںکہ ان کا عقیدہ ہے کہ مرنے والا اب ایک اچھی جگہ پر ہے۔ کالاش لوگ روح کے دن کو مندیک کے نام سے مناتے ہیں۔
وادیٔ کیلاش کا آخری گاؤں شیخاناندہ ہے جو ایک مسلم گاؤں ہے۔ اس سے آگے کوئی آبادی نہیں۔ اس کے آس پاس یا کچھ آگے تک لوگ خوب صورت ٹریک، خوب صورت پھول، خوب صورت پرندوں کی آوازیں سننے کے لیے جاتے ہیں۔
اپنا کھانا پینا کرتے ہیں اور واپس آ جاتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو چوری چھپے اس سے بھی آگے جاتے ہیں یا آگے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا صرف وہی کرتے ہیں جن کی آنکھوں میں دہشت ہوتی ہے، دماغ میں بھی کچھ الٹ پلٹ ہوتا ہے۔ شیخاناندہ کے کچھ بعد تو ٹریکس ہیں مگر پھر زیادہ آگے جانا منع ہے۔ آپ ایک لمبے راستے پر چلتے جائیں تو آگے افغانستان شروع ہوجائے گا۔ ماضی میں بھی طالبان کی جانب سے اوپر سے نیچے کی جانب پیش قدمی کی خبریں آتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بمبوریت میں بھی ایک چھوٹی سی چھاؤنی ہے حالاںکہ یہاں گاؤں صرف چار ہیں۔
دور پہاڑوں میں شیخاناندہ سے بہت آگے چھپی ہوئی جگہوں پر آرمی کی چیک پوسٹ ہیں۔ چیک پوسٹ سے مراد یہ ہے کہ ہمارے جوان اوپر پہاڑوں پر چھپے بیٹھے ہوتے ہیں، مگر کہاں، یہ کوئی نہیں جانتا۔ آپ اگر اس جانب نکل جائیں تو براہ راست دہشت گردی یا جاسوسی کے شبہے میں پکڑ لیے جائیں گے کیوںکہ ایک عام سیاح اس طرف جا ہی نہیں سکتا۔
اس طرف صرف وہی جائے گا جس کی آنکھوں میں وحشت ہوگی، ارادے غلط ہوں گے۔ اس طرف صرف وہی جائے گا جسے سرحد پار کرنا ہوگی یا پھر وہ اوپر سے سرحد پار کرکے نیچے آ رہا ہوگا۔
کنڈورک کالاش تہذیب کی ایک اہم اور قدیم روایت ہے۔ ویسے تو کیلاشی تہذیب ہی تقریباً ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ کنڈورک میں ایک لڑکے اور ایک لڑکی کی شبیہ بنائی جاتی ہے۔ اگر کسی کیلاشی کی اولاد نہ ہو اور وہ مال دار بھی ہو تو اس کی وارثت اس کے مرنے کے بعد اس کے بھائی کو منتقل کردی جاتی ہے۔ مگر یہ سب اتنا آسان بھی نہیں۔ پہلے وہ بھائی جو وارثت کا دعوے دار ہو، وہ اپنے پورے گاؤں کی دعوت کرے گا۔ دعوت بھی کوئی عام دعوت نہیں ہوتی۔ آپ اسے پورا تہوار سمجھ لیں۔
دعوت کے بعد وہ اپنے بھائی کی جانب سے ایک علامتی لڑکا لڑکی کی شبیہ اس مقام پر لگائے گا، یوں وہ وراثت فوت شدہ کے اس بھائی کو منتقل ہوجائے گی۔ کیلاش میں مالوش کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ جب بھی کوئی کالاشی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے یہاں لایا جاتا ہے۔ ایک بکرا کاٹا جاتا ہے، اپنی کچھ مذہبی رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ اس طرح وہ بچہ کالاشی بن جاتا ہے۔ اپنی برداری یا گاؤں والوں کی دعوت کی جاتی ہے اور انھیں یہی بکرا کھلایا جاتا ہے۔ ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے یہ ایک لازمی عمل ہے۔
آپ اسے کالاشی مذہب کی ایک رسم سمجھ لیں۔ مالوش عام راستوں سے ہٹ کر ایک بلند جگہ پر بنائی گئی ہے۔ یہ شارع عام نہیں ہے۔ اگر آپ کے ساتھ کوئی گائیڈ نہیں تو آپ کا اس جگہ تک پہنچ پانا بھی ممکن نہیں۔ یہ اتنی بلندی پر ہے کہ اس کے نیچے کھڑے ہوکر بھی آپ نہیں بتا سکتے کہ آپ مالوش کے نیچے کھڑے ہیں۔ مالوش میں بکروں یا زرافہ نما جانوروں کی شبیہ بھی بنی ہوئی ہے۔
کالاشی لوگوں کے تین بنیادی موسمی اور مذہبی تہوار ہیں: چلم جوشی، اچاؤ اور چومس۔ چلم جوشی مئی کے مہینے میں بہار کی آمد پر منعقد ہوتا ہے۔ اچاؤ اگست میں فصل کے تیار ہونے پر جب کہ چومس دسمبر میں جب سردی اپنے عروج کو پہنچ جاتی ہے تب منعقد ہوتا ہے۔ تینوں تہواروں میں سب سے زیادہ مشہور چلم جوشی ہے اور اسی میں زیادہ تر سیاح وادی کیلاش کا رخ کرتے ہیں کیوںکہ تب موسم خوش گوار ہوتا ہے۔ نہ زیادہ سردی ہوتی ہے اور نہ زیادہ گرمی۔ تینوں تہواروں کے موقع پر کچھ مذہبی رسومات بھی ادا کی جاتی ہیں۔
اخروٹ کے درختوں کو تقریباً گنجا کردیا جاتا ہے۔ اس کے پتوں کو اپنے پیاروں پر سے وارا جاتا ہے اور انھیں دعائیں دی جاتی ہیں۔ اس رسم کو گندولی کہا جاتا ہے۔ تینوں تہواروں پر رقص ہوتا ہے۔ وادیٔ کیلاش کے ہر گاؤں میں رقص کے لیے ایک میدان بنا ہوا ہے۔ ہر تہوار کے شروع ہونے سے کچھ دن پہلے ہی ہر گاؤں میں رقص شروع ہوجاتا ہے۔ رقص کالاشی مذہب کا حصہ ہے۔ تہواروں پر لڑکیاں سج دھج کر رقص کرتی ہیں جب کہ مرد اپنی روایتی موسیقی بجاتے ہیں۔
یہ رقص ایک دائرے کی شکل میں بھی ہوتا ہے جس میں بہت ساری خواتین مل کر رقص کرتی ہیں اور جوڑوں کی صورت میں بھی۔ کوئی بھی لڑکی کسی بھی لڑکے کے ساتھ رقص کرسکتی ہے۔ کالاش میں عورت مکمل طور پر آزاد ہے۔ میری اور آپ کی سوچ سے بھی زیادہ آزاد۔ ان رقص کی محافل میں لڑکی اپنے لیے کوئی بھی لڑکا پسند کرلیتی ہے۔
تمام لڑکے سج دھج کر رقص کے میدان میں جاتے ہیں۔ جب لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کر لیتے ہیں تو ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر نکل جاتے ہیں۔ انھیں کوئی نہیں روکتا۔ نہ ماں باپ نہ کوئی اور۔ کوئی بھی لڑکی اپنے ماں باپ کو بتانے کی پابند نہیں کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ جا رہی ہے۔ لڑکی جب لڑکے کے ساتھ اس کے گھر پہنچ جاتی ہے تو کچھ دن گزارنے کے بعد لڑکا لڑکی کو اس کے گھر چھوڑ آتا ہے۔ پھر لڑکے والے ایک بارات کی صورت میں لڑکی کے گھر کچھ تحفے تحائف کے ساتھ جاتے ہیں اور لڑکی کو واپس اپنے ساتھ گھر لے آتے ہیں۔ بارات نہ بھی جائے تب بھی خیر ہے۔ لڑکی بس ایسے ہی لڑکے کے ساتھ رہتی رہے۔
چلم جوشی کا تہوار باتریک گاؤں میں ہوتا ہے۔ وادیٔ کیلاش کے چاروں کیلاشی گاؤں بالترتیب یہ ہیں۔ انیش، برن، باتریک اور کراکال۔ کراکال آخری کالاشی گاؤں ہے۔ کراکال کے بعد ایک آخری گاؤں شیخاناندہ ہے جو کہ ایک مسلم گاؤں ہے۔ چلم جوشی کے لیے لوگ سب سے پہلے ایک میدان میں جمع ہوتے ہیں جسے ''پلاؤ جاؤ'' کہتے ہیں۔
چاروں طرف سے لوگ خوشیاں مناتے، رقص کرتے اس میدان میں اکھٹے ہوتے ہیں، گندولی کی رسم ادا کرتے ہیں اور پھر باتریک گاؤں کے ہی اس میدان کی طرف رخ کر لیتے ہیں جہاں چلم جوشی کا تہوار منایا جاتا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا میدان ہے جسے اب کچھ وسیع کیا جا رہا ہے۔ چلم جوشی کے موقع پر اس قدر سیاح وادی میں جمع ہوتے ہیں کہ سڑکوں پر بھی خمیے نصب کرنا پڑتے ہیں۔ میدان کے بالکل ساتھ ہی باتریک گاؤں کی قدیم عبادت گاہ ہے، جسے نئی عمارت بننے کے بعد اب بند کردیا گیا ہے۔
وادی کیلاش کے کراکال گاؤں میں موجود مقدس چشمے کی ہے۔ چشمے کے اوپر جو پگڈنڈی آپ دیکھ رہے ہیں یہاں سے کیلاشی خواتین کا گزرنا منع ہے۔ وہ اسے برا سمجھتے ہیں کہ کوئی عورت اس چشمے کے اوپر سے گزرے۔ البتہ مردوں کو گزرنے کی کھلی اجازت ہے۔ وادی کیلاش کے ہر کیلاشی گاؤں کی طرح کراکال گاؤں میں بھی ایک dancing hall یعنی رقص کرنے کا ہال ہے۔ شام ہونے کو ہے اور میں کراکال کے رقص ہال میں کھڑا ہوں۔
میرے چاروں طرف گاؤں کے قدیم گھر ہیں۔ کوئی گھر دو سو سال پرانا ہے تو کوئی اڑھائی تین سو سال پرانا ہے۔ بڑی بوڑھیاں گھروں کی چوکھٹ پر بیٹھی ہیں۔ کسی کی گود میں پوتا ہے تو کوئی اون بنانے میں مصروف ہے۔ کوئی ایسے ہی گپ شپ کر رہا ہے تو کوئی کھیتوں سے واپس آ رہا ہے۔ جوان لڑکیاں آپ کو باہر کم ہی نظر آتی ہیں۔
زیادہ تر کھانا پکانے میں مصروف ہوتی ہیں۔ اگرچہ وادی کیلاش میں بھی انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے مگر اس دجال نما انٹرنیٹ نے ابھی کیلاشی نوجوانوں کو اس طرح نہیں جکڑا جیسے ہم پنجابیوں کو جکڑ چکا ہے۔ شام ہونے کو ہے اور کراکال کے رقص ہال میں کیلاشی لڑکے کھیل رہے ہیں۔ ایک لڑکا جس نے اپنے لمبے بالوں کو قابو میں کرنے کے لیے کلپ لگا رہا ہے، وہ اس چھوٹے بچے سے بچنے کی کوشش میں ہے جس کے ہاتھ میں پانی کا غبارہ ہے۔ وہ جوان لڑکا آگے آگے بھاگ رہا ہے جب کہ چھوٹا لڑکا اس کے پیچھے ہے۔
باقی شور مچا مچا کر اس چھوٹے لڑکے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ کچھ لڑکے ہال کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہیں اور کسی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ لڑکوں نے زیادہ تر پینٹ شرٹ پہن رکھی ہے جب کہ بڑے لوگ شلوار قمیص اور اپنی روایتی چترالی ٹوپی میں ملبوس ہیں۔ کیلاشی عورت بڑی عمر کی ہو یا چھوٹی عمر کی، شادی شدہ ہو یا بن بیاہی، سب کا ایک ہی لباس ہے۔ سب نے کالے رنگ کا فراک اور پاجامہ پہنا ہوا ہے۔ البتہ اس پر ڈیزائن مختلف بنے ہوئے ہیں۔ کیلاش کے ہر گاؤں میں ایک عمارت ہوتی ہے جسے بالشی کہا جاتا ہے۔ حیض کی صورت میں یا بچے کی پیدائش کے وقت عورتیں اور لڑکیاں بالشی میں آجاتی ہیں۔ کوئی بھی لڑکی حیض کی صورت میں اپنے گھر میں نہیں رہ سکتی۔
اسے ہر صورت بالشی جانا ہی پڑے گا۔ کیلاشی روایات کے مطابق حیض والی عورت اس قدر ناپاک ہے کہ اسے گھر میں نہیں رکھا جا سکتا۔ بالشی میں کسی مرد کو جانے کی اجازت نہیں۔ کسی مرد کو اگر اپنی بیوی کی خیروعافیت دریافت کرنا ہو تو وہ بس دروازے سے ہی حال احوال دریافت کرے گا اور دروازے سے ہی چلا جائے گا۔
کیلاشی روایات کے مطابق چوں کہ لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرتی ہے، اس لیے عام طور پر لڑکوں اور لڑکیوں میں ملاقاتوں کا سلسلہ اسی بالشی سے شروع ہوتا ہوا رقص ہال میں پہنچ جاتا ہے۔ رات گئے لڑکے لڑکیاں بالشی کے پیچھے ملتے ہیں۔ تہوار کے دنوں میں اکھٹے رقص کرتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر چل پڑتے ہیں۔ بس اتنی سی دیر لگتی ہے انھیں ایک دوسرے کا ہونے میں۔
کیلاش ایک وادی بھی ہے اور ایک مذہب بھی۔ یونانی انھیں اپنا بچھڑا ہوا بھائی کہتے ہیں۔ موجودہ کیلاش کے بڑے بزرگ سکندر یونانی کے ساتھ اس علاقے میں آئے تھے۔ جب سکندر واپس جانے لگا تو یہ لوگ یہی آباد ہوگئے۔ اگرچہ کہ ان لوگوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے مگر ان کا وجود تو ہے۔ ماضی میں ان کی تعداد تیزی سے کم ہوئی جسے بہت حد تک قابو کیا گیا۔
کیلاش میں چوںکہ عورت مرد سے زیادہ آزاد ہے، اس لیے پاکستان کے دوسرے علاقوں سے لوگ کیلاش جاتے، لڑکیوں سے دوستی کرتے، انھیں سہانے سپنے دکھاتے اور وہاں سے لے کر بھاگ نکلتے۔ ان تمام وارداتوں کا جو نتیجہ نکلنا تھا، وہی نکلا۔ زیادہ تر کیلاشی لڑکیاں لاہور کی ہیرا منڈی میں فروخت کی گئیں۔ تھوڑی بہت جن کو مسلمان کر کے گھروں میں رکھا گیا، جب عشق کا بھوت اترا تو وہاں بھی انجام تباہی ہی نکلا۔ ہمارے یہاں پنجاب کی عورتیں اپنے گھروں میں کسی کیلاشی لڑکی کو بہو بیٹی کے روپ میں کیسے اور کیوں کر برداشت کرتیں۔ مجبوراً انھیں واپس کیلاش جانا پڑا۔
اب سننے میں آتا ہے کہ سرکار نے کیلاشی لڑکی کے چترال سے باہر شادی کرنے پر ایک غیراعلانیہ پابندی لگا رکھی ہے۔ ہاں اگر کوئی کیلاشی لڑکا ملک کے کسی دوسرے علاقے میں ہو تو وہ شادی کر کے اسے ساتھ لے جا سکتا ہے۔ پہلے پہل کیلاشی لڑکیاں بھی بس مردوں کے چکنے چہروں پر مر مٹتی تھیں مگر اب وہ بھی پہلے جیب دیکھتی ہیں اور پھر کچھ اور۔
آج بھی بہت سے سیاح جب کیلاش کا رخ کرتے ہیں تو شرارتاً کسی کیلاشی لڑکی کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ مل گئی تو ٹھیک ورنہ کہہ دیں گے کہ میں تو مذاق کر رہا تھا۔ ہمیں بھی راستے میں چار انکل ملے۔ ملتے ہی پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی کیلاشی لڑکی ملی یا پھر وہ براہ راست ہی پوچھ لیتے ہیں کہ کیلاشی لڑکی کیسے ملے گی؟ تو بھائیوں اب وہاں کے حالات کافی بدل چکے ہیں۔ وہاں کے لڑکے اور لڑکیاں کیلاش کے مقامی کالج میں ہی انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر مزید یہ ہے کہ پڑھائی کے شوقین چترال یونی ورسٹی داخلہ لے لیتے ہیں۔
اب کیلاش میں موبائل چلتا ہے۔ انٹرنیٹ عام ہے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں اب یہ موبائل ہے جس پر وہاں کی نوجوان نسل وہی کام کرتی ہے جو ہم یہاں کرتے ہیں۔ پہلے پہل یقیناً جب کیلاش میں شعور کم تھا، آگاہی کم تھی اور لوگوں کا دوسروں علاقوں سے رابطہ بھی کم تھا تو وہاں یہ سب چلتا بھی تھا، بعض اوقات وہ خود ہی آپ کو کہیں جانے کا بول دیتی تھیں مگر اب حالات، وقت، جذبات سب بدل چکے ہیں۔ اس لیے وہاں جائیں، ضرور جائیں، سیاحت کریں اور زندگی کے چند دن اس خوب صورت وادی میں گزار کر گھر واپس آ جائیں۔
کیلاش جاتے ہوئے یا واپسی پر کوشش کریں کہ چترال کی شاہی مسجد اور شاہی قلعہ ضرور دیکھیں۔
1784 میں بننے والا شاہی قلعہ چترال کے مہتر کی رہائش گاہ ہے۔ قلعہ کے مختلف حصے مختلف ادوار میں تعمیر ہوتے رہے ہیں۔ شاہی قلعہ چترال ہر قلعہ کی طرح ایک دریا کے کنارے یعنی دریائے چترال کے کنارے بنایا گیا ہے۔ دریائے چترال کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ اس کا قدرتی بہاؤ افغانستان کی طرف ہے۔ دریائے چترال دریائے کابل میں جاکر گرتا ہے اور دریائے کابل کا قدرتی بہاؤ پاکستان کی جانب ہونے کی وجہ سے یہ دوبارہ پاکستان میں داخل ہوجاتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں اٹک کے مقام پر دریائے کابل دریائے سندھ میں شامل ہوجاتا ہے۔
قلعہ کے اطراف میں لگے چنار اور شاہ بلوط کے درخت اس کی خوب صورتی میں بے پناہ اضافہ کرتے ہیں۔ قلعے کے باہر 1948 میں اسکردو میں ہونے والی جنگ میں استعمال شدہ توپیں پڑی ہیں۔ اگر آپ کے ساتھ فیملی ہے تو آپ کو قلعہ اندر سے دیکھنے کی اجازت مل سکتی ہے ورنہ آپ بھی بس میری طرح قلعہ باہر سے دیکھنے پر اکتفا کریں۔ اندر کا drawing hall بے پناہ خوب صورت ہے جہاں اب تک کے ہونے والے تمام مہتر صاحبان کی تصاویر لگی ہیں۔ قلعہ میں زیرزمین قیدخانے اور مہمان خانے بنے ہوئے ہیں جب کہ دریا تک جانے کے راستے بھی موجود ہیں۔
تقسیم کے وقت چترال ان اولین ریاستوں میں سے تھی جس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ البتہ داخلی طور پر یہ ایک خودمختار ریاست تھی۔ وادیٔ چترال کے حکم راں کو ''مہتر'' کہا جاتا تھا۔ 1919 میں جب مہتر شجاع الملک دہلی گئے تو جامع مسجد سے بے انتہا متاثر ہوئے اور واپس پہنچ کر اسی سال شاہی مسجد چترال کی بنیاد رکھی۔
مسجد 1924 میں مکمل ہوئی۔ مسجد کا کل رقبہ 6 کنال 2 مرلہ ہے۔ مسجد پر اس وقت کے تقریباً سات لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ مسجد کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں سیمنٹ یا سریے کا استعمال نہیں کیا گیا۔ مسجد کو لال پتھر سے ہی تعمیر کیا گیا تھا مگر پتا نہیں موجودہ مہتر صاحب کو لال رنگ سے کیا الرجی ہے۔ اب تقریباً پوری مسجد کو سفید کیا جا رہا ہے۔ بس ایک مینار لال رہ گیا ہے۔ عنقریب وہ بھی سفید ہوجائے گا۔ حالاںکہ یہ مسجد اپنے اصل رنگ میں زیادہ خوب صورت لگتی تھی۔ مسجد عنقریب مکمل طور پر دودھ میں نہانے جا رہی ہے۔
نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ مہتر صاحب کی بیگم کو سفید رنگ شدید پسند ہوگا۔ شاہ جہاں نے سفید تاج محل بنایا تھا۔ یہاں بھی بیگم کی طرف سے کچھ ایسی ہی فرمائش مہتر صاحب کے سامنے آئی ہوگی۔ مہتر صاحب نے سوچا ہوگا کہ کچھ نیا سفید بناکر کیا کرنا ہے۔ حالات پہلے ہی ذرا تنگ ہیں، اسی لال مسجد کو سفید کردو۔ اب بیگم کی بات تو فرعون بھی نہیں ٹال سکا تھا۔ میں، آپ یا مہتر صاحب کس کھیت کی مولی ہیں؟
میرا نہیں خیال کہ کوئی باپ خوشی خوشی اپنے بچوں خدا حافظ کہتا ہو گا اور بچے بھی اگر تھوڑے سیانے ہوں تو ایک دکھی اور کم زور مسکراہٹ کے ساتھ اپنے آوارہ باپ کو الواداع کہتے ہیں۔
کم از کم میرے لیے تو ہمیشہ ہی اپنا پہلا قدم گھر کے دروازے سے باہر رکھنا آسان نہیں رہا۔ آگے ہماری آوارگی ہوتی ہے، ہمارا شوق ہوتا ہے جس کے بنا ہم گزارا نہیں ہوتا اور پیچھے ہمارا پورا خاندان ہوتا ہے، ہمارے بیوی بچے، ہمارا خون، ہمارے ماں باپ۔
ایسے میں اگر کبھی کوئی حادثہ پیش آجائے تو ہماری سب کی تیاریاں صفر ہوجاتی ہیں۔ ہم مکمل طور پر ایک ڈرائیور کے سر پر ہوتے ہیں۔ خدا وہ سفر کسی مسافر کو نہ دکھائے کہ جس میں وہ کسی حادثے کا شکار ہو اور اس کے پیچھے والے ہمیشہ کے لیے روتے رہے کیوںکہ تاریخ گواہ ہے کہ بچے صرف اور صرف باپ کے ہی ہوتے ہیں۔
باپ کے علاوہ بلاوجہ کے نخرے کون اٹھاتا ہے۔ سب کے سر کے تاج سلامت رہیں۔ سب کے بچے اپنے باپ کی چھاؤں میں رہیں۔ تمام مسافر خیروعافیت سے اپنے اپنے گھروں میں، اپنے ماں باپ کے پاس واپس پہنچیں۔ سب مسافروں کی خیر ہو۔
ہر انسان کی الگ فطرت ہے۔ میری فطرت میں ڈر شامل ہے۔ میں ہمیشہ ہی ڈرتا رہا ہوں کوئی بھی نیا کام کرنے سے یا پھر الگ کوئی کام روٹین سے ہٹ کر ہوجائے تو میرے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ ابھی کرومبر کو نکلنے لگے تو موسم کے شدید خراب ہونے کی اطلاعات تھیں۔
میرے اپنے سیالکوٹ میں ایک دن پہلے بہت بارش ہوئی مگر جانا تو تھا ہی۔ لاہور سے دیر کے لیے سیٹ ایک دن پہلے ہی کنفرم کروا لی تھی۔ گاڑی تو اپنے وقت پر چل پڑی مگر اسے بابو صابو انٹرچینج پر آتے ہوئے ایک گھنٹے سے زیادہ لگ گیا۔
شام تک تو موسم خوش گوار رہا مگر رات تیز بارش شروع ہوگئی۔ الحمدللہ سفر میں ویسے بھی مجھے سونے کی اچھی عادت ہے۔ میں کافی دیر سوتا رہا۔ رات تین بجے کے قریب آنکھ کھلی تو گاڑی کھڑی تھی۔ محسوس ہوا کہ شاید رش ہے مگر جب کچھ آگے گئے تو پانی کی آواز میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہ دیر سے کافی پہلے کی بات ہے۔ علاقے کا پتا نہیں تھا۔ اوپر سے پانی بہت زور سے آ رہا تھا۔ کچھ دیر پہلے ہی لینڈ سلائیڈنگ ہوئی تھی۔
سڑک پر بڑے بڑے پتھر پڑے تھے۔ سڑک کا ایک حصہ ٹوٹ کر دریا میں گر چکا تھا۔ ہمارے بالکل ساتھ ہی دریا بہہ رہا تھا۔ ہماری گاڑی چوںکہ بڑی تھی، اس لیے گزر نہیں پا رہی تھی۔ سڑک چوڑی تو تھی مگر بڑے بڑے پتھر گرنے کی وجہ سے جگہ کم ہوگئی تھی۔ مجبوراً گاڑی والے نے جو کہ ایک پٹھان ہی تھا، گاڑی بند کر کے ایک طرف لگا دی۔ آگے جانا اس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک پتھروں کو ہٹا نہ دیا جائے۔ ڈر اس وقت بڑھا جب میرے سامنے ایک چھوٹے ٹرک نے گزرنے کی کوشش کی اور وہ دائیں جانب پانی میں گرگیا۔
جانی نقصان تو کوئی نہ ہوا مگر ٹرک الٹنے کی وجہ سے جگہ مزید کم ہوگئی۔ میرا جی چاہا کہ اس وقت یہاں سے واپس بھاگ جاؤں اور اپنے بچوں سے لپٹ جاؤ۔ کچھ دیر کے بعد مقامی لوگ ایک بڑا سا راڈ لائے جسے لیور کے طور پر استعمال کیا گیا اور پتھر کو ہٹا کر راستہ کھلا کیا گیا۔ ایسے میں ہماری گاڑی وہاں سے نکل سکی۔ اس سارے منظرنامے میں بارش بھی ہلکی ہلکی ہوتی رہی۔ یہاں بارش ہلکی تھی مگر اوپر کہیں پہاڑوں پر بارش زیادہ ہوئی تھی جس کا پانی ابھی تک پہاڑ سے گر رہا تھا بلکہ اپنے ساتھ پتھر بھی لا رہا تھا۔
مجھے حیرت اور خوشی اس بات کی ہوئی کہ رات کے تین بجے مقامی افراد بارش میں کھڑے گاڑیوں کو سیلابی پانی سے نکال رہے تھے۔ وہاں کوئی بھی سرکاری بندہ نہ تھا۔ سب مقامی تھے جو لوگوں کی مدد کر رہے تھے یہاں تک کہ سڑک سے پتھر ہٹانے کے واسطے لیور بھی لوگ خود لائے ورنہ ہم ساری رات وہی سڑک پر گزار دیتے اور سرکاری کوئی گاڑی روڈ کلیر کروانے صبح دن چڑھے آتی۔
پاکستان کے چار ہمسایہ ممالک چین، بھارت، ایران اور افغانستان ہیں۔ ایک پانچویں ماضی کا روس اور موجودہ تاجکستان بھی ہوتا مگر روس اور برطانیہ نے جان بوجھ کر یہ نہ ہونے دیا۔ کیوں؟ اس پر ذرا آگے جا کر بات کریں گے۔ پاکستان کا بھارت اور افغانستان کے ساتھ شروع دن سے ہی تنازع چلتا رہا ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی اگر ایک ملک کا دوسرے سے کوئی تنازع ہے تو وہ زمین یا وسائل کی وجہ سے ہی ہے۔
پاکستان اور بھارت میں تنازعے کی سب سے بڑی وجہ کشمیر ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان بھی زمین کو لے کر تنازع شروع ہوا مگر پاکستان نے شرافت سے زمین کا وہ متنازعہ حصہ چین کے حوالے کردیا۔ اس طرح پاکستان چین کی گڈ بک میں آ گیا اور دونوں ممالک میں پیار کی پینگیں بڑھنے لگیں۔ ماضی میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان کوئی سرحد نہ تھی۔ افغانستان سے لشکر یہاں آتے، لوٹ مار کرتے اور چلے جاتے۔ افغانستان کے اوپر روس تھا جب کہ دوسری طرف برصغیر میں برطانیہ آ کر بیٹھ گیا۔
اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو روس اور افغانستان کی جنگیں ماضی میں ہوتی رہی ہیں۔ اوپر سے روس نیچے آنے کی کوشش میں تھا جب کہ برطانیہ برصغیر سے افغانستان پر قابض ہونے کی کوشش کرتا رہا۔ چمن قندھار ریلوے لائن برطانیہ نے لوگوں کی سہولت کے لیے نہیں بنائی تھی بلکہ اس کا اصل مقصد فوجی نقل و حرکت ہی تھا۔ دنیا میں ایسے بہت سے بڑے بڑے پراجیکٹ ہیں جو صرف فوجی مقاصد کے لیے شروع کئے گئے تھے جو بعد میں عوام کے فائدے کے لیے بھی استعمال ہوئے جن میں سر فہرست آپ کا انٹرنیٹ بھی ہے۔
بھلا ہو امریکا بہادر کا جس نے جاپان کے ساتھ دوسری جنگ عظیم کا آغاز کیا۔ صرف ایٹم بم کی بنا پر امریکا جنگ تو جیت گیا مگر برطانیہ ایسا پسا کہ اس کے لیے برصغیر میں مزید رہنا ممکن نہیں رہا۔ پہلے برطانیہ یہاں سے نکلا اور پھر سری لنکا کو بھی آزادی ملی۔ ہمارے ہاں ایسے معصوم لوگوں کی کمی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ تحریکِ آزادی نے برطانیہ کو یہاں سے نکلنے پر مجبور کیا۔
1893 میں پہلی بار افغانستان اور برصغیر کی سرحدوں کا تعین ہوا تو معاشی طور پر کم زور افغانستان سے اپنی من مرضی کے مطابق فیصلہ کروایا گیا۔ افغانستان جو کہ دریائے اٹک تک کے تمام علاقوں کو اپنا مانتا رہا تھا اور اس پر حاکم بھی رہا تھا، ان تمام باتوں سے دست بردار ہوگیا۔
ایسے میں ایک چھوٹی سی واخان کی پٹی کو جان بوجھ کر افغانستان کا حصہ ہی رہنے دیا گیا کیوںکہ یہی وہ چھوٹی سی پٹی تھی جو برصغیر کو پرانے روس سے جدا کرتی تھی۔ اگر یہ پٹی بھی برصغیر کو مل جاتی تو برصغیر براہ راست روس سے جڑ جاتا۔ اس پٹی کے بارے برطانیہ اور روس دونوں نے مشترکہ فیصلہ کیا کہ یہ انتہائی مختصر سا علاقہ بفر زون ہو گا۔ جس میں نہ تو برطانیہ داخل ہو سکے گا اور نہ روس۔ اس طرح زمینی طور پر برطانیہ اور روس دونوں الگ الگ رہیں گے۔
دیر، بونیر، چترال سمیت بہت سے علاقوں پر افغانستان دعوے دار تھا مگر شیر اور ریچھ (برطانیہ اور روس) سے بچنے کے لیے افغانستان نے اپنی سرحد بندی مکمل کی اور نا چاہتے ہوئے بھی سب قبول کیا۔
وادی چترال لواری پاس کے ذریعے دیر سے ملتی ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ کچھ سال پہلے تک گرمیوں میں ہی چترال سے پاکستان کا زمینی راستہ کھلا ہوتا تھا۔ سردیوں میں چترال پورے ملک سے کٹ جاتا تھا۔ ماضی میں سردیوں میں آمد و رفت کا یہ طریقہ تھا کہ لوگ چترال سے افغانستان جاتے اور پھر وہاں سے برصغیر میں داخل ہوتے۔ آپ کو شاید یہ جان کر خوش گوار حیرت ہو گی کہ دریائے چترال کا قدرتی طور پر بہاؤ بھی افغانستان کی طرف ہے۔
دریائے چترال افغانستان میں داخل ہو کر دریائے کابل سے ملتا ہے جب کہ یہی دریائے کابل بعد میں پاکستان میں داخل ہو کر اٹک کے مقام پر دریائے سندھ سے جا ملتا ہے۔ مہتر عبدالملک نے بھی انگریزوں کو تجویز دی تھی کہ ایک سرنگ کی تعمیر کی جائے تاکہ سردیوں میں چترال کا برصغیر کے باقی علاقوں سے زمینی رابطہ بحال رہے۔
اس وقت سروے بھی ہوا مگر پھر انگریز یہاں سے چلا گیا۔ بھٹو صاحب کے وقت بھی شاید اس پر کچھ کام ہوا مگر بات زیادہ نہ بنی۔ مشرف صاحب نے اس پر باقاعدہ کام شروع کروایا اور کافی حد تک یہ مکمل بھی ہوا مگر اسے عملی طور پر نواز حکومت میں عام ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔ لواری ٹنل پاکستان کی سب سے لمبی ٹنل ہے جس کی کل لمبائی 10.5 کلومیٹر ہے۔ یہ ٹنل دو حصوں پر مشتمل ہے۔ آدھی ٹنل وادی چترال میں ہے جب کہ تقریباً 5.5 کلو میٹر ضلع دیر میں ہے یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ لواری ٹنل وادی چترال اور ضلع دیر کی سرحد پر ہے۔
صبح سویرے چترال پہنچے تو فوراً ہی کیلاش کے لیے نکل پڑے۔ وادی کیلاش جسے کالاش بھی لکھا جاتا ہے، کی تین وادیاں ہیں، بریر، رمبور اور بمبوریت۔ اہم اور خوب صورت وادی بمبوریت ہی ہے۔ عام طور پر سیاح جب بھی کیلاش آتے ہیں تو وہ بمبوریت کا ہی رخ کرتے ہیں۔ بمبوریت میں کالاش لوگوں کے چار گاؤں ہیں۔ کراکرل، باترک، برن اور انیش۔ ہر گاؤں میں اپنا اپنا قبرستان اور عبادت گاہ ہے جب کہ سب سے قدیم قبرستان کراکال گاؤں میں ہے۔
کالاش لوگ سکندراعظم کے وقت سے ہیں۔ پہلے جب آبادی کم تھی تو قبرستان بھی آبادی سے دور تھا۔ کالاشا لوگ اپنے مردے کو دفناتے نہیں تھے بلکہ اسے لکڑی کے ایک تابوت میں بند کرتے اور کھلی فضا میں رکھ دیتے۔ جسم پرندے کھا جاتے اور ہڈیاں وہی پڑی رہتیں۔ علاقے میں بدبو یقیناً پھیل جاتی ہوگی مگر مردہ رکھنے کے بعد یہ لوگ واپس نہ آتے تھے۔ مردے کی پسندیدہ چیزوں کو بھی اس تابوت کے اندر یا پاس رکھا جاتا تھا۔
تابوت پر ان کے کچھ مذہبی نشانات بھی کندہ کیے جاتے تھے۔ پھر جب کچھ آبادی اور شعور بڑھا اور حکومت کی مداخلت پر کالاش لوگوں کو اس بات پر مائل کیا گیا کہ وہ اپنے مردے دفنایا کریں۔ اگر مردوں کی اشیاء چوری ہونے کے واقعات نہ بڑھتے تو شاید یہ لوگ اپنے طریقے نہ بدلتے۔ اب کالاش لوگ اپنے مردے دفناتے ہیں۔ تازہ قبر پر چارپائی الٹی کرکے رکھی جاتی ہے، نشانی کے طور پر لال جھنڈا بھی لگایا جاتا ہے جب کہ کچھ استعمال کی چیزیں بھی ساتھ دفنائی جاتی ہیں۔
کالاشا لوگ اپنے قبرستان کو مڈوجاودور کہتے ہیں۔ یہاں کسی کا فوت ہوجانا سوگ کی علامت نہیں ہے بلکہ مرنے پر ایک الگ قسم کا جشن منایا جاتا ہے، کیوںکہ ان کا عقیدہ ہے کہ مرنے والا اب ایک اچھی جگہ پر ہے۔ کالاش لوگ روح کے دن کو مندیک کے نام سے مناتے ہیں۔
وادیٔ کیلاش کا آخری گاؤں شیخاناندہ ہے جو ایک مسلم گاؤں ہے۔ اس سے آگے کوئی آبادی نہیں۔ اس کے آس پاس یا کچھ آگے تک لوگ خوب صورت ٹریک، خوب صورت پھول، خوب صورت پرندوں کی آوازیں سننے کے لیے جاتے ہیں۔
اپنا کھانا پینا کرتے ہیں اور واپس آ جاتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو چوری چھپے اس سے بھی آگے جاتے ہیں یا آگے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا صرف وہی کرتے ہیں جن کی آنکھوں میں دہشت ہوتی ہے، دماغ میں بھی کچھ الٹ پلٹ ہوتا ہے۔ شیخاناندہ کے کچھ بعد تو ٹریکس ہیں مگر پھر زیادہ آگے جانا منع ہے۔ آپ ایک لمبے راستے پر چلتے جائیں تو آگے افغانستان شروع ہوجائے گا۔ ماضی میں بھی طالبان کی جانب سے اوپر سے نیچے کی جانب پیش قدمی کی خبریں آتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بمبوریت میں بھی ایک چھوٹی سی چھاؤنی ہے حالاںکہ یہاں گاؤں صرف چار ہیں۔
دور پہاڑوں میں شیخاناندہ سے بہت آگے چھپی ہوئی جگہوں پر آرمی کی چیک پوسٹ ہیں۔ چیک پوسٹ سے مراد یہ ہے کہ ہمارے جوان اوپر پہاڑوں پر چھپے بیٹھے ہوتے ہیں، مگر کہاں، یہ کوئی نہیں جانتا۔ آپ اگر اس جانب نکل جائیں تو براہ راست دہشت گردی یا جاسوسی کے شبہے میں پکڑ لیے جائیں گے کیوںکہ ایک عام سیاح اس طرف جا ہی نہیں سکتا۔
اس طرف صرف وہی جائے گا جس کی آنکھوں میں وحشت ہوگی، ارادے غلط ہوں گے۔ اس طرف صرف وہی جائے گا جسے سرحد پار کرنا ہوگی یا پھر وہ اوپر سے سرحد پار کرکے نیچے آ رہا ہوگا۔
کنڈورک کالاش تہذیب کی ایک اہم اور قدیم روایت ہے۔ ویسے تو کیلاشی تہذیب ہی تقریباً ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ کنڈورک میں ایک لڑکے اور ایک لڑکی کی شبیہ بنائی جاتی ہے۔ اگر کسی کیلاشی کی اولاد نہ ہو اور وہ مال دار بھی ہو تو اس کی وارثت اس کے مرنے کے بعد اس کے بھائی کو منتقل کردی جاتی ہے۔ مگر یہ سب اتنا آسان بھی نہیں۔ پہلے وہ بھائی جو وارثت کا دعوے دار ہو، وہ اپنے پورے گاؤں کی دعوت کرے گا۔ دعوت بھی کوئی عام دعوت نہیں ہوتی۔ آپ اسے پورا تہوار سمجھ لیں۔
دعوت کے بعد وہ اپنے بھائی کی جانب سے ایک علامتی لڑکا لڑکی کی شبیہ اس مقام پر لگائے گا، یوں وہ وراثت فوت شدہ کے اس بھائی کو منتقل ہوجائے گی۔ کیلاش میں مالوش کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ جب بھی کوئی کالاشی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے یہاں لایا جاتا ہے۔ ایک بکرا کاٹا جاتا ہے، اپنی کچھ مذہبی رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ اس طرح وہ بچہ کالاشی بن جاتا ہے۔ اپنی برداری یا گاؤں والوں کی دعوت کی جاتی ہے اور انھیں یہی بکرا کھلایا جاتا ہے۔ ہر پیدا ہونے والے بچے کے لیے یہ ایک لازمی عمل ہے۔
آپ اسے کالاشی مذہب کی ایک رسم سمجھ لیں۔ مالوش عام راستوں سے ہٹ کر ایک بلند جگہ پر بنائی گئی ہے۔ یہ شارع عام نہیں ہے۔ اگر آپ کے ساتھ کوئی گائیڈ نہیں تو آپ کا اس جگہ تک پہنچ پانا بھی ممکن نہیں۔ یہ اتنی بلندی پر ہے کہ اس کے نیچے کھڑے ہوکر بھی آپ نہیں بتا سکتے کہ آپ مالوش کے نیچے کھڑے ہیں۔ مالوش میں بکروں یا زرافہ نما جانوروں کی شبیہ بھی بنی ہوئی ہے۔
کالاشی لوگوں کے تین بنیادی موسمی اور مذہبی تہوار ہیں: چلم جوشی، اچاؤ اور چومس۔ چلم جوشی مئی کے مہینے میں بہار کی آمد پر منعقد ہوتا ہے۔ اچاؤ اگست میں فصل کے تیار ہونے پر جب کہ چومس دسمبر میں جب سردی اپنے عروج کو پہنچ جاتی ہے تب منعقد ہوتا ہے۔ تینوں تہواروں میں سب سے زیادہ مشہور چلم جوشی ہے اور اسی میں زیادہ تر سیاح وادی کیلاش کا رخ کرتے ہیں کیوںکہ تب موسم خوش گوار ہوتا ہے۔ نہ زیادہ سردی ہوتی ہے اور نہ زیادہ گرمی۔ تینوں تہواروں کے موقع پر کچھ مذہبی رسومات بھی ادا کی جاتی ہیں۔
اخروٹ کے درختوں کو تقریباً گنجا کردیا جاتا ہے۔ اس کے پتوں کو اپنے پیاروں پر سے وارا جاتا ہے اور انھیں دعائیں دی جاتی ہیں۔ اس رسم کو گندولی کہا جاتا ہے۔ تینوں تہواروں پر رقص ہوتا ہے۔ وادیٔ کیلاش کے ہر گاؤں میں رقص کے لیے ایک میدان بنا ہوا ہے۔ ہر تہوار کے شروع ہونے سے کچھ دن پہلے ہی ہر گاؤں میں رقص شروع ہوجاتا ہے۔ رقص کالاشی مذہب کا حصہ ہے۔ تہواروں پر لڑکیاں سج دھج کر رقص کرتی ہیں جب کہ مرد اپنی روایتی موسیقی بجاتے ہیں۔
یہ رقص ایک دائرے کی شکل میں بھی ہوتا ہے جس میں بہت ساری خواتین مل کر رقص کرتی ہیں اور جوڑوں کی صورت میں بھی۔ کوئی بھی لڑکی کسی بھی لڑکے کے ساتھ رقص کرسکتی ہے۔ کالاش میں عورت مکمل طور پر آزاد ہے۔ میری اور آپ کی سوچ سے بھی زیادہ آزاد۔ ان رقص کی محافل میں لڑکی اپنے لیے کوئی بھی لڑکا پسند کرلیتی ہے۔
تمام لڑکے سج دھج کر رقص کے میدان میں جاتے ہیں۔ جب لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کر لیتے ہیں تو ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر نکل جاتے ہیں۔ انھیں کوئی نہیں روکتا۔ نہ ماں باپ نہ کوئی اور۔ کوئی بھی لڑکی اپنے ماں باپ کو بتانے کی پابند نہیں کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ جا رہی ہے۔ لڑکی جب لڑکے کے ساتھ اس کے گھر پہنچ جاتی ہے تو کچھ دن گزارنے کے بعد لڑکا لڑکی کو اس کے گھر چھوڑ آتا ہے۔ پھر لڑکے والے ایک بارات کی صورت میں لڑکی کے گھر کچھ تحفے تحائف کے ساتھ جاتے ہیں اور لڑکی کو واپس اپنے ساتھ گھر لے آتے ہیں۔ بارات نہ بھی جائے تب بھی خیر ہے۔ لڑکی بس ایسے ہی لڑکے کے ساتھ رہتی رہے۔
چلم جوشی کا تہوار باتریک گاؤں میں ہوتا ہے۔ وادیٔ کیلاش کے چاروں کیلاشی گاؤں بالترتیب یہ ہیں۔ انیش، برن، باتریک اور کراکال۔ کراکال آخری کالاشی گاؤں ہے۔ کراکال کے بعد ایک آخری گاؤں شیخاناندہ ہے جو کہ ایک مسلم گاؤں ہے۔ چلم جوشی کے لیے لوگ سب سے پہلے ایک میدان میں جمع ہوتے ہیں جسے ''پلاؤ جاؤ'' کہتے ہیں۔
چاروں طرف سے لوگ خوشیاں مناتے، رقص کرتے اس میدان میں اکھٹے ہوتے ہیں، گندولی کی رسم ادا کرتے ہیں اور پھر باتریک گاؤں کے ہی اس میدان کی طرف رخ کر لیتے ہیں جہاں چلم جوشی کا تہوار منایا جاتا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا میدان ہے جسے اب کچھ وسیع کیا جا رہا ہے۔ چلم جوشی کے موقع پر اس قدر سیاح وادی میں جمع ہوتے ہیں کہ سڑکوں پر بھی خمیے نصب کرنا پڑتے ہیں۔ میدان کے بالکل ساتھ ہی باتریک گاؤں کی قدیم عبادت گاہ ہے، جسے نئی عمارت بننے کے بعد اب بند کردیا گیا ہے۔
وادی کیلاش کے کراکال گاؤں میں موجود مقدس چشمے کی ہے۔ چشمے کے اوپر جو پگڈنڈی آپ دیکھ رہے ہیں یہاں سے کیلاشی خواتین کا گزرنا منع ہے۔ وہ اسے برا سمجھتے ہیں کہ کوئی عورت اس چشمے کے اوپر سے گزرے۔ البتہ مردوں کو گزرنے کی کھلی اجازت ہے۔ وادی کیلاش کے ہر کیلاشی گاؤں کی طرح کراکال گاؤں میں بھی ایک dancing hall یعنی رقص کرنے کا ہال ہے۔ شام ہونے کو ہے اور میں کراکال کے رقص ہال میں کھڑا ہوں۔
میرے چاروں طرف گاؤں کے قدیم گھر ہیں۔ کوئی گھر دو سو سال پرانا ہے تو کوئی اڑھائی تین سو سال پرانا ہے۔ بڑی بوڑھیاں گھروں کی چوکھٹ پر بیٹھی ہیں۔ کسی کی گود میں پوتا ہے تو کوئی اون بنانے میں مصروف ہے۔ کوئی ایسے ہی گپ شپ کر رہا ہے تو کوئی کھیتوں سے واپس آ رہا ہے۔ جوان لڑکیاں آپ کو باہر کم ہی نظر آتی ہیں۔
زیادہ تر کھانا پکانے میں مصروف ہوتی ہیں۔ اگرچہ وادی کیلاش میں بھی انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے مگر اس دجال نما انٹرنیٹ نے ابھی کیلاشی نوجوانوں کو اس طرح نہیں جکڑا جیسے ہم پنجابیوں کو جکڑ چکا ہے۔ شام ہونے کو ہے اور کراکال کے رقص ہال میں کیلاشی لڑکے کھیل رہے ہیں۔ ایک لڑکا جس نے اپنے لمبے بالوں کو قابو میں کرنے کے لیے کلپ لگا رہا ہے، وہ اس چھوٹے بچے سے بچنے کی کوشش میں ہے جس کے ہاتھ میں پانی کا غبارہ ہے۔ وہ جوان لڑکا آگے آگے بھاگ رہا ہے جب کہ چھوٹا لڑکا اس کے پیچھے ہے۔
باقی شور مچا مچا کر اس چھوٹے لڑکے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ کچھ لڑکے ہال کی سیڑھیوں پر بیٹھے ہیں اور کسی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ لڑکوں نے زیادہ تر پینٹ شرٹ پہن رکھی ہے جب کہ بڑے لوگ شلوار قمیص اور اپنی روایتی چترالی ٹوپی میں ملبوس ہیں۔ کیلاشی عورت بڑی عمر کی ہو یا چھوٹی عمر کی، شادی شدہ ہو یا بن بیاہی، سب کا ایک ہی لباس ہے۔ سب نے کالے رنگ کا فراک اور پاجامہ پہنا ہوا ہے۔ البتہ اس پر ڈیزائن مختلف بنے ہوئے ہیں۔ کیلاش کے ہر گاؤں میں ایک عمارت ہوتی ہے جسے بالشی کہا جاتا ہے۔ حیض کی صورت میں یا بچے کی پیدائش کے وقت عورتیں اور لڑکیاں بالشی میں آجاتی ہیں۔ کوئی بھی لڑکی حیض کی صورت میں اپنے گھر میں نہیں رہ سکتی۔
اسے ہر صورت بالشی جانا ہی پڑے گا۔ کیلاشی روایات کے مطابق حیض والی عورت اس قدر ناپاک ہے کہ اسے گھر میں نہیں رکھا جا سکتا۔ بالشی میں کسی مرد کو جانے کی اجازت نہیں۔ کسی مرد کو اگر اپنی بیوی کی خیروعافیت دریافت کرنا ہو تو وہ بس دروازے سے ہی حال احوال دریافت کرے گا اور دروازے سے ہی چلا جائے گا۔
کیلاشی روایات کے مطابق چوں کہ لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرتی ہے، اس لیے عام طور پر لڑکوں اور لڑکیوں میں ملاقاتوں کا سلسلہ اسی بالشی سے شروع ہوتا ہوا رقص ہال میں پہنچ جاتا ہے۔ رات گئے لڑکے لڑکیاں بالشی کے پیچھے ملتے ہیں۔ تہوار کے دنوں میں اکھٹے رقص کرتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر چل پڑتے ہیں۔ بس اتنی سی دیر لگتی ہے انھیں ایک دوسرے کا ہونے میں۔
کیلاش ایک وادی بھی ہے اور ایک مذہب بھی۔ یونانی انھیں اپنا بچھڑا ہوا بھائی کہتے ہیں۔ موجودہ کیلاش کے بڑے بزرگ سکندر یونانی کے ساتھ اس علاقے میں آئے تھے۔ جب سکندر واپس جانے لگا تو یہ لوگ یہی آباد ہوگئے۔ اگرچہ کہ ان لوگوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے مگر ان کا وجود تو ہے۔ ماضی میں ان کی تعداد تیزی سے کم ہوئی جسے بہت حد تک قابو کیا گیا۔
کیلاش میں چوںکہ عورت مرد سے زیادہ آزاد ہے، اس لیے پاکستان کے دوسرے علاقوں سے لوگ کیلاش جاتے، لڑکیوں سے دوستی کرتے، انھیں سہانے سپنے دکھاتے اور وہاں سے لے کر بھاگ نکلتے۔ ان تمام وارداتوں کا جو نتیجہ نکلنا تھا، وہی نکلا۔ زیادہ تر کیلاشی لڑکیاں لاہور کی ہیرا منڈی میں فروخت کی گئیں۔ تھوڑی بہت جن کو مسلمان کر کے گھروں میں رکھا گیا، جب عشق کا بھوت اترا تو وہاں بھی انجام تباہی ہی نکلا۔ ہمارے یہاں پنجاب کی عورتیں اپنے گھروں میں کسی کیلاشی لڑکی کو بہو بیٹی کے روپ میں کیسے اور کیوں کر برداشت کرتیں۔ مجبوراً انھیں واپس کیلاش جانا پڑا۔
اب سننے میں آتا ہے کہ سرکار نے کیلاشی لڑکی کے چترال سے باہر شادی کرنے پر ایک غیراعلانیہ پابندی لگا رکھی ہے۔ ہاں اگر کوئی کیلاشی لڑکا ملک کے کسی دوسرے علاقے میں ہو تو وہ شادی کر کے اسے ساتھ لے جا سکتا ہے۔ پہلے پہل کیلاشی لڑکیاں بھی بس مردوں کے چکنے چہروں پر مر مٹتی تھیں مگر اب وہ بھی پہلے جیب دیکھتی ہیں اور پھر کچھ اور۔
آج بھی بہت سے سیاح جب کیلاش کا رخ کرتے ہیں تو شرارتاً کسی کیلاشی لڑکی کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ مل گئی تو ٹھیک ورنہ کہہ دیں گے کہ میں تو مذاق کر رہا تھا۔ ہمیں بھی راستے میں چار انکل ملے۔ ملتے ہی پوچھا کہ کیا آپ کو کوئی کیلاشی لڑکی ملی یا پھر وہ براہ راست ہی پوچھ لیتے ہیں کہ کیلاشی لڑکی کیسے ملے گی؟ تو بھائیوں اب وہاں کے حالات کافی بدل چکے ہیں۔ وہاں کے لڑکے اور لڑکیاں کیلاش کے مقامی کالج میں ہی انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کرتے ہیں اور پھر مزید یہ ہے کہ پڑھائی کے شوقین چترال یونی ورسٹی داخلہ لے لیتے ہیں۔
اب کیلاش میں موبائل چلتا ہے۔ انٹرنیٹ عام ہے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں اب یہ موبائل ہے جس پر وہاں کی نوجوان نسل وہی کام کرتی ہے جو ہم یہاں کرتے ہیں۔ پہلے پہل یقیناً جب کیلاش میں شعور کم تھا، آگاہی کم تھی اور لوگوں کا دوسروں علاقوں سے رابطہ بھی کم تھا تو وہاں یہ سب چلتا بھی تھا، بعض اوقات وہ خود ہی آپ کو کہیں جانے کا بول دیتی تھیں مگر اب حالات، وقت، جذبات سب بدل چکے ہیں۔ اس لیے وہاں جائیں، ضرور جائیں، سیاحت کریں اور زندگی کے چند دن اس خوب صورت وادی میں گزار کر گھر واپس آ جائیں۔
کیلاش جاتے ہوئے یا واپسی پر کوشش کریں کہ چترال کی شاہی مسجد اور شاہی قلعہ ضرور دیکھیں۔
1784 میں بننے والا شاہی قلعہ چترال کے مہتر کی رہائش گاہ ہے۔ قلعہ کے مختلف حصے مختلف ادوار میں تعمیر ہوتے رہے ہیں۔ شاہی قلعہ چترال ہر قلعہ کی طرح ایک دریا کے کنارے یعنی دریائے چترال کے کنارے بنایا گیا ہے۔ دریائے چترال کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ اس کا قدرتی بہاؤ افغانستان کی طرف ہے۔ دریائے چترال دریائے کابل میں جاکر گرتا ہے اور دریائے کابل کا قدرتی بہاؤ پاکستان کی جانب ہونے کی وجہ سے یہ دوبارہ پاکستان میں داخل ہوجاتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں اٹک کے مقام پر دریائے کابل دریائے سندھ میں شامل ہوجاتا ہے۔
قلعہ کے اطراف میں لگے چنار اور شاہ بلوط کے درخت اس کی خوب صورتی میں بے پناہ اضافہ کرتے ہیں۔ قلعے کے باہر 1948 میں اسکردو میں ہونے والی جنگ میں استعمال شدہ توپیں پڑی ہیں۔ اگر آپ کے ساتھ فیملی ہے تو آپ کو قلعہ اندر سے دیکھنے کی اجازت مل سکتی ہے ورنہ آپ بھی بس میری طرح قلعہ باہر سے دیکھنے پر اکتفا کریں۔ اندر کا drawing hall بے پناہ خوب صورت ہے جہاں اب تک کے ہونے والے تمام مہتر صاحبان کی تصاویر لگی ہیں۔ قلعہ میں زیرزمین قیدخانے اور مہمان خانے بنے ہوئے ہیں جب کہ دریا تک جانے کے راستے بھی موجود ہیں۔
تقسیم کے وقت چترال ان اولین ریاستوں میں سے تھی جس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ البتہ داخلی طور پر یہ ایک خودمختار ریاست تھی۔ وادیٔ چترال کے حکم راں کو ''مہتر'' کہا جاتا تھا۔ 1919 میں جب مہتر شجاع الملک دہلی گئے تو جامع مسجد سے بے انتہا متاثر ہوئے اور واپس پہنچ کر اسی سال شاہی مسجد چترال کی بنیاد رکھی۔
مسجد 1924 میں مکمل ہوئی۔ مسجد کا کل رقبہ 6 کنال 2 مرلہ ہے۔ مسجد پر اس وقت کے تقریباً سات لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ مسجد کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں سیمنٹ یا سریے کا استعمال نہیں کیا گیا۔ مسجد کو لال پتھر سے ہی تعمیر کیا گیا تھا مگر پتا نہیں موجودہ مہتر صاحب کو لال رنگ سے کیا الرجی ہے۔ اب تقریباً پوری مسجد کو سفید کیا جا رہا ہے۔ بس ایک مینار لال رہ گیا ہے۔ عنقریب وہ بھی سفید ہوجائے گا۔ حالاںکہ یہ مسجد اپنے اصل رنگ میں زیادہ خوب صورت لگتی تھی۔ مسجد عنقریب مکمل طور پر دودھ میں نہانے جا رہی ہے۔
نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ مہتر صاحب کی بیگم کو سفید رنگ شدید پسند ہوگا۔ شاہ جہاں نے سفید تاج محل بنایا تھا۔ یہاں بھی بیگم کی طرف سے کچھ ایسی ہی فرمائش مہتر صاحب کے سامنے آئی ہوگی۔ مہتر صاحب نے سوچا ہوگا کہ کچھ نیا سفید بناکر کیا کرنا ہے۔ حالات پہلے ہی ذرا تنگ ہیں، اسی لال مسجد کو سفید کردو۔ اب بیگم کی بات تو فرعون بھی نہیں ٹال سکا تھا۔ میں، آپ یا مہتر صاحب کس کھیت کی مولی ہیں؟